10 فیصد فری شپ کی آڈٹ کیلئے نجی اسکولوں کو خطوط جاری کردیے، رفیعہ ملاح
اشاعت کی تاریخ: 27th, October 2025 GMT
ڈائریکٹوریٹ آف انسپیکشن اینڈ رجسٹریشن آف پرائیویٹ انسٹیٹیوشنز کی ایڈیشنل ڈائریکٹر پروفیسر رفیعہ ملاح نے کہا ہے کہ صوبائی وزیر تعلیم سید سردار علی شاہ اور سیکریٹری تعلیم زاہد علی عباسی نے سختی سے احکامات جاری کیے ہیں کہ سندھ ہائی کورٹ سکھر بینچ کے فیصلے کی روشنی میں تمام نجی تعلیمی اداروں کی 10 فیصد فری شپ کی فراہمی کے ریکارڈ کا مکمل آڈٹ کیا جائے۔
چنانچہ پہلے مرحلہ میں سندھ بھر کے چھ ریجنز کے وہ تمام اسکولز جن کی ایک سے زائد شاخیں ہیں، انہیں ہائی کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں خطوط جاری کر دیے گئے ہیں۔
خطوط میں انہیں آگاہ کیا گیا ہے کہ ڈسٹرکٹ کمیٹیز ان اسکولوں کا 15 یوم کے اندر اندر دورہ کریں گی اور طلبہ کو ان کے اسکول میں کل تعداد کے دس فیصد فراہم کی گئی فری شپ کا مکمل آڈٹ کریں گی اور اس کی رپورٹ سندھ ہائی کورٹ سکھر بینچ میں جمع کروائیں گی۔
مزید برآں سندھ ہائی کورٹ سکھر بینچ نے ڈائریکٹوریٹ آف انسپیکشن اینڈ رجسٹریشن کو مورخہ 10 نومبر کو ریکارڈ کے ساتھ طلب کیا ہے۔ وہ اسکول جو 10 فیصد فری شپ کے فیصلے پر عملدرآمد نہیں کر رہے ان کی رجسٹریشن ہائی کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں منسوخ اور معطل کر دی جائے گی۔
اس کے ساتھ ساتھ وہ اسکولز جنہوں نے اپنی رجسٹریشن اور اس کی تجدید کے لیے درخواستیں جمع کروائی ہیں اور وہ 10 فیصد فری شپ کے قانون پر عملدرآمد نہیں کر رہے ان کے رجسٹریشن اور اس کی تجدید نہیں کی جائے گی۔
وہ اسکول جو دورہ اور آڈٹ کرنے والی کمیٹیوں سے تعاون نہیں کریں گے وہ اسکول تو ہین عدالت کے مرتکب ہوں گے۔ لہٰذا تمام اسکولز اپنا متعلقہ ریکارڈ تیار رکھیں اور کمیٹیوں کے دورہ کے وقت انہیں پیش کریں۔
دوسرے مرحلہ میں یہ کمیٹیاں سندھ بھر کے باقی تمام اسکولوں کا طلبہ کو 10 فیصد فری شپ کی فرہمی کا آڈٹ کریں گی، اس سلسلے میں ہائی کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں گائیڈ لائنز اور طریقہ کار اسکولوں کو ارسال کیا جا چکا ہے۔ خلاف ورزی کرنے والے اسکولوں کے خلاف سخت کاروائی عمل میں لائی جائے گی۔
.ذریعہ: Jang News
کلیدی لفظ: کے فیصلے کی روشنی میں فیصد فری شپ ہائی کورٹ وہ اسکول
پڑھیں:
عورت کی رضامندی کے بغیر عدالت خلع نہیں دے سکتی: سپریم کورٹ نے اہم فیصلہ سنا دیا
سپریم کورٹ نے پشاور ہائی کورٹ اور فیملی کورٹ کے فیصلے کالعدم قرار دیتے ہوئے فیصلے میں کہا ہے کہ عورت کی مرضی کے بغیر عدالت نکاح ختم نہیں کر سکتی۔ جسٹس عائشہ ملک نے 17 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ تحریر کیا۔
سپریم کورٹ آف پاکستان نے عورت کا نکاح ختم کرنے کے حق سے متعلق اہم فیصلہ سنا دیا، 17 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلے میں ظلم، خلع اور عورت کے حقوق سے متعلق اہم نکات بیان کیے گئے۔
فیصلے میں کہا گیا کہ نفسیاتی اذیت بھی جسمانی تشدد جتنی سنگین ہے، اور عدالتوں کو خواتین سے متعلق فیصلوں میں محتاط زبان استعمال کرنی چاہیے۔
عدالت نے قرار دیا کہ ظلم صرف جسمانی تشدد تک محدود نہیں بلکہ وہ طرزِ عمل بھی ظلم کے زمرے میں آتا ہے جو عورت کو ذہنی یا جذباتی اذیت پہنچائے اور اس کے لیے عزت و سلامتی کے ساتھ گھر میں رہنا ناممکن بنا دے۔
فیصلے کے مطابق ظلم میں گالم گلوچ، جھوٹے الزامات اور ذہنی اذیت دینا بھی شامل ہے، جبکہ جسمانی زخم ظلم کے لیے ضروری شرط نہیں۔ اگر ازدواجی زندگی اس حد تک بگڑ جائے کہ عورت کے لیے نکاح میں رہنا ممکن نہ رہے تو یہ بھی ظلم تصور کیا جائے گا۔
سپریم کورٹ نے فیصلے میں یہ بھی کہا کہ عدالتوں کو قانون میں دی گئی مثالوں سے رہنمائی حاصل کرنی چاہیے، تاہم ظلم کی صورتیں صرف انہی تک محدود نہیں۔ عدالت نے واضح کیا کہ اقوامِ متحدہ اور بین الاقوامی انسانی حقوق کے معاہدے بھی گھریلو تشدد کے خلاف تحفظ فراہم کرتے ہیں۔
عدالتی فیصلے کے مطابق فیملی کورٹ، ایپلٹ کورٹ اور پشاور ہائی کورٹ کے خلا، مہر اور نان و نفقہ سے متعلق فیصلے کالعدم قرار دیے گئے۔ عدالت نے قرار دیا کہ چونکہ شوہر نے دوسری شادی کی تھی، اس لیے بیوی کو اپنا مہر واپس کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی۔
یہ فیصلہ مئی 2024 کے پشاور ہائی کورٹ کے اس حکم کے خلاف دیا گیا جس میں خاتون کی رِٹ مسترد کر دی گئی تھی۔ عدالت نے خاتون کے وکیل کا مؤقف تسلیم کیا کہ فیملی کورٹ نے اس کی مؤکلہ کے دلائل اور رضامندی کو نظر انداز کرتے ہوئے خلع کا حکم دے دیا تھا۔