Nai Baat:
2025-04-26@03:50:49 GMT

اُڑان پاکستان ۔۔۔۔۔ ایک خواب

اشاعت کی تاریخ: 12th, January 2025 GMT

اُڑان پاکستان ۔۔۔۔۔ ایک خواب

خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل (SIFC) کی معاونت سے معاشی ترقی منصوبے ’’اُڑان پاکستان‘‘ کا آغاز کردیا گیاہے۔ اُڑان پاکستان منصوبہ ان شاء اللہ 2029ء تک 3ٹریلین اور 2035ء تک 10ٹریلین ڈالرزکی معیشت بنانے کے لیے ایک جامع روڈمیپ کے طورپر کام کرے گا۔ وزیرِاعظم میاںشہباز شریف نے 5ایز برآمدات، ای پاکستان، ماحولیات، توانائی، شفافیت اور خودمختاری پرتوجہ مرکوز کرتے ہوئے دائمی معاشی مسائل سے نمٹنے کی خاطر 5سالہ ’’اُڑان پاکستان‘‘ پروگرام کاآغاز کردیا ہے۔ اِس منصوبے کاآغاز وفاقی وزراء اور چاروں صوبوں کے نمائندوں کی موجودگی میں اسلام آبادمیں کیاگیا۔ وزیرِاعظم نے فرمایاکہ آئی ٹی، زراعت، کان کنی اور معدنیات کے شعبوں کی ترقی سے متعلق 5سالہ منصوبے کی کامیابی قومی اتحاد، سیاسی ہم آہنگی، سیاسی جماعتوں، اداروں اور تمام سٹیک ہولڈرز کی اجتماعی کوششوں سے منسلک اور مربوط ہے۔ اِس منصوبے کے تحت سالانہ 60ارب ڈالرزکی برآمدات کاہدف رکھاگیا ہے۔
اُڑان پاکستان فی الحال توایک دِل خوش کُن خواب ہی ہے جس کی تعبیربھی ان شاء اللہ ایسی ہی ہوگی لیکن 54ماہ کے بعد 10جنوری کو پی آئی اے نے اسلام آبادسے پیرس کے لیے پہلی اُڑان بھرچکی۔ یورپی یونین کی پابندی کے خاتمے کے بعد اب پی آئی اے کی پروازیں دوبارہ شروع ہوجائیں گی۔ پیرس کے لیے طیارے میں323 سیٹوں کی گنجائش تھی جوپہلے ہی بُک ہوچکی تھیں۔ اِس طرح پی آئی اے کو 11کروڑ روپے سے زائدکا نہ صرف ریونیو حاصل ہوگا بلکہ یورپی آپریشنزکی تقریباََ ساڑھے 4سالہ معطلی بھی ختم ہوگئی۔ پیرس پہنچنے پرپی آئی اے کے مسافروں کا شاندار استقبال ہوااور ایئرپورٹ پرکیک کاٹنے کی تقریب بھی منعقد ہوئی۔سوال یہ ہے کہ یہ معطلی کیوںاور کیسے ہوئی؟۔ مئی2020ء میں کراچی میں ہونے والے پی آئی اے کے طیارے کے حادثے کی وجہ سے یہ معطلی عمل میں آئی۔ 25جون 2020ء کواُس وقت کے وزیرِہوابازی غلام سرور خاںنے پارلیمنٹ میں بیان دیاکہ 262پاکستانی پائلٹس کے لائسنس مشکوک ہیںجن میں سیرین ایئرکے 10اور ایئربلیو کے 9کپتان بھی شامل ہیں۔ اُنہوں نے کہاکہ پی آئی اے کے 148پائلٹس گراؤنڈ اور 128کے خلاف انکوائری مکمل ہوچکی اورجوپائلٹ ریکروٹ ہوئے وہ سب 2018ء سے پہلے کے 2ادوار کے لوگ ہیں۔ وزیرِہوابازی کے اِس بیان کے بعد 30جون کو یورپی ایوی ایشن سیفٹی ایجنسی نے پی آئی اے کی یورپی ممالک کے لیے فضائی آپریشن کے اجازت نامے معطل کردیئے۔ اِس کے بعد برطانیہ نے بھی PIAکی پروازوں پرپابندی عائد کردی۔ ویت نام کی ایوی ایشن اتھارٹی نے مشتبہ لائسنس کی اطلاعات کے بعدتمام پاکستانی پائلٹس کوگراؤنڈ کردیا۔ اِس کے علاوہ ملائیشیا اور متحدہ عرب امارات کی سول ایوی ایشن اتھارٹیز نے بھی وہاں کام کرنے والے پائلٹس اور فلائیٹ آپریشن افسران کے لائسنس کی جانچ پڑتال کے لیے پاکستانی حکام کوخطوط لکھ دیئے۔ بعدازاں تحقیقات سے ثابت ہواکہ وزیرِہوابازی کابیان غلط تھااور محض چند پائلٹس کے لائسنس ہی مشکوک تھے۔ اِس پر اُس وقت کے وزیرِاعظم عمران خاںنے بھی تسلیم کیاکہ اِس معاملے کومِس ہینڈل کیاگیا۔ اٹارنی جنرل نے بھی عدالت میں غلطی تسلیم کی اور اسلام آبادہائی کورٹ نے کہاکہ غلام سرورکا بیان لاپرواہی پرمبنی تھا۔ سوال مگریہ ہے کہ جوشخص پاکستان کی بدنامی کاباعث بنااور ڈانواںڈول PIAکو مکمل طورپر برباد کرگیا، کیااُس کے لیے کوئی سزا نہیںاور کیاوہ قومی مجرم نہیں؟۔ آج PIAکا یہ حال ہے کہ اِس کاکوئی خریدار نہیں حالانکہ یہی وہ ایئرلائن ہے جس کانعرہ بجاطور پر ’’باکمال لوگ، لاجواب سروس‘‘ تھا۔ یہی وہ ایئرلائن ہے جس کے ہاتھوں متحدہ عرب امارات کی ایمرٹس ایئر تشکیل پائی لیکن کچھ لوگوںکے ذاتی مفادنے اِس کی تباہیوں کی داستان رقم کی۔

آج PIAاُڑان بھرچکی اور اُمیدِواثق کہ اُڑان پاکستان منصوبہ بھی ان شاء اللہ بہت جلداپنی رفعتوں کوچھونے لگے گا کیونکہ جن لوگوں کے ہاتھ میںیہ منصوبہ ہے اُن کی نیت نیک، محنت انتھک اورلگن بے حساب۔ وجہ یہ کہ یہی وہ حکومت ہے جوڈیفالٹ ہوتے پاکستان کی نیّا کوکنارے تک لے آئی جس کی تعریف اُس کے ازلی و ابدی دشمن عمران خاںنے بھی کی۔ اڈیالہ جیل میںبیٹھے بانی کی یہ خواہش کہ پاکستان کے 3ٹکڑے ہوجائیں، ایٹمی پروگرام کیپ ہوجائے اور پاکستان ڈیفالٹ کرجائے لیکن اُس کی یہ خواہش ہمیشہ تشنہ ہی رہے گی۔ اُس نے اوورسیز پاکستانیوں کوحکم دیاکہ وہ پاکستان میںترسیلاتِ زَر کم ازکم بھیجیں لیکن ہوایوں کہ سٹیٹ بینک آف پاکستان کے مطابق پاکستانیوں نے دسمبر 2024ء میںہی 3.

07ارب ڈالرز بھیج کر دسمبر 2023ء سے 29فیصد زائد ترسیلاتِ زَرکیں۔ سٹیٹ بینک کے مطابق پاکستانیوں نے سعودی عرب سے 77کروڑ، متحدہ عرب امارات سے 63کروڑ، برطانیہ سے 45کروڑ، یورپ سے 36کروڑ اور امریکہ سے 28کروڑ ڈالرز بھیجے۔ رواں مالی سال کی پہلی ششماہی میں پاکستانیوں نے 33فیصد زائدرقوم بھیجیں جو 17ارب 84کروڑ ڈالرز ہیں۔ یہ صورتِ حال دیکھ کرگھاٹ گھاٹ کاپانی پینے والے پی ٹی آئی کے رَہنماء شیخ وقاص اکرم نے کہاکہ اوورسیز پاکستانیوں سے ترسیلات روکنے کی اپیل کااثر اگلے دو، تین ماہ میں نظر آئے گا ۔۔۔۔۔ شرم تم کومگر نہیں آتی۔
یوںتو ہم سوشل میڈیاپر سُنتے چلے آرہے ہیںکہ حکومت نے صرف چندماہ میں پاکستان کی تاریخ کاسب سے زیادہ قرض لیااور بانی تحریک کے لیے اپنے دلوںمیں نرم گوشہ رکھنے والے اِس جھوٹ پریقین بھی کرتے آرہے ہیں لیکن اصل حقیقت کچھ اورہے۔ گورنرسٹیٹ بنک جمیل احمدنے اپنے ایک بیان میںبتایا کہ گزشتہ اڑھائی سال میں غیرملکی قرض میںکوئی اضافہ نہیں ہوا۔ اُنہوںنے یہ بھی بتایاکہ رواں مالی سال میںکم ازکم 35ارب ڈالرکی ترسیلات آئیں گی۔ قلیل عرصے کے لیے 8ارب ڈالرکا پوراقرض بھی واپس کردیا گیاہے۔ گورنرسٹیٹ بنک کے اِس بیان کے بعداُمید بندھ چلی ہے کہ شرح سودبھی بہت جلد 9فیصد یعنی سنگل ڈیجٹ تک پہنچ جائے گی۔ صاف ظاہرہے کہ جب شرح سود سنگل ڈیجٹ تک پہنچے گی تومعیشت کاپہیہ تیزی سے رواں ہوجائے گا۔ شاید اِسی لیے وزیرِاعظم میاں شہبازشریف باربار کہتے آرہے ہیںکہ موجودہ IMFپروگرام آخری ہوگا جس کے بعد ہم اُسے خُداحافظ کہہ دیںگے۔ ہوناتو یہ چاہیے کہ پوری قوم ’’اُڑان پاکستان‘‘ منصوبے کی کامیابی کے لیے متحد ہوجائے کہ اِسی میں سب کابھلا ہے لیکن کیا عمران خاںبھی ملک وقوم کی بہتری کے لیے اپنی ضِد، انا اور نرگسیت کو تیاگ کراِس منصوبے میں شامل ہوسکیں گے؟۔ ہمیں تواِس کی اُمیدکم کم ہی نظر آتی ہے لیکن شاید ۔۔۔

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: ا ڑان پاکستان پی ا ئی اے نے بھی کے لیے کے بعد

پڑھیں:

حکومت کینال منصوبے پر کثیر الجماعتی مشاورت پر غور کر رہی ہے، وفاقی وزیر قانون

سینیٹ کے اجلاس میں چولستان کینال منصوبے پر مسابقتی قراردادوں پر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اور پاکستان پیپلز پارٹی ( پی پی پی) کے مابین کشیدگی، گرما گرم بحث اور واک آؤٹ دیکھنے میں آیا، وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے ایوان بالا کو آگاہ کیا کہ حکومت اس مسئلے کے حل کے لیے کثیر الجماعتی مشاورت پر غور کر رہی ہے۔

نجی اخبار کی رپورٹ کے مطابق پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی کے اعتراضات کا جواب دیتے ہوئے اعظم نذیر تارڑ نے یقین دلایا کہ چولستان کینال اسکیم کے لیے پانی کی منتقلی سے متعلق خدشات کو آئینی طور پر اور سندھ حکومت کی مشاورت سے حل کیا جائے گا۔

انہوں نے زور دے کر کہا کہ مسلم لیگ (ن) کی قیادت میں وفاقی حکومت پہلے ہی اتحادی جماعتوں بالخصوص پیپلز پارٹی اور سندھ حکومت کے ساتھ اس معاملے کو اٹھا چکی ہے۔

وزیر قانون نے کہا کہ وزیر اعظم شہباز شریف کی ہدایت پر کابینہ کے سینئر رکن اور مشیر رانا ثنا اللہ نے سندھ حکومت سے معاملے کو خوش اسلوبی سے حل کرنے کے لیے رابطہ کیا، اور اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ اس سلسلے میں ’کچھ بھی غلط نہیں کیا جائے گا‘۔

تھرپارکر میں حالیہ ضمنی انتخابات کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے احتجاج کرنے والے پی ٹی آئی اراکین اسمبلی پر طنز کرتے ہوئے الزام عائد کیا کہ وہ سندھ میں مسترد ہونے کے بعد ’بے معنی احتجاج‘ کر رہے ہیں، اس طرح کی سیاست نہ تو ملک اور نہ ہی مقصد کے لیے کام کرتی ہے۔

اجلاس میں اس وقت ہنگامہ برپا ہو گیا جب پی ٹی آئی کے سینیٹر سیف اللہ ابڑو نے مطالبہ کیا کہ سینیٹ میں نہر کے مسئلے پر ان کی جماعت کی قرارداد پر غور کیا جائے، پیپلز پارٹی کی سینیٹر شیری رحمٰن نے اصرار کیا کہ ان کی پارٹی کی قرارداد پر پہلے غور کیا جائے۔

جب چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی نے پوائنٹس آف آرڈر کو وقفہ سوالات شروع کرنے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا، تو پی ٹی آئی ارکان نے احتجاج کیا، نعرے بازی کی اور حکومت پر الزام لگایا کہ وہ کارپوریٹ فارمنگ اقدام کے لیے چولستان کی جانب پانی موڑ رہی ہے، وہ احتجاجاً چیئرمین کے پوڈیم کے قریب جمع ہوئے۔

یہ جھگڑا اس وقت ذاتی نوعیت اختیار کر گیا جب پی ٹی آئی کے سینیٹر فلک ناز چترالی نے پیپلز پارٹی پر منافقت کا الزام عائد کیا، جس پر پیپلز پارٹی کے سینیٹر شہادت اعوان نے شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے بانی عمران خان کو ’گھڑی چور‘ قرار دیا، اور اپنی پارٹی قیادت کے ناقدین کو خاموش کرانے کے لیے قلم اور گھڑی کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا۔

پیپلز پارٹی کے سینیٹرز نے بھی نہر منصوبے کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے واک آؤٹ کیا۔

’ربڑ اسٹیمپ پارلیمنٹ‘
بعد ازاں جب وزیر قانون تارڑ ایوان سے خطاب کر رہے تھے تو بابر اعوان نے کورم کی نشاندہی کی، لیکن عملے نے تصدیق کی کہ کورم مکمل ہے۔

قائد حزب اختلاف شبلی فراز نے کہا کہ یہ نئے پارلیمانی سال کا پہلا اجلاس ہے، اور اسے گزشتہ سال کے دوران کی گئی غلطیوں پر خود احتسابی کے لیے استعمال کیا جانا چاہیے تھا۔

انہوں نے کہا کہ سندھ میں پورا نظام مفلوج ہے اور عوام پانی کے مسئلے پر اٹھ کھڑے ہوئے ہیں، انہوں نے الزام عائد کیا کہ اس معاملے پر پیپلز پارٹی کا موقف متضاد اور منافقانہ رہا ہے اور پارٹی قیادت نہر منصوبے پر تحفظات کا اظہار کرنے والے قانون سازوں کی حمایت نہیں کر رہی۔

اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ پارلیمنٹ محض ربڑ اسٹیمپ بن کر رہ گئی ہے، شبلی فراز نے حال ہی میں منظور کیے گئے متعدد قوانین کا حوالہ دیا جن میں 26ویں ترمیم بھی شامل ہے۔

انہوں نے خیبر پختونخوا سے 11 ارکان کی مسلسل غیر حاضری کا ذکر کیا اور متنبہ کیا کہ اگر انتخابات نہ ہوئے تو 2027 تک سینیٹ میں صوبے کی کوئی نمائندگی نہیں ہوگی۔

انہوں نے جیل میں قید پی ٹی آئی سینیٹرز کے پروڈکشن آرڈرز پر عملدرآمد میں تاخیر اور اسٹیٹ بینک ترمیمی بل پر بھی تنقید کی، جس میں آئین کے آرٹیکل 59، 60 اور 218 کی خلاف ورزی کا دعویٰ کیا گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اب وقت آگیا ہے کہ ہم آئین پر عمل کریں، ایک اور کورم کال کی وجہ سے سماعت ملتوی کردی گئی۔ اجلاس جمعہ کو صبح ساڑھے 11 بجے دوبارہ شروع ہوگا۔

قبل ازیں سینیٹ نے پوپ فرانسس کی یاد میں ایک منٹ کی خاموشی اختیار کی۔

پیپلز پارٹی کا سی سی آئی اجلاس بلانے کا مطالبہ
پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر پیپلز پارٹی کی نائب صدر سینیٹر شیری رحمٰن نے سندھ اور دیگر صوبوں کو متاثر کرنے والے پانی کے بڑھتے ہوئے بحران سے نمٹنے کے لیے مشترکہ مفادات کونسل (سی سی آئی) کا فوری اجلاس بلانے کا مطالبہ کیا۔

انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ متنازع نہری منصوبوں کے منصوبوں کو روک دے، جس کے بارے میں انہوں نے متنبہ کیا کہ اس سے بین الصوبائی اختلافات مزید بڑھ سکتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ 100 سال میں پہلی بار دریائے سندھ میں ریکارڈ کم بہاؤ ہے، جب ملک خشک ہو رہا ہے تو حکومت کو بتانا چاہیے کہ ان نئی نہروں کا پانی کہاں سے آئے گا۔

سینیٹر شیری رحمٰن نے اس بات پر زور دیا کہ چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور صدر آصف علی زرداری سمیت پیپلز پارٹی کی قیادت نے قومی اتفاق رائے کے بغیر دریائے سندھ پر نئی نہر کی تعمیر کی مسلسل مخالفت کی ہے، اور اسے نشیبی علاقوں کے لوگوں کے لیے ’زندگی اور موت‘ کا مسئلہ قرار دیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پانی کی قلت صرف سندھ کا مسئلہ نہیں ہے، یہ ایک قومی ایمرجنسی ہے جو ہر شہری اور ذریعہ معاش کو متاثر کرتی ہے، پانی کے بغیر ہماری زراعت، مویشی اور معیشت نہیں چل سکتی، ہم پانی کی منصفانہ تقسیم کے اپنے آئینی اور اخلاقی حق کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

انہوں نے حکومت پر زور دیا کہ وہ عارضی سیاسی تصفیے سے آگے بڑھے اور ادارہ جاتی میکانزم کے ذریعے بنیادی مسئلے کو حل کرے۔

شیری رحمٰن نے کہا کہ یہ مسئلہ سی سی آئی میں حل ہونا چاہیے نہ کہ بیک ڈور مذاکرات کے ذریعے، ہمیں قومی اتحاد کو مزید نقصان سے بچانے کے لیے اب کام کرنا چاہیے۔

انہوں نے بدین، ٹھٹہ اور سجاول جیسے قحط زدہ اضلاع میں بگڑتے ہوئے حالات پر روشنی ڈالی اور کسانوں اور مقامی برادریوں میں بڑھتی ہوئی بے اطمینانی کے بارے میں متنبہ کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر ہمیں دیوار سے لگا دیا گیا تو ہم پرامن طور پر لیکن بھرپور مزاحمت کریں گے، پیپلز پارٹی جانتی ہے کہ عوام کے حقوق کے لیے کس طرح کھڑا ہونا ہے، ہم صرف ایک قسم کی سیاست جانتے ہیں، وہ ہے بنیادی حقوق کا دفاع۔

سینیٹر شیری رحمٰن نے ارسا کی حالیہ رپورٹوں کی صداقت پر بھی سوال اٹھایا اور پانی کی تقسیم میں شفافیت کے فقدان کو تنقید کا نشانہ بنایا، کسی بھی صوبے کا حصہ یکطرفہ طور پر منتقل نہیں کیا جا سکتا، یہ کوآپریٹو وفاقیت نہیں ہے، یہ ناانصافی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ آئیے اسے فوری طور پر سنجیدگی اور بات چیت کے ساتھ حل کریں، ڈرامے کے ساتھ نہیں، ہم امید کرتے ہیں کہ یہی وجہ اور آئین غالب آئے گا۔

Post Views: 1

متعلقہ مضامین

  • وزیرِ خزانہ کی واشنگٹن میں اہم ملاقاتیں، اقتصادی پیشرفت، عالمی تعاون اور سرمایہ کاری پر توجہ
  • غزہ پر مستقل قبضے کا اسرائیلی خواب
  • ہمارے نظریاتی اختلافات ہوسکتے ہیں لیکن پاکستان کی سالمیت سب سے مقدم ہے، سینیٹر ایمل ولی خان
  • اسحاق ڈار سے ازبک وزیرِ خارجہ کا ٹیلی فونک رابطہ، ریل لائن منصوبے پر گفتگو
  • خوابوں کی تعبیر
  • وزیراعظم سے وزیراعلیٰ سندھ کی ملاقات، کینال منصوبے پر مؤقف پیش کیا
  • پاکستان کسان اتحاد کا گندم کی کاشت میں بہت بڑی کمی لانے کا اعلان
  • حکومت کینال منصوبے پر کثیر الجماعتی مشاورت پر غور کر رہی ہے، وفاقی وزیر قانون
  • مذاکرات دھمکیوں کےذریعے نہیں ہوتے: عظمیٰ بخاری
  • پنجاب کے عوام کی زندگیوں میں آسانیاں لانا میرا خواب ہے: مریم نواز