صدر کے بعد وزیراعظم کو بھی فوجداری مقدمات سے استثنیٰ کی ترمیم کمیٹی میں پیش
اشاعت کی تاریخ: 8th, November 2025 GMT
فائل فوٹو
صدر کے بعد وزیراعظم کو بھی فوجداری مقدمات سے استثنیٰ کی ترمیم قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف میں پیش کر دی گئی۔
ذرائع کے مطابق ترمیم حکومتی ارکان سینیٹر انوشہ رحمان اور سینیٹر طاہر خلیل سندھو نے پیش کی، ترمیم کے تحت آئین کے آرٹیکل 248 میں صدر کے ساتھ لفظ وزیر اعظم بھی شامل کر لیا جائے گا۔
مجوزہ ترمیم میں کہا گیا ہے کہ ترمیم کی منظوری کے بعد وزیر اعظم کے خلاف بھی دوران مدت فوجداری مقدمات میں کارروائی نہیں ہو سکے گی۔
اس سے قبل وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے آئینی ترمیم کا بل سینیٹ میں پیش کیا جس کے بعد چیئرمین سینیٹ نے بل قائمہ کمیٹی قانون و انصاف کے سپرد کردیا تھا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ کمیٹیوں کے کل ہونے والے مشترکہ اجلاس میں بل پر شق وار ووٹنگ متوقع ہے۔
چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی کی زیرِ صدارت ہونے والے اجلاس میں وفاقی وزیرِ قانون اعظم نذیر تارڑ کا کہنا تھا آج معمول کی کارروائی معطل کر کے بل پیش کرلیتے ہیں جس پر چیئرمین سینیٹ نے معمول کی کارروائی معطل کردی۔
اعظم نذیر تارڑ کا کہنا تھا کہ پانچ چھ فیصد مقدمات کورٹ کا چالیس فیصد وقت لے جاتے تھے، طویل مشاورت کے بعد کہا کہ وفاقی عدالت قائم کی جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ دو تہائی اکثریت سے ترمیم پاس کریں گے تو آئین کا حصہ بنے گی، ایم کیو ایم کے دوست اپنی تجاویز کمیٹی کو دیں، ایم کیو ایم کی تجویز بلدیاتی حکومتوں کو زیادہ مالی اختیار دینے کی تھی، ایمل ولی نے کہا جہاں پختون بستے ہیں اس کام نام وہی رکھا جائے تو اس پر بھی بحث کرلیتے ہیں، بلوچستان عوامی پارٹی نے کہا کہ بلوچستان کی نشستیں بڑھائی جائیں۔
اس سے قبل آج وزیراعظم شہباز شریف نے آذربائیجان کے شہر باکو سے بذریعہ ویڈیو لنک وفاقی کابینہ کے اجلاس کی صدارت کی تھی، جس میں 27 ویں آئینی ترمیم کی منظوری دیدی گئی تھی۔
.ذریعہ: Jang News
پڑھیں:
سینیٹ میں 27ویں آئینی ترمیم پر بحث، مسودہ مشترکہ کمیٹی کے سپرد، اپوزیشن کا احتجاج
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد: وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے 27ویں آئینی ترمیم کا مسودہ سینیٹ میں پیش کر دیا جب کہ اس دوران ایوان اپوزیشن کے شور شرابے سے گونجتا رہا۔
چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی کی زیر صدارت اجلاس ڈیڑھ گھنٹے تاخیر سے شروع ہوا، جہاں وفاقی وزیر قانون نے آئینی ترمیم کا بل ایوان میں پیش کیا۔
وزیر قانون نے بتایا کہ وفاقی کابینہ پہلے ہی 27ویں آئینی ترمیم کی منظوری دے چکی ہے، جس کے بعد یہ بل مشاورت کے لیے مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کو بھیجا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ یہ مسودہ تمام سیاسی جماعتوں کی رائے شامل کر کے تیار کیا گیا ہے، جس میں ججز کے تبادلے کا اختیار ایگزیکٹو سے لے کر جوڈیشل کمیشن کو دینے کی تجویز دی گئی ہے جبکہ صوبائی کابینہ کے حجم میں اضافے کی شق بھی شامل ہے۔
اعظم نذیر تارڑ نے مزید کہا کہ چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کا عہدہ ختم کرنے اور آرمی چیف کو چیف آف ڈیفنس فورسز بنانے کی تجویز دی گئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ چیف آف آرمی اسٹاف کو حالیہ جنگ میں نمایاں خدمات پر فیلڈ مارشل کے رینک سے نوازا گیا، جو تاحیات اعزاز رہے گا۔ ان اعزازی عہدوں ،فیلڈ مارشل، مارشل آف دی ائیر فورس، اور فلیٹ مارشل کو ختم کرنے یا برقرار رکھنے کا اختیار پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کے پاس ہوگا۔
انہوں نے بتایا کہ 27 نومبر سے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کا عہدہ ختم ہو جائے گا جبکہ وزیراعظم، چیف آف آرمی اسٹاف کی مشاورت سے چیف آف نیشنل کمانڈ تعینات کریں گے۔ فیلڈ مارشل کا عہدہ واپس لینے کا اختیار بھی صدارتی مواخذے کے طرز پر پارلیمنٹ کو حاصل ہوگا۔
بل کی پیشکش کے بعد سینیٹ نے اسے مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کے سپرد کر دیا۔ کمیٹی کی صدارت سینیٹ اور قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹیوں کے چیئرمین مشترکہ طور پر کریں گے۔
دورانِ اجلاس اپوزیشن اراکین نے حکومت پر شدید تنقید کی۔ پی ٹی آئی کے سینیٹر علی ظفر نے کہا کہ پورے ایوان کو کمیٹی میں تبدیل کر دیا جائے تاکہ تمام اراکین مسودہ پڑھ سکیں۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ اپوزیشن کو دیوار سے نہ لگایا جائے۔
علامہ راجا ناصر عباس نے کہا کہ یہ ترامیم اتفاق رائے کے بغیر پیش کی گئی ہیں، جس سے ملک میں مزید تقسیم پیدا ہوگی۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں طاقتور کو قابو میں رکھنے کے لیے قانون ہونا چاہیے، نہ کہ ترامیم کے ذریعے “فرعون” بنائے جائیں۔
نائب وزیراعظم اسحاق ڈار نے وضاحت کی کہ قائد حزب اختلاف کی تقرری چیئرمین سینیٹ کا استحقاق ہے جبکہ ترامیم پر مفصل بحث کمیٹی میں کی جا سکتی ہے۔ اجلاس کے دوران اپوزیشن کا شور شرابہ جاری رہا۔