بے ضمیر لوٹے کیا عوام کے حقوق کی جنگ لڑیں گے؟
اشاعت کی تاریخ: 5th, December 2025 GMT
اسلام ٹائمز: وقت کی ضرورت یہ ہے کہ عوام ایسے چہروں کو پہچانیں۔ ووٹ صرف اسکو دیں جو کردار رکھتا ہو، جو مشکل میں ساتھ چھوڑنے والا نہ ہو، جو اصول پر کھڑا ہو اور جو عزت اور مفاد کے درمیان عزت کا انتخاب کرے، کیونکہ قومیں غلط نمائندوں کے سبب تباہ ہوتی ہیں۔ عوام کو یہ سمجھنا ہوگا کہ ووٹ صرف حق اور ضمیر کیلئے ہے، صرف اجتماعی مستقبل کیلئے ہے اور صرف اسی کو ووٹ دیں، جو اپنے اصول پر ثابت قدم رہ سکے۔ یاد رکھیں! بے ضمیر لوٹے عوامی حقوق کی جنگ نہیں لڑ سکتے۔ وہ صرف اپنی آسانیوں کی لڑائی لڑتے ہیں۔ جو قوم انہیں پہچان لے، وہ ترقی کرتی ہے۔ جو قوم انہیں نہ پہچانے، وہ بار بار دھوکہ کھاتی ہے۔ عوام کو اپنے فیصلے سنجیدگی سے کرنے ہوں گے اور ہر بار شعور کے ساتھ انتخاب کرنا ہوگا۔ تحریر: محمد حسن جمالی
سیاست میں کچھ کردار ایسے بھی ہوتے ہیں، جنہیں دیکھ کر انسان یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ کیا واقعی یہ لوگ عوام کے حقوق کے محافظ ہیں یا صرف وقت کے سوداگر ہیں۔؟ ان کا چہرہ بدل جاتا ہے، زبان بدل جاتی ہے، موقف بدل جاتا ہے، مگر ایک چیز کبھی نہیں بدلتی اور وہ ہے ذاتی مفاد۔ یہ اس حقیقت کو آشکار کرتا ہے کہ بے ضمیر لوگ عوام کے حقوق کی جنگ ہرگز نہیں لڑتے، بلکہ وہ تو صرف اپنا حصہ کھوجتے ہیں۔ وہ عوام کے نام پر کھیلتے ضرور ہیں، مگر عوام کے لیے کچھ نہیں کرتے۔ ایسے لوگ امیدوں کو بیچ دیتے ہیں۔ ان کے وعدے صرف تقریر کے لیے ہوتے ہیں۔ وہ مشکل فیصلے کبھی نہیں لیتے۔ انہیں عوام کا درد محسوس نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ معاشرتی شعور کمزور ہوتا ہے، جس کے نتیجے میں سماج کے اندر حقیقی قیادت کے لیے جگہ پیدا نہیں ہوتی۔
پاکستان کی سیاسی تاریخ دیکھ لیجئے۔ ہر دور میں اقتدار کے موسم کے ساتھ سیاستدانوں کے رنگ بھی بدلتے رہے ہیں۔ وہ لوگ نظریئے کے وفادار نہیں رہے، بلکہ تخت کے غلام رہے ہیں۔ وہ حلف تو اٹھاتے رہے، مگر اپنے مفادات سے ٹکراتے ہی انہوں نے اسے توڑنے میں دیر نہیں لگائی۔ وہ عوام کے لیے صرف ہجوم ثابت ہوئے۔ عوامی مسائل اور خواب ان کے ذہن میں کبھی جڑ نہیں پکڑے۔ وہ صرف موقع دیکھتے رہے، حالات کے تابع ہوتے رہے، عوامی حقوق سے کھیلتے رہے اور قوم ترقی کی بجائے رکتی ہوئی راہوں پر چلتی رہی۔ موجودہ سیاست میں بھی بغیر کسی فرق کے یہی سلسلہ جاری ہے۔ البتہ آج کی سیاست میں بے حس سیاسی کرداروں کے مقابلے میں کچھ روشن چہرے بھی دکھائی دیتے ہیں، جنہوں نے سیاست کو تجارت نہیں بننے دیا۔ جنہوں نے اقتدار کی کشش کو اصول پر ترجیح دی۔ انہی میں سرفہرست علامہ راجا ناصر عباس جعفری کا نام لیا جاسکتا ہے۔ جنہوں نے باعزت طریقے سے اسمبلی تک رسائی حاصل کی اور اصولی سیاست میں ثابت قدمی کا وہ نمونہ پیش کیا ہے، جس کی مثال کم ملتی ہے۔
ان کی سیاست کا محور طاقت نہیں، سچائی ہے۔ ان کے فیصلوں میں ذات شامل نہیں، عوام کی امانت شامل ہے۔ وہ ہر حالت میں اصول کے ساتھ چلنے کا حوصلہ رکھتے ہیں اور سیاسی طوفان بھی ان کے راستے کو نہیں بدل سکے۔ ان کی سیاست میں شفافیت ہر عمل میں نظر آتی ہے۔ وہ محض نعرے نہیں لگاتے بلکہ عمل سے قوم کے لیے سبق دیتے ہیں۔ ہر فیصلہ فکر اور ضمیر کا عکس ہوتا ہے اور ان کے اصول عوامی خدمت کے لیے رہنماء بنے ہوئے ہیں۔ علامہ راجا ناصر عباس نے عملی طور پر یہ دکھایا ہے کہ نظریاتی سیاست آج بھی ممکن ہے۔ وہ مظلوموں کی بھرپور نمائندگی کرتے رہتے ہیں، ظلم کے سامنے ڈٹ کر کھڑے رہتے ہیں اور انہوں نے کبھی وقتی مفاد کے مقابلے میں اپنے نظریے کا سودا نہیں کیا۔ وہ نئی نسل کے سامنے اس بات کی زندہ دلیل ہیں کہ سیاست اگر کردار کے ساتھ کی جائے تو معاشرے میں اعتماد پیدا ہوتا ہے۔ جب سیاست صرف داد و تحسین کے لیے نہیں بلکہ قوم کی بہتری کے لیے کی جائے تو رہنماء ایک نام نہیں بلکہ مثال بن جاتا ہے۔ عوام انہیں صرف سیاست دان نہیں بلکہ رہنماء کے طور پر دیکھتے ہیں۔ ان کا راستہ بلاشبہ پاکستانی معاشرے میں استقامت اور عزت کی علامت ہے۔
گلگت بلتستان میں بھی ایسے کرداروں کی کمی نہیں، جو اپنی چمک مفاد کی روشنی سے حاصل کرتے ہیں۔ یہاں سیاسی موسم بدلتے ہی کئی چہرے بھی بدل جاتے ہیں۔ کچھ لوگ ہر نئی حکومت کو اپنا قبلہ بنا لیتے ہیں۔ کل جس کے خلاف کھڑے تھے، آج اسی کے لیے نعرے لگاتے ہیں۔ کل جنہیں ناکام کہتے تھے، آج انہی کے دروازے پر حاضری دیتے ہیں۔ یہ لوگ عوام کے مسائل کو سمجھنے کے بجائے اپنی سیاست کی حفاظت میں مصروف رہتے ہیں۔ ان کا موقف وقتی حالات کے مطابق بدلتا ہے۔ عوام کے لیے یہ چہرے کبھی یقین دہانی نہیں بن سکتے۔ اگر مصداق دیکھنا چاہیں تو سید امجد زیدی، اقبال حسن، راجہ ناصر روندو اور حاجی حمید خپلو کو دیکھ لیجئے، جن کے پی پی کو پیارے ہونے کی خبر سوشل میڈیا کی زینت بنی ہوئی ہے۔
گلگت بلتستان کے عوام نے ان مفاد پرست چہروں کو بارہا پرکھا ہے۔ انتخابی موسم میں یہ لیڈر بن کر سامنے آتے ہیں، خدمت کے وعدے کرتے ہیں، نظریاتی باتیں سناتے ہیں، مگر جیسے ہی کامیابی ملتی ہے، ان کی زبان بدل جاتی ہے، یہ عوام سے دور ہو جاتے ہیں، ان کا فون تو بند ہوتا ہی ہے، ساتھ میں ضمیر بھی بند ہو جاتا ہے۔ اس سے عوام کی توقعات ٹوٹتی ہیں، نوجوان مایوس ہو جاتے ہیں اور سچائی کی تلاش کمزور پڑ جاتی ہے۔ اسی لیے ضروری ہے کہ قوم ایسے عناصر کو پہچانے۔ گذشتہ پانچ سال کے شروع میں جب گلگت بلتستان کے عوام نے سیاسی تھکن محسوس کی تو انہوں نے کچھ نئے اور باکردار چہروں کو آزمانا شروع کیا۔ گلگت بلتستان کے باشعور حلقوں نے مجلسِ وحدت مسلمین کے نوجوان لیڈر میثم کاظم کو ووٹ دے کر اسمبلی میں بھیجا اور انہوں نے پورے پانچ سال عوام کی توقع سے ذیادہ گلگت بلتستان کے حقوق کی جنگ لڑی۔
سنگین حالات میں بھی انہوں نے اپنی نظریاتی سیاست پر ثابت رہ کر زبردست مثال قائم کی۔ جب وہ گلگت بلتستان اسمبلی میں اپنی مدت پوری کرکے واپس آئے تو گلگت بلتستان میں جگہ جگہ باشعور لوگوں نے ان کو وہ عزت دی، جو بے سابقہ ہے۔ یہ عزت کسی جذباتی موج کا نتیجہ نہیں تھا، بلکہ ان کے کردار کا اعتراف تھا۔ عوام جانتے تھے کہ میثم کاظم مفاد کی ہوا سے نہیں بدلے۔ وہ اصول کی بنیاد پر کھڑے رہے، دباؤ میں خاموش نہیں رہے، سچ کے راستے کو چھوڑنے کے لیے وہ کسی قیمت پر آمادہ نہیں ہوئے اور ان کے تمام فیصلے عوام کے ساتھ انصاف کے عکاس رہے۔ بلا شبہ میثم کاظم کی سیاست کی بنیاد شفافیت پر مبنی رہی۔ آج انہیں دیکھ کر نوجوان سمجھتے ہیں کہ قیادت کا معیار عمر نہیں، کردار ہے۔ ان کے لہجے میں بناوٹ نہیں تھی، ان کے فیصلوں میں سوداگری نہیں تھی۔ وہ عوام کے سامنے وعدہ کرتے تھے تو اسے نبھانے کی پوری کوشش کی۔ اسی وجہ سے آج لوگ انہیں عزت دیتے ہیں، اعتماد دیتے ہیں اور اپنے مستقبل کا حصہ سمجھتے ہیں۔ یقین کیجئے ایسے کردار معاشروں کو اٹھاتے ہیں، سیاسی انتشار میں امید بن کر ابھرتے ہیں اور اصولی سیاست کی ضرورت کو واضح کرتے ہیں۔
بدقسمتی سے گلگت بلتستان میں سیاسی رنگ بدلنے والوں کی تعداد بھی کم نہیں۔ یہ لوگ کبھی کسی جماعت کے وفادار بنتے ہیں، کبھی مخالفین کے سائے میں جگہ ڈھونڈنے لگتے ہیں۔ ان کے نزدیک نظریہ وہ کپڑا ہے، جسے روز بدل سکتے ہیں۔ یہ کردار عوام کے لیے نقصان دہ ہیں، کیونکہ یہ قوم کی سمت بدلنے کی صلاحیت نہیں رکھتے، بلکہ وہ اصل مسائل کی پہچان کمزور کر دیتے ہیں اور عوام کو وقتی نعروں میں الجھا دیتے ہیں، جس کے نتیجے میں پورے گلگت بلتستان کی ترقی رک جاتی ہے۔ ایسے لوگ نوجوانوں کے لیے بھی غلط پیغام دیتے ہیں کہ سیاست صرف ذاتی فائدے کے لیے ہے۔ وقت کی ضرورت یہ ہے کہ عوام ایسے چہروں کو پہچانیں۔ ووٹ صرف اس کو دیں جو کردار رکھتا ہو، جو مشکل میں ساتھ چھوڑنے والا نہ ہو، جو اصول پر کھڑا ہو اور جو عزت اور مفاد کے درمیان عزت کا انتخاب کرے، کیونکہ قومیں غلط نمائندوں کے سبب تباہ ہوتی ہیں۔ عوام کو یہ سمجھنا ہوگا کہ ووٹ صرف حق اور ضمیر کے لیے ہے، صرف اجتماعی مستقبل کے لیے ہے اور صرف اسی کو ووٹ دیں، جو اپنے اصول پر ثابت قدم رہ سکے۔ یاد رکھیں! بے ضمیر لوٹے عوامی حقوق کی جنگ نہیں لڑ سکتے۔ وہ صرف اپنی آسانیوں کی لڑائی لڑتے ہیں۔ جو قوم انہیں پہچان لے، وہ ترقی کرتی ہے۔ جو قوم انہیں نہ پہچانے، وہ بار بار دھوکہ کھاتی ہے۔ عوام کو اپنے فیصلے سنجیدگی سے کرنے ہوں گے اور ہر بار شعور کے ساتھ انتخاب کرنا ہوگا۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: گلگت بلتستان کے جو قوم انہیں حقوق کی جنگ عوام کے لیے سیاست میں انہوں نے کی سیاست چہروں کو دیتے ہیں جاتی ہے کے حقوق میں بھی جاتا ہے کے ساتھ عوام کو ہیں اور اصول پر ووٹ صرف کہ قوم اور ان ہے اور
پڑھیں:
پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس: قومی کمشن حقوق اقلیت سمیت 5 بل منظور، اپوزیش کا احتجاج، واک آؤٹ
اسلام آباد (وقار عباسی / رانا فرحان اسلم+ نوائے وقت رپورٹ) پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں قومی کمشن برائے حقوق اقلیت بل 2025ء سمیت دیگر پانچ بلز کی حتمی منظوری جبکہ ایک بل کو مسترد کردیا گیا۔ بل کی منظوری کے دوران اپوزیشن اور حکومت کی اتحادی جماعتوں کے بعض ارکان نے مخالفت کی۔ سپیکر ایاز صادق کی زیر صدارت پارلیمان کا مشترکہ اجلاس شروع ہوا تو وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے مذکورہ بل پیش کیا۔ اس دوران اپوزیشن نے بعض مواقع پر نعرہ بازی بھی کی۔ جس پر وزیر قانون نے اسمبلی سے خطاب میں کہا کہ یہ قانون قرآن و سنت کے منافی نہیں ہے اور اس میں چار ترامیم شامل کی گئی ہیں۔ وزیر قانون نے واضح کیا کہ یہ بل غیرمسلم اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے ہے اور اس پر سیاست نہیں ہونی چاہیے۔ بل پر بحث کے دوران جمعیت علماء اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ ایسے قوانین لانے سے محتاط رہنا چاہیے تاکہ کسی کو غیر قانونی فائدہ اٹھانے کا موقع نہ ملے اور ایوان کو بتایا جائے کہ بل کیوں پیش کیا جا رہا ہے۔ اس سے قبل پارلیمان میں قانون سازی پر تمام سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لیا جاتا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے 18ویں ترمیم پر پورے 9ماہ کام کیا لیکن حکومت نے 27ویں ترامیم پر ایوان کو اعتماد میںنہیں لیا۔ اسی لیے یہ ترامم آج بھی متنازعہ ہے۔ تحریک انصاف کے چیئرمین بیرسٹر گوہر علی خان نے کہا کہ قانون سازی اس طرح ہونی چاہیے کہ اقلیتوں کی بھی حفاظت ہو، لیکن اسلام کے منافی کوئی قانون منظور نہیں ہونا چاہیے۔ انہوں نے زور دیا کہ بل پر جامع بحث کرائی جائے تاکہ شفافیت قائم رہے۔ جے یو آئی کے سینیٹر کامران مرتضیٰ نے بل کے کچھ سیکشنز پر اعتراضات کیے، خاص طور پر سیکشن 35 اور سیکشن 12 کی کلاز ایچ پر، اور کہا کہ ان پر عمل درآمد عدالتوں کے موجودہ اختیارات کو متاثر کر سکتا ہے۔ وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے وضاحت کی کہ عدالتوں کے اختیارات برقرار رہیں گے اور کمیشن کو سوموٹو کے اختیارات دینے یا واپس لینے کی تجاویز کو بھی قبول کیا جا رہا ہے۔ مولانا فضل الرحمان نے خبردار کیا کہ ’’قادیانیوں کی چالاکیوں کا وزیر قانون کو شاید پتا نہیں، یہ ایسی چیزوں سے فائدہ بھی اٹھاتے ہیں اور سائیڈ بھی ہوتے ہیں، ہمیں اس قسم کے مسائل میں پڑنا ہی نہیں چاہیے، گزارش ہے یہاں یہ نیا پٹارا نہ کھولا جائے‘‘۔اپوزیشن کی طرف سے علامہ راجہ ناصر عباس اور پیپلز پارٹی کے عبدالقادر پٹیل نے بھی بل پر تحفظات کا اظہار کیا۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما قادر پٹیل نے حکومتی بل کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ بہت ساری چیزوں پر قیامت کے روز ہماری پکڑ ہونی ہے، میں مولانا فضل الرحمان صاحب کی بات کی حمایت کرتا ہوں۔ انہوں نے مزید کہا کہ آقائے نامدار کی حرمت پر بات آئے گی تو میں مخالفت کروں گا، وزیرِ قانون سے درخواست کروں گا مہربانی کریں۔ جس کے بعد سپیکر نے ایوان کی ہدایات کے مطابق رائے شماری شروع کرائی۔ اس دوران قادر پٹیل ایوان سے واک آؤٹ کر گئے۔ سپیکر نے ''یس'' اور ''نو'' سے رائی شماری کرائی تو ''نو'' کی آواز زیادہ گونجی۔ جس پر سپیکر نے دوسری مرتبہ ''یس نو ''کے ساتھ رائے شماری کرائی تو ''نو'' کی آواز پھر زیادہ گونجی۔ لیکن رائے شماری کے نتائج میں 160 ووٹ بل کے حق میں اور 79 مخالفت میں آئے۔ بل کی شق وار منظوری کے دوران جے یو آئی کی سیکشن 35 اور کمشن کو سوموٹو کا دیا گیا اختیار واپس لینے کی تجویز مان لی گئی۔ پی ٹی آئی نے ایوان میں ہنگامہ آرائی و نعرے بازی کی۔ سپیکر ڈائس کے سامنے دھرنا دیدیا۔ بل کی منظوری کے بعد اپوزیشن نے کارروائی کا بائیکاٹ کرتے ہوئے واک آؤٹ کیا۔ اپوزیشن کی شدید نعرے بازی کے باعث سپیکر اور وزیر قانون نے ہیڈ فون لگا لیے۔ اس موقع پر وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کا کہنا تھا کہ یہ اقلیتوں کے حقوق کا بل ہے، قیدی نمبر 804 کو کچھ نہیں ہوگا۔ کنونشن برائے حیاتیاتی اور زہریلے ہتھیار عمل درآمد بل 2024ء، پاکستان ادارہ برائے مینیجمنٹ سائنسز ٹیکنالوجی بل 2023، نیشنل یونیورسٹی آف سکیورٹی سائنسز اسلام آباد بل 2023، اخوت انسٹیٹیوٹ قصور بل 2023ء اور گھرکی انسٹیٹیوٹ برائے سائنس و ٹیکنالوجی بل 2025ء بھی کثرت رائے سے منظور کر لیا گیا۔ قومی اسمبلی سیکرٹریٹ ملازمین ترمیمی بل 2025ء بھی ایوان میں پیش کیا گیا، جس کی شق وار منظوری لی گئی۔ جمعیت علماء اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے حکومت کو مشورہ دیا ہے کہ 27 ویں ترمیم میں کی گئی غلطیوں کو واپس لیکر آئین کو واپس درست کریں۔ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ پارلیمنٹ ایک ایسا فورم ہے جہاں ہم مشاورت سے معاملات طے کرتے ہیں۔ 27 ویں ترمیم متنازع ہوگی اور اسے آئین کے ٹائٹل پر زخم سمجھا جائے گا، اس پر کسی کو اعتماد میں نہیں لیا گیا۔ سیاسی لحاظ سے بہت بونے پن کا مظاہرہ کیا گیا، شعوری طور پر ایسا کیوں کیا گیا؟۔ کچھ مرعات ایسی شخصیات کو دی گئیں جس سے طبقاتی فرق پیدا ہوگیا ہے۔ ہمیں شخصیات یا ان کے منصب سے مسئلہ نہیں۔ آج پنجاب میں ڈی سیز ہاتھ مروڑ کر وزارت تعلیم سے علماء کو رجسٹرڈ کروا رہے ہیں۔