پاکستان اور افغان طالبان مذاکرات کا دوسرا دور استنبول میں آج ہو گا، سرحدی گزرگاہیں بدستور بند
اشاعت کی تاریخ: 25th, October 2025 GMT
پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان مذاکرات کا دوسرا دور ترکیہ کے شہر استنبول میں آج ہوگا۔ دفتر خارجہ کے ترجمان طاہر اندرابی نے اپنی پہلی میڈیا بریفنگ میں کہا کہ دوحہ میں طے پانے والی جنگ بندی کے بعد سے افغان سرزمین سے پاکستان میں دہشت گردانہ حملوں میں کمی آئی ہے، جو کہ مذاکرات کے مثبت نتائج کا غماز ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ پاکستان کی توقعات میں یہ بات شامل ہے کہ افغان سرزمین پاکستان کے خلاف دہشت گردانہ کارروائیوں کے لیے استعمال نہ ہو۔
پاکستان نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ افغان ٹرانزٹ ٹریڈ اس وقت بند ہے اور اس کی بحالی سیکیورٹی صورتحال کے جائزے کے بعد کی جائے گی۔ حالیہ دنوں میں سرحدی علاقوں میں پاکستانی شہریوں پر حملے ہوئے ہیں، جس کی وجہ سے پاکستانی حکومت نے افغان سرحدی گزرگاہوں کو بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ طاہر اندرابی نے اس بات پر زور دیا کہ پاکستان کی سلامتی اور شہریوں کی جانیں تجارت سے زیادہ اہم ہیں۔
استنبول مذاکرات میں مجوزہ نگرانی کے فریم ورک کو حتمی شکل دینے کی کوشش کی جائے گی، تاہم یہ واضح نہیں ہے کہ پاکستانی وفد کی قیادت کون کرے گا۔ ترجمان نے افغان حکام کے حالیہ بیانات پر کہا کہ پاکستان کے لیے یہ اہم نہیں کہ مذاکرات کو کیا نام دیا جائے، بلکہ اہم بات یہ ہے کہ ایک ٹھوس اور قابل عمل معاہدہ طے پایا ہے۔
پاکستان کی جانب سے افغان طالبان حکومت سے یہ مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ پاکستان مخالف دہشت گرد گروپوں کے خلاف ٹھوس کارروائی کرے اور سرحد پار حملوں کو روکے۔ طاہر اندرابی نے کہا کہ اگر طالبان اپنے وعدوں پر عمل کریں، تو پاکستان کے تعلقات دوبارہ معمول پر آ سکتے ہیں۔
اس کے علاوہ، پاکستان اور پولینڈ کے درمیان دو یادداشتوں پر دستخط ہوئے ہیں، اور عالمی عدالت انصاف نے اسرائیل کے خلاف ایک اور مشاورتی رائے دی ہے۔ اس کے ساتھ ہی، نائب وزیراعظم اسحاق ڈار نے اس ہفتے مختلف عرب ممالک کے وزرائے خارجہ سے اہم سفارتی رابطے کیے ہیں۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: کہ پاکستان کہا کہ
پڑھیں:
پاکستان اور افغان طالبان رجیم کے درمیان مذاکرات کا دوسرا مرحلہ کس قدر اہم؟
پاکستان اور افغان طالبان رجیم کے درمیان مذاکرات کا دوسرا مرحلہ آج ترکیہ کے شہر استنبول میں ہو گا۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان طالبان رجیم سے مذاکرات ضرور کرے مگر بارڈر پر بھی نظر رکھے، اعزاز احمد چوہدری
پاکستانی وزیرِ دفاع خواجہ آصف نے دوحہ مذاکرات میں پاکستان وفد کی قیادت کی تھی۔ انہوں نے 19 اکتوبر کو استنبول میں مذاکرات کے دوسرے مرحلے کے بارے میں ایکس پر ایک پیغام کے ذریعے سے آگاہ کیا تھا۔
افغانستان کے ساتھ جنگ بندی معاہدے میں کہا گیا تھا کہ دوسرے مرحلے میں دوحہ میں ہونے والے مذاکرات میں دہشتگردی کو مانیٹر کرنے کے لیے میکنزم پر بات کی جائے گی۔
ان مذاکرات کا ایجنڈا کیا ہو گا، پاکستان کی جانب سے کون کون اِس میں شریک ہو گا، وفد کی قیادت کون کرے گا آج ترجمان دفترِخارجہ طاہر اندرابی کے سامنے جب یہ سوالات رکھے گئے تو اِس بارے میں اُنہوں نے مکمل لاعلمی کا اظہار کیا اور کہا کہ ’’استنبول میں ہونے والے مذاکرات دوحہ مذاکرات کا تسلسل ہیں جن کا مقصد افغان سرزمین سے پاکستان پر حملوں کو روکنا تھا اور ایک میکنزم جس کے ذریعے مانیٹرنگ کی جا سکے۔ پاک افغان کے درمیان جنگ بندی معاہدہ قائم ہے اور تب سے کوئی حملہ پاکستان میں نہیں ہوا‘۔
https://x.com/KhawajaMAsif/status/1979683548555546996
انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہم اپنی پوری ایمانداری کے ساتھ استنبول مذاکرات میں شرکت کر رہے ہیں۔ استنبول میں پاکستانی وفد کی سربراہی کون کرے گا اس سے آگاہ نہیں تاہم پاکستان پوری ایمانداری سے افغانستان کے ساتھ اپنے تعلقات بہتر کرنے کے لے کوشش کرتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’اس وقت ہم افغانستان کے ساتھ مذاکرات میں ہیں اس لیے بہت محتاط الفاظ استعمال کروں گا۔ ہم افغانستان سے صرف اتنا چاہتے ہیں کہ ان کی سرزمین ہمارے خلاف استعمال نہ ہو‘۔
کیا افغان حکومت امن کی خواہش رکھتی ہے؟افغان طالبان رجیم کے سپوکس پرسن ذبیح اللہ مجاہد نے ٹوئٹ کیا تھا کہ دوحہ معاہدے کے بعد فالو اپ مذاکرات میں جنگ بندی معاہدہ برقرار رکھنے اور اِس کی تصدیق کے لیے قابلِ بھروسہ اور قابلِ تصدیق نظام تشکیل دینے پر بات کی جائے گی۔
مزید پڑھیے: افغان طالبان اور ٹی ٹی پی ایک ہیں، ہارون رشید
افغان وزارتِ خارجہ سوشل میڈیا سائٹ ایکس پر اپنے پیغامات میں پاکستان کو کشیدگی کا ذمّے دار کہتی ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ جنگ بندی معاہدے کے بارے میں دوسرے ممالک کے خیرمقدمی بیانات کا ذِکر بھی ملتا ہے۔
23 اکتوبر کو افغان طالبان رجیم کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے برطانیہ کے خصوصی نمائندہ برائے افغانستان رچرڈ لنڈسے سے وزیر مہاجرین مولوی عبدالکبیر کی ملاقات کے بارے میں ایکس پر لکھا کہ برطانوی نمائندے نے پاک افغان جنگ بندی کا خیر مقدم کرتے ہوئے اِسے مستقبل جنگ بندی میں بدلنے پر زور دیا۔
اِسی طرح افغان وزارتِ خارجہ کی جانب سے ایکس پر ایک پیغام میں افغان وزارت خارجہ کے اہلکار ڈاکٹر محمد نعیم اور چینی حکومت کے نمائندہ خصوصی برائے افغانستان یو ژیاؤنگ کے درمیان 23 اکتوبر کو ہونے والی ملاقات کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ چینی نمائندہ خصوصی نے پاکستان اور افغانستان کے درمیان جنگ بندی کوششوں کو جاری رکھنے پر بات کی۔
مستقل جنگ بندی ممکن دوست ممالک کو کردار ادا کرنا پڑے گا، ایمبیسیڈر جاوید حفیظپاکستان کے سابق سفارتکار ایمبیسیڈر جاوید حفیظ نے وی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاک افغان مذاکرات کا مستقبل کیا ہو گا اِس کے لیے مستقبل بینی کرنا پڑے گی کیونکہ ابھی مذاکرات کا ایک مرحلہ دوحہ میں مکمل ہوا ہے جس میں اچھے فیصلے ہوئے ہیں۔ جنگ بندی اور سرحد پار دہشتگردی روکنے کے ساتھ ساتھ اِس معاہدے میں یہ کہا گیا ہے کہ دونوں ممالک سفارتکاری کے ذریعے سے مسئلے کو حل کریں گے۔ مذاکرات کا دوسرا مرحلہ آج استنبول میں ہو گا تو دیکھتے ہیں اُس کے نتائج کیا سامنے آتے ہیں۔
استنبول مذاکرات میں دہشتگرد کاروائیوں کی مانیٹرنگ کا کیا طریقہ کار ہو سکتا ہے؟اس بارے میں بات کرتے ہوئے ایمبیسیڈر جاوید حفیظ نے کہا کہ فوجی اعتبار سے دیکھا جائے تو ممکنہ طور پر طرفین کی فوجیں مشترکہ طور پر سرحد کی نگرانی پر اِتّفاق کر سکتی ہیں جبکہ دونوں ملکوں کے درمیان سرحد بہت طویل اور دشوار گزار ہے لیکن اس کے باوجود مرکزی داخلی راستے دونوں اطراف کی جانب سے مشترکہ طور پر حفاظت کیے جا سکتے ہیں اور ٹی ٹی پی کی کاروائیوں پر روک لگائی جا سکتی ہے۔
مزید پڑھیں: پاک فوج کی مہمند میں کارروائی: افغان طالبان کی الخوارج کی تشکیل کی کوش ناکام، ٹی ٹی پی کے 30 دہشتگرد ہلاک
اِس کے علاوہ فوجی کمانڈرز کے درمیان انسدادِ دہشتگردی کے لیے ممکنہ طور پر ہاٹ لائن کمیونیکیشن قائم کی جا سکتی ہے تا کہ کسی بھی قسم کی دراندازی اور دہشتگرد کارروائی سے طرفین ایک دوسرے کو آگاہ کر سکیں۔ اِس کے علاوہ وزرائے خارجہ کے درمیان بھی ہاٹ لائن قائم کی جا سکتی ہے۔
کیا افغان سائیڈ امن کی خواہش رکھتی ہے؟اس سوال کے جواب میں ایمبیسیڈر جاوید حفیظ نے کہا کہ پچھلے 4 سال جس طرح سے ہمارا افغان طالبان رجیم کے ساتھ تعلق رہا، اس سے اُمید کم ہی رکھی جا سکتی ہے لیکن اس بار ہم دیکھتے ہیں کہ افغان طالبان رجیم نے جو وعدے کیے ہیں کیا وہ اُن پر عمل کرتے ہیں۔ اُنہوں نے امن کی خواہش کا اظہار کیا ہے اور ہمیں اِس پر شکوک و شبہات کا اظہار نہیں کرنا چاہییے۔
غیر مُلکی عناصر جنگ بندی معاہدے کے خلاف روبہ عمل ہو سکتے ہیں؟ایمبیسیڈر جاوید حفیظ نے کہا کہ غیر مُلکی عناصر پاک افغان جنگ بندی معاہدے کے خلاف کام کر سکتے ہیں اور اِسے ختم کرانے کی کوشش کر سکتے ہیں جن میں سب سے پہلے ہمارا مشرقی ہمسایہ بھارت ہے جو اِس معاہدے کو ختم کرانے کی کوشش کرے گا۔ کیونکہ بھارت نہ صرف افغان طالبان بلکہ دہشتگردی کے لیے ٹی ٹی پی سے بھی براہِ راست رابطے کرتا ہے۔
کیا چین قیام امن میں کردار ادا کر سکتا ہے؟ایمبیسیڈر جاوید حفیظ نے کہا کہ چین اپنی سرمایہ کاری کے ذریعے ایک بڑا اہم کردار ادا کر سکتا ہے اور دوسری بات یہ کہ چین اور پاکستان دہشتگردی کے خاتمے کے حوالے سے یکساں مؤقف و مفاد رکھتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ چین سمجھتا ہے کہ دہشتگرد گروہ سنکیانگ صوبے میں دہشتگرد کاروائیاں کر سکتے ہیں جبکہ پاکستان کو بھی سرحد پار دہشتگردی سے خطرات لاحق ہیں۔
یہ بھی پڑھیے: پاکستان سے لڑائی افغان طالبان کی تنہائی میں اضافہ
ان کا کہنا تھا کہ چین طالبان رجیم کے ساتھ بات چیت کے ذریعے سے اُنہیں ایسی کاروائیوں سے اجتناب پر قائل کر سکتا ہے اور اُنہیں یہ بتا سکتا ہے کہ امن کی صورت میں افغانستان سی پیک میں شامل ہو کر فائدہ اُٹھا سکتا ہے۔
خلیجی ممالک کس طرح سے کردار ادا کر سکتے ہیں؟اس سوال کے جواب میں ایمبیسیڈر جاوید حفیظ نے کہا کہ خلیجی ممالک اور خاص طور پر سعودی عرب قیامِ امن کے سلسلے میں خصوصی کردار ادا کر سکتا ہے کیوںکہ سعودی عرب میں مقدّس مقامات کی وجہ سے پوری اسلامی دنیا اُنہیں احترام کی نگاہ سے دیکھتی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ قطر اور دیگر خلیجی ممالک بھی اِس معاملے میں اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
افغان طالبان پاک افغانستان کشیدگی پاکستان افغان طالبان رجیم مذاکرات پاکستان افغانستان مذاکرات