27ویں آئینی ترمیم پر سینیئرز وکلا اور ریٹائرڈ ججز کا چیف جسٹس پاکستان کو خط، اہم مطالبہ کر دیا
اشاعت کی تاریخ: 10th, November 2025 GMT
اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن)ستائیسیویں آئینی ترمیم کے معاملے پر سینیئر وکلا اور ریٹائرڈ ججز نے چیف جسٹس پاکستان کو خط لکھ دیا۔خط میں چیف جسٹس سے فل کورٹ میٹنگ بلانے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
نجی ٹی وی چینل ایکسپریس نیوز کے مطابق خط پر جسٹس (ر) مشیر عالم، مخدوم علی خان، منیر اے ملک، عابد زبیری، جسٹس (ر) ندیم اختر، اکرم شیخ، انور منصور، علی احمد کرد، خواجہ احمد حسین اور صلاح الدین احمد کے دستخط شامل ہیں۔
سینیئر وکلا اور ریٹائرڈ ججز نے خط میں کہا ہے کہ بطور سپریم کورٹ ترمیم پر ردعمل دیا جائے، سپریم کورٹ ترمیم پر اپنا اِن پٹ دینے کا اختیار رکھتی ہے۔
پوری کوشش کریں گے کہ آج حکومت 27ویں آئینی ترمیم سینیٹ سے پاس نہ کرسکے: سینیٹر علی ظفر
خط کے متن کے مطابق ہم غیر معمولی حالات میں یہ خط لکھ رہے ہیں، سپریم کورٹ اپنے قیام کے بعد آج سب سے بڑے خطرے سے دوچار ہے، کوئی سول یا فوجی حکومت سپریم کورٹ کو اپنا ماتحت ادارہ بنانے میں کامیاب نہیں ہوئی۔
خط میں لکھا ہے کہ ماضی میں ایسی کوئی کوشش بھی نہیں ہوئی، اگر آپ متفق ہیں یہ پہلی کوشش ہے تو رد عمل دینا سپریم کورٹ کا حق ہے۔
مزید :.ذریعہ: Daily Pakistan
کلیدی لفظ: سپریم کورٹ
پڑھیں:
سپریم کورٹ میں مجوزہ 27ویں آئینی ترمیم کے خلاف آئینی درخواست دائر
اسلام آباد:(نیوزڈیسک) سپریم کورٹ میں مجوزہ 27ویں آئینی ترمیم کے خلاف آئینی درخواست دائر کردی گئی۔
سینئر وکیل بیرسٹر علی طاہر کی جانب سے درخواست دائر کی گئی ہے، جس میں مؤقف اپنایا گیا کہ آرٹیکل ایک سو چوراسی تین اور ایک سو ننانوے کے تحت عدالتی جائزے کے اختیارات آئین کا بنیادی ستون ہیں، عدالتی جائزے کے اختیارات کو ختم، معطل یا متوازی نظام سے تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔
درخواست کا مقصد27 ویں ترمیم سے پہلے اعلیٰ عدالتوں کے دائرہ اختیار کو محفوظ بنانا ہے، ترمیم منظور ہونےکی صورت میں سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس آئینی معاملات نہیں سن سکیں گی، مجوزہ ترمیم سے عدالتی نظام مفلوج اور عدالتیں غیر موثرہو جائیں گی۔
سپریم کورٹ سے استدعا ہے کہ اپنے اور ہائی کورٹس کے دائرہ اختیار کا تحفظ کرے، ترمیم کے دیگر حصے بعد میں جائزے کیلئے رہ سکتے ہیں مگرعدالتی خودمختاری متاثر نہیں ہونی چاہیے، عدالتی اختیار کا تحفظ عالمی جمہوری اصول ہے ۔ درخواست میں بین الاقوامی عدالتی مثالیں بھی شامل کی گئی ہیں۔