بے روز گاری اور پاکستان کی خوش قسمتی
اشاعت کی تاریخ: 12th, December 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
آج کوئی فرد ایسا نہ ہوگا جس کے آس پاس آگے پیچھے جاننے والوں میں ایسے نوجوان نہ ہوں جو ڈگری حاصل کرنے کے باوجود بے روزگار ہوں اور آج کا دور یہ ہے کہ ڈگری کا مطلب نوکری نہیں۔۔۔ کہ ڈگری تو حاصل کر لی ہے لیکن نوکری کا کوئی آسرہ نہیں۔ 2023 کی پہلی ڈیجیٹل مردم شماری کے مطابق پاکستان میں بے روزگاری کی شرح 22 فی صد تک پہنچ چکی ہے، یہ تقریباً 15 سے 24 سال کی عمر کے دو کروڑ نوجوان افراد ہیں جو بے روزگار ہیں ان کے علاوہ لاکھوں نوجوان دنیا کے مختلف ممالک میں جا چکے ہیں وہ جن کے والدین ان کی کچھ مدد کرنے کی پوزیشن میں تھے یعنی20 سے 50 لاکھ تک دینے کی پوزیشن میں تھے وہ باہر جا چکے ہیں۔ ملک میں توانائی کے بحران کی وجہ سے بہت سے کارخانے اور فیکٹریاں بند ہو چکی ہیں اور فیکٹریاں بند ہونے سے بیروزگاری میں مزید اضاف ہوا ہے اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ صنعتی شعبوں میں جدت نہیں ہے نئے کار خانے نہیں لگ رہے بلکہ پرانے بھی بند ہو رہے ہیں۔ پاکستان ان خوش نصیب ممالک میں شامل ہے جہاں نوجوانوں کی تعداد دنیا بھر میں سب سے زیادہ ہے حالیہ اعداد وشمار کے مطابق ملک میں 60 فی صد سے زیادہ آبادی 30 سال سے کم عمر یعنی نوجوانوں پر مشتمل ہے یہ ایک بہت بڑا اثاثہ ہے اگر اس کو درست سمت دی جائے لیکن مشکل یہ ہے کہ نوجوان تعلیم حاصل کرنے کے باوجود روزگار حاصل نہیں کر پاتے حالیہ سروے کے مطابق ہر سال 20 لاکھ نوجوان اعلیٰ تعلیمی اداروں میں داخلے لیتے ہیں لیکن ان میں بھی اکثریت ایسی ہے جو ذہنی طور سے مایوسی کا شکار ہے اور اس کی سب سے بڑی وجہ بے روزگاری ہے۔
پڑھے لکھے نوجوان نوکری کے لیے باہر جا رہے ہیں 2025۔ 2024 میں 7 لاکھ 27 ہزار سے زیادہ پاکستانی ملک سے باہر روزگار کی تلاش میں گئے اور اب 2025 کی پہلی ششماہی میں مزید 3 لاکھ 36 ہزار افراد ہجرت کر چکے ہیں ان میں سے اکثریت ان نوجوانوں کی ہے جو تعلیم کے بجائے کمائی کو ترجیح دے رہے ہیں۔ سروے کے مطابق یہ بتایا جا رہا ہے کہ اعلیٰ تعلیمی اداروں میں داخلے کی شرح میں 13 فی صد کمی واقع ہوئی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ جو پڑھے لکھے لوگ تھے جو آگے تعلیم میں حاصل کر سکتے تھے وہ ملک سے باہر چلے گئے ہیں اور افسوس کی بات یہ ہے کہ ان میں سے اکثریت تعلیم کے لیے نہیں بلکہ روزگار کے لیے باہر گئی ہے۔ بے روزگاری کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ لوگ کام سے کتراتے ہیں ڈگری حاصل کر کے نوکری کے حصول کے لیے جوتیاں چٹخاتے ہیں چھوٹے بزنس شروع کرنے میں شرم محسوس کرتے ہیں اس معاملے میں ہمارے ہاں معاشرتی دباؤ بھی ہے باہر جا کر پڑھے لکھے افراد پر طرح کے کام کر لیں گے لیکن اپنے ملک میں شرم کریں گے۔
لیبر فورس سروے کے مطابق وہ لوگ جن
کی عمر کام کرنے کی ہے ان میں سے 55 فی صد کوئی کام نہیں کرتے یہ لوگ یا تو کام سے کتراتے ہیں یا پھر ان کے لیے آمدنی کے مختلف ذرائع موجود ہیں لہٰذا کام کی ضرورت نہیں پڑتی۔ توانائی کے بحران کی وجہ سے ملک میں بہت سے کارخانے اور فیکٹریاں بند ہو چکی ہیں اور فیکٹریاں بند ہونے سے بیروزگاری میں مزید اضافہ ہوا ہے اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ مزید صنعتی شعبوں میں جدت نہیں لائی جا رہی ہے، ملکی صورتحال اس وقت معیشت کے لیے بہت زیادہ خراب ہے جس کی وجہ سے نئی ملازمتیں بھی نہیں سامنے آرہی اور ہر کاروبار ہر کام میں اتنی پابندیاں قانونی پیچیدگیاں اور کرپشن ہے کہ کوئی بھی کام اور کاروبار نہیں چل رہا لہٰذا جب کاروبار نہیں چلے گا تو اس سے ترقی کیسے ہوگی نئی ملازمتیں کہاں سے آئیں گیں۔
بے روزگاری کی ایک وجہ اور ملازمت نہ ملنے کی وجہ یہ بھی ہے کہ جو تعلیم دی جا رہی ہے وہ معیار کے مطابق نہیں ہے صورتحال یہ ہے کہ ملازمت ڈھونڈنے والوں کو ملازمت نہیں مل رہی اور ملازمت دینے والوں کو مطلوبہ ملازم نہیں مل رہا اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم جو تعلیم طالب علموں کو دے رہے ہیں وہ کسی کام کی نہیں ہے اس میں ہمیں اپنے معیار کو بہتر بنانا۔ ترقی یافتہ ممالک میں ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ان کی بوڑھی آبادی بڑھ رہی ہے اور جوان آبادی کا تناسب کم ہو رہا ہے جاپان میں 65 سال سے زیادہ عمر کے افراد کے کل آبادی کا 28 فی صد ہو چکے ہیں اٹلی میں یہ تناسب 23 فی صد پہنچ چکا ہے یونان اور پرتگال میں 22 اور 21 فی صد ہے ان بوڑھی آبادیوں کی وجہ سے ملک میں پنشنوں اور اولڈ ایج بینیفٹ اسکیموں پر حکومت اخراجات بہت بڑھ رہے ہیں جبکہ شادی شدہ افراد افزائش نسل بہت کم شرح سے کر رہے ہیں لہٰذا وہ آرٹیفیشل انٹیلی جنس کی بنیاد پر روبوٹ بنانے اور ان کو افراد کے نعم البدل کے طور پر استعمال کرنے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں یہ ترقی یافتہ ممالک کے مسائل ہیں لیکن ہمارے ملک میں جہاں نوجوان آبادی بہت بڑی تعداد میں ہیں لیکن ان کی ایک بڑی تعداد منشیات کی عادی ہو رہی ہے۔ بیروزگاری ہے ایک طرف اور دوسرے طرف منشیات۔۔ کیونکہ دباؤ اور ڈپریشن بڑھ رہا ہے۔ بتایا جا رہا ہے کہ منشیات کے عادی افراد کی تعداد پاکستان میں ایک کروڑ تک پہنچ گئی ہے جن میں سے اکثریت نوجوانوں کی ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے افرادی قوت کو ہنر مند بنائیں یہ ہنر مند افرادی قوت بیرون ملک یورپی ملک میں بھی یومیہ بنیاد پر کام کر سکتی ہے اس طرح اپنے ملک میں بھی خود روزگار اسکیم اور منصوبوں کی حکمت عملی کو اپنا کر چھے کروڑ نوجوانوں کو ملک کے قومی ترقی میں شامل کر سکتی ہے اس کے لیے جماعت اسلامی نے جو منصوبہ بنو قابل کے نام سے شروع کیا ہے وہ ایک اہم منصوبہ ہے دیگر سیاسی جماعتوں کو بھی اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے اس صورتحال میں جب کہ وہ حکومت میں موجود ہیں اور ایک عرصہ سے ہیں۔۔۔ لیکن ان نوجوانوں کی تربیت ان کی ملازمت اور ان کی بیروزگاری کو دور کرنے کے لیے آگے آنے پہ تیار نہیں ہیں۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: اور فیکٹریاں بند ہو وجہ یہ بھی ہے کہ نوجوانوں کی بے روزگاری کی ایک وجہ بے روزگار کی وجہ سے کے مطابق سے زیادہ یہ ہے کہ چکے ہیں ہیں اور ملک میں رہے ہیں رہی ہے کے لیے رہا ہے
پڑھیں:
جمائمہ خان کے ایکس پر فالورز میں کمی
لندن (ڈیلی پاکستان آن لائن) سابق وزیر اعظم عمران خان کی سابق اہلیہ جمائمہ خان نے دعویٰ کیا ہے کہ گزشتہ دو برس میں ان کے ایکس اکاؤنٹ کے فالوورز مسلسل کم ہو رہے ہیں، جو جولائی سے اب تک 28 لاکھ سے گھٹ کر 25 لاکھ تک آ گئے ہیں۔ ان کے مطابق یہ کوئی معمولی اتار چڑھاؤ نہیں بلکہ ایک منظم رجحان ہے جو پاکستان کی حکومت پر تنقید کی وجہ سے ہے۔
اپنی ایکس پوسٹ میں انہوں نے بتایا کہ انہوں نے اس بارے میں "گروک" سے پوچھا کہ کیا یہ مسئلہ ان کے مواد کی وجہ سے ہے، تو جواب میں کہا گیا کہ اگر کوئی صارف پاکستانی یا اسرائیلی حکومتوں پر تنقید کرتا ہے تو ایلون مسک کے دور میں ایکس کی جانب سے حکومتی دباؤ کے تحت الگورتھمک پابندیوں، “تھروٹلنگ” اور “ڈی بوسٹنگ” کا سامنا زیادہ ہوتا ہے، جس کے نتیجے میں اس کے اکاؤنٹ کی رسائی کم کر دی جاتی ہے۔
اینٹی پاکستان مواد، تمام خلیجی ممالک نے بالی ووڈ فلم دھُرندھر پر پابندی لگادی
جمائمہ کے مطابق پلیٹ فارم کا رویہ غیر جانبدار نہیں رہا۔ پاکستان میں ریاستی یا حکومتی بیانیے کے مطابق مواد کو فروغ ملتا ہے اور اختلافی آوازیں پس منظر میں دھکیل دی جاتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ صارفین اب اس عمل کو “خاموشی کی مخصوص پالیسی” یا “Selective Silence” کہتے ہیں، جہاں سچ مٹا نہیں دیا جاتا بلکہ اس کی رسائی چھین لی جاتی ہے۔ جمائمہ کے مطابق ایلون مسک کو کی جانے والی شکایات کا اکثر کوئی جواب نہیں ملتا، البتہ وہ کبھی کبھار نظام بہتر بنانے کے بیانات ضرور دیتے ہیں۔
انڈیا اور افغانستان سے بیٹھ کر پاکستان میں سوشل میڈیا پر دہشت گردی پر مبنی مواد چلایا جارہا ہے، طلال چودھری
مزید :