بھارت کی افغان طالبان کے ساتھ مل کر پانی روکنے کی کوشش، پاکستان نے دفاعی منصوبہ تیار کرلیا
اشاعت کی تاریخ: 25th, October 2025 GMT
بھارت کی افغان طالبان کے ساتھ مل کر پانی روکنے کی کوشش، پاکستان نے دفاعی منصوبہ تیار کرلیا WhatsAppFacebookTwitter 0 25 October, 2025 سب نیوز
پاکستان نے بھارت اور افغان طالبان کے ممکنہ آبی گٹھ جوڑ کے پیش نظر اپنی آبی سلامتی کے دفاع کے لیے واضح اور دوٹوک مؤقف اختیار کر لیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق بھارت نے معرکہ حق میں عبرتناک شکست کے بعد اب افغانستان کے ذریعے آبی جارحیت کو بطور نیا ہتھیار استعمال کرنا شروع کر دیا ہے۔
افغان طالبان رجیم اور بھارت کے بڑھتے ہوئے تعلقات اس امر کو ظاہر کرتے ہیں کہ دونوں ممالک کے پاکستان مخالف عزائم مضبوط ہو رہے ہیں۔ بھارتی میڈیا، خصوصاً ’’انڈیا ٹو ڈے‘‘ کی 24 اکتوبر 2025 کی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ طالبان حکومت دریائے کنڑ پر بھارتی تعاون سے ڈیم تعمیر کرنے کا منصوبہ بنا رہی ہے، تاکہ پاکستان کو پانی کی فراہمی محدود یا بند کی جا سکے۔
رپورٹ کے مطابق بھارت نے طالبان حکومت کو ایک ارب امریکی ڈالر کی مالی امداد کی پیشکش کی ہے اور مختلف ڈیموں جیسے نغلو، درونتہ، شاہتوت، شاہ واروس، گمبیری اور باغدرہ کی تعمیر میں تکنیکی مدد فراہم کر رہا ہے۔
ماہرین کے مطابق یہ ڈیم پاکستان کی آبی سلامتی کے لیے سنگین خطرہ بن سکتے ہیں، کیونکہ ان کا براہ راست اثر دریائے کابل کے بہاؤ پر پڑے گا۔
دریائے کابل سے پاکستان کو سالانہ تقریباً 16.
پاکستانی حکام نے واضح کیا ہے کہ پانی ملک کی سلامتی، زراعت اور معیشت کی شہ رگ ہے اور کسی بھی ملک کو اسے بطور سیاسی یا عسکری دباؤ استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ بھارت پہلے ہی سندھ طاس معاہدے کو یکطرفہ طور پر معطل کر کے بین الاقوامی آبی قوانین کی خلاف ورزی کر چکا ہے، اور اب افغانستان میں ڈیموں کی تعمیر کے ذریعے پاکستان کے مغربی آبی راستے پر اثر انداز ہونے کی کوشش کر رہا ہے۔
قانونی اور آبی ماہرین کے مطابق پاکستان نے اس ممکنہ آبی گٹھ جوڑ کے مقابلے میں ایک جامع دفاعی حکمتِ عملی تیار کرنا شروع کر دی ہے۔ اس حکمتِ عملی کا مرکزی منصوبہ چترال ریور ڈائیورشن پروجیکٹ ہے، جس کے ذریعے دریائے چترال کو افغانستان میں داخل ہونے سے پہلے ہی سوات بیسن کی طرف موڑنے کی تجویز دی گئی ہے۔
اس منصوبے سے نہ صرف دشمن کی آبی جارحیت ناکام بنے گی بلکہ پاکستان کو 2,453 میگاواٹ تک صاف اور قابلِ تجدید توانائی حاصل ہو گی۔ مزید برآں، اس منصوبے سے ہزاروں ایکڑ نئی زمین زیرِ کاشت آئے گی، سیلابی خطرات میں کمی آئے گی اور ورسک و مہمند ڈیم کے ذخائر میں بھی نمایاں اضافہ متوقع ہے۔
حکام کا کہنا ہے کہ چترال ریور منصوبہ پاکستان کی آبی خودمختاری کے مکمل دائرہ کار میں آتا ہے اور یہ بین الاقوامی قوانین کے عین مطابق ہے۔
قومی سطح پر عوام اور ریاستی ادارے متحد ہیں کہ بھارت کی افغان سرزمین کے ذریعے پاکستان کے خلاف آبی مہم ناقابلِ قبول ہے۔ پاکستان نے عندیہ دیا ہے کہ اگر کسی بھی ملک نے آبی جارحیت کا مظاہرہ کیا تو اس کے خلاف ہر سطح پر سخت سفارتی اور تکنیکی اقدامات کیے جائیں گے۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبربلوچستان میں دہشتگردی پھر سر اٹھا رہی ہے،جائزہ لینا ہوگا کن وجوہات پر بدامنی پیدا ہوئی؟ وزیراعظم شہباز شریف بلوچستان میں دہشتگردی پھر سر اٹھا رہی ہے،جائزہ لینا ہوگا کن وجوہات پر بدامنی پیدا ہوئی؟ وزیراعظم شہباز شریف والد نے والدہ کو بتادیا تھا کہ وہ اللہ سے شہادت کی دعا مانگتے ہیں: سیف اللہ جنید عمران خان کا ایکس اکاؤنٹ بند کرنے کی درخواست سماعت کیلئے مقرر پی آئی اے کی پانچ سال بعد برطانیہ کیلئے پروازیں بحال، پہلی فلائٹ مانچسٹر روانہ پاکستان نے دہشتگردی اور خوارج کے خلاف مؤثر اقدامات کیے: ڈی جی آئی ایس پی آر اسامہ بن لادن عورت کا بھیس بدل کر افغانستان سے پاکستان پہنچا،سابق سی آئی اے افسر کا انکشافCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہماری ٹیمذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: افغان طالبان پاکستان نے
پڑھیں:
افغان پالیسی حقائق پر استوار کریں
قیامِ پاکستان سے لے کر افغانستان کا ایک تاریخی کردار رہا ہے۔ہمارے اس ہمسایہ ملک نے کبھی پاکستان کو سکھ کا سانس نہیں لینے دیا۔اقوامِ متحدہ میں پاکستان کی شمولیت کے موقع پر وہ واحد ووٹ جو پاکستان کی مخالفت میں پڑا،وہ افغانستان کا ہی تھا۔ مخالفت کے اس ووٹ سے پاکستان کے بارے میں افغان سوچ کا پتہ چلتا ہے۔
1950میں پاکستان کی آئین ساز اسمبلی کے اسپیکر جناب مولوی تمیز الدین نے لندن میں برٹش پارلیمنٹ کے نئے اجلاس کے موقع پر اخباری نمائندوں سے بات کرتے ہوئے آگاہ کیا کہ افغان حکومت پاکستان کے قبائلی علاقوں میں شورش پھیلانے کی سرتوڑ کوشش کر رہی ہے۔
اس موقع پر انھوں نے قبائلی علاقوں کے سرداروں اور ملکوں کی بے حد تعریف کی کہ وہ افغان حکومت کے جھانسے میں نہیں آ رہے۔دو سپر پاورز کے افغانستان پر حملے کی وجہ سے جب افغانستان کے وجود کو خطرہ درپیش ہوا تو پاکستان،افغانستان کے ساتھ کھڑا ہوا۔۔افسوس کی بات ہے کہ افغانوں کو جب بھی موقع ملا وہ پاکستان کے خلاف صف آرا ہوتے ہوئے ہندوستان کے اشاروں پر ناچنے لگے۔
موجودہ افغان قیادت میں سے اکثریت پاکستان کے مدرسوں میں پڑھتی رہی۔ان کے خاندانوں نے ایک لمبا عرصہ پاکستان میں قیام کیا اور کچھ تو اب بھی پاکستان میں رہ رہے ہیں۔افغانوں کی وجہ سے پاکستان کی معیشت تباہ ہوئی۔اس سب کے باوجود طالبان قیادت اور افغان عوام پاکستان سے نفرت کا اظہار کرنے سے ذرا برابر بھی نہیں چوکتے۔ افغان وزیرِ خارجہ امیر متقی کا خاندان پاکستان میں ہے۔اس کا ایک بھائی اپنی فیملی کے ساتھ کوئٹہ میں ایک مدرسہ چلا رہا ہے۔امیر متقی کا دوسرا بھائی گوجرانوالہ میں کاروبار کرتا ہے۔
خود وزیرِ خارجہ امیر متقی نے کراچی بنارس کالونی میں ایک بڑی جائیداد بنائی ہے۔یہ بھی شنید ہے کہ اس کے دونوں بھائیوں نے امیر متقی کا کالا دھن سفید کیا ہے۔افغان وزیرِ دفاع ملا یعقوب بھی تیس چالس سال کوئٹہ کے نواح میں مقیم رہے ہیں۔
ایک تہذیب یافتہ،اچھی نیچر والا انسان اگر کسی کے ہاں ایک دن پناہ لے لے تو زندگی بھر احسان مند رہتا ہے لیکن افغان چھیالس سال تک پاکستان میںپناہ گزین رہ کر بھی پاکستان کے دشمن اور ہندوستان کی محبت سے سرشار رہے۔افغانوں کو جو مراعات مملکتِ خداداد پاکستان نے دیں وہ کبھی کسی دوسرے ملک میں غیر ملکیوں کو نہیں ملیں۔کیا وقت نہیں آ گیا کہ پاکستان اپنی گذشتہ فلاڈ افغان پالیسی کو ناکام سمجھتے ہوئے اس پر نظر ثانی کرے اور حقائق کی روشنی میں ایک ایسی واضح پالیسی اپنائی جائے ۔ساتھ ہی پاکستان میں غیر قانونی طور پر رہنے والوں کو جلد از جلد پاکستان چھوڑنے کا پابند کیا جائے۔
دوحہ میں ترکی اور قطر کے تعاون سے ہونے والے مذاکرات میں جنگ بندی کو برقرار رکھنے کا فیصلہ ہوا ہے۔اصل میں کیا ہوا پاکستان کے عوام نہیں جانتے کیونکہ کسی بھی پاکستانی حکومت نے کبھی عوام کو صحیح صورتحال سے آگاہ رکھنا مناسب نہیں جانا۔خدا کرے کہ پاکستان کی مغربی سرحد پر امن ہو جائے اور افغان طالبان حکومت پاکستان کے خلاف ریشہ دوانیاں بند کر دے لیکن ایسا ہونا مشکل ہے۔
تحریکِ طالبان پاکستان،افغان طالبان کے شانہ بشانہ امریکا اور نیٹو افواج کے خلاف بر سرِپیکار رہے ہیں۔ٹی ٹی پی کے کارپردازوں نے افغان طالبان کے امیر کے ہاتھ پر بیعت کی ہوئی ہوتی ہے۔دونوں طالبان گروپوں کی آپس میں آئیڈیالوجیکل وابستگی،ہم آہنگی ہے ۔افغان طالبان اور ٹی ٹی پی،پاکستانی مدرسوں میں ایک ساتھ پڑھتے رہے ہیں۔افغان طالبان،تحریکِ طالبان پاکستان کے خلاف اس لیے بھی کوئی کاروائی نہیں کرتے کیونکہ وہ ڈرتے ہیں کہ کہیں یہ داعش یا آئی ایس آئی ایس سے نہ جا ملیں۔پہلے ہی ٹی ٹی پی کے چند جنگجو گروپ ایسا کر چکے ہیں۔
15اگست2021کو جب افغان طالبان بر سرِاقتدار آئے تو پاکستان کو اندیشہ تھا کہ افغان طالبان،پاکستان کے امن کو نقصان پہنچائیں گے۔ اس وقت کابل میں پاکستانی سفیر جناب منصور نے اس اندیشے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت ہم نے طالبان قیادت سے اس خدشے کا اظہار کیا تھا۔
افغان طالبان نے پاکستان کو یقین دلوایا کہ فکر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔وقت نے ثابت کیا کہ افغان احسان فراموش اور وعدہ خلاف ہیں۔اس کا اندازہ اس بات سے لگتا ہے کہ افغان طالبان کے دوسرے دور میں اب تک پاکستان اور افغانستان کے مابین اختلافات دور کرنے کے لیے 200 سے زائد بارڈر فلیگ اسٹاف میٹنگ ہو چکی ہیں، پاکستان کی طرف سے افغانستان کو 800سفارتی احتجاجی مراسلے تھمائے جا چکے ہیں۔180ڈیمارش جاری کیے گئے ہیں۔پاکستان کی انٹیلی جنس ایجنسی نے 200میموز ایشو کیے ہیں۔ہمارے وزیرِ خارجہ 5مرتبہ کابل جا چکے ہیں۔چین نے درمیان میں پڑ کر تین مرتبہ کوشش کر دیکھی ہے کہ افغان طالبان حکومتِ پاکستان سے تعاون کریں لیکن یہ ساری کوششیں رائیگاں ہی گئی ہیں۔
خطے کا بڑا ملک ہندوستان اس وقت مشکل میں ہے۔اس کی اپنی ناعاقبت اندیش پالیسیوں کی وجہ سے سارے ساؤتھ ریجن میں کوئی ملک بھی اس کا دوست نہیں رہا۔ہندوستان باقی ممالک کو تو کسی خاطر میں نہیں لاتا لیکن پاکستان سے ڈرتا ہے۔پاکستان کی مشکلات میں اضافہ کرنے کے لیے ہندوستان نے پچھلے دو اڑھائی سال میں افغان طالبان حکومت پر بہت انویسٹ کیا ہے۔ہندوستان چاہتا ہے کہ پاکستان کو افغانستان کی جانب سے خطرہ رہے تاکہ پاکستان کو مشرقی اور مغربی دونوں سرحدوں کی فکر رہے۔
افغانستان میں ہندوستانی را کے نیٹ ورک کو ایرانی چاہ بہار بندرگاہ سے بہت سپورٹ مل رہی تھی لیکن ایرانی شاید سمجھ گئے ہیں اور اب انڈیا کو اس بندرگاہ کو مضموم مقاصد کے لیے استعمال نہیں کرنے دے رہے۔انڈیا اب افغانستان کی پاکستان کے خلاف صرف فنڈنگ کرسکتا اور ایڈ وائزر بھیج سکتا ہے،باقی کچھ زیادہ نہیں کرسکتا۔مئی 2025میں پاکستان کے ہاتھوں ہزیمت اُٹھانے کی وجہ سے ہندوستان کی شدید ترین خواہش ہے کہ کسی طرح پاکستان کو نیچا دکھائے لیکن ان شاء اﷲ اپنے زخم ہی چاٹتا رہے گا اسے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔اگر افغان حکومت انڈیا کی گود میں نہ بیٹھے تو یہ پاکستان اور افغانستان دونوں ممالک کے لیے فائدہ مند ہوگا۔
افغان طالبان کو اقتدار سنبھالے چار سال ہو گئے ہیں ۔ ابھی تک افغانستان میں نہ تو انتخابات ہوئے ہیں اور نہ ہی لویہ جرگہ منعقد ہوا ہے،اس لیے موجودہ افغان حکومت کو افغان عوام کی نمایندہ حکومت نہیں کہا جا سکتا۔قطر میں مذاکرات میں سیز فائر کو جاری رکھنے اور 25اکتوبر کو استنبول میں ملنے پر اتفاق ہوا ہے۔
دورانِ مذاکرات افغان انٹیلی جنس چیف نے تلخی سے بات کی لیکن ملا یعقوب نے تسلیم کیا کہ وہ اور ان کی فیملی ایک لمبا عرصہ کوئٹہ پاکستان میں مقیم رہے۔جب ان کو پاکستانی وفد نے وڈیوز دکھائیں جن میں کابل میں ہندوستانی سفارتی مشن سے کرنسی بھرے صندوق افغان اتھارٹیز کے سپرد ہوتے دیکھا جا سکتا ہے تو افغان لہجے میں نرمی آ گئی۔یہ بات عیاں ہے کہ افغانوں کو جہاں سے پیسہ اور فائدہ نظر آتا ہے ادھر لپکتے ہیں۔ٹی ٹی پی ان کے ہاتھ میں پاکستان کو بلیک میل کرنے کا ایک بہانہ اور ہتھیار ہے۔
وہ کبھی بھی نہیں چاہیں گے کہ یہ ہتھیار نہ رہے۔خوش آئند بات یہ ہے کہ بہت لمبے عرصے بعد پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت افغانستان کے مسئلے پر صاف ذہن کے ساتھ یکسو نظر آتی ہے اور دراندازی ختم کرنے پر تُلی ہوئی ہے۔کہا جا رہا ہے کہ پاکستان اب ایک ہارڈ ریاست کے طور پربرتاؤکرے گا اور مزید Exploit نہیں ہو گا۔ افغانستان کے حملے کے جواب میں پاکستان کے جوابی حملے نے افغان طالبان کے اوسان خطا کر دئے اور سندور2بھی ناکام ہو گیا۔ طاقت کا مظاہرہ امن لاتاہے ۔شاید افغانستان کے متعلق یہی صحیح اپروچ ہے۔