Express News:
2025-12-05@22:28:25 GMT

کلامِ اقبال بخط ِاقبال

اشاعت کی تاریخ: 6th, December 2025 GMT

خالد مسعود ایک حیرت انگیز انسان ہے۔ کالم تو خیر اس کے حد درجہ شاداب ہوتے ہیں۔ اس سے بھی بڑھ کر تحریر میں پختگی اور سادگی‘ خاص آمیزش کے ساتھ موجود ہوتی ہے۔ خالد سے میری نسبت تقریباً چار دہائیوں کی ہے۔ جب میں اے سی‘ انڈ ر ٹریننگ ‘ ملتان تھا۔ دراصل وہ صفدر سہیل کا دوست تھا۔ صفدر میرا بیچ سیٹ تھا۔ ملنا جلنا تو خیر ہر دم تھا۔ ہر دم ہنستا مسکراتا نوجوان ۔ اس سے پہلی ملاقات‘ صفدر سہیل کے دفتر میں ہوئی تھی۔ خالد ایک چھبیلا سا نوجوان تھا۔ اس وقت‘ داڑھی نہیں رکھی تھی۔ ویسے اس کی آواز اور طرز تکلم ہمیشہ سے منفرد تھی۔ بے تکلف سا لڑکا ‘ مگر لا پرواہ بالکل نہیں تھا۔

ملتان سے میرا تبادلہ ‘ شکر گڑھ ہو گیا۔ دونوں شہروں میں فاصلہ اتنا زیادہ تھا کہ جلد جانے کا اتفاق ہی نہیں ہوا۔ پھر سرکاری نوکری کی غلام گردشوں میں گم سا ہو گیا۔ مہینے‘ سالوں میں بدل گئے۔ چند برس بعد بہاولپور تبادلہ ہو گیا۔ تو کبھی کبھی‘ ملتان بھی آ جاتا تھا۔ مگر وہ شہر‘ کم از کم میرے لیے بدل سا گیا تھا ۔ یا شاید‘ میں بدل چکا تھا۔ بلکہ دیکھا جائے تو زندگی کا ایک طویل سفر ‘ پلک جھپکتے بسر ہو گیا۔ آج سے ٹھیک تیرہ برس پہلے ‘ کالم لکھنا شروع کیا۔ تو دیگر ساتھیوں کی چمکتی تحریریں بھی نظر سے گزرنے لگیں۔ خالد بھی اس میں شامل تھا بلکہ سرفہرست تھا۔

کیونکہ‘ اس جیسا برجستہ کالم لکھنا‘ حد درجہ مشکل کام ہے، ہاں! ایک بات یاد آئی۔ خالد بطور مزاحیہ شاعر بھی لوگوں کے سامنے آ گیا۔ ٹی وی اور یوٹیوب پر خالد کو دیکھ کر خوشی ہوتی تھی بلکہ ہوتی ہے۔لیکن‘ یہ نکتہ میری عقل سے بالاتر تھا کہ خالد نے سنجیدہ شاعری کے بجائے‘ شگفتہ شاعری کو کیوں منتخب کیا۔ ویسے یہ سوال آج بھی میرے ذہن میں موجود ہے مگر پوچھتا نہیں، اس کی کئی وجوہات ہیں۔ شاعری ‘ جذبات کو الفاظ کا پہناوا دینے کا نام ہے۔ خالد مسعود تو ایک سنجیدہ طبع انسان ہے پھر سنجیدہ شاعری کی طرف میلان کیسے ہوا؟ بہر حال ‘ یہ ذاتی مسئلہ ہے۔ مجھے اس کا جواب بالکل تلاش نہیں کرنا۔ ویسے‘ لوگ‘ اس کی شاعری کو مزاحیہ کہتے ہیں۔ مگر طالب علم کی نظر میں وہ حد درجہ سنجیدہ شاعری ہے۔ دوسری بات یہ کہ خالد‘ شعروں میں لفظوں کے چناؤ کے بارے میں حد درجہ ذمے دار انسان ہے۔ کمال یہ ہے کہ اس کی پوری نظم یا قطعہ میں آپ کسی ایک لفظ کو بھی اوپر نیچے نہیں کر سکتے۔ لفظوں کی مالا‘ جس طرح پروئی گئی ہے وہ اپنی اصل صورت میں ہی جادوئی ہے۔

مگر میرا آج کا موضوع ‘ بالکل مختلف ہے۔ ایک ڈیڑھ برس سے خالد سے گاہے گاہے بات چیت ہونی شروع ہو گئی۔ یقین فرمائیے۔ کبھی بھی یہ معلوم نہیں پڑا‘ کہ درمیان میں دہائیاں گزر چکی ہیں۔ وہی بے ساختگی اور وہی خلوص۔ علم نہیں تھا کہ خالد کی اہلیہ ‘ خدا کے حضور پیش ہو چکی ہیں۔بہر حال‘ یہ صدمہ ‘ خالد نے بڑی ہمت سے برداشت کیا ہے۔ اسے سفر کرنے کا شوق ہے۔ آج آپ کے پاس لاہور بیٹھا ہے۔

دو دن کے بعد‘ جرمنی میں پایا جائے گا۔ دراصل خالد کی بیٹیاں ‘ اس کے پاؤں کی اصل زنجیر ہیں۔ وہ باہر کے ممالک میں جا بسیں ہیں۔ خالد‘ محبت کی زنجیر سے بندھا ہوا ہے۔ ملکوں ملکوں پھرتا ہے۔اس میں یہ بھی اضافہ ہوا ہے کہ اپنے پرانے دوستوں کے پاس بھی آتا جاتا رہتا ہے۔ اس کے چاہنے والے ‘ ہر ملک میں موجود ہیں۔ مگر خالد صرف ان لوگوں سے ملتا ہے جن کی رفاقت میں وہ خوش رہے۔ چند دن پہلے ‘ خالد سے طویل ملاقات ہوئی تو بتانے لگا کہ ایک انوکھا کام مکمل کر رہا ہے۔

علامہ اقبال کے اپنے ہاتھوں سے تحریر کیے ہوئے اشعار کو کسی خوش نویس سے لکھوانے کا خوبصورت کارنامہ۔ میرے علم میں قطعاً نہیں ‘ کہ یہ انوکھا ‘ اور حددرجہ مشکل فعل‘ اس کے ذہن میں کیسے آیا۔ مگر وہ ایک زرخیز ذہن کا مالک ہے۔ ایک دن دفتر آیا۔ خالد مسعود نے میری غیر موجودگی میں‘ میز پر اپنے اس حد درجہ کمال کام کو کتاب کی صورت میں رکھوا دیا تھا۔ خود‘ حسب معمول ملتان جا چکا تھا۔ حضور‘ جب اس کی ترتیب و تدوین شدہ ‘ کتاب پڑھنی شروع کی‘ تو وجد اور لطف کی کیفیت میں چلا گیا۔ کتاب کا نام ہے۔’’کلام ِ اقبال‘ بخط ِاقبال‘‘ کتاب پر علامہ کی شیروانی میں ملبوس ایک خوبصورت تصویر موجود ہے۔ اور اس پر ان کے اپنے ہاتھوں سے لکھا ہوا ۔ شعر موجود ہے۔

ا ٹھ کے خورشید کا سامان ِسفر تازہ کریں

نفس سوختہ شام و سحر تازہ کریں

خالد نے انتساب اپنے والد محترم کے نام کیا ہے۔ جس پر درج ہے۔ ’’علامہ اقبال سے متعلق کتاب پر انتساب کے لیے ان سے بڑھ کر بھلا اور کون حقدر ہو سکتا ہے‘‘۔ مجھے علم نہیں کہ ‘ خالد‘ حضرت علامہ اقبال کی اپنی تحریر کہاں سے لے کر آیا ہے؟ پر صاحب‘ کمال جاودان تدوین ہے۔ انوکھا اور ہمیشہ یاد رکھا جانے والا کام۔ خالد مسعود نے ‘ شروع میں اپنا لکھا ہوا ایک خوشبو دار مضمون بھی شامل کیا ہے جس کا عنوان ہے ’’علامہ اقبال‘ ابا جی اور میں‘‘۔ اس میں سے چند اقتباسات ‘ خدمت میں پیش کرتا ہوں۔

مجھے علامہ اقبال سے محبت ہے اور اس محبت کے کئی ادوار اور کئی پرتیں ہیں۔ بچپن ‘ لڑکپن‘ جوانی اور اب بڑھاپے کی طرف تیزی سے سرکتی ہوئی عمر۔ ہر دور میں یہ محبت اپنے رنگ اور خدوخال بناتی رہی لیکن کیا مزے کی بات ہے کہ ہر بار نیا رنگ چڑھنے پر بھی پچھلا رنگ نہ مانند پڑا اور نہ اس نئے رنگ نے پچھلے رنگ کو اپنے نیچے ہی چھپایا۔ ہر رنگ پوری آب و تاب کے ساتھ چمکتا اور دمکتا رہا۔

’’ان ساری باتوں اور وجوہات کو ایک طرف رکھتے ہوئے اصل بات یہ ہے کہ میری علامہ اقبال سے محبت کی سب سے مضبوط کڑی ابا جی کی علامہ اقبال سے محبت تھی اور محبت بھی کوئی ایسی ویسی؟سو محبت کی یہ ٹرائینگل کچھ ایسی ہے کہ ابا جی کو علامہ سے محبت اور مجھے ابا جی سے محبت تھی اور آپ جس سے محبت کرتے ہو اس کا محبوب آپ کا محبوب ہوتا ہے یا رقیب ‘ اگر آپ کا محبوب آپ کو نظر انداز کر کے کسی دوسرے کو محبوب رکھے تو پھر آپ کے محبوب کا محبوب آپ کا رقیب بن جاتا ہے۔

اور اگر آپ کا محبوب کسی دوسرے سے محبت کرتے ہوئے آپ پر بھی جان نچھاور کرے تو ایسے میں آپ کے محبوب کا محبوب‘ آپ کا بھی محبوب بن جاتا ہے۔ ابا جی کی محبت کی ایک کڑی جہاں علامہ اقبال تھے تو وہیں دوسری کڑی جو یقیناً پہلی کڑی سے بھی مضبوط تھی، وہ میں تھا۔ ایسے میں بھلا یہ کس طرح ممکن تھا کہ ابا جی کی محبت کی یہ دو کڑیاں آپس میں نہ ملتیں۔ سو یہ عاجز علامہ اقبال سے اس محبت کی تجدید میں لگا رہتا ہے جو ابا جی مرحوم میرے حوالے کر گئے ہیں۔ محبت کے اس پودے کو پانی دیتا رہتا ہوں جو ابا جی میرے پاس چھوڑ گئے تھے۔ علامہ اقبال سے محبت وہ غیر منقولہ وراثت ہے جو مجھے ابا جی کی طرف سے ملنے والی دیگر منقولہ و غیر منقولہ وراثت کے ساتھ ملی تھی‘‘۔

’’مجھے نہیں یاد کہ سردیوں کی کوئی رات ایسی گزری ہو کہ ہم سب گھر والوں نے ہال کمرے میں چوپال نہ لگائی ہو۔ اب جیسا نہیں کہ گھر والے ایک کمرے میں بھی بیٹھے ہوں تو ایک دوسرے سے کٹے ہوئے اپنے اپنے موبائل فون پر اس طرح مصروف ہوں کہ ایک دوسرے کی موجودگی سے ہی بے خبر ہو جائیں۔ ہر بندہ سارے دن میں ہونے والی کسی خاص کارروائی کو بیان کرتا‘ اسکول کے قصے چلتے۔

ابا جی دین کی بات کرتے ۔ ایک دو احادیث سناتے‘ کسی سے دعائے قنوت سن لیتے۔ کبھی وضو کرنے کی دعا یاد کرواتے۔ لیکن مجھے سب سے زیادہ مزہ تب آتا جب ابا جی اپنی مخصوص لے میں فارسی کے اشعار اور خاص طور پر ایرانی شاعرقآنی کے قصائد اور علامہ اقبال کی شاعری سناتے۔ ایمانداری کی بات ہے پانچ چھ سال کے بچے کے لیے قآنی کے فارسی قصائد اور علامہ اقبال کی اردو شاعری ایک جیسی ہی تھی لیکن اس کی غنائیت اس چھوٹے سے بچے کے دل و دماغ پر ایسی نقش ہے کہ میں چھ عشرے بعد بھی‘ جب چاہوں ایک کمرے میں رضائی لپیٹ کر‘ بڑے سے پلنگ پر ابا جی کے پہلو میں بیٹھ کر اپنے سامنے پتھر والے کوئلوں کی دہکتی ہوئی انگیٹھی کی موجودگی محسوس کر سکتا ہوں اور ہاں کمرے میںگونجتی ہوئی ابا جی کی آواز میں علامہ اقبال کا مکالمہ ابلیس اور جبریل سن سکتا ہوں۔ یہ علامہ اقبال سے پانچ چھے سالہ بچے کا تعارف بھی تھا اور محبت کی ابتدا بھی‘‘۔

کتاب کی ترتیب کچھ یوں ہے کہ ایک صفحہ پر علامہ اقبال کی تحریر ان کے اپنے رسم الخط میں موجود ہے۔ اور سامنے والے صفحہ پر خوش نویس نے وہی کلام لکھا ہے۔ یقین فرمائیے کہ اقبال کی اپنی تحریر‘ ایک خزانہ ہے۔ اور برادرم خالد مسعود نے اسے نئے انداز سے تدوین کر کے‘ علامہ کے عاشقوں پر ایک احسان کیا ہے۔ میرے جیسا جاہل انسان تو جب بھی علامہ کے شعر پڑھتا یا سنتا ہے تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں۔ آخر میں یہی عرض کرونگا کہ خالد یار!‘آپ جو کچھ بھی کرتے ہو‘ کمال کرتے ہو۔ آباد رہو شاداب رہو۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: علامہ اقبال سے محبت علامہ اقبال کی خالد مسعود ابا جی کی کا محبوب موجود ہے کرتے ہو محبت کی کہ خالد کیا ہے تھا کہ ہو گیا

پڑھیں:

خطیب: حجۃ الاسلام والمسلمین علامہ شیخ محمد جواد حافظی (نائب امام جمعہ)

اسلام ٹائمز: علامہ شیخ جواد حافظی نے علاقے میں اہل بیت علیہم السلام کی شان میں توہین اور سوشل میڈیا پر گستاخیوں کے بڑھتے ہوئے رجحان پر انتہائی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا: ہمارے مقدسات پر بار بار حملے ہو رہے ہیں۔ ایسے تمام ٹک ٹاکرز، یوٹیوبرز اور سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ جنہوں نے ماضی میں یا حالیہ دنوں میں اس ناپاک عمل کا ارتکاب کیا، انہیں قانون کے کٹہرے میں لایا جائے۔ عقیدہ سب سے مقدم ہے اور پاکستان ہمیں اسی لیے عزیز ہے کہ یہاں ہمارے مذہبی جذبات کا تحفظ ہو۔ انہوں نے قانون نافذ کرنے والے اداروں پر زور دیا کہ وہ اس معاملے میں فوری اور سخت اقدام کریں۔ ترتیب و تدوین: آغا زمانی

خطبۂ اوّل
حمد و ثنائے الہیٰ اور صلوات بر محمد و آل محمد
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ
سب سے پہلے خداوند متعال کا شکر بجا لانا چاہیئے کہ اس نے ہمیں عبادت کی توفیق اور اجتماعی و انفرادی ذمہ داریوں کی ادائیگی کا موقع عطا فرمایا۔ انسان چونکہ فطرتاً سماجی مخلوق ہے، اس کی زندگی دوسروں کے تعاون، ملاقات اور میل جول کے بغیر مکمل نہیں ہوسکتی۔ ہر انسان دوسرے کا محتاج ہے، کوئی یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ اسے کسی چیز کی ضرورت نہیں۔

دعا کی اہمیت اور اجتماعی دعاؤں کی قبولیت
دعا ایسی ضرورت ہے، جس سے کوئی بے نیاز نہیں۔ اگر کسی کی اپنی دعا قبولیت تک نہ پہنچے تو اسے چاہیئے کہ دوسروں سے دعا کی درخواست کرے، کیونکہ مومن کی زبان سے دوسرے مومن کے حق میں نکلی ہوئی دعا جلد قبول ہوتی ہے۔ کبھی انسان اپنے گناہوں کے بوجھ کی وجہ سے دعا کی راہ میں رکاوٹ پیدا کر دیتا ہے، جبکہ دوسرے مومن کی زبان پاکیزہ ہوتی ہے۔ آج جمعہ کے بابرکت دن ہم سب ایک دوسرے کے لیے خیر و برکت کی دعا کریں۔ خاص طور پر وہ افراد جو زیارتِ کربلا کی تمنا رکھتے ہیں، لیکن پہنچ نہیں سکے۔ اس موقع پر حضرت ام البنین (س) کو وسیلہ قرار دینا نہایت بابرکت عمل ہے۔ حضرت ام البنین کی مصیبت، یومِ وفات اور دعا کا وسیلہ۔ آج حضرت ام البنین فاطمہ کلابیہ، مادرِ باب الحوائج حضرت عباس علیہ السلام کا یومِ وفات ہے۔ آپ کے چاروں فرزند حضرت علی علیہ السلام کی آغوش میں پروان چڑھے اور کربلا کی مصیبتوں میں شریک ہوئے۔ روایات میں ہے کہ ام البنین (س) زیارتِ کربلا سے محروم رہیں اور بقیع میں بیٹھ کر بیٹوں کی شبیہیں بنا کر گریہ کیا کرتی تھیں۔ اسی مناسبت سے ہم حضرت امام زمانہ عج، رہبر معظم، علماء کرام اور تمام اہلِ ایمان کی خدمت میں تعزیت پیش کرتے ہیں۔

حاضرین اور ملتِ اسلامیہ کے لیے خصوصی دعا
پروردگار بحق محمد و آل محمد: مریضوں کو شفا عطا فرما، بے اولادوں کو اولادِ نرینہ عطا فرما، زائرین کی تمنا رکھنے والوں کو زیارتِ کربلا، شام، مکہ و مدینہ نصیب فرما، وطن عزیز پاکستان کو امن، استحکام اور برکت عطا فرما، ہمارے علاقے کو ارضی و سماوی آفات سے محفوظ فرما اور مولا امام زمان عج کے ظہور میں تعجیل فرما، خصوصاً ہمارے سرپرست علامہ شیخ حسن جعفری اور جامعہ محمدیہ کے سرپرست اعلیٰ سمیت تمام علماء و مومنین کی صحت و سلامتی کے لیے دعا۔ آمین

موضوعِ گفتگو، آدابِ اسلامی اور آدابِ سفر
ہماری مسلسل گفتگو "آدابِ اسلامی" کے ذیلی عنوان "آدابِ سفر" کے تحت جاری ہے۔ آج اس سلسلے کا چھٹا موضوع پیشِ خدمت ہے۔

مولا علی علیہ السلام کا فرمان، سفر کے پانچ فوائد
مولا امیرالمومنین علیہ السلام فرماتے ہیں کہ: ''اگر سفر کرنا ہو تو بے مقصد نہ نکلیں؛ سفر کے پانچ فائدے ہیں، انہی کے لیے روانہ ہوں۔''
(1) اپنی حالت، صلاحیت اور معیشت بہتر بنانے کے لیے سفر
سفر انسان کی زندگی میں تبدیلی لاتا ہے۔ انسان گھر میں رہتے رہتے ذہنی دباؤ، غم یا یکسانیت کا شکار ہو جاتا ہے۔ آب و ہوا کی تبدیلی اس کے مزاج اور صحت میں بہتری کا سبب بنتی ہے۔
(2) ماحول اور آب و ہوا کا اثر
ہمارا موجودہ طرزِ زندگی ایسی غذاؤں، سبزیوں، پھلوں اور چیزوں سے جڑا ہے، جو ہماری زمین کی پیداوار نہیں۔ اپنے علاقوں کی غذا، ہوا اور ماحول جسم کے لیے زیادہ سازگار ہوتے ہیں۔ مگر افسوس، آج ہم نے اپنے کھیت و کھلیان چھوڑ دیے ہیں۔ شہروں کی طرف دوڑ لگ گئی ہے اور عبادت کا تصور بھی صرف چند اعمال تک محدود کر دیا گیا ہے۔ حالانکہ: لوگوں کی ضروریات پوری کرنا، انہیں آسانیاں فراہم کرنا، زمین کو آباد کرنا بھی عبادت ہے۔
(3) حضرت علی علیہ السلام کی عملی مثال
25 سال کے صبر و سکوت کے دور میں مولا علی علیہ السلام نے 25 کنویں اپنے ہاتھوں سے کھودے، پسینہ خشک ہونے سے پہلے انہیں عوام کے لیے وقف کر دیا۔ ان کنوؤں سے انسان بھی سیراب ہوتے اور فصلیں بھی اگتی تھیں۔ مگر آج ہم آباد زمینوں کو ویران کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔
(4) سفر کا نتیجہ، ذہنی، جسمانی اور معاشرتی سکون
سفر نہ صرف ذہنی سکون فراہم کرتا ہے بلکہ انسان کو نئے ماحول، نئی سوچ اور نئے امکانات سے آشنا کرتا ہے۔

سفر کے باقی فوائد، مولا علی علیہ السلام کی تعلیمات
امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام نے سفر کے صرف ایک پہلو نہیں بلکہ پانچ بنیادی فوائد بیان فرمائے ہیں۔ گذشتہ گفتگو میں دو فوائد بیان ہوئے، آگے تین مزید فوائد اس طرح ہیں:
(2) معاشی بہتری کے لیے سفر
اگر انسان اپنے گھر، علاقے یا وطن میں روزگار حاصل نہ کرسکے تو بہتر ذریعہ معاش کے لیے دوسری جگہ سفر کرنا نہ فقط جائز بلکہ مطلوب ہے۔ بلتستان میں خصوصاً سردیوں کے موسم میں کاریگر اور مزدور جب بے روزگار ہو جاتے ہیں تو پنجاب، اسلام آباد یا راولپنڈی جیسے شہروں کا سفر انہیں دو تین ماہ کی کمائی فراہم کر دیتا ہے، جو خاندان کی کفالت میں بڑی مدد بنتی ہے۔
(3) علم کے حصول کے لیے سفر
اگر اپنے علاقے میں علم کا معیار بلند نہ ہو تو انسان کو سفر ضرور اختیار کرنا چاہیئے۔ حدیث رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے: "طلب العلم فریضة، ولو بالصین"، "علم حاصل کرو، چاہے تمہیں چین تک کیوں نہ جانا پڑے۔"

(4) ہنر، ادب اور مہارت سیکھنے کے لیے سفر
بہترین آداب، نیا ہنر یا کسی ٹیکنیکل شعبے کی مہارت سیکھنے کی خاطر بھی سفر اختیار کرنا چاہیئے۔ دنیا کی ترقی اسی بنیاد پر ہے کہ لوگ شہر بدل کر، ملک بدل کر اپنی صلاحیتیں بڑھاتے ہیں۔
(5) نیک افراد کی صحبت کے لیے سفر
اگر کسی بزرگ انسان کی ملاقات، کسی صالح شخصیت کی صحبت، یا کسی دانا کے نصیحت آموز کلمات سننے کا موقع ملتا ہو تو اس مقصد سے سفر کرنا باعثِ برکت ہے۔ امیرالمومنین علیہ السلام فرماتے ہیں: "عاقل کبھی اس سفر سے باز نہیں رہتا جس سے اسے خیر، معرفت یا نصیحت ملے۔"

ایک تاریخی واقعہ، علی علیہ السلام کی نصیحت ایک مسافر کو
تاریخی روایات میں ملتا ہے کہ امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام کے اصحاب میں سے ایک شخص سفر پر روانہ ہونے والا تھا۔ روانگی سے پہلے اس کی ملاقات مولا علی علیہ السلام سے ہو گئی۔ اس نے عرض کیا: "یا امیرالمومنین۔۔ میں سفر پر نکل رہا ہوں، میرے لیے کوئی وصیت یا نصیحت فرما دیں، جو سفر میں میرے کام آئے۔" مولا نے نہایت محبت اور حکمت سے چند نصیحتیں ارشاد فرمائیں: پہلی نصیحت: اللہ کو اپنا ہمیشہ کا ساتھی بناؤ۔" مولا علی علیہ السلام نے فرمایا: ''اگر تم کسی ایسے رفیق کی تلاش میں ہو جو ہر گھڑی تمہارے ساتھ رہے تو اللہ کو اپنا رفیق بنا لو۔'' سفر میں بعض لوگ غفلت کا شکار ہو جاتے ہیں: جنازہ لے جاتے ہوئے گانے بجانا۔۔۔ سفر میں نمازیں چھوڑ دینا۔۔۔ یہ سب اعمال سفر کو سفرِ معصیت بنا دیتے ہیں۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ: “ہم منزل پر پہنچ کر ایک ساتھ نماز پڑھ لیں گے۔” یہ طریقہ غلط ہے۔ اگر انسان کو پہلے سے یقین ہو کہ راستے میں نماز چھوٹ جائے گی تو ایسا سفر شرعاً درست نہیں۔

ڈرائیوروں کے بارے میں سخت تنبیہ
مولا کے کلام کے مفہوم کے مطابق: اگر ڈرائیور غفلت، نیند یا بے احتیاطی سے پورے قافلے کو خطرے میں ڈالے تو قیامت کے دن وہ ان تمام افراد کی ہلاکت کا ذمہ دار شمار ہوگا۔ سفر عبادت اور ذمہ داری دونوں ہے۔ مومن کو چاہیئے سفر کا آغاز دعا سے کرے اور راستے میں خدا کو یاد رکھے۔

دوسری نصیحت: “کرام الکاتبین کو اپنا ساتھی سمجھو”
مولا علی علیہ السلام نے فرمایا: ''اگر بہترین رفیق چاہتے ہو تو تمہارے دائیں اور بائیں بیٹھے ہوئے کرام الکاتبین بہترین رفیق ہیں۔'' وہ فرشتے جو ہر عمل لکھ رہے ہیں، تمہاری ہر بات سن رہے ہیں، تمہاری نیتوں تک سے باخبر ہیں۔ مومن کبھی اکیلا نہیں ہوتا۔ اللہ کے موکلین سفر میں اس کے ساتھ ہوتے ہیں۔ دعائے کمیل کا ایک جملہ اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتا ہے: "اللّٰهُمَّ إِنِّي أَتَقَرَّبُ إِلَيْكَ بِذِكْرِكَ…" (اے پروردگار۔۔ میں تیرا ذکر کرکے تیری بارگاہ میں قرب حاصل کرتا ہوں)

تیسری نصیحت: “موت کو اپنا سب سے قوی واعظ سمجھو”
مولا علی علیہ السلام نے فرمایا: ''اگر تمہیں نصیحت چاہیے تو موت تمہارے لیے کافی ہے، وہ ہر لمحے تمہارے ساتھ ہے۔'' موت سب سے بڑی حقیقت ہے۔ آج یا کل، ابھی یا کچھ دیر بعد، انسان کو اس حقیقت کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے اور آخری جملے میں مولا نے فرمایا: ''اگر میری یہ نصیحت بھی کافی نہ ہو تو جہنم کی آگ تمہارے لیے سب سے بڑی نصیحت ہے۔'' یہ مولا علی علیہ السلام کا اندازِ تربیت ہے. محبت بھی، حکمت بھی، اور جھنجھوڑنے والی بیداری بھی۔

خطبۂ دوم
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
الحمدللہ ربّ العالمین، والصلاۃ والسلام علی سید الانبیاء والمرسلین محمد و آلہ الطیبین الطاہرین۔ 
حمد و ثنائے پروردگار اور چہاردہ معصومین علیہم السلام پر درود و سلام۔ نائب امام جامع مسجد سکردو، حجۃ الاسلام والمسلمین علامہ شیخ محمد جواد حافظی نے خطبۂ دوم میں امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام کا ایک عظیم قول نقل کرتے ہوئے فرمایا: ''خَیْرُ الْبِلادِ ما حَمَلَکَ.'' (نہج البلاغہ، حکمت 375) ترجمہ: سب سے بہترین شہر وہ ہے، جو تمہارا بوجھ اٹھاتا ہے (یعنی تمہاری ضروریات پوری کرتا ہے، تمہیں سہولت دیتا ہے اور تمہیں سنبھالتا ہے)۔ علامہ جواد حافظی نے فرمایا: دنیا میں سب سے بہترین شہر وہ ہے، جس کا تم پر حق سب سے زیادہ ہے، جو تمہیں سہولت دیتا ہے، تمہارے معاملات سنبھالتا ہے، تمہارا بوجھ اُٹھاتا ہے۔

سکردو، پورے بلتستان کا بوجھ اٹھانے والا شہر
علامہ جواد حافظی صاحب نے فرمایا: آج ہمارے لیے وہ شہر سکردو ہے۔ یہی شہر ہم سب کا بوجھ اٹھاتا ہے۔ پورے بلتستان کا تجارتی مرکز، تعلیمی مرکز، معاشی مرکز اور مواصلاتی مرکز یہی شہر ہے۔ خوراک سے لے کر پوشاک تک، تعمیراتی سامان سے لے کر کاروبار تک۔ ہر چیز سب سے پہلے سکردو آتی ہے پھر باقی علاقوں تک پہنچتی ہے۔ مگر افسوس۔۔ ہم میں سے کوئی بھی اس شہر کا حقیقی خیر خواہ نہیں۔ یہ شہر اپنی خوبصورتی میں دنیا کے بہترین شہروں جیسا ہونا چاہیئے تھا۔ لیکن ہم نے اس کے ساتھ انصاف نہیں کیا۔

انتظامیہ سے اپیل
علامہ جواد حافظی صاحب نے فرمایا: میں اپنے اداروں اور سربراہان سے کہتا ہوں۔ ذرا کبھی گاڑیوں سے اتر کر ان گلیوں، ان سڑکوں پر پیدل بھی چل کر دیکھیں۔ عہدے، گاڑیاں اور طاقت انسان کو اندھا نہ بنا دیں۔ زمین پر چلنے والے انسانوں کی تکلیف بھی محسوس کریں۔ دو جمعوں پہلے جس چوک میں پائپ لائن کی خرابی کی نشاندہی کی گئی تھی، الحمدللہ فوراً اس کا حل کیا گیا۔ لیکن ابھی بھی بے شمار مسائل موجود ہیں۔ کروڑوں روپے سے بنی ہوئی نئی سڑکیں پانی کے بہاؤ کی وجہ سے برباد ہو رہی ہیں۔ گاڑیاں گزرتی ہیں تو پانی سڑک کی تہہ کمزور کر دیتا ہے۔ سڑکیں ٹوٹ رہی ہیں۔ ایس ڈی اے آخر ہے کیا۔؟ علامہ صاحب نے سخت الفاظ میں فرمایا: پہلے ہی انتظامیہ پر بوجھ تھا، اب اس پر ایس ڈی اے نام کی ایک بلا مزید کھڑی کر دی گئی ہے۔ یہ ادارہ ہے کس کام کے لیے۔؟ کیا اس کی آنکھیں بند ہیں؟
مسائل پر توجہ نہ دینا عوام کے ساتھ ظلم ہے۔ پانی کے حوالے سے کمپلینٹ سنٹر بنانا اچھی بات ہے، مگر عملی اقدامات کہیں نظر نہیں آتے۔

آج کے پاکستانی حکمران لوٹنے والے، بنانے والے نہیں
علامہ جواد حافظی صاحب نے فرمایا: جو بھی اس ملک کا حکمران بنتا ہے، ملک کو لوٹنے لگ جاتا ہے۔ اس ملک کو بنانے والا کوئی نہیں۔ پاکستان کو تحفظ دینا ہے تو: پاکستانی عوام کو تحفظ دو، قانون کو تحفظ دو، نظام کو طاقتور بناؤ، شخصیات کو تحفظ دینا کوئی کارنامہ نہیں۔ شخصیت پرستی قوموں کو مٹا دیتی ہے، قانون اگر طاقتور نہ ہو تو قومیں ختم ہو جاتی ہیں۔ حالیہ حکومتی ترامیم کو انہوں نے پاکستان کی توہین قرار دیا اور فرمایا: دنیا کے سامنے ہمارا سر جھکا دیا گیا ہے، ہم اس عمل کی شدید مذمت کرتے ہیں۔

شہر سکردو کا حق، آپ کی ذمہ داری
جس شہر نے ہمارا بوجھ اٹھایا ہے، اس کے مسائل پر آواز اٹھانا ہمارا فرض ہے۔ کہیں پائپ ٹوٹا ہو، کہیں پانی نہ آرہا ہو، کہیں سڑکیں خراب ہوں، فوری طور پر شکایت کریں۔ احسان فراموش نہ بنیں۔

انتخابات، قوم کا امتحان
علامہ شیخ جواد حافظی نے فرمایا: الیکشن صرف ووٹ نہیں ہوتے۔ الیکشن قوموں کا امتحان ہوتے ہیں۔ یہ طے ہوتا ہے کہ قوم کسے اپنا رہنما چن رہی ہے۔ اگر کوئی نااہل منتخب ہو جائے تو، اس کی نااہلی میں ووٹ دینے والا ہر شخص شریک ہوتا ہے۔

نمائندہ کی پانچ بنیادی صفات
پہلے چار بیانات تھے، اب پانچواں بیان شامل کیا گیا: نمائندہ ہمیشہ بلتستان میں رہنے والا ہو، سردیوں میں بھی عوام کو چھوڑ کر نہ بھاگے۔ عوام کے درمیان رہتا ہو، غیر ملکی دوروں، شہروں اور “سپاٹو” کا رسیا نہ ہو۔ عوام کے دکھ درد میں موجود رہے، منصوبے، وژن اور اہلیت رکھتا ہو، سوشل میڈیا پر آکر عوام کے سامنے اپنا منشور پیش کرے، عوام اس کا منشور سنیں، سوال کریں، ڈائیلاگ کریں۔ ماضی، حال اور مستقبل کا لائحہ عمل جانیں۔ نمائندہ وہ ہے، جو عوام کے ساتھ جیتا بھی ہے اور مرتا بھی ہے۔ جو سکردو میں نہ رہے، اسے سکردو کی نمائندگی کا حق نہیں دیا جا سکتا۔

شوکاز نوٹس کا غلط استعمال، ایک استاد کی المناک خودکشی
علامہ جواد حافظی نے کہا کہ اگر متعلقہ اداروں کو شوکاز نوٹس دینے کا اتنا ہی شوق ہے تو پھر سب سے پہلے ان افسران اور بڑے عہدوں پر براجمان افراد کا احتساب ہونا چاہیئے، جنہوں نے نظامِ تعلیم، صحت اور انتظامی اداروں کو تباہی کے دہانے پر پہنچایا ہے۔ انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ: گزشتہ شام کھرمنگ کے علاقے خاموش آبشار کے قریب ایک تجربہ کار ٹیچر نے پولیس اور محکمے کی غیر ضروری سختیوں، تذلیل اور شوکاز نوٹسوں کے مسلسل دباؤ کے باعث دریا میں چھلانگ لگا کر اپنی جان دے دی۔ وہ 22 سال سے تعلیم کے شعبے سے وابستہ تھا۔ اس کی موت کے ذمہ دار وہ تمام افراد ہیں جنہوں نے اسے ذہنی اذیت پہنچائی۔ ایسے لوگ شرعاً بھی قاتل شمار ہوں گے۔ علامہ جواد حافظی نے کہا کہ سزا و تادیب کا ایک منظم طریقہ کار ہوتا ہے، مگر یہاں بغیر تحقیق کے فوراً ڈس مس کر دینا ظلم ہے۔

اسلام آباد V8 حادثہ، قانون سب کے لیے برابر ہونا چاہیئے
اسلام آباد میں بلتستان سے تعلق رکھنے والی طالبہ کی چار پہیوں والی گاڑی (V8) کے نیچے آکر موت کے واقعے کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے شدید مذمت کی اور کہا: قانون کسی جج یا افسر کے بیٹے کے لیے نہیں بدلا جا سکتا۔ قاتل چاہے وزیراعظم کا بیٹا ہو یا جج کی اولاد۔ اسے قرار واقعی سزا ملنی چاہیئے، تاکہ غریبوں کا خون یوں رُل نہ جائے۔ انہوں نے کہا کہ انصاف کا تقاضا ہے کہ اس کیس میں طاقتوروں کے دباؤ کو مسترد کرتے ہوئے مجرم کو کیفرِ کردار تک پہنچایا جائے۔

مقدسات کی توہین، ناقابلِ برداشت سلسلہ بند کیا جائے
علامہ شیخ جواد حافظی نے علاقے میں اہل بیت علیہم السلام کی شان میں توہین اور سوشل میڈیا پر گستاخیوں کے بڑھتے ہوئے رجحان پر انتہائی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا: ہمارے مقدسات پر بار بار حملے ہو رہے ہیں۔ ایسے تمام ٹک ٹاکرز، یوٹیوبرز اور سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ جنہوں نے ماضی میں یا حالیہ دنوں میں اس ناپاک عمل کا ارتکاب کیا، انہیں قانون کے کٹہرے میں لایا جائے۔ عقیدہ سب سے مقدم ہے اور پاکستان ہمیں اسی لیے عزیز ہے کہ یہاں ہمارے مذہبی جذبات کا تحفظ ہو۔ انہوں نے قانون نافذ کرنے والے اداروں پر زور دیا کہ وہ اس معاملے میں فوری اور سخت اقدام کریں۔

آخر میں دعا
علامہ جواد حافظی نے دعا کرتے ہوئے کہا: پروردگارا۔۔ ہم سب کو سننے اور سنانے کے بعد عمل کی توفیق عطا فرما۔ اس شہر، اس علاقے اور اس وطن کی خدمت اخلاصِ نیت کے ساتھ کرنے کی توفیق دے۔ یا اللہ، ہمیں ظلم سے بچا اور ظالموں کے مقابلے میں بے بس نہ کر۔ آمین

متعلقہ مضامین

  • اُرمیلا سے محبت؛ ہدایتکار رام گوپال ورما کی پہلی بار لب کشائی
  • خطیب: حجۃ الاسلام والمسلمین علامہ شیخ محمد جواد حافظی (نائب امام جمعہ)
  • فیس بک کی محبت کا بھیانک اختتام، 7 افراد موت کے گھاٹ اتار دیے گئے
  • چیئرمین ایچ ای سی کا انتخاب یا خالد مقبول کا امتحان؛ ٹاپ امیدواروں کے حتمی انٹرویوز جمعہ کو ہونگے 
  • تحقیقاتی رپورٹ میں بی آر ٹی ریڈ لائن اور نجی اسٹور کو ذمہ دار قرار دیا جانا درست نہیں، علامہ مبشر حسن
  • نیپا چورنگی واقعہ اداروں کی بدترین غفلت اور بے حسی ہے، علامہ مبشر حسن
  • پاکستان کی خاتون پولیس افسر نے بھارتی حریف کو شکست دے کر عالمی اعزاز جیت لیا
  • علی انصاری اور صبور علی شادی کے بعد پہلی بار ایک ساتھ ڈرامے میں کاسٹ
  • جدہ: پاکستان انویسٹرز فورم کی جانب سے سبکدوش قونصل جنرل کے اعزاز میں تقریب