سرکردہ کاروباری شخصیات نے شرح سود برقرار رکھنے کے فیصلے کو ترقی مخالف قرار دیدیا
اشاعت کی تاریخ: 28th, October 2025 GMT
غیر ملکی سرمایہ کاروں کے سوا پاکستان کی کاروباری برادری نے پیر کو اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) کے شرحِ سود کو 11 فیصد پر برقرار رکھنے کے فیصلے کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا، اس اقدام کو ’ترقی مخالف‘ اور صنعتی مسابقت کے لیے نقصان دہ قرار دیا۔
نجی اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق تجارت اور صنعت کی سرکردہ شخصیات طویل عرصے سے مرکزی بینک سے مطالبہ کر رہی ہیں کہ شرحِ سود کو سنگل ڈیجٹ (10 فیصد سے کم) پر لایا جائے تاکہ صنعتی سرگرمی بحال ہو اور برآمدات میں اضافہ ممکن ہو، تاہم اسٹیٹ بینک کی مانیٹری پالیسی کمیٹی نے محتاط رویہ اپنایا اور عالمی اشیا کی غیر مستحکم قیمتوں، تجارتی کشیدگی اور ملکی سپلائی چین میں رکاوٹوں کو معاشی خطرات کے طور پر پیش کیا۔
اوورسیز انویسٹرز چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے چیف ایگزیکٹو اور سیکریٹری جنرل ایم عبدالعلیم نے اسٹیٹ بینک کے فیصلے کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ ’درآمدات تیزی سے بڑھ رہی ہیں جبکہ برآمدات دباؤ کا شکار ہیں، ہمیں اس مرحلے پر شرح میں کمی کی کوئی گنجائش نظر نہیں آتی تھی، اس لیے استحکام برقرار رکھنا ایک دانشمندانہ فیصلہ ہے‘۔
اس کے برعکس فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری (ایف پی سی سی آئی) کے صدر عاطف اکرام شیخ نے کہا کہ ستمبر کی 5.
انہوں نے کہا کہ شرح سود میں کمی نہ صرف ترقی کو تیز کرے گی بلکہ حکومت کے قرضوں کا بوجھ تقریباً 3.5 کھرب روپے کم کر دے گی، جو مالیاتی دباؤ میں بڑی کمی لائے گی۔
ایف پی سی سی آئی کے سینئر نائب صدر ثاقب فیاض مگوں نے کہا کہ سنگل ڈیجٹ شرحِ سود پیداواری لاگت کم کرے گی، اشیا کو سستا بنائے گی اور مہنگائی کو قابو میں رکھنے میں مدد دے گی، انہوں نے خبردار کیا کہ بلند شرحِ سود مالی رسائی کو محدود کرتی ہے اور ترقی کی رفتار سست کر دیتی ہے۔
کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر محمد ریحان حنیف نے کہا کہ معمولی سی کمی بھی مثبت اشارہ ثابت ہوتی، اگر شرح کو 9 فیصد تک لانا ممکن نہیں تھا تو کم از کم 10 فیصد تک کمی کی جا سکتی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومت کے قرضے اب بھی بلند سطح پر ہیں جبکہ نجی شعبے کو قرضوں کی فراہمی محدود ہے، شرح سود 22 فیصد کی تاریخی بلند سطح سے کم ہونے کے باوجود 11 فیصد کی موجودہ شرح کاروباروں کے لیے بوجھ بنی ہوئی ہے۔
محمد ریحان حنیف نے خبردار کیا کہ صنعتیں پہلے ہی توانائی اور گیس کے تاریخی بلند نرخوں سے نبرد آزما ہیں، اگر حکومت واقعی صنعتی سرگرمیوں کو بحال کرنا، روزگار کے مواقع پیدا کرنا اور برآمدات بڑھانا چاہتی ہے تو اسے فوری طور پر شرحِ سود اور یوٹیلیٹی اخراجات دونوں کم کرنے ہوں گے۔
کورنگی ایسوسی ایشن آف ٹریڈ اینڈ انڈسٹری (کاٹی) کے صدر محمد اکرام راجپوت نے کہا کہ بلند شرحِ سود نے چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباروں کے لیے قرض حاصل کرنا تقریباً ناممکن بنا دیا ہے، جس سے پیداوار، برآمدات اور روزگار پر منفی اثر پڑ رہا ہے۔
انہوں نے خبردار کیا کہ ’اگر پالیسی سازوں نے صنعت کے خدشات کو نظر انداز کیا تو بحالی مزید مشکل ہو جائے گی‘۔
سائٹ ایسوسی ایشن آف انڈسٹری کے صدر احمد عظیم علوی نے کہا کہ وزیر اعظم کی معیشت کو صنعتی مراعات کے ذریعے بحال کرنے کی کوششوں کو نقصان پہنچایا جا رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’یہ مسلسل چوتھی بار ہے کہ شرحِ سود میں کمی نہیں کی گئی، جو وزیر اعظم کے معاشی وژن سے متصادم ہے‘۔
پاکستان کیمیکلز اینڈ ڈائیز مرچنٹس ایسوسی ایشن نے کہا کہ سستی مالیاتی سہولت کے بغیر پائیدار ترقی اور سرمایہ کاری کی بحالی ممکن نہیں۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: اینڈ انڈسٹری نے کہا کہ انہوں نے کے صدر
پڑھیں:
اسٹیٹ بینک کا مسلسل چوتھی بار شرح سود 11 فیصد پر برقرار رکھنے کا فیصلہ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کراچی: اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے مالیاتی پالیسی کے تازہ ترین اعلان میں شرح سود کو 11 فیصد کی موجودہ سطح پر برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ مرکزی بینک کے مطابق موجودہ معاشی حالات، مہنگائی کے دباؤ اور مالیاتی استحکام کے پیش نظر شرح سود میں کسی تبدیلی کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔
یہ اسٹیٹ بینک کی مانیٹری پالیسی کمیٹی کا چوتھا مسلسل اجلاس تھا جس میں شرح سود کو برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا گیا۔ کمیٹی نے کہا کہ اگرچہ ملک میں مہنگائی کی شرح بتدریج کمی کی جانب گامزن ہے، تاہم معاشی استحکام کو مزید مضبوط بنانے کے لیے محتاط مالیاتی پالیسی برقرار رکھنا ضروری ہے۔
مرکزی بینک نے واضح کیا کہ مستقبل میں شرح سود کا تعین مہنگائی کے رجحان، مالیاتی نظم و ضبط، اور بیرونی کھاتوں کی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا جائے گا۔ یاد رہے کہ اسٹیٹ بینک نے رواں سال 5 مئی کو ہونے والے اجلاس میں شرح سود میں ایک فیصد کمی کرتے ہوئے اسے 12 فیصد سے کم کر کے 11 فیصد مقرر کیا تھا، جو اب بھی برقرار ہے۔