امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 28 نومبر کو ’تیسری دنیا کے ممالک‘ سے امریکا ہجرت والوں کو مستقل طور پر روکنے کا اعلان کیا ہے، ان کے مطابق امریکی امیگریشن نظام شدید دباؤ کا شکار ہے اور اسے مکمل طور پر بحال ہونے کا وقت دینا چاہیے۔

صدر ٹرمپ کے مطابق سابق صدر جو بائیڈن کے دور میں منظور ہونے والے لاکھوں داخلوں کو منسوخ کیا جائے گا اور ایسے غیر شہری جنہیں وہ ’نیٹ اثاثہ‘ یا مغربی تہذیب سے ہم آہنگ نہ سمجھیں، انہیں ملک بدر کیا جائے گا اور وفاقی فوائد و سبسڈیز سے بھی محروم رکھا جائے گا۔

یہ بھی پڑھیں:

یاد رہے کہ یہ اعلان واشنگٹن ڈی سی میں ایک افغان نژاد شخص کے نیشنل گارڈ کے اہلکاروں پر فائرنگ کے واقعے کے بعد سامنے آیا ہے، جس کے بعد ٹرمپ انتظامیہ نے امیگریشن پالیسی سخت کرنے کا فیصلہ کیا، اس میں گرین کارڈ ہولڈرز کی دوبارہ جانچ اور بعض پناہ گزین درخواستوں کی عبوری معطلی شامل ہے۔

تاہم یہ واضح نہیں کہ ’تیسری دنیا‘ کی اصطلاح میں شامل ممالک کون سے ہیں اور یہ پابندی کب تک برقرار رہے گی، کیونکہ ٹرمپ نے اس حوالے سے کوئی فہرست یا قانونی وضاحت پیش نہیں کی۔

گرین کارڈ ہولڈرز کون ہوتے ہیں؟

گرین کارڈ ہولڈرز وہ افراد ہوتے ہیں جنہیں امریکی حکومت کی جانب سے مستقل رہائشی کارڈ دیا جاتا ہے، جسے عام طور پر گرین کارڈ کہا جاتا ہے۔ اس کارڈ کے حامل افراد کو امریکا میں مستقل طور پر رہنے، کام کرنے اور آزادانہ سفر کرنے کا قانونی حق حاصل ہوتا ہے۔

اگرچہ انہیں ووٹ دینے جیسے کچھ حقوق نہیں ملتے، لیکن وہ زیادہ تر معاملات میں امریکی شہریوں کی طرح زندگی گزار سکتے ہیں اور مخصوص مدت پوری ہونے کے بعد امریکی شہریت کے لیے درخواست بھی دے سکتے ہیں۔

مزید پڑھیں:

پاکستان کا شمار بھی تیسری دنیا کے ممالک میں ہوتا ہے، اگر یہ پابندی تمام تھرڈ ورلڈ ممالک پر عائد ہوتی ہے تو یقینا پاکستانی بھی اس سے شدید متاثر ہوں گے۔

اس حوالے سے بات کرتے ہوئے گزشتہ 20 سال سے ڈیلس میں مقیم پاکستانی محمد فراز اختر کا کہنا تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے اعلان کا سب سے بڑا اثر نئی امیگریشن کی بندش کی صورت میں سامنے آ سکتا ہے۔

ان کے مطابق اگر پابندی تمام ترقی پذیر ممالک پر یکساں طور پر لاگو ہوتی ہے تو پاکستانی شہریوں کی فیملی اسپانسرشپ، روزگار کے ویزے، سرمایہ کاری کے کیسز، اور گرین کارڈ کی درخواستیں یا تو روک دی جائیں گی یا غیر معمولی سخت شرائط کے ساتھ قبول ہوں گی۔

مزید پڑھیں:

’وہ پاکستانی خاندان جو برسوں سے اپنے پیاروں کے امیگریشن کیسز کی منظوری کا انتظار کر رہے ہیں، ان کے لیے یہ فیصلہ شدید مایوسی اور بے یقینی کا باعث بن سکتا ہے اور سب سے زیادہ مشکلات بھی انہی کے لیے ہوں گی۔‘

فراز اختر کے مطابق بیوی، ماں، باپ اور بچے، یہ تمام وہ رشتے ہیں، جنہیں پردیس میں رہنے والے اپنے ساتھ رکھنا چاہتے ہیں اور اسی امید پر برسوں گزار دیتے ہیں کہ خود اتنے سیٹل ہو جائیں،  تاکہ جلد از جلد بیوی بچوں اور ماں باپ کو بلا لیں۔

’نہ جانے کتنے لوگ ہوں گے جن پر یہ وقت اب آ چکا ہوگا کہ ان کی برسوں کی دوریاں ختم ہونے کو ہوں گی مگر ان سخت اعلانات کے بعد اپنے پیاروں سے ملنے کی مایوسی اب پہلے سے بھی زیادہ بڑھ چکی ہوگی۔‘

مزید پڑھیں:

امریکا میں مقیم پاکستانی پرویز خٹک، جو پی ایچ ڈی کے طالب علم ہیں، کا کہنا تھا کہ  ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے ’سابق منظور شدہ داخلوں‘ کو منسوخ کرنے کی تجویز بھی ہے۔

اگر ایسا ہوتا ہے تو وہ پاکستانی جن کے امیگریشن ویزے، گرین کارڈز، یا ایڈجسٹمنٹ آف اسٹیٹس کی درخواستیں پہلے ہی منظور ہو چکی ہیں لیکن وہ امریکا میں داخل نہیں ہو سکے، اب ان کی محنت، مالی اخراجات اور برسوں کی کوشش خطرے میں پڑ سکتی ہے۔

’یہ فیصلہ صرف افراد ہی نہیں بلکہ ان کے اہلِ خانہ کے مستقبل پر بھی گہرا اثر ڈال سکتا ہے۔‘

مزید پڑھیں:

محمد فراز کے مطابق گرین کارڈ ہولڈرز کی دوبارہ سیکیورٹی اسکریننگ بھی ایک مسئلہ ہے۔ اگر ٹرمپ انتظامیہ واقعی گرین کارڈ ہولڈرز کی ری اسکریننگ نافذ کرتی ہے تو امریکا میں مقیم ہزاروں پاکستانی مستقل رہائشی خطرے کی کیفیت محسوس کر سکتے ہیں۔

’ان پر اضافی پس منظر کی جانچ، سفری ریکارڈ کی سخت پڑتال، اور بعض صورتوں میں امیگریشن اسٹیٹس کی منسوخی جیسے خدشات بڑھ سکتے ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ایسے گرین کارڈ ہولڈرز جو کسی چھوٹے جرم، ٹیکس مسائل یا امیگریشن تکنیکی غلطی کا شکار رہے ہوں، وہ خاص طور پر زیادہ خطرے میں ہوں گے۔

مزید پڑھیں:

پناہ گزین درخواستوں کی عارضی معطلی بھی پاکستانیوں کے لیے ایک چیلنج ہے، خاص طور پر ان لوگوں کے لیے جو امریکا میں انسانی حقوق، مذہبی آزادی، یا سیاسی وجوہات کی بنیاد پر پناہ لینا چاہتے ہیں، نئی سختیوں کے بعد اس پورے پروسیس میں تاخیر یا بندش کے امکانات بڑھ جائیں گے۔

ایک سوال کے جواب میں پرویز خٹک کا کہنا تھا کہ طلبا، کاروباری افراد اور عارضی ویزا ہولڈرز کے لیے صورتحال بہت مشکل ہو سکتی ہے۔ اگر پابندیوں میں مزید سختی کی گئی تو F1 اسٹوڈنٹ ویزے، H1-B ورک ویزے، اور B1/B2 وزٹ ویزوں کے حصول میں رکاوٹیں کھڑی ہو سکتی ہیں۔

مزید پڑھیں:

پرویز خٹک کے مطابق پاکستانی نوجوان جنہوں نے امریکی یونیورسٹیوں میں داخلے حاصل کیے ہیں یا وہ کمپنیاں جو پاکستانی پروفیشنلز کی خدمات حاصل کرنا چاہتی ہیں، سب متاثر ہوں گے، جس کے نتیجے میں پاکستانیوں کے لیے امریکا میں تعلیمی اور پیشہ ورانہ مواقع محدود ہو سکتے ہیں۔

ان کے بقول صدر ٹرمپ کے اس اعلان سے پاکستانیوں سمیت تمام ممالک کے پناہ گزینوں میں غیر یقینی کی صورتحال پیدا ہوئی ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

امیگریشن اتھارٹی تیسری دنیا صدر ٹرمپ گرین کارڈ.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: امیگریشن اتھارٹی تیسری دنیا گرین کارڈ گرین کارڈ ہولڈرز کا کہنا تھا کہ مزید پڑھیں تیسری دنیا امریکا میں سکتے ہیں کے مطابق کے بعد ہوں گے کے لیے

پڑھیں:

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی اسرائیل کو شام میں عدم استحکام سے گریز کی سخت تنبیہ

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسرائیل کو خبردار کیا ہے کہ وہ شام اور اس کی نئی قیادت کو غیر مستحکم کرنے سے باز رہے، یہ بیان جنوبی شام میں اسرائیلی فورسز کے ایک مہلک حملے کے چند روز بعد سامنے آیا ہے۔

ٹرمپ نے پیر کے روز اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ‘ٹرتھ سوشل’ پر کہا کہ یہ بہت اہم ہے کہ اسرائیل شام کے ساتھ مضبوط اور حقیقی مکالمہ برقرار رکھے، اور ایسا کوئی اقدام نہ کرے جو شام کی خوشحال ریاست کی جانب پیش رفت میں رکاوٹ بنے۔

یہ بھی پڑھیے: کئی ممالک غزہ فورس میں شامل ہونے کو تیار، مگر اسرائیل کی منظوری لازمی، مارکو روبیو

امریکی صدر نے شامی صدر احمد الشرعہ کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ وہ دونوں ممالک کے لیے اچھے نتائج کے حصول کے لیے بھرپور محنت کر رہے ہیں۔ انہوں نے اسے مشرق وسطیٰ میں امن کا تاریخی موقع قرار دیا۔

یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب اسرائیل کی جانب سے شام کے اندر فضائی اور زمینی حملے جاری ہیں۔ دسمبر 2024 سے اب تک شام میں ایک ہزار سے زائد اسرائیلی فضائی حملے اور 400 سے زیادہ سرحدی چھاپے ریکارڈ کیے جا چکے ہیں، جبکہ اسرائیل نے گولان کی پہاڑیوں کے غیر عسکری بفر زون پر قبضہ بھی کر لیا ہے، جو 1974 کے معاہدے کی خلاف ورزی ہے۔

یہ بھی پڑھیے: اسرائیل نے مغربی کنارا ضم کیا تو امریکی حمایت کھو بیٹھے گا، صدر ڈونلڈ ٹرمپ

شامی صدر الشرعہ کا کہنا ہے کہ اسرائیل کے ساتھ مستقل امن کا انحصار 8 دسمبر 2024 سے قبل والی سرحدوں کی بحالی پر ہے۔

گزشتہ نومبر میں شامی صدر نے واشنگٹن کا دورہ بھی کیا تھا، جہاں ان کی حکومت خانہ جنگی کے بعد علاقائی و عالمی شراکت داری کو مضبوط بنانے کی کوشش کر رہی ہے۔

ٹرمپ نے شام کی نئی قیادت کے تحت ہونے والی پیش رفت پر اطمینان ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ امریکا اپنی پوری طاقت کے ساتھ شام کی مدد کر رہا ہے تاکہ وہ ایک خوشحال اور حقیقی ریاست کی تعمیر جاری رکھے۔

یہ بھی پڑھیے: اسرائیلی فوج کا شام کے شمالی علاقے قنیطرہ کے 2 قصبوں پر دھاوا

انہوں نے کہا کہ پابندیوں میں نرمی نے ملک کی سیاسی تبدیلی کو تقویت دی ہے، جو 2024 کے آخر میں بشار الاسد حکومت کے خاتمے کے بعد تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے۔ ٹرمپ کے مطابق ان کی جانب سے سخت امریکی پابندیوں کا خاتمہ شام کی قیادت اور عوام کے لیے غیر معمولی طور پر مددگار ثابت ہوا ہے۔

متعدد امریکی پابندیاں پہلے ہی ختم کی جا چکی ہیں، جن میں شامی اعلیٰ حکام کا اقوام متحدہ اور امریکی دہشت گردی کی فہرستوں سے اخراج بھی شامل ہے۔
باقی پابندیوں، خصوصاً سیسر ایکٹ کی مکمل تنسیخ کانگریس کی منظوری سے مشروط ہے، تاہم حکومت کی جانب سے 180 روزہ استثنیٰ دیا جا سکتا ہے، جیسا کہ نومبر میں کیا گیا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

اسرائیل امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ حملہ شام فلسطین

متعلقہ مضامین

  • امریکا نے 19 ممالک کے تارکین وطن کی تمام امیگریشن درخواستیں روک دیں
  • ٹرمپ انتظامیہ نے 19 ممالک کے تارکین وطن کی امیگریشن درخواستیں روک دیں
  • امریکا نے افغانستان سمیت 19 غیر یورپی ممالک کے شہریوں کی امیگریشن درخواستیں معطل کردیں
  • امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی اسرائیل کو شام میں عدم استحکام سے گریز کی سخت تنبیہ
  • سافٹ ویئر میں بڑی خرابی‘ دنیا بھر میں سیکڑوں پروازیں منسوخ
  • بیرون ملک سفر کرنے والے شہریوں کیلئے بڑی سہولت
  • سافٹ ویئر میں بڑی خرابی، دنیا بھر میں سینکڑوں پروازیں منسوخ
  • اوباڑو: سوئی سدرن گیس کی بدترین لوڈشیڈنگ، شہری شدید پریشان
  • دنیا بھر میں خسرہ سے اموات میں 88 فیصد کمی، مگر وائرس اب بھی خطرناک