44 فیصد گھرانے باہر نکلنے سے گریز کررہے ہیں اور قوت مدافعت بڑھانے والی غذاؤں کا استعمال کررہے ہیں، تقریباً ایک تہائی افراد آلودگی سے متعلق بیماریوں کیلئے ڈاکٹروں سے رجوع کررہے ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ دیوالی کے بعد دہلی کی ہوا انتہائی زہریلی ہوچکی ہے۔ سی پی سی بی کے اعداد و شمار کے مطابق PM2.5 کی سطح پانچ سال کی بلند ترین سطح 488 مائیکرو گرام فی مکعب میٹر تک پہنچ گئی ہے۔ یہ دیوالی سے پہلے کی سطح سے تین گنا زیادہ ہے۔ 20 اکتوبر دیوالی کی رات آلودگی کی سب سے زیادہ سطح ریکارڈ کی گئی۔ لوک سرکلس کے سروے کے مطابق دہلی-این سی آر کے تین چوتھائی گھروں میں لوگ آلودہ ہوا کے مضر اثرات کا شکار ہیں۔ گلے میں خراش، کھانسی اور آنکھوں میں جلن عام شکایات ہیں۔ 42 فیصد گھروں میں ایک یا زیادہ افراد گلے کی خراش یا کھانسی کا شکار ہیں۔ 25 فیصد کو آنکھوں میں جلن، سر درد یا نیند میں دشواری کا سامنا ہے۔ 17 فیصد سانس لینے میں دشواری یا دمہ کی شدت کی شکایت کررہے ہیں۔

وہیں 44 فیصد گھرانے باہر نکلنے سے گریز کر رہے ہیں اور قوت مدافعت بڑھانے والی غذاؤں کا استعمال کر رہے ہیں۔ تقریباً ایک تہائی افراد آلودگی سے متعلق بیماریوں کے لئے ڈاکٹروں سے رجوع کر رہے ہیں۔ 23 فیصد رہائشی اس ہفتے یا اگلے ہفتے شہر سے باہر جانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ 15 فیصد گھروں میں رہنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں، جبکہ 31 فیصد قوت مدافعت بڑھانے والی چیزیں استعمال کر رہے ہیں اور ایئر پیوریفائر لگا رہے ہیں۔ اسی طرح 8 فیصد لوگ ماسک پہن کر اپنی معمول کی سرگرمیاں جاری رکھنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ تاہم 23 فیصد کا کہنا ہے کہ وہ کچھ نہیں کریں گے اور بس اس کے ساتھ جئیں گے۔ عالمی ادارہ صحت کی سفارش کردہ سطح سے 24 گنا زیادہ آلودگی کے باوجود، حکومتی اقدامات ناکافی نظر آتے ہیں۔ گراپ (GRAP) کے تحت سخت اقدامات، جیسے سموگ گن اور رات کی صفائی ضروری ہیں۔ سروے نے اینٹی پولوشن اقدامات کے سخت نفاذ کا مطالبہ کیا ہے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: کر رہے ہیں کررہے ہیں

پڑھیں:

لاہور آج بھی فضائی آلودگی کی عالمی درجہ بندی میں بدستور پہلے نمبر پر

آج کے روز بھی لاہور سمیت پنجاب کے مختلف شہروں میں فضائی آلودگی خطرناک حدوں کو چھو رہی ہے۔

تفصیلات کے مطابق عالمی ادارہ آئی کیو ایئر کے مطابق لاہور فضائی آلودگی کی عالمی درجہ بندی میں بدستور پہلے نمبر پر ہے جہاں اوسط اے کیو آئی 378 ریکارڈ کیا گیا، جبکہ دہلی 288 اور تاشقند 175 اے کیو آئی کے ساتھ بالترتیب دوسرے اور تیسرے نمبر پر ہیں۔

پنجاب کے سرکاری اعدادوشمار کے مطابق شیخوپورا صوبے کا سب سے زیادہ آلودہ شہر ہے جہاں اے کیو آئی 500 کی انتہائی خطرناک سطح ریکارڈ کی گئی۔ لاہور 372 کے ساتھ دوسرے، گوجرانوالہ 294 پر تیسرے، فیصل آباد 255 پر چوتھے اور ملتان 194 کے ساتھ پانچویں نمبر پر ہے۔

فضائی آلودگی کے اعتبار سے سرفہرست دس شہروں میں سرگودھا 186، ڈیرہ غازی خان 179، بہاولپور 159، سیالکوٹ 156 اور راولپنڈی 124 اے کیو آئی کے ساتھ شامل ہیں۔

لاہور کے مختلف علاقوں میں بھی صورتحال مزید تشویش ناک ہے۔ شاہدرہ میں اے کیو آئی 500، ملتان روڈ 395، پنجاب یونیورسٹی کے علاقے میں 393، سفاری پارک 367، کہا نو 346، برکی روڈ 340، جی ٹی روڈ 337 اور ڈی ایچ اے فیز 6 میں 320 ریکارڈ کیا گیا، جو عالمی ادارۂ صحت کے تجویز کردہ معیار سے کئی گنا زیادہ ہے۔

ماہرین کے مطابق فضائی آلودگی میں اضافہ بنیادی طور پر بھارتی پنجاب سے داخل ہونے والی آلودہ ہواؤں اور فصلوں کی باقیات جلانے کے بڑھتے ہوئے واقعات کی وجہ سے ہے۔ رواں سال بھارتی پنجاب میں پرالی جلانے کے واقعات میں گزشتہ برس کے مقابلے میں 15 فیصد اضافہ ہوا، جس کے اثرات لاہور، قصور، شیخوپورہ اور گوجرانوالہ سمیت وسطی پنجاب کے بیشتر اضلاع پر پڑ رہے ہیں۔

محکمہ موسمیات اور ماحولیاتی تجزیاتی نظام کے مطابق رواں ہفتے ہوا کی رفتار 3 تا 5 میل فی گھنٹہ تک محدود اور درجہ حرارت میں نمایاں کمی کے باعث فضا میں آلودہ ذرات کے بکھراؤ کی صلاحیت کمزور ہو چکی ہے۔ رات اور صبح کے اوقات میں فضائی نمی 95 تا 100 فیصد ہونے کے باعث آلودگی زمین کے قریب جمع ہو جاتی ہے، جس سے حدِ نگاہ میں شدید کمی واقع ہو رہی ہے۔

دن کے وقت سورج کی روشنی سے فضا میں معمولی بہتری آتی ہے، لیکن شام ڈھلتے ہی سموگ دوبارہ گہری ہو جاتی ہے۔ محکمہ ماحولیات کا کہنا ہے کہ رواں سال ہوا کے کم دباؤ والے زونز، خشک موسمی حالات اور سرحد پار آلودگی نے صورتحال کو مزید بگاڑا ہے۔
پنجاب حکومت نے انسدادِ سموگ مہم میں تیزی لانے کا اعلان کیا ہے۔ محکمہ زراعت اور ماحولیات کی مشترکہ ٹیمیں لاہور، ننکانہ اور قصور سمیت مختلف اضلاع میں فصلوں کی باقیات جلانے والوں کے خلاف کارروائیاں کر رہی ہیں۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اب تک پانچ ہزار سپرسیڈرز کے استعمال سے چار لاکھ ایکڑ رقبہ جلنے سے محفوظ رہا ہے۔ حکومت کی جانب سے کسانوں کو چھ لاکھ سپرسیڈرز، ہارویسٹرز، کبوٹا ہارویسٹرز اور بیلرز جیسی جدید ماحول دوست مشینری فراہم کی گئی ہے، جس سے پرالی کو جلانے کے بجائے گٹھوں کی شکل میں محفوظ کر کے چارہ یا توانائی کے متبادل کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔

دوسری جانب دیہی علاقوں میں فصلوں کی باقیات نہ جلانے کی آگاہی مہم جاری ہے۔ مساجد میں اعلانات، دیہاتوں میں اجتماعات اور لمبرداروں کے ذریعے کسانوں کو سموگ کے نقصانات سے آگاہ کیا جا رہا ہے۔

شہری علاقوں میں ضلعی انتظامیہ نے سموگ گنز (فوگ کینن) کے ذریعے زیادہ آلودہ علاقوں میں مصنوعی بارش کے چھڑکاؤ کا سلسلہ شروع کیا ہے تاکہ فوری طور پر آلودہ ذرات زمین پر بیٹھ جائیں۔

محکمہ ماحولیات کے ترجمان کے مطابق گزشتہ سال کے مقابلے میں اس سال انسدادِ سموگ مانیٹرنگ سسٹم زیادہ فعال اور مربوط ہے۔ عوام کو گھبرانے کی نہیں بلکہ تعاون کی ضرورت ہے۔

محکمہ موسمیات نے شہریوں کو ہدایت کی ہے کہ صبح و شام کے اوقات میں غیر ضروری سفر سے گریز کریں اور حساس افراد ماسک کا لازمی استعمال کریں۔ ادارے کے مطابق اگر آئندہ 48 گھنٹوں میں ہوا کی رفتار میں معمولی اضافہ ہوا تو فضائی آلودگی کی شدت میں جزوی کمی متوقع ہے۔

متعلقہ مضامین

  • لاہور میں فضائی آلودگی برقرار، شہر میں اسموگ کے باعث اسکولوں کے اوقات کار تبدیل
  • فضائی آلودگی اب صرف سانس کا مسئلہ نہیں بلکہ یہ دماغ اور جسم پر مکمل حملہ ہے، جے رام رمیش
  • پنجاب میں فضائی آلودگی شدید، کھلی فضا میں سانس لینا خطرناک
  • لاہور آج بھی فضائی آلودگی کی عالمی درجہ بندی میں بدستور پہلے نمبر پر
  • پنجاب میں فضائی آلودگی کی شرح ایک بار پھر خطرناک حدوں کو چھونے لگی
  • ماحولیاتی تبدیلی اور فضائی آلودگی
  • کراچی کا فضائی معیار انتہائی مضرِ صحت درجے پر پہنچ گیا
  • وفاقی حکومت نے رواں مالی سال میں کتنا قرضہ لیا؟ چونکا دینے والی تفصیلات سامنے آگئیں
  • آلودہ ترین شہروں کی فہرست میں لاہور پہلے نمبر پر