Express News:
2025-10-26@23:42:46 GMT

پاک ، بنگلہ دیش بڑھتی قربتیں: احتیاط لازم ہے!

اشاعت کی تاریخ: 27th, October 2025 GMT

ہم اپنے سابقہ مشرقی پاکستانیوں کو ہر لحاظ سے گلے لگانے کے خواہشمند رہے ہیں ۔ 55سال گزر گئے، مگر اِس تمنا کی آبیاری کے لیے ہمیں موقع ہی نہیں مل رہا تھا ۔ پہلے ’’ بنگلہ بندھو‘‘ شیخ مجیب الرحمن نے (بھارتی خوشنودی میں) پاکستانیوں پر محبتوں کا یہ راستہ مسدود کیے رکھا اور پھر اُن کی مقتدر اور پاکستان معاند صاحبزادی ، شیخ حسینہ واجد، نے ۔ اب قدرت نے یہ راستہ کھول دیا ہے تو ہمیں بنگلہ دیش سے تعلقات استوار کرنے میں بے حد احتیاط کی ضرورت ہے ۔ شیخ حسینہ واجد کا بنگلہ دیش میں پاکستان مخالف 15سالہ اقتدار ختم ہو چکا ہے ۔

وہ بھارت میں سیاسی پناہ گیر بن چکی ہیں ۔ اور یوں پاکستان اور پاکستانیوں کے لیے ڈھاکا میں محبتوں کے نئے چشمے بہہ نکلے ہیں ۔ بھارت، بھارتی خفیہ اداروں اور انڈین اسٹیبلشمنٹ کو اِس سے بڑی تکلیف پہنچ رہی ہے ۔ اُن کی بنگلہ دیش میں متنوع سرمایہ کاری اور محنتیں اکارت چلی گئی ہیں ۔ بنگلہ دیشی عوام اور خصوصاً بنگلہ دیشی طالبعلموں نے اپنا خون دے کر بنگلہ دیش میں بھارتی سرمایہ کاری کا سفینہ ڈبویا ہے ۔ یوں نئے منظر نامے میں پاکستان کو بنگلہ دیش میں اپنے پاؤں جمانے کے مواقع دستیاب ہُوئے ہیں ۔

بھارت کے پیٹ میں مروڑ تو اُٹھ ہی رہے ہیں،دُنیا بھی اِس بدلتے منظر نامے کو دیکھ رہی ہے ۔ اِن میں امریکا کے ممتاز صحافی ، دانشور اور مصنف مائیکل کوگلمین ( Michael Kogalman) بھی شامل ہیں ۔ مائیکل کوگلمین صاحب ماہرِ اُمور خارجہ بھی ہیں ۔ جنوبی ایشیا کے معاملات پر انھیں تخصص حاصل ہے ۔ وہ واشنگٹن میں بروئے کار عالمی شہرت یافتہ تھنک ٹینک Woodrow Wilson International Centerکے South Asia Institute کے ڈائریکٹر بھی ہیں ۔ معروف امریکی جریدے Foreign Policyکے باقاعدہ کالم نویس بھی ہیں ۔

اُن کے تخصص اور تحقیق کا مرکز پاکستان ، بھارت اور افغانستان ہیں ۔ پاک ، بنگلہ دیش بڑھتی قربتوں کے پسِ منظر میں گزشتہ روز مائیکل کوگلمین نے یوں لکھا:’’ پچھلے ایک سال کے دوران پاک، بنگلہ دیش بڑھتے تعلقات جنوبی ایشیا میں Biggest Geopolitical Storiesمیں نمایاں ترین ہیں۔ پاک ، بنگلہ دیش تعلقات چونکہ پچھلے15برسوں کے دوران خاصے منجمد رہے ہیں، اس لیے اب اچانک دونوں کے درمیان تعلقات میں بدلاؤ آنے پر کئی بھنویں تنی ہُوئی ہیں ۔ دیکھنے والی بات یہ ہے کہ فروری2026ء میں جب بنگلہ دیش میں عام انتخابات ہوں گے اور نتائج نکلیں گے ، تب پاک ، بنگلہ دیش تعلقات کیا رُخ اور نہج اختیار کریں گے ؟۔‘‘

 مائیکل کوگلمین کے تحفظات بے بنیاد نہیںہیں۔ بین السطور وہ یہ بھی کہنے کی کوشش کررہے ہیں کہ پاکستانی حکام کو بنگلہ دیشی حکام ( بنگلہ دیش کے چیف ایڈوائزر پروفیسر محمد یونس کی حکومت) کی گرمجوشیوںکو ٹھنڈے دل سے گلے لگانا چاہیے ۔ ابھی بنگلہ دیش سے سابق وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد ، اُن کے خاندان اور اُن کی پارٹی (عوامی لیگ) کے اثرات بالکل معدوم نہیں ہُوئے ہیں ۔ اور نہ ہی بنگلہ دیش سے اُن عناصر کا خاتمہ عمل میں آیا ہے جو بھارتی اثرونفوذ میں ہیں ۔

یہ عناصر بھارتی خفیہ اداروں کی ایما پر پاکستان کے خلاف زہرافشانی سے ہنوز باز نہیں آتے ۔ بنگلہ دیش میں ایسے افراد کی بھی کمی نہیں ہے جو پاک، بنگلہ دیش قربتوں کو زک پہنچانے کے لیے اِس مطالبے پر ڈٹے ہُوئے ہیں کہ پاکستان کو بنگلہ دیش سے ( 1971ء کے مبینہ سانحات کے پس منظر میں ) معافی مانگنی چاہیے اور یہ کہ پاکستان کی طرف ابھی بنگلہ دیش کے کئی ارب روپے نکلتے ہیں (ویسے تو اسحاق ڈار نے گزشتہ  روز اپنے دَورئہ ڈھاکا میں صاف کہہ دیا ہے کہ1971ء کے معاملات حل ہو چکے ہیں، اب آگے بڑھنا ہے) یہ عناصر کسی بھی وقت بھڑک کر الاؤ بن سکتے ہیں، اس لیے پاک ، بنگلہ دیش تعلقات کے حوالے سے ہمارے پالیسی سازوں کے لیے احتیاط بھی بے حد لازم ہے اور حاسدین اور مفسدین سے بچاؤ بھی ضروری ہے ۔

 11ستمبر2025ء کو ڈھاکا یونیورسٹی میں طلبا یونین کے انتخابات ہُوئے ۔اِس میں جماعتِ اسلامی بنگلہ دیش کا طلبا وِنگ (اسلامی چھاترا شِبر) بھاری اکثریت سے جیت گیا تو ہمارے ہاں کئی اخبارات نے یہ خبر شایع کی کہ ڈھاکا یونیورسٹی میں یہ کامیابی دراصل پاکستان کی کامیابی ہے ۔تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ایسی خبروں کی اشاعت اور خوشی کے اظہار سے گریز بے حد ضروری ہے ۔

دیکھا جائے تو بنگلہ دیش میں فروری کے عام انتخابات ابھی دُور تو ہیں ، مگر اتنے بھی دُور نہیں ہیں ۔ پاکستان کو اِس حوالے سے بھی بڑی احتیاط سے قدم اُٹھانا ہوں گے ۔ ساتھ ہی کسی بھی بنگلہ دیشی گروہ ، سیاسی و مذہبی جماعت اور معروف بنگلہ دیشی تاجر برادری کو نظر انداز کرنا چاہیے نہ ہی خود سے دُور کرنا چاہیے ۔

شاید یہی وجہ ہے کہ اگست2025ء کے آخری ہفتے جب ہمارے وزیر خارجہ ، جناب اسحاق ڈار ، نے ڈھاکا کا 2 روزہ تاریخ ساز دَورہ کیا تو انھوں نے بنگلہ دیشی چیف ایڈوائزر ( پروفیسر محمد یونس) اور بنگلہ دیشی مشیر برائے اُمورِ خارجہ( محمد توحید حسین) سے مفصل اور ثمر آور ملاقاتیں تو کی ہیں ، انھوں نے بنگلہ دیش کی معروف مذہبی اور نئی و پرانی سیاسی جماعتوں کے سربراہوں، سرکردہ رہنماؤں اور اُن کے وفود سے محبت و احترام بھری ملاقاتیں بھی کیں ۔ مثال کے طور پر ڈار صاحب نے بنگلہ دیش کی جماعتِ اسلامی ( جس نے حسینہ واجد کی پندرہ سالہ جابرانہ حکومت میں بے حد مظالم برادشت کیے اور پھانسیاں تک سہہ لیں) کے وفد سے تفصیلی ملاقات کی ۔ بعد ازاں ڈار صاحب نے امیرِ جماعتِ اسلامی، ڈاکٹر شفیق الرحمن صاحب ،سے اُن کی رہائش گاہ پر جا کر ملاقات کی ۔ شفیق صاحب آج کل دل کے آپریشن کے بعد گھر پر آرام کررہے ہیں ۔

ڈار صاحب نے’’بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی یاBNP‘‘ کے وفد سے بھی ملاقات کی۔ اِس وفد کی سربراہی پارٹی کے سیکریٹری جنرل ، مرزا فخر الاسلام عالمگیر، کررہے تھے ۔ ہمارے وزیر خارجہ نے سابق وزیر اعظم بنگلہ دیش ، محترمہ بیگم خالدہ ضیاء ، سے اُن کے دولت کدے پر جا کر ملاقات کی ۔ بیگم صاحبہ بھی آج کل علیل ہیں ۔ انھوں نے بنگلہ دیش کی ایک اور نئی سیاسی جماعت( جاتیہ شہری پارٹی یاNCP) کے وفد اور سربراہ سے بھی ملاقات کی ۔ یہ پارٹی دراصل انقلابی بنگلہ دیشی طلبا کی پارٹی ہے ۔ یہی ہے وہ اولوالعزم جماعت اور اِس کے سربراہ جنھوں نے تشدد و جبرپسند شیخ حسینہ واجد کی حکومت کا تختہ اُلٹا اور موصوفہ کو بھارت فرار ہونے پر مجبور کر دیا ۔ کہا جارہا ہے کہNCPپر بنگلہ دیشی عوام خاصا اعتماد کررہے ہیں ۔ شاید فروری کے عام انتخابات میں وہ کئی سیٹیں نکال لے جائے ۔

ہمارے وزیر خارجہ ، اسحاق ڈار، نے حالیہ دَورے میں بنگلہ دیشی حکام کے ساتھ6اہم ترین معاہدوں اور ایم او یوز پر دستخط کیے ۔اِن کے تحت اب:(1) پاکستان کے سفارتکار اور سرکاری پاسپورٹ رکھنے والے سینئر افسران بغیر ویزہ بنگلہ دیش جا سکیں گے (2)انسٹی ٹیوٹ آف اسٹرٹیجک اسٹڈیز اسلام آباد اور بنگلہ دیش کے انسٹی ٹیوٹ آف انٹرنیشنل اینڈ اسٹرٹیجک اسٹڈیز کے درمیان ایم او یو پر دستخط ہُوئے ہیں (3) پاکستان کی سرکاری نیوز ایجنسیAPP اور بنگلہ دیش کی سرکاری نیوز ایجنسی BSSکے درمیان اہم معاہدہ ہُوا ہے ۔ یوں پاکستان اور بنگلہ دیش کے صحافی حضرات ایک دوسرے کے ملک کا بآسانی دَورہ کر سکیں گے (4) پاکستان پہلے بھی بنگلہ دیشی طلبا وطالبات کو سرکاری وظائف پر پاکستانی تعلیمی اداروں میں تعلیم کے حصول کی سہولیات سے نوازتا رہا ہے ۔ اب مگر ڈار صاحب کے حالیہ دَورے کے بعد پاکستان مزید کھلے دل کا مظاہرہ کرتے ہُوئے 500بنگلہ دیشی طلباو طالبات کو پاکستان کے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں سرکاری وظائف پر پڑھے کی اجازت دے گا۔

یہ خبریں اپنی جگہ خوش کن اور اہم ہیں ، مگر یاد رکھا جائے بھارت اب بھی بنگلہ دیش کو قابو کرنے کے لیے کوشاں ہے۔اِس کی ایک تازہ مثال 14اکتوبر2025ء کو سامنے آئی ہے جب بھارتی ملٹری انٹیلی جنس کے تین افسران ( جن کی قیادت میجر جنرل کندن کمار سنگھ کررہے تھے) نے ڈھاکا کا خفیہ دَورہ کیا۔ اِس خبر کو بنگلہ دیش اور بھارت نے چھپانے کی کوشش تو کی لیکن تاڑنے والے بھی قیامت کی نظر رکھتے ہیں!

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: شیخ حسینہ واجد اور بنگلہ دیش بنگلہ دیش میں بھی بنگلہ دیش بنگلہ دیش کے نے بنگلہ دیش بنگلہ دیش کی کو بنگلہ دیش بنگلہ دیش سے بنگلہ دیشی کہ پاکستان ملاقات کی ہ وئے ہیں ڈار صاحب کے لیے

پڑھیں:

سلامتی کونسل میں پاکستان کا بھارت کو دوٹوک جواب

—فائل فوٹو

بھارتی مندوب کے بے بنیادالزامات پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں پاکستان نے دوٹوک جواب دے دیا۔

پاکستانی مشن کے قونصلر قیصر سروانی نے کہا کہ جموں و کشمیر پر بھارت کا قبضہ غیرقانونی ہے۔ بھارت نےمسئلہ کشمیر سلامتی کونسل میں اٹھایا اور اب وعدوں سے منحرف ہو گیا۔

انہوں نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوجی مظالم، اجتماعی قبریں اور جبری گمشدگیاں جاری ہیں۔ بھارت میں مسلمان، عیسائی، سکھ اور دلت ظلم و جبر کا شکار ہیں۔

قیصر سروانی کا کہنا ہے کہ ہندوتوا کی فسطائی سوچ نے بھارت کو نفرت کی فیکٹری بنا دیا ہے۔ بھارت سلامتی کونسل کی قراردادوں پر عمل کرے۔

پاکستانی مشن کے قونصلر نے یہ بھی کہا کہ آزاد کشمیر میں جمہوری ادارے اور عوامی آزادی پاکستان کے عزم کا ثبوت ہیں۔ 

متعلقہ مضامین

  • صدر ٹرمپ سے مودی سرکار تک
  • موضوع: پاک افغان صلح اور ہندوستان کی بڑھتی سرگرمیاں
  • جنرل ساحر شمشاد کی چیف ایڈوائزر بنگلہ دیش سے ملاقات، دفاعی تعاون پر تبادلۂ خیال
  • امریکی دباؤ کے بعد بھارت کی روس سے تیل خریداری بند، صدر ٹرمپ کی تصدیق
  • بنگلہ دیش کا بھارت کے ساتھ سرحد پر سیکیورٹی مضبوط بنانے کے لیے نئی بٹالینز تشکیل دینے کا فیصلہ
  • بابا گرونانک کے 556ویں جنم دن کی تقریبات: بھارت سے 2 ہزار 200 سکھ یاتری 4 نومبر کو پاکستان پہنچیں گے
  • سلامتی کونسل میں پاکستان کا بھارت کو دوٹوک جواب
  • پاکستان اور بنگلہ دیش کے تعلقات میں نئی پیش رفت، دوطرفہ تعاون کے فروغ پر اتفاق
  • بنگلہ دیش ملبوسات کی نئی عالمی منزل، چینی سرمایہ کاری میں اضافہ