Jasarat News:
2025-11-06@22:50:57 GMT

ای چالان اور ہیروئنچیوں کی غیرت قومی

اشاعت کی تاریخ: 6th, November 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

صاحبو! اہل کراچی پر وہ افتاد پڑی ہے کہ سمجھ میں نہیں آتا دل کو روئیں یا جگر کو پیٹیں۔ اگر آپ کراچی کے شہری ہیں، کراچی کی ٹوٹی پھوٹی سڑکوں پر گڑھوں میں گرنے سے بچ بچاکر ڈرائیونگ کرتے رہتے ہیں تو ناممکن ہے آپ کا چالان نہ ہوتا ہو۔ معمول کی بات ہے، لیکن اب اس معمول کی بات کو بھی طوفان آشنا کردیا گیا ہے۔ اس طوفان کا نام ہے، ای چالان۔ وہ لونڈے جن کا نام درخت کے تنوں پر دوسرے لونڈے چاقو کی نوک سے کھودتے تھے، منسٹر بنیں گے تو ایسی ہی حرمزدگیاں جنم لیں گی۔ ورنہ چالان کا کیا ہے لوگ بھر ہی دیتے ہیں۔ یہ خارجی معاملات میں حکومت سندھ کی کرپشن کی وارداتوں میں سے ایک واردات تھی۔ اہل خانہ کو اپنی محرومیوں اور گھور گھٹن کے جس سبب کا کم ہی علم ہوتا تھا۔ لیکن اب اس سبب، گھروں میں وہ ہنگامے ہیں کہ اللہ کی پناہ۔

کئی دن پہلے ایک دوست کو گھر پر ای چالان موصول ہوا، ان کی بیگم دوفٹ اوپر اچھل گئیں۔ چالان کے ساتھ چار تصاویر بھی تھیں کہ آپ نے قانون کی خلاف ورزی کی ہے جس کا تصویری ثبوت مع آپ کی تصویر، وقت اور موٹر سائیکل کی نمبر پلیٹ ساتھ ہے۔ یہاں تک تو خیر تھی کہ چلیں کوئی بات نہیں ڈرائیونگ کے دوران غلطی ہو ہی جاتی ہے، چالان جمع کروادوں گا لیکن گھر میں برپا طوفان تھا کہ کسی صورت تھمنے میں نہیں آرہا تھا۔ وہ جو چار تصاویر تھیں بہت واضح تھیں۔ بیگم تیز سے تیز تر ہوتی جارہی تھیں کہ تصویر میں یہ جو کلموہی تمہارے پیچھے بیٹھی ہے یہ کون ہے؟ اور اگر راہ چلتی خاتون تھی، آپ نے ازراہ ہمدردی لفٹ دی تھی تو اس قدر چپک کر کیوں بیٹھی ہے؟

صاحبو ! دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے آپ اکیلے موٹر سائیکل چلارہے ہوں، پچھلی سیٹ خوش نصیبی سے خالی ہو۔ اس پر بیگم نہ بیٹھی ہو۔ اللہ سب کی عزت آبروسلامت رکھے، سرراہ کوئی نازنین لفٹ دینے کا اشارہ کررہی ہو تو کون ظالم ہے جو لفٹ نہ دینے کے گناہ کا ارتکاب کرسکے۔ شادی کی چخ چخ میں بندہ کتنا ہی مبتلا ہو، معاشرے اور بیگم کی فیوڈل عہد کی روایت کتنی ہی قوی ہو، لفٹ دینے کی خواہش مچل ہی جاتی ہے۔ پھر ایک اطمینان یہ بھی رہتا تھا کہ اس ’’نیک چلنی‘‘ اور ’’اخوۃ اسلامی‘‘ کا کوئی چالان تو ہوتا نہیں، غالب نے بھی کہا تھا ’’مفت ہاتھ آئے تو برا کیا ہے‘‘ لیکن برا ہو سیف سٹی والوں کا چالان کے ساتھ شہریوں کی ’’زندگیاں‘‘ خطرے میں ڈال دیں۔ ہر ایک کی بیوی کا نشانہ خطا ہوجائے، ایسا کہاں ہوتا ہے؟

حکومت اب تک شہریوں کے رنگ ڈھنگ ’’ننگی آنکھ‘‘ سے دیکھتی آئی تھی اب ای چالان کے نام پر گلی گلی کیمروں کی ذلالت نصب کردی گئی ہے۔ ٹریفک پولیس کو رشوت دینے میں بھائو تائو کا لطف بھی جاتا رہا۔ پھر ٹریفک پولیس کا افسر ابتدا میں خواہ کتنی ہی سختی دکھاتا ہو آخر میں ریشم ہو ہی جاتا تھا کیونکہ وہ بھی اسی شہر کا باسی ہے۔ جانتا ہے کہ اس ٹوٹی پھوٹی موٹر سائیکل پر جو شخص اپنا پتّا نکلوائے بیٹھا ہے اس کی جیب میں کتنے پیسے ہوں گے، کتنے دے سکتا ہے اور اس کے گھر میں ہانڈی پر کیا چڑھا ہوا ہوگا؟ کیمرے کی ٹھنڈی مشین میں شہریوں کے وزن وعروض کو جانچنے کی یہ گنجائش کہاں؟ ہائے، حضرت جگر الہ آبادی نے کیا ہی خوب کہا ہے:

آنا ہے جو بزم جاناں میں پندارخودی کو توڑ کے آ

اے ہوش وخرد کے دیوانے یاں ہوش وخرد کا کام نہیں

ہمارے اقتدار کے دیوانے جب ہوش وخرد کا مظاہرہ کرنے کا سوچتے ہیں تو اس کا حاصل بجز مغرب کی نقالی، کچھ نہیں ہوتا۔ وہی عوام بوقت الیکشن جو بزم جاناں کی طرح عزیز تھے اقتدار میں آکر کرپشن کرنے اور دولت بٹورنے کے لیے ان پر قوانین کا اس طرح لاٹھی چارج کیا جاتا ہے گویا دل پر پتھر نہیں پہاڑ رکھا ہے۔ ای چالان کی مد میں جن بڑی بڑی رقوم کا ذکر کیا جارہا ہے معلوم نہیں کتنی درست اور کتنی غلط ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ کراچی کے باب میں سندھ حکومت کی زیادتی کی ہر خبر آخر میں درست ہی نکلتی ہے۔ کراچی دشمنی سندھ حکومت کو موروثی امراض کی طرح ورثے میں ملی ہے۔

مغرب کی نقالی میں جو نظام رائج کیا جارہا ہے وہ گونگے کا لذت عشق بیان کرنا ہے۔ وہاں کیمرہ انصاف کے لیے لگایا جاتا ہے آمدنی کے لیے نہیں۔ مغرب میں ای چالان تب ہوتے ہیں جب حکومت سڑکوں پر پہلے مکمل سہولتیں فراہم کرتی ہے۔ ہر شہر حتیٰ کہ چھوٹے قصبوں تک کی سڑکیں ہموار کشادہ اور باقاعدہ مرمت شدہ ہوتی ہیں۔ گڑھوں اور ٹوٹی پھوٹی سڑکوں پر بھاری جرمانے عوام کو نہیں انتظامیہ کو ہوتے ہیں۔ ہر چند گز کے فاصلے پر واضح، روشن اور خود کار اشارے نصب ہوتے ہیں۔ ہر مارکیٹ، اسپتال اور اسکول کے قریب باقاعدہ پارکنگ ایریاز ہوتے ہیں اس کے بعد غلط پارکنگ پر چالان ہوتے ہیں۔ ای چالان پر اعتراض ہو تو آن لائن اپیل کا حق بھی دیا جاتا ہے۔ وہاں شہری کو احترام سے مخاطب کیا جاتا ہے۔ رشوت اور اختیار کا غلط استعمال تقریباً نا ممکن ہوتا ہے۔

ذکر کرتی تھی ہر جگہ تیرا

میں نے خوشبو کے کان کھینچے ہیں

اب سوال یہ ہے کہ سندھ حکومت کے کان کون کھینچے۔ کون اس فیصلے کو واپس لینے پر مجبور یا بے اثر کرے۔ کون ہے جو افتاد کی اس گھڑی میں اہل کراچی کے کام آسکے؟؟ جواب ہے وہ لوگ جو زندگی کو برداشت نہ کرسکے اور مرنے سے ڈرگئے۔ ایک بار مرنے کے خوف میں جو روز روز، کئی کئی بار مرتے ہیں۔ زہر کا مقابلہ زہر سے کرتے ہیں۔ حکومت کے اس ٹیکے کا توڑ وہی نکال سکتے جن کی زندگی کی تگ ودو ہی اگلے ٹیکے کی دستیابی کی کوشش تک محدود ہو۔ جن کے جاگتے لمحے سڑکوں کے کونوں کھدروں میں، نالوں میں اور اندھیرے سرنجوں میں ڈوبے ہوتے ہیں۔ زندگی جن سے بہت پہلے بھاگ گئی تھی اب ان کے پاس صرف بدن ہے جو نسوں میں نشہ اترنے کے کچھ دیر بعد تک انہیں زندہ محسوس ہوتا ہے۔ زوال پذیر معاشرتی المیے کا مقابلہ زوال پزیر طبقہ ہی کرسکتا ہے۔

تو اے پیارے ہیروئنچیوں اب تم اہل کراچی کی آخری امید ہو۔ یاد کرو وہ وقت جب تم نے لوہے کے سریوںکے لیے کراچی کے گٹروں کے ڈھکن اکھاڑ ڈالے اور کراچی والوں نے تمہیں کچھ نہیں کہا، تم نے کھمبوں سے اُتار کر پیتل کے تار بیچ ڈالے اہل کراچی نے منہ دوسری طرف کیے رکھا، تم نے پڑیا کے عوض گھر کی چیزیں بیچ ڈالیں، ماں کا زیور بیچ دیا، بہن کا جہیز اور باپ کے رکشے کے پارٹس اونے پونے میں فروخت کردیے کسی نے کسی بھی تھانے میں تمہاری ایف آئی آردرج نہیں کروائی، تمہیں پکڑ کر تھانے میں بند نہیں کروایا۔ آگے بڑھو اور مشکل کی اس گھڑی میں اپنے بھائیوں کی مدد کرو۔ اب چالان کرنے والے کیمرے تمہاری آزمائش ہیں۔ دکھادو کہ بڑا چور کون ہے؟ اہل کراچی کو دن دھاڑے لوٹنے والا یہ نظام یا پائوڈر پینے والا ہیروئنچی جس کے دل میں اہل کراچی کے لیے کچھ تو کرنے کا جذبہ ہے۔ جا بجا لگے ہوئے یہ کیمرے ہیروئنچیوں کی غیرت قومی کا امتحان ہیں۔

 

بابا الف.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: اہل کراچی ہوتے ہیں کراچی کے جاتا ہے کے لیے

پڑھیں:

افسوس ہوتا ہے جو حکومت قربانی دے کر بنائی، وہی ہمارے مقدمات میں جواب جمع نہیں کر رہی: شیر افضل مروت

---فائل فوٹو 

رکنِ قومی اسمبلی شیر افضل مروت نے کہا ہے کہ افسوس ہوتا ہے جو حکومت ہم نے قربانی دے کر قائم کی تھی، وہی ہمارے مقدمات میں جواب جمع نہیں کر رہی۔

پشاور میں میڈیا سے گفتگو کے دوران شیر افضل مروت نے کہا کہ میرے خلاف صوبائی حکومت کے مقدمات ہیں، دو سال سے عدالتوں کے چکر لگا رہا ہوں۔

شیر افضل مروت کا کہنا ہے کہ اِن جعلی مقدمات سے ڈرتا نہیں ہوں، مجھ پر 9 مئی کا کوئی مقدمہ نہیں، سارے مقدمات اس کے بعد کے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ امن و امان سے متعلق صوبائی حکومت کا جرگہ اچھی کاوش ہے، جرگے سے صوبے کی عوام اور حکومت کا مؤقف سامنے آجائے گا۔

متعلقہ مضامین

  • کوئی چھوٹا بڑا نہیں ہوتا، ہم سب انسان ہیں، امیتابھ بچن نے ایسا کیوں کہا؟
  • “ہر آغاز کا ایک انجام ہوتا ہے” رونالڈو نے ریٹائرمنٹ کا عندیہ دے دیا
  • افسوس ہوتا ہے جو حکومت قربانی دے کر بنائی، وہی ہمارے مقدمات میں جواب جمع نہیں کر رہی: شیر افضل مروت
  • جماعت اسلامی نے کراچی میں ای چالان کیخلاف سندھ ہائیکورٹ میں درخواست دائر کردی
  • 27ویں ترمیم کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، سب کو پتا ہے کون کروارہا ہے، حامد خان
  • کراچی؛ کرمنلز کو پکڑنے کیلئے کیمرے نہیں لگے مگر ای چالان کیلئے فوری نصب کیے گئے، حافظ نعیم الرحمان
  • کراچی میں کیمرے چالان کر سکتے ہیں، دندناتے مجرموں کو کیوں نہیں پکڑ سکتے؟ شہریوں کے سوالات
  • کراچی: ٹریکس نظام سے قبل اونرشپ کا مسئلہ  حل نہیں کیا گیا، چالان گاڑیوں کے سابق مالکان کو ملے گا
  • ہر ڈس آنر چیک فوجداری جرم نہیں ہوتا جب تک بدنیتی ثابت نہ ہو، لاہور ہائیکورٹ