مقاومتی محاذ، قابل فخر میراث
اشاعت کی تاریخ: 27th, October 2025 GMT
اسلام ٹائمز: اسلامی جمہوریہ نے کئی دہائیوں میں استعمار طاقتوں کیخلاف ایک منظم بارعب نظام تشکیل دیا ہے، جو تزویراتی خودمختاری اور علاقائی مزاحمتی اتحادات پر مبنی ہے۔ ایران کے بیلسٹک میزائل پروگرام اور پرامن جوہری توانائی کے منصوبے، جو بین الاقوامی قانون کے مطابق ہیں، اسی دفاعی نظریے کے ستون ہیں۔ اکتوبر 2023 کے بعد فلسطینی مزاحمتی تحریک کے تناظر میں، ایران نے اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر صہیونی دشمن کے خلاف کئی محاذ کھولے، جس سے غزہ پر دباؤ کم ہوا اور مزاحمت کا اتحاد مستحکم ہوا۔ تحریر: عارف حسین علی جانی
(بین الاقوامی تعلقات میں پی ایچ ریسرچ کر رہے ہیں)
ایران نے اپنی میراث کیسے محفوظ کی ہے اور تہران کا تزویراتی عزم کیسے ایک بارعب قوت کے طور علاقائی قیادت کے نئے دور کا آغآز ہے؟ ذیل کے نکات سے اس کی وضاحت ہوتی ہے۔
۱.
اسلامی جمہوریہ ایران نے ایک مرتبہ پھر اپنی خودمختاری کا کامیاب دفاع کیا ہے، جب 12 جون کو صہیونی ریاست کے غیرقانونی اور اشتعال انگیز حملوں نے ایرانی ڈھانچے کو نشانہ بنانے کی کوشش کی۔ یہ حملے ایرانی قوم اور اس کے انقلابی محافظوں کا حوصلہ توڑنے کے اپنے بنیادی مقصد میں ناکام رہے۔ رہبر معظم انقلاب اسلامی آیت اللہ سید علی خامنہای، بدستور امت مسلمہ کی مزاحمتی قیادت کے محور ہیں۔ ایرانی مسلح افواج کے سربراہ جنرل محمد باقری اور سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے کمانڈر جنرل حسین سلامی کی شہادت نے قوم کے حوصلے اور اتحاد کو مزید مستحکم کیا۔
۲. بارعب تزویراتی نظام کی تعمیر:
اسلامی جمہوریہ نے کئی دہائیوں میں استعمار طاقتوں کیخلاف ایک منظم بارعب نظام تشکیل دیا ہے، جو تزویراتی خودمختاری اور علاقائی مزاحمتی اتحادات پر مبنی ہے۔ ایران کے بیلسٹک میزائل پروگرام اور پرامن جوہری توانائی کے منصوبے، جو بین الاقوامی قانون کے مطابق ہیں، اسی دفاعی نظریے کے ستون ہیں۔ اکتوبر 2023 کے بعد فلسطینی مزاحمتی تحریک کے تناظر میں، ایران نے اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر صہیونی دشمن کے خلاف کئی محاذ کھولے، جس سے غزہ پر دباؤ کم ہوا اور مزاحمت کا اتحاد مستحکم ہوا۔
۳. مزاحمتی اتحاد کی ساخت
۱۹۷۹ کے انقلاب اسلامی کے بعد سے ایران نے ہم فکر عوامی مزاحمتی تحریکوں کے ساتھ دیرپا تعلقات استوار کیے، جیسے حماس (فلسطین)، حزباللہ (لبنان)، انصاراللہ (یمن)، الحشد الشعبی (عراق) اور بشار الاسد حکومت کے ساتھ اسٹریٹجک اتحاد۔ ایران ان گروہوں کو "پراکسیز" نہیں بلکہ برابر کے اتحادی سمجھتا ہے جو آزادی اور وقار کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ یہ نیٹ ورک ایران کو تزویراتی گہرائی اور بارعب قوت فراہم کرتا ہے۔
۴. صبرِ تزویراتی (Strategic Patience)
ایران نے امریکی اقتصادی جنگ (2018–2023) کے باوجود صبر اور استقلال کے ساتھ اپنی طاقت قائم رکھی۔ جوہری معاہدہ (JCPOA) کی یکطرفہ امریکی خلافورزی کے بعد بھی ایران نے قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے مزاحمت کی۔ 2023 تک، ایران نہ صرف پابندیوں سے نکل آیا بلکہ سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کی بحالی نے ایک نئے دور کا آغاز کیا۔ اسی عرصے میں، مزاحمتی محور نے صہیونی جارحیت کو روکنے کی عملی صلاحیت حاصل کی۔
۵. براہِ راست مزاحمت اور میزائل حملے (2024)
ایران کے دو تاریخی میزائل حملے اپریل اور اکتوبر 2024 ایران کی براہِ راست دفاعی صلاحیت اور عزم کا مظہر تھے۔ ان حملوں نے "اسرائیل کے ناقابلِ تسخیر" ہونے کے تصور کو توڑ دیا اور نیا سرخ خط (Red Line) قائم کیا۔ دنیا کو پیغام دیا گیا کہ ایران پر کسی بھی حملے کا جواب براہِ راست اور بھرپور ہوگا۔
۶. شہداء کی میراث اور قومی استقامت
جنرل حسین سلامی کے الفاظ آج حقیقت بن چکے ہیں: "جو قوم مزاحمت کا پرچم بلند کرے، اسے کوئی شکست نہیں دے سکتا۔" ایرانی عوام اور سپاہ پاسداران نے اپنے شہداء کے خون کو تحریکِ مزاحمت کی نئی توانائی میں بدل دیا۔ ایران کے دفاعی نظام، ایئر ڈیفنس اور میزائل صلاحیتیں محفوظ اور فعال ہیں، اور جوہری پروگرام بدستور پرامن راستے پر جاری ہے۔
۷. خودانحصاری اور مزاحمتی قیادت
ایران کی دفاعی حکمتِ عملی: قومی خودمختاری پر سمجھوتہ نہیں؛ دفاعی پروگرام ناقابلِ گفتوگو؛ مظلوم اقوام (خصوصاً فلسطین) کی حمایت اصولی پالیسی۔ ایران نے واضح کیا ہے کہ جوہری اور میزائل سرگرمیاں اس کے خودمختار حقوق کا حصہ ہیں، اور مزاحمتی بلاک، محورِ مقاومت اب علاقائی توازن کا ضامن ہے۔
۸. نتیجہ
ایران کی تزویراتی استقلال، بازدار صلاحیت، اور مزاحمتی اتحاد نے اسے خطے میں ایک فیصلہ ساز طاقت بنا دیا ہے۔ صہیونی ریاست کے حالیہ حملے دراصل اس کے خوف اور کمزوری کی علامت ہیں۔ ایران آج خودمختار، متحد، اور مضبوط ہے اور اس کی مزاحمتی میراث آنے والے عشروں تک محفوظ و مستحکم رہے گی۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: مزاحمتی اتحاد اور مزاحمت ایران کے ایران نے کے ساتھ کے بعد
پڑھیں:
اسرائیل نے قبرص میں فضائی دفاعی نظام تعینات کر دیا
رپورٹ کے ایک اور حصے میں کہا گیا ہے کہ ماہرین کے مطابق یہ اقدام دراصل ایران اور اسرائیل کی حالیہ جنگ کے بعد خطے میں طاقت کے توازن کے ایک نئے مرحلے کا آغاز ہے، اس جنگ میں تل ابیب کو میزائل حملوں کے محاذ پر بھاری نقصان اٹھانا پڑا تھا، اور اب ترکیہ بھی اس جغرافیائی کشمکش کے دائرے میں آ گیا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ عبرانی زبان کے میڈیا آوٹ لیٹ نے خبر دی ہے کہ اسرائیلی فوج نے اپنا فضائی دفاعی نظام قبرص میں نصب کر دیا ہے۔ خبر رساں ویب سائٹ روتر نٹ نے ذرائع کے حوالے سے بتایا کہ اسرائیل نے اپنے باراک ایم ایکس نامی جدید فضائی دفاعی نظام قبرص میں تعینات کر دیے ہیں، جن کی حدِ پرواز تقریباً 400 کلومیٹر تک ہے۔ یہ نظام ڈرونز، جنگی طیاروں اور کروز میزائلوں کو روکنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، اور یوں یہ اسرائیل کے ابتدائی وارننگ اور انٹیلیجنس نیٹ ورک کا حصہ بن کر مشرقی بحیرہ روم میں اس کی دفاعی موجودگی کو مزید مضبوط بنا دیتے ہیں۔
اسی کے ساتھ تل ابیب اور ایتھنز کے درمیان فوجی تعاون بھی اسٹریٹیجک سطح تک بڑھ جائیگا، جس کا مقصد ترکیہ کو مشرق اور مغرب دونوں سمتوں سے گھیرنا ہو سکتا ہے۔ رپورٹ کے ایک اور حصے میں کہا گیا ہے کہ ماہرین کے مطابق یہ اقدام دراصل ایران اور اسرائیل کی حالیہ جنگ کے بعد خطے میں طاقت کے توازن کے ایک نئے مرحلے کا آغاز ہے، اس جنگ میں تل ابیب کو میزائل حملوں کے محاذ پر بھاری نقصان اٹھانا پڑا تھا، اور اب ترکیہ بھی اس جغرافیائی کشمکش کے دائرے میں آ گیا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ قبرص، اپنے جدید دفاعی اور انٹیلیجنس نظاموں کے ذریعے، اسرائیل کے لیے ترکیہ پر دباؤ ڈالنے کا ایک نیا مرکز بن گیا ہے، کیونکہ انقرہ اب بھی ایک ایسی طاقتور ساخت رکھتا ہے جسے نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ اسی لیے اسرائیل، قبرص اور یونان کے ساتھ اپنے اتحاد کو مضبوط کر کے ترکی کے خلاف اپنے محاذوں کو وسعت دینے کی کوشش کر رہا ہے، جبکہ ترکی، اسرائیل کی وارننگز کے باوجود، شام اور غزہ میں اپنی موجودگی بڑھانے کی پالیسی پر قائم ہے۔