اللہ میاں کی Fan Following
اشاعت کی تاریخ: 12th, December 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
میں: تم نے گزشتہ نشست میں گفتگو کو ایک عجیب موڑ دے دیا، ہم بات کررہے تھے بندگی ِ بے غرض کی اور تم اللہ میاں کی fan following کی طرف نکل پڑے۔ اللہ ربّ العزت کی ہستی کا انسانوں سے کیا موازنہ؟۔
وہ: ایسے کسی موازنے یا تقابل کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اصل میں یہ آج کے انسان کا مجموعی رویہ ہے جسے بدلنے کو وہ بالکل تیار نہیں۔ موبائل فون کی شکل میں ایک کھلونا نما مشین اس کے ہاتھ لگ گئی ہے، جس کے سامنے وہ خود ایک کھلونا بن گیا ہے۔ جو اسے سوتے ہوئے بھی جگائے رکھتا ہے اور جاگنے کی حالت میں بھی سلائے رکھتا ہے۔ ویسے یہ اپنی جگہ خود ایک الگ موضوع ہے۔ اس پر کسی اور نشست میں بات کریں گے۔ ہم بات کررہے ہیں سوشل میڈیا کے زیر ِ اثر پروان چڑھنے والے انسانی رویے کی کہ کس طرح وہ ایک غیر متعلق اور انجان شخص کا کچھ سوچے سمجھے بغیر اس قدر گرویدہ ہوجاتا ہے کہ اگر وہ کہیں مل جائے تو اس کے ساتھ ایک سیلفی بنانے کے لیے دیوانوں کی سی حرکتیں کرنے لگتا ہے۔ اب تو نیکی کا تصور بھی بس یہیں تک رہ گیا ہے کہ کسی مولانا صاحب کا کوئی درس یا اصلاحی بیان اپنے احباب کے گروپ میں فارورڈ یا کم از کم پسندیدگی کا علامتی اظہار ہی کردیا جائے۔
میں: انسان تو ازل سے ایسا ہی ہے، اپنے سے بہتر اور منفرد صلاحیتوں کے حامل دوسرے انسانوں سے متاثر اور مرعوب ہوتا رہا ہے، ان کی قدر اور تعریف وتوصیف کرتا رہا ہے، آ ج وہ یہ کام سوشل میڈیا پر کررہا ہے تو اس میںکیا قباحت ہے؟۔ اور رہی بات خدا کی بنائی ہوئی اس کائنات اور اس میں موجود اشیا کے حوالے سے انسان کے رویے کی تو وہ بھی ہمیشہ سے ایسا ہی ہے۔ تاریخ میں ایسے واقعات بہت کم ہی نظر آئے ہیں کہ انسان تخلیق ِ کائنات میں موجود حکمت ودانائی کے اسرار ورموز اور خلاقی کے مسلسل اور مستقل معجزوں کے سامنے اپنی عاجزی اور بے بسی کو تسلیم کرتے ہوئے خدا کا گرویدہ ہوگیا ہو۔
وہ: اس کی وجہ کہیں یہ تو نہیں کہ انسان کو یہ کائنات بنی بنائی مل گئی ہے، نہ اس کے بننے میں اس کا کوئی حصہ ہے اور نہ ہی اس نے اس دنیا کی تشکیل کے مراحل اور موجود اشیا کے بننے کا عمل اپنی آنکھوں سے براہ ِراست دیکھا ہے، کہ یہ بلند وبالا پہاڑ کیسے بنے، ان سمندروں اور دریائوں میں تاحد ِ نگاہ تک پھیلا یہ پانی کہاں سے آیا۔ آسمان پر تارے کیوں چمک رہے ہیں، زمین روشنی کے لیے سورج کی محتاج کیوں ہے، بقول غالبؔ
سبزہ و گل کہاں سے آئے ہیں
ابر کیا چیز ہے، ہوا کیا ہے
اور اسی بنا پر انسان اس دنیا کی چیزوں اور اس کے بنانے والے کو اکثر for granted لیتا ہے کہ یہ سب تو اس کا پیدائشی حق ہے کیوں کہ آگ، ہوا، مٹی اور پانی کے یہ چار عناصر اگر نہ ہوں تو وہ زندہ کیسے رہے گا۔ اس کا عمل ربّ کی عطا کردہ نعمتوں کے استعمال اور خود اس کی ذات کو حاصل صلاحیتوں کے حوالے سے ناشکری اور ناقدری کی عکاسی کرتا نظر آتا ہے۔
میں: تم کیا کہنا چاہ رہے ہو کہ اگر کائنات یا اس دنیا کے مرحلہ ٔ تشکیل کے دوران ایک آدھ منظر انسان اپنی آنکھوں سے براہِ راست دیکھ لیتا تو کیا وہ خدا پر من وعن ایمان لے آتا، تب بھی وہ یہی کہتا نظرآتا جیسا وہ آج سورج کے طلوع وغروب، چاند کی گردش، پھول کے کھلنے مرجھا جانے اور نہ جانے کتنے بے شمار معجزوں اور کاموں کو دیکھ کر کہتا ہے کہ یہ سب تو کسی سائنسی اور میکانیکی عمل کا نتیجہ ہے جو کچھ مخصوص حالات کی وجہ سے رونما ہوگیا ہے۔ کیوں کہ خالق تو نظروں سے اوجھل ہی ہے اور یہ صورت حال تاقیامت جوں کی توں رہے گی۔ اور آج seeing is believing کے اس دور میں خدا شناسی کے حوالے سے انسان کا یہ رویہ انتہائی تشویشناک ہوچکا ہے۔
وہ: شاید یہی وہ وجہ ہے جس کی بنا پر خدا نے دنیا میں بھیجے گئے پہلے بندے کو اپنا پیغمبر بنا کے بھیجا تاکہ آنے والے انسانوں کو اس دنیا میں اپنے مقصد ِ وجود اور اللہ کے بندے کی حیثیت سے اپنے مقام ومرتبے کو سمجھنے میں کسی شک وشبہ کی گنجائش باقی نہ رہے۔
میں: تمہاری اس بات سے ایک اور بات نکلتی ہے کہ اس دنیا میں انسانوں کے لیے خدا کی بنائی ہوئی اسکیم میں کسی قسم کا کوئی جھول موجود نہیں ہے، وہ زندہ رہنے کے لیے زمین پر موجود وسائل کی دستیابی ہو یا بندہ بنے رہنے کے لیے منبع ہدایت اور رہنمائی کی ہمہ وقت موجودگی۔ یعنی ایسا نہیں ہوا کہ اللہ میاں نے دنیا میں آزمائشی بنیادوں پر پہلے سو دو سو آدمیوں کو بھیجا اور پھر سو دو سو سال بعد ان کی تعداد بڑھنے اور سرکشیوں میں اضافہ ہونے پر ان کی اصلاح کے لیے اپنے پیغمبر مبعوث کرنا شروع کیے۔ اور اس تمام کے باوجود بھی انسان کتنا احسان فراموش اور ناشکرا واقع ہوا۔
وہ: اس حوالے سے ایک اور بات بھی بنیادی اہمیت رکھتی ہے کہ کائنات اور قدرتی عوامل پر غورو فکر کے نتیجے میں خدائے واحد پر ایمان لانے کا عمل علم، مشاہدے اور جستجو کا متقاضی ہوتا ہے اور یہی امر ذہن ِ انسانی کے ارتقا پر دلالت کرتا ہے۔ اور چوں کہ ہر انسان کا علم وشعور اور ذہنی صلاحیت برابری کی سطح پر نہیں ہوا کرتی اسی لیے محض علم کو ایمان کی بنیاد قرار نہیں دیا جاسکتا۔ یعنی مقام ِ بندگی کے ادراک کے ذریعے شان ِ خداوندی کا اقرار عالم وجاہل اور خاص و عام کے لیے ایک ہی درجے پر ہوتا ہے۔ اللہ میاں کو تو وہ جاہل چرواہا زیادہ پسند ہے جو اس کی دی گئی نعمتوں کا شکر ادا کرنے کے لیے اپنی عقل و فہم کے مطابق خدا کو ایک انسانی وجود سمجھتے ہوئے اس کے سر میں تیل لگا کر اس کے بال سنوارنا چاہتا ہے نہ کہ آج کا وہ اسکالر جو محض گزشتہ ڈیڑھ دوسو سال کی سائنسی ترقی کی بنیاد پر ٹیکنالوجی کو اپنا خدا سمجھ بیٹھا ہے۔ اور آج کا انسان اسی شعبے سے وابستہ تخلیق کاروں اور بھانڈوں کا سب سے بڑا فین ہے یا پھر اپنی ذات کا۔ بقول شاعر
بھانڈ کے فین، خرافات کے فین
ہم ہیں موسیقی کے آلات کے فین
کون پروردگارِ عالم ہے؟
ہم تو ہیں صرف اپنی ذات کے فین
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: اللہ میاں حوالے سے دنیا میں اس دنیا اور اس کے لیے ہے اور
پڑھیں:
نہانا ہوا آسان، جاپانی کمپنی نے ’’انسانی واشنگ مشین‘‘ بنالی
لاہور:موسم سرما میں تقریباً ہر کوئی نہانے سے جھجھکتا اور اْسے مصیبت سمجھتا ہے۔
اب جاپانی کمپنی، سائنس کارپوریشن نے ’’انسانی واشنگ مشین‘‘ایجاد کر اس مشکل کا حل نکال لیا ہے۔ مشین کے گرم ماحول میں بند ہو کر انسان کو انگلی تک نہیں ہلانی پڑتی، مشینی آلات جسم پر پانی ڈالتے، صابن لگاتے اور میل کچیل دور کرتے ہیں۔ ساتھ ساتھ انسان من پسند گانے سنتا ہے۔
15 منٹ میں یہ واشنگ مشین انسان کو صاف ستھرا کر کے باہر نکال دیتی ہے۔ جاپان میں کئی حمام و ہوٹل یہ انوکھی مشین نصب کر چکے ہیں۔
کمپنی کے بقول واشنگ مشین انسان کو ’’جسمانی وروحانی ‘‘، دونوں لحاظ سے پاک صاف کرتی ہے۔