data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
صحافت محض پیشہ نہیں، یہ ضمیر کی صدا اور عوام کی امانت ہے جو سچائی کے چراغ کو جلائے رکھے، وہی اصل صحافی ہے۔ اسی جدوجہد میں اْس کا وقار، اْس کا ایمان، اور اْس کی پہچان چھپی ہے۔ ’’سچ لکھنے والا ہمیشہ طاقت کے مراکز کے نشانے پر ہوتا ہے‘‘۔ وہ اکثر طاقتور حلقوں کی ناراضی مول لیتا ہے۔ دنیا میں سچ کہنا ہمیشہ آسان نہیں رہا۔ لفظ کبھی تلوار سے زیادہ خطرناک ہو جاتا ہے، اور وہ لوگ جو سچ کو حرفوں میں ڈھالتے ہیں، اکثر خود تاریخ کے صفحوں پر خون کے داغ بن کر رہ جاتے ہیں۔ رواں برس 2025ء میں آزادیٔ صحافت کی تاریخ نے ایک نیا باب رقم کیا ہے، جب دو عالمی اداروں انٹرنیشنل پریس انسٹیٹیوٹ (آئی پی آئی) اور انٹرنیشنل میڈیا سپورٹ (آئی ایم ایس) نے سات بہادر صحافیوں کو ’’ورلڈ پریس فریڈم ہیروز‘‘ کے عالمی اعزاز سے نوازا۔ ان میں وہ فلسطینی خاتون بھی شامل ہیں جو غزہ کی تباہ شدہ گلیوں میں اپنے کیمرے کے ساتھ شہید ہوئیں۔ یہ اعزاز اْن صحافیوں کو دیا جاتا ہے جو شدید خطرات کے باوجود سچ بولنے سے باز نہیں آتے۔ اس سال کے ایوارڈ یافتگان کا تعلق جارجیا، امریکا، غزہ، پیرو، ہانگ کانگ، یوکرین اور ایتھوپیا سے ہے۔ ان سب نے ظلم، سنسرشپ، قید اور دھمکیوں کے باوجود صحافتی اصولوں کی حفاظت کی اور عوام کے حقِ جاننے کو مقدم رکھا۔ سب سے پہلے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ آئی پی آئی اور آئی ایم ایس کون سے ادارے ہیں اور ان کی حیثیت کیا ہے۔
انٹرنیشنل پریس انسٹیٹیوٹ (آئی پی آئی) کا قیام 1950ء میں صحافیوں اور مدیران کے ایک عالمی اجتماع کے نتیجے میں ہوا۔ اس کا صدر دفتر آسٹریا کے شہر ویانا میں ہے۔ آئی پی آئی آزادیٔ اظہار، آزاد میڈیا اور صحافیوں کے تحفظ کے لیے اقوامِ متحدہ کے اصولوں کے مطابق کام کرتا ہے۔ یہ ادارہ ہر سال مختلف ممالک میں صحافت پر ہونے والے دباؤ، قتل، قید، سنسرشپ اور جبر کی نگرانی کرتا ہے، اور انہی بنیادوں پر ان صحافیوں کا انتخاب کرتا ہے جنہوں نے جرأت کی مثال قائم کی۔ آئی پی آئی کے ’’ورلڈ پریس فریڈم ہیروز‘‘ ایوارڈ کو صحافت کی دنیا میں سب سے باوقار تمغہ مانا جاتا ہے، جو 1996ء سے ہر سال دیا جا رہا ہے۔ دوسرا ادارہ انٹرنیشنل میڈیا سپورٹ (آئی ایم ایس) ہے، جس کا صدر دفتر کوپن ہیگن (ڈنمارک) میں ہے۔ آئی ایم ایس 2001ء میں قائم ہوا اور اس کا بنیادی مقصد دنیا کے اْن خطوں میں صحافت کا تحفظ کرنا ہے جہاں جنگ، آفات یا سیاسی جبر کے باعث میڈیا خطرے میں ہو۔ آئی ایم ایس صحافیوں کی تربیت، قانونی معاونت، اور آن لائن و فزیکل سیکورٹی پروگرام چلاتا ہے۔ یہ ادارہ آزادیٔ اظہار کو انسانی حق مانتے ہوئے میڈیا اداروں کے لیے پالیسی سطح پر اصلاحات کی حمایت کرتا ہے۔ 2020ء کے بعد سے آئی ایم ایس نے آئی پی آئی کے ساتھ مل کر یہ عالمی اعزاز مشترکہ طور پر دینا شروع کیا، تاکہ آزادیِ صحافت کے تحفظ کی جدوجہد کو عالمی سطح پر مضبوط کیا جا سکے۔ اب اگر اس سال کے سات ہیروز پر نظر ڈالی جائے تو ہر نام اپنے آپ میں ایک داستان ہے۔
جارجیا سے مزیا اماگلوبیلی نے روسی دباؤ اور داخلی پابندیوں کے باوجود آزاد میڈیا کو زندہ رکھنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ وہ خواتین صحافیوں کے لیے جرأت اور تحفظ کی علامت بن چکی ہیں۔ امریکا سے مارٹن بارون نے واشنگٹن پوسٹ اور بوسٹن گلوب کے ادارتی سربراہ کے طور پر تحقیقاتی صحافت کی نئی بنیاد رکھی۔ ان کے دور میں امریکی سیاست اور حکومت میں شفافیت کے کئی نئے در وا ہوئے۔
غزہ کی مریم ابو دقہ وہ نام ہے جس نے دنیا کو دکھا دیا کہ سچائی کے راستے میں بمباری بھی رکاوٹ نہیں بن سکتی۔ وہ فلسطینی فوٹو جرنلسٹ تھیں، جو پناہ گزین کیمپوں میں انسانی المیوں کو عالمی سطح پر اجاگر کر رہی تھیں۔ اسرائیلی حملے کے دوران وہ رپورٹنگ کر رہی تھیں جب ایک فضائی حملے نے ان کی جان لے لی۔ ان کی شہادت نے دنیا بھر میں آزاد صحافت کے لیے ایک نئے جذبے کو جنم دیا۔ آئی پی آئی اور آئی ایم ایس نے انہیں بعد از مرگ (Posthumously) یہ اعزاز دیا۔ لفظ (پوستھیومَسلی) ایک انگریزی اصطلاح ہے،جس کا مطلب ہے ’’وفات کے بعد‘‘ یا ’’مرنے کے بعد‘‘۔یعنی جب کسی شخص کو ایوارڈ، اعزاز، یا درجہ اْس کے انتقال کے بعد دیا جائے تو کہا جاتا ہے کہ یہ اعزاز اسے دیا کیا گیا۔ پیرو سے گستاوو گوریتی، نے منشیات مافیا اور بدعنوان سیاست دانوں کے خلاف اپنی قلمی جنگ سے حکومتوں کو ہلا دیا۔ کئی بار قید ہوئے، لیکن قلم نہیں چھوڑا۔ ہانگ کانگ کے جمی لائی، جو ’’ایپل ڈیلی‘‘ کے بانی ہیں، چین کے دباؤ میں آکر بھی اپنی آزادیِ رائے پر قائم رہے۔ انہیں جیل میں ڈالا گیا، اخبار بند ہوا، لیکن وہ آج بھی دنیا بھر کے صحافیوں کے لیے مثال بنے ہوئے ہیں۔ یوکرین کی کٹوریا روشچینا نے روسی حملوں کے دوران محاذِ جنگ سے رپورٹنگ کی۔ گرفتار ہوئیں، تشدد کا نشانہ بنیں، مگر جنگ کے بیچ بھی سچ کی خبریں دنیا تک پہنچاتی رہیں۔ ایتھوپیا کے تسفالم ولدیس نے ایک ایسے نظام میں آزاد میڈیا کے حق میں آواز بلند کی جہاں اظہارِ رائے کو جرم سمجھا جاتا ہے۔ انہوں نے میڈیا آزادی کے قوانین کے لیے مہم چلائی، جس کے نتیجے میں کئی نئے آزاد ادارے قائم ہوئے۔
یہ سب وہ نام ہیں جنہوں نے اپنے اپنے ملک میں خطرے کے باوجود وہی کیا جس کے لیے صحافت وجود میں آئی سچ بولنا، چاہے اس کی قیمت جان ہی کیوں نہ ہو۔ آئی پی آئی اور آئی ایم ایس کے مطابق ان ہیروز کا انتخاب اْن کے ’’اخلاقی استقلال، عوامی خدمت کے جذبے، اور آزادیٔ اظہار کے غیر متزلزل یقین‘‘ کی بنیاد پر کیا گیا۔
ان اداروں کی مشترکہ رپورٹ میں بتایا گیا کہ دنیا بھر میں پچھلے دو سال میں 150 سے زائد صحافی قتل یا لاپتا ہوئے، جبکہ 1200 سے زیادہ کو قید یا مقدمات کا سامنا ہے۔ ان اعداد و شمار نے یہ ثابت کیا ہے کہ آزادیٔ صحافت اب صرف جمہوری اصول نہیں بلکہ عالمی انسانی حق بن چکی ہے۔
غزہ میں گزشتہ سال اسرائیلی حملوں کے دوران 70 سے زیادہ فلسطینی صحافی شہید ہوئے، جن میں خواتین کی نمایاں تعداد شامل تھی۔ مریم ابو دقہ ان میں ایک چمکتا ہوا نام تھیں، جنہوں نے دنیا کو دکھایا کہ کیمرہ بندوق سے زیادہ طاقتور ہو سکتا ہے۔ ان کی قربانی نے ورلڈ پریس فریڈم ہیروز 2025ء کو ایک تاریخی رنگ دیا۔ انٹرنیشنل پریس انسٹیٹیوٹ اور انٹرنیشنل میڈیا سپورٹ کی یہ کوشش انسانیت کے لیے امید کا پیغام ہے کہ اگرچہ جبر بڑھ رہا ہے، مگر سچ لکھنے والے اب بھی زندہ ہیں۔ضرورت اب اس امر کی ہے کہ عالمی برادری صرف خراجِ تحسین پر اکتفا نہ کرے بلکہ عملی اقدامات کرے۔ اقوامِ متحدہ کو چاہیے کہ وہ عالمی سطح پر ایک ’’انٹرنیشنل پروٹیکشن چارٹر فار جرنلسٹس‘‘ منظور کرے، جس کے تحت جنگی علاقوں میں صحافیوں کے خلاف کسی بھی کارروائی کو جنگی جرم قرار دیا جائے۔ ساتھ ہی ہر ملک میں ’’پریس فریڈم کمیشن‘‘ قائم کیا جائے جو میڈیا اہلکاروں کی سلامتی، قانونی مدد اور نفسیاتی بحالی کے لیے ذمے دار ہو۔
پروفیسر شاداب احمد صدیقی
سیف اللہ
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: ا ئی پی ا ئی ا ا ئی ایم ایس پریس فریڈم صحافیوں کے کے باوجود سے زیادہ میڈیا ا کرتا ہے جاتا ہے کے بعد کے لیے اور ان
پڑھیں:
ایک کھلا خط
پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی ترجمان اور سیکریٹری اطلاعات شیخ وقاص اکرم نے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر پاک فوج کے ترجمان کے نام ایک کھلا خط جاری کیا ہے۔ اس خط کے مندرجات پر بات کرنے سے پہلے یہ وضاحت کرنا ضروری سمجھتا ہوں، شیخ وقاص اکرم کا موقف ہے کہ تحر یک انصاف کا باقاعدہ موقف جاری کرنے کا اختیار صرف ان کے پاس ہے۔
ان کے مطابق آپ سوشل میڈیا کے دیگر پلیٹ فارمز سے جو موقف حا صل کرتے ہیں، وہ درست نہیں۔ درست موقف صرف وہ جاری کر سکتے ہیں۔ اس طرح میں سمجھتا ہوں، اگر وہ تحریک انصاف کے باقاعدہ ترجمان ہیں تو ان کا یہ کھلا خط تحریک انصاف کے باقاعدہ موقف کا عکاس ہے۔اس خط کا پہلا جملہ ہی دلچسپ ہے۔ وہ پاک فوج کے ترجمان کو مخاطب کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہم بھی اتنے ہی محب وطن پا کستانی ہیں، جتنے آپ ہیں۔
اب اگر تحریک انصاف کی یہ پالیسی ہے تو پھرلڑائی ختم ہوجاتی۔ لڑائی تو شروع ہی تب ہوئی جب پی ٹی آئی نے لوگوں کو میر جعفر، میر صادق اور جانور قرار دینا شروع کر دیا۔ پہلے جنرل باجوہ کے دور میں میر جعفر اور میر صادق کی ٹرم استعمال کی گئی۔ اب این ڈی یو کی نیشنل سیکیورٹی ورکشاپ میں شرکت کرنے والے اپنے ہی لوگوں کو میر جعفر اور میر صادق قرار دے دیا ۔ سوال یہ ہے کہ اگر سب محب وطن ہیں تو پھر میر جعفر اور میر صادق کہاں سے آگئے۔ میں نے پورا خط پڑھا ہے۔ اس میں اس سوال کا جواب کہیں موجود نہیں تھا۔
تحریک انصاف اپنے مخالفین کو ملک دشمن اور دیگر القاب دینے میں ماہر ہے۔ لیکن اب جب ان کے لیڈر کو نیشنل سیکیورٹی تھریٹ قرار دیا گیا ہے، ان پر بھارتی پراپیگنڈا آگے بڑھانے کا الزام لگایا گیا ہے۔ تو انھیں فوری یاد آگیا ہے کہ وہ بھی محب وطن ہیں اور اسٹیبلشمنٹ بھی محب وطن ہے۔ اس کو کہتے ہیں، بدلتا ہے رنگ آسمان کیسے کیسے۔ کل تک نیوٹرل کو جانور قرار دینے والے آج اداروں سے نیوٹرل ہونے کی فریاد کر رہے ہیں۔ اس کو کہتے ہیں مکافات عمل ۔
شیخ وقاص اکرم اس خط میں مزید لکھتے ہیں کہ کیا کوئی پاکستانی یا کوئی سیاسی جماعت یہ سوچ بھی سکتی ہے کہ اس کا بیانیہ وطن عزیز کے خلاف ہو۔ یہ اچھی بات ہے لیکن پھر بھارتی میڈیا کو انٹرویو دینے کا پلان کس کا تھا؟ یہ بھی بتا دیں۔
پاکستان کے دشمن کی گود میں بیٹھ کر پاکستان کے خلاف باتیں کرنے کا منصوبہ کس کا تھا؟ تحریک انصاف کا سوشل میڈیا اور بھارتی میڈیا ، پاک فوج کے خلاف یک زبان کیسے ہیں؟ بھارتی میڈیا اور تحریک انصاف کا سوشل میڈیاکورس کی شکل میں پاک فوج کے خلاف پراپیگنڈا کیسے کرتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں پاکستان کی ہر سیاسی جماعت کی پالیسی یہی ہونی چاہیے جو اس خط میں بیان کی گئی ہے لیکن پالیسی پر عمل ہوتا بھی نظر آنا چاہیے۔
بھارتی میڈیا پر جا کر پاک فوج کی قیادت کے خلاف انٹرویوز کوکہاں لے جائیں؟ اس کو کس کوڑے دان میں پھینکیں، یہ بھی بتا دیا جائے۔ اگر اس خط میں اس کی بھی مذمت کی جاتی، اس سے لاتعلقی کا اعلان کیا جاتا تو زیادہ بہتر ہوتا اور خط زیادہ پر اثر ہوتا۔ خط میں لکھا گیا ہے کہ اگر تحریک انصاف سے پاکستان کو جدا کر دیا جائے تو ہم کچھ نہیں رہتے۔ اس سے ثابت ہوا کہ پاکستان ہی ہماری اصل پہچان اور شان ہے۔
پاکستان ہے تو سیاسی جماعتوں کی سیاست ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ افوج پاکستان سے پاکستان کو الگ کر دیا جائے تو پاکستان کی شان باقی نہیں رہتی تو پھر فوج کے خلاف پراپیگنڈا کیوں؟ پھر فوجی قیادت کے خلاف پراپیگنڈا کیوں؟۔ جب مودی کے جذبات اور بانی تحریک انصاف کے جذبات ایک ہو جائیں تو کیا کریں۔ جب جے شنکر اور تحریک انصاف ایک زبان بولیں تو کیا کہیں۔ یہ بھی تو سمجھا دیں۔ بھارتی میڈیا کو تو پاک فوج سے دشمنی سمجھ آتی ہے، سوال یہ ہے کہ آپ اس کا ایندھن کیوں بن رہے ہیں۔
میں شیخ وقاص اکرم کے خط کو عمومی طور پر ایک مثبت خط سمجھتا ہوں۔ حالانکہ میں انھیں ایک بے اختیار ترجمان سمجھتا ہوں۔کیونکہ تحریک انصاف کا سوشل میڈیا انھیں بھی بہت کچھ کہتا ہے۔ آجکل ان کے خلاف بھی سوشل میڈیا مہم چل رہی ہے۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ یہ خط انھوں نے ذاتی حیثیت میں نہیں لکھا ہوگا۔ اسے تحریک انصاف پاکستان کی پارٹی پالیسی قرار دیا جا سکتا ہے۔ لیکن یہ خط بانی تحریک انصاف کی پالیسی نہیں قرار دیا جا سکتا۔ مجھے قوی امید ہے کہ اس خط کی شکائت بھی بانی تحریک انصاف کو پہنچائی جائے گی، پھر خطرہ ہے کہیں شیخ وقاص اکرم کو بھی این ڈی یو کی ورکشاپ میں شرکت کرنے والوں کی صف میں شامل قرار نہ دے دیا جائے۔