معیشت مستحکم، پولیس اور سرکاری خریداری میں کرپشن ٹاپ پر، ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کا تازہ سروے
اشاعت کی تاریخ: 9th, December 2025 GMT
اسلام آباد(نیوز ڈیسک)ملک بھر میں پولیس، ٹینڈر و پروکیورمنٹ اور عدلیہ کو سب سے زیادہ کرپٹ شعبوں کے طور پر دیکھا جاتا ہے، جبکہ بھاری اکثریت کے مطابق صوبائی حکومتیں مقامی حکومتوں کے مقابلے میں زیادہ کرپٹ ہیں۔ ٹرانس پیرنسی انٹرنیشنل پاکستان (ٹی آئی پی) کی جانب سے آج جاری کردہ نیشنل کرپشن پرسیپشن سروے (این سی پی ایس) 2025ء کے مطابق 77؍ فیصد شرکاء کرپشن روکنے کی سرکاری کوششوں سے مطمئن نہیں۔ صوبائی سطح پر عدم اطمینان بلوچستان میں 80؍ فیصد، پنجاب میں 78؍ فیصد اور سندھ و خیبر پختونخوا میں 75؍ فیصد رہا۔ حوصلہ افزا بات یہ ہے کہ ملک بھر کے 66؍ فیصد افراد نے کہا کہ انہیں ایسی کوئی صورتحال پیش نہیں آئی جس میں انہیں رشوت دینا پڑی ہو۔ معاشی لحاظ سے، 57؍ فیصد شہریوں کا کہنا تھا کہ اُن کی قوتِ خرید گزشتہ 12؍ ماہ کے دوران کم ہوئی ہے جبکہ 43؍ فیصد کا کہنا ہے کہ اس ضمن میں صورتحال بہتر ہوئی ہے۔ اس کے باوجود، 58؍ فیصد (40؍ فیصد جزوی، 18؍ فیصد کُلی) شہریوں نے اس بات سے اتفاق کیا کہ حکومت نے آئی ایم ایف پروگرام اور ایف اے ٹی ایف سے انخلاء کے ذریعے معیشت کو مستحکم کیا۔ سیاسی فنڈنگ میں اصلاحات کیلئے عوامی رائے بہت مضبوط ہے کیونکہ 42؍ فیصد پاکستانی چاہتے ہیں کہ سیاسی جماعتوں کو کاروباری اداروں کی جانب سے فنڈنگ مکمل طور پر ممنوع ہو، جبکہ 41؍ فیصد چاہتے ہیں کہ اسے منظم کیا جائے، جس سے ملک بھر میں مجموعی طور پر 83؍ فیصد کی طلب بنتی ہے۔ سرکاری اشتہارات کے حوالے سے بن چکے معمول کے برعکس، 55؍ شہری چاہتے ہیں کہ سرکاری اسشتہارات میں سیاسی جماعتوں کے ناموں اور پارٹی قیادت کی تصاویر کا استعمال ممنوع ہونا چاہئے۔ 22؍ سے 29؍ ستمبر 2025ء کے دوران کیے گئے اس سروے میں بتایا گیا کہ عوام صوبائی حکومتوں کو مقامی حکومتوں کے مقابلے میں زیادہ کرپٹ سمجھتے ہیں۔ 59؍ فیصد افراد نے صوبائی حکومتوں پر عدم اعتماد کا اظہار کیا، جو پنجاب کے معاملے میں سب سے زیادہ یعنی 70؍ فیصد تھا۔ احتساب کے اداروں پر ایک سخت عدم اعتماد بھی سامنے آیا، جہاں 78؍ فیصد پاکستانی چاہتے ہیں کہ نیب اور ایف آئی اے جیسے اینٹی کرپشن اداروں کا خود احتساب ہو۔ بنیادی وجوہات میں تحقیقات میں شفافیت کی کمی (35؍ فیصد)، آزادانہ نگرانی کا فقدان (33؍ فیصد) اور سیاسی انتقام کا تاثر (32؍ فیصد) شامل ہیں۔ قومی سطح پر 24؍ فیصد شرکاء نے پولیس کو سب سے زیادہ کرپٹ شعبہ قرار دیا، اس کے بعد ٹینڈر و پروکیورمنٹ 16؍ فیصد اور عدلیہ 14؍ فیصد کے ساتھ تیسرے نمبر پر رہی۔ پنجاب میں پولیس کرپشن کے بارے میں سب سے خراب تاثر رپورٹ کیا گیا جو 34؍ فیصد تھا، جبکہ بلوچستان 22؍ فیصد، سندھ 21؍ فیصد اور خیبر پختونخوا میں یہ شرح 20؍ فیصد رہی۔ پروکیورمنٹ کے معاملے میں بلوچستان میں سب سے زیادہ تشویش پائی گئی جس کی شرح 23؍ فیصد رہی، اس کے بعد خیبر پختونخوا 18؍ فیصد، سندھ 14؍ فیصد اور پنجاب 9؍ فیصد پر رہے۔ عدلیہ میں کرپشن کے بارے میں عوامی تاثر خیبر پختونخوا میں سب سے زیادہ 18 فیصد اور پنجاب میں 17فیصد تھا، جبکہ سندھ اور بلوچستان دونوں میں یہ شرح 12 فیصد رہی۔ منفی تاثر کے باوجود 66؍ فیصد لوگوں نے کہا کہ انہیں سرکاری خدمات کیلئے ذاتی حیثیت میں رشوت نہیں دینا پڑی۔ سندھ میں رشوت کا تجربہ سب سے زیادہ 46؍ فیصد رپورٹ ہوا، اس کے بعد پنجاب 39؍ فیصد، بلوچستان 31؍ فیصد اور خیبر پختونخوا 20؍ فیصد پر رہے۔ پاکستانیوں نے کرپشن بڑھنے کی 3؍ بڑی وجوہات بتائیں: احتساب کا فقدان (15فیصد)، شفافیت اور معلومات تک رسائی کی کمی (15فیصد)، اور کرپشن کے کیسز کے فیصلوں میں تاخیر (14 فیصد)۔ صوبائی اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹس کو وسیع پیمانے پر غیر موثر سمجھا جاتا ہے۔ 33؍ فیصد نے انہیں بالکل غیر موثر جبکہ 34؍ فیصد نے کم موثر قرار دیا۔ سندھ (39؍ فیصد) اور پنجاب (37؍ فیصد) میں یہ تاثر سب سے زیادہ تھا۔ 67؍ فیصد افراد کی رائے تھی کہ صحت کے شعبے میں کرپشن لوگوں کی زندگیوں پر شدید اثرات مرتب کرتی ہے۔ اسپتالوں میں کرپشن کو سب سے زیادہ 38؍ فیصد کے ساتھ رپورٹ کیا گیا، اس کے بعد ڈاکٹروں میں 23؍ فیصد اور فارماسیوٹیکل کے شعبے میں 21؍ فیصد کرپشن بتائی گئی۔ صوبائی سطح پر اسپتالوں میں کرپشن کا تاثر سندھ میں سب سے زیادہ 49؍ فیصد، خیبر پختونخوا 46؍ فیصد، بلوچستان 32؍ فیصد اور پنجاب میں 26؍ فیصد رہا۔ ڈاکٹروں میں کرپشن کے تاثر میں بلوچستان 35؍ فیصد کے ساتھ سرفہرست رہا، جبکہ فارماسیوٹیکل کرپشن کے تصور میں پنجاب 30؍ فیصد کے ساتھ آگے رہا۔ صحت کے شعبے میں کرپشن کے خاتمے کیلئے 23؍ فیصد لوگ فارما کمیشنز کیخلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کرتے ہیں، 20؍ فیصد سرکاری ڈاکٹروں کی نجی پریکٹس پر پابندی چاہتے ہیں، جبکہ 16؍ فیصد مضبوط ضابطوں (ریگولیشن) کی ضرورت پر زور دیتے ہیں۔ ٹی آئی پی کے مطابق 70؍ فیصد کرپشن کی اطلاع دینے (کرپشن رپورٹنگ میکنزم) کے میکانزم سے واقف ہی نہیں۔ جو 30؍ فیصد واقف ہیں ان میں سے بھی صرف 43؍ فیصد نے شاید ہی کبھی کسی واقعے کی رپورٹ کی ہو۔ شہریوں کا کہنا ہے کہ نام ظاہر نہ کرنے کی ضمانت (38؍ فیصد) اور انعامات (37؍ فیصد) لوگوں کو کرپشن کی اطلاع دینے کی طرف زیادہ مائل کر سکتے ہیں۔ چیریٹی نگرانی کے حوالے سے 51؍ فیصد افراد سمجھتے ہیں کہ ٹیکس سے مستثنیٰ این جی اوز، ٹرسٹس، اسپتال اور تعلیمی اداروں کو فیس وصولی نہیں کرنا چاہئے، جبکہ 53؍ فیصد چاہتے ہیں کہ یہ ادارے اپنے ڈونرز اور عطیات کی رقم عوام کے سامنے ظاہر کریں۔ صوبوں میں سروے سے معلوم ہوا کہ رشوت کے سب سے زیادہ واقعات سندھ میں سامنے آئے جہاں 46؍ فیصد افراد نے عوامی خدمات حاصل کرنے کیلئے رشوت دینے کا اعتراف کیا۔ اس کے بعد پنجاب 39؍ فیصد، بلوچستان 31؍ فیصد اور خیبر پختونخوا میں یہ شرح 20؍ فیصد رہی۔ قومی سطح پر 66؍ فیصد افراد نے کہا کہ انہیں ایسی کوئی صورتحال پیش نہیں آئی جس میں انہیں رشوت دینا پڑتی۔ ٹی آئی پی کے اعداد و شمار کے مطابق، پنجاب میں منفی رجحانات سب سے زیادہ پائے گئے: پولیس میں کرپشن کے تاثر کی بلند ترین شرح 34؍ فیصد؛ صوبائی حکومتیں کے مقامی حکومتوں کے مقابلے میں زیادہ کرپٹ ہونے کا تاثر سب سے زیادہ 70؍ فیصد؛ فارماسیوٹیکل سیکٹر میں کرپشن کا سب سے زیادہ تاثر 30؍ فیصد؛ رشوت دینے کا دوسرا بلند ترین تجربہ 39؍ فیصد؛ اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ کی عدم کارکردگی کا تاثر 37؍ فیصد۔ سندھ کے بدترین اشاریوں میں شامل ہیں: عوامی خدمات میں رشوت ستانی کا بلند ترین تجربہ 46؍ فیصد؛ اسپتالوں میں کرپشن کے تاثر کی سب سے زیادہ شرح 49؍ فیصد؛ حکومت کی اینٹی کرپشن کارکردگی پر عدم اطمینان 75؍ فیصد (دیگر صوبوں کے ساتھ مشترکہ)؛ فارما کرپشن میں تیسرا بدترین تاثر 17؍ فیصد اور ڈاکٹروں کی کرپشن میں 17؍ فیصد؛ کرپشن رپورٹنگ میکنزم سے ناواقفیت کی بلند شرح 68؍ فیصد۔ خیبر پختونخوا کے بدترین پہلو یہ ہیں: عدلیہ میں کرپشن کے تاثر کی سب سے زیادہ شرح 18؍ فیصد؛ اسپتالوں میں کرپشن کے تاثر میں سندھ کے بعد دوسرا نمبر 46؍ فیصد؛ ٹینڈر اور پروکیورمنٹ میں کرپشن کا دوسرا بلند ترین تاثر 18؍ فیصد؛ صحت کے شعبے میں کرپشن اور عدم اطمینان 68؍ فیصد؛ کرپشن رپورٹنگ کے طریقہ کار سے ناواقفیت کی بلند شرح 73؍ فیصد۔ بلوچستان کے بدترین اشاریوں میں شامل ہیں: ٹینڈرز اور پروکیورمنٹ میں کرپشن کے تاثر کی سب سے بلند شرح 23؍ فیصد؛ ڈاکٹروں میں کرپشن کے تاثر کی سب سے زیادہ شرح 35؍ فیصد؛ صحت کے شعبے میں کرپشن کے اثرات کے حوالے سے 67؍ فیصد کا منفی تاثر؛ رشوت ستانی کے تجربے کی دوسری بلند ترین سطح 31؍ فیصد (سندھ اور پنجاب سے بہتر لیکن پھر بھی تشویشناک)؛ حکومت کی انسدادِ کرپشن کوششوں سے سب سے زیادہ عدم اطمینان 80؍ فیصد؛ کرپشن رپورٹ کرنے کے طریقہ کار سے عدم آگاہی کی سب سے بلند شرح 76؍ فیصد۔
.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: میں کرپشن کے تاثر کی سب سے صحت کے شعبے میں کرپشن اسپتالوں میں کرپشن خیبر پختونخوا میں میں سب سے زیادہ فیصد افراد نے چاہتے ہیں کہ فیصد کے ساتھ کرپشن رپورٹ اینٹی کرپشن زیادہ کرپٹ اور پنجاب اس کے بعد کے مطابق فیصد اور کرپشن کا فیصد رہی کا تاثر میں یہ فیصد ا نہیں ا
پڑھیں:
کرپشن کا دباؤ کم اور اداروں کی ساکھ میں بہتری آئی، این سی پی ایس 2025 سروے کی جھلکیاں
نیشنل کرپشن پرسیپشن سروے (این سی پی ایس) 2025 نے اس سال عوامی رائے کی ایک زیادہ مضبوط اور جامع تصویر پیش کی ہے۔ نتائج سے واضح ہوتا ہے کہ روزمرہ زندگی میں بدعنوانی کا دباؤ تمام شہریوں پر یکساں نہیں، جبکہ مختلف سرکاری اداروں کی کارکردگی کے بارے میں عوامی تاثر میں بھی نمایاں بہتری دیکھنے میں آئی ہے۔
رپورٹ کے مطابق اس سال سروے کا دائرہ کار قابلِ ذکر حد تک بڑھایا گیا، جس میں 20 اضلاع کے 4 ہزار شہریوں کی رائے شامل کی گئی۔ شہری و دیہی آبادی، خواتین اور معذور افراد کی شمولیت کے باعث سامنے آنے والا ڈیٹا اب پہلے سے کہیں زیادہ جامع اور ملک گیر نوعیت رکھتا ہے۔ واضح کیا گیا کہ این سی پی ایس عوامی موڈ اور ان کے روزمرہ تجربات کو ناپتا ہے اور کسی بھی ادارے یا فرد کے خلاف کرپشن کے حقائق یا ثبوت فراہم نہیں کرتا۔
مزید پڑھیں: وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کا وفاق پر اربوں روپے کرپشن کا الزام
سروے نے یہ بھی واضح کیا کہ این سی پی ایس کا پاکستان کے عالمی کرپشن پرسیپشن انڈیکس (سی پی آئی) پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ اگرچہ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل پاکستان، ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل جرمنی کا قومی چیپٹر ہے، تاہم این سی پی ایس ایک مقامی سروے ہے جو عالمی سی پی آئی کا حصہ نہیں بنتا۔
اعداد و شمار کے مطابق 66 فیصد شہریوں کا کہنا ہے کہ گزشتہ 12 ماہ میں انہیں کسی سرکاری سروس کے لیے رشوت دینے کی ضرورت پیش نہیں آئی، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ روزمرہ کے معاملات میں کرپشن کا دباؤ تمام شہریوں پر یکساں نہیں ہے۔ اسی طرح تقریباً 60 فیصد افراد نے حکومت کی جانب سے آئی ایم ایف پروگرام اور ایف اے ٹی ایف گرے لسٹ سے نکلنے کے تناظر میں معاشی استحکام کی کوششوں کو مکمل یا جزوی طور پر سراہا۔
اداروں کے بارے میں عوامی رائے میں بھی مثبت تبدیلیاں سامنے آئی ہیں، جہاں پولیس کی کارکردگی سے متعلق تاثر میں 6 فیصد بہتری ریکارڈ کی گئی ہے، جو اصلاحات اور بہتر سروس ڈیلیوری کا نتیجہ ہے۔ اس کے علاوہ تعلیم، زمین و جائیداد، لوکل گورنمنٹ اور ٹیکسیشن کے شعبوں میں بھی عوامی تاثر بہتر ہوا ہے۔
مزید پڑھیں: کرپشن سے متعلق آئی ایم ایف کی رپورٹ لمحہ فکریہ ہے، شاہد خاقان عباسی
سروے نے واضح کیا کہ عوامی ایجنڈا اب زیادہ مضبوط ادارہ جاتی اصلاحات کا متقاضی ہے، جس میں بہتر احتساب، اختیارات میں کمی اور جاننے کے حق جیسے قوانین کو مزید مؤثر بنانے کا مطالبہ شامل ہے۔ شہریوں نے یہ بھی کہا کہ 78 فیصد افراد چاہتے ہیں کہ احتسابی ادارے جیسے نیب اور ایف آئی اے خود بھی مکمل طور پر شفاف اور جوابدہ ہوں، جو اس بات کی علامت ہے کہ عوام اداروں کی ساکھ بہتر بنانے کے خواہاں ہیں۔
صحت کے شعبے کے حوالے سے سامنے آنے والا ’اصلاحاتی بلیوپرنٹ‘ بھی قابلِ ذکر ہے، جہاں شہریوں نے ادویات کے کمیشن سسٹم پر سخت کنٹرول، ڈاکٹروں کی نجی پریکٹس کے واضح قواعد، مضبوط ریگولیٹرز اور مؤثر شکایت سیل قائم کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔
اسی طرح سیاست اور عوامی اخراجات میں شفافیت کے مطالبے میں بھی اضافہ ہوا ہے، جہاں 80 فیصد سے زائد شہریوں نے سیاسی جماعتوں کی فنڈنگ میں کاروباری سرمایہ کاری پر پابندی یا سخت ریگولیشن کا مطالبہ کیا جبکہ 55 فیصد نے حکومتی اشتہارات سے سیاسی نام اور تصاویر ہٹانے کی حمایت کی۔
مزید پڑھیں: نیب اور این سی اے کا منی لانڈرنگ اور کرپشن کے خاتمے کے لیے تعاون بڑھانے پر اتفاق
42 فیصد شہریوں کا کہنا ہے کہ اگر گمنامی اور ریوارڈ سسٹم موجود ہو تو وہ بدعنوانی کے خلاف آواز بلند کرنے میں خود کو محفوظ سمجھیں گے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں