سکھر :امیر جماعت اسلامی سندھ کاشف سعید شیخ بے امنی و ڈاکوراج کے خلاف منعقدہ کل جماعتی کانفرنس سے خطاب کررہے ہیں

سکھر (نمائندہ جسارت) سندھ کی مختلف سیاسی، سماجی، مذہبی، قوم پرست جماعتوں، وکلا ، صحافیوں، اقلیتی نمائندوں اور سول سوسائٹی کے نمائندوں نے سندھ میں بدامنی اور ڈاکوراج کو سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت کی ناکامی قرار دیتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ آئی جی سندھ پولیس کو ہٹایا جائے۔ سندھ میں امن امان کی بحالی اور جرائم کے خاتمے کے لیے جرائم پیشہ عناصر اور ان کے سہولت کاروں کے خلاف بنا کسی فرق کے آپریشن کرکے اچھی شہرت کے حامل پولیس افسران کو تعینات کیا جائے اور عوام کو ڈاکو راج سے نجات دلائی جائے۔سکھر کے مقامی ہوٹل میں جماعت اسلامی سندھ کے امیر کاشف سعید شیخ کی صدارت میں اپر سندھ میں اغوا، ڈاکوراج، قبائلی تصادم کے خلاف اے پی سی میں امن ایکشن کمیٹی کے قیام کا اعلان۔ 28 جنوری کو ایس پی دفاتر
کے سامنے دھرنا، 16 فروری کو ببرلو اور شکارپور میں انڈس ہائی وے پر دھرنا دیا جائے گا، اس کے بعد بھی حکومت نے امن بحال نہیں کیا تو وزیر اعلیٰ ہائوس کا گھیرائو اور اسلام آباد تک لانگ مارچ ہو گا۔ اے پی سے سے صدارتی خطاب کرتے ہوئے جماعت اسلامی سندھ کے امیر کاشف سعید شیخ نے کہا کہ حکومت کی نااہلی کی وجہ سے اپر سندھ بدامنی کی آگ میں جل رہا ہے۔ ہمارے بچے، کسان، خواتین اور صحافی ڈاکوؤں کی پرتشدد کارروائیوں سے محفوظ نہیں‘ عوام اور سیاسی جماعتوں کے بار بار احتجاج، سڑکیں بلاک کرنے کے باوجود حکومت اور ادارے خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ پولیس، رینجرز اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں پر ہر سال اربوں روپے خرچ کرنے کے باوجود عوام عدم تحفظ کا شکار کیوں ہے؟ لگتا ہے کہ چوکیدار چوروں سے ملا ہوا ہے، سندھ میں پانی پر ڈاکا، امن امان کی مخدوش صورتحال اور ڈاکوراج میں پیپلزپارٹی کی حکومت برابر کی شریک ہے، پانی پر ڈاکے سے لیکر سندھ میں ڈاکو راج تک خاموشی اختیار کی تو تاریخ ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔ مزاحمت میں زندگی ہے اور غلامی موت ہے۔ جماعت اسلامی سندھ میں امن، پانی پر ڈاکے اور سندھ کے وسائل کے تحفظ کے لیے پرامن اور جمہوری جدوجہد جاری رکھے گی۔ سندھ کے حقوق اور مفادات کے لیے تمام سندھ دوست جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا ہونا ہوگا۔کاشف شیخ نے مزید کہا کہ سندھ میں 16 سال سے پیپلز پارٹی کے ظلم و جبر کا دور ہے اور حکمران سندھ کے عوام کا خون پی رہے ہیں۔ امن کی بحالی کے لیے 155 ارب روپے اور آپریشن کے نام پر الگ بجٹ رکھا گیا لیکن اس کے باوجود سندھ کے عوام امن کیلئے ترس رہے ہیں۔ ہر ضلع میں پانچ سے چھ افراد کو اغوا کئے ہوئے ہیں۔ اپرسندھ کی 72 لاکھ آبادی اس وقت جرائم پیشہ افراد کے ہاتھوں یرغمال ہے۔ سندھ کو جان بوجھ کر وانا وزیرستان بنایا جا رہا ہے۔ اے پی سی میں 35 سے زائد سیاسی، سماجی، مذہبی قوم پرست جماعتوں، وکلاء ، صحافیوں، اقلیتوں اور سول سوسائٹی کے نمائندوں نے شرکت کی۔اس موقع پر ملی یکجہتی کونسل سندھ کے صدر سابق ایم این اے اسد اللہ بھٹو نے کہا کہ سندھ صدیوں سے پرامن سرزمین رہی ہے، لیکن یہاں پر بدامنی کی آگ ہاتھ سے بھڑکائی گئی ہے۔ اے پی سی میں ایک ایکشن کمیٹی بنائی جائے جو یہاں کے منتخب اراکین اسمبلی سے ملاقاتیں کرکے اسمبلی میں آواز اٹھانے سمیت قیام امن کیلئے بھرپور کردار ادا کرنے پر زور دیا جائے۔ سابق ایم این اے میاں مٹھو نے کہا کہ پنجاب کے لوگوں نے اپنا پانی بھارت کو بیچ دیا ہے اور سندھ کے پانی پر ان کا کوئی حق نہیں ہے، سی پیک گیس، بجلی، کوئلہ اور پیٹرول بھی یہاں سے پنجاب جاتا ہے۔ پنجاب نے اگر پانی پر ڈاکہ زنی کی کوشش کی تو بھرپور مزاحمت ہو گی.

سندھ کا پانی روکنے کی طاقت کسی ماں کے لعل میں نہیں اس لیے اسلام آباد میں بیٹھے حکمران ہوش سے کام لیں۔ایس ٹی پی کے عبدالفتاح سمیجو نے کہا کہ زرداری مافیا نے سندھ کے وسائل کا سودا کیا ہے، صرف چند اضلاع میں امن امان کا مسئلہ ہے لیکن پانی کا مسئلہ سندھ کے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ بن گیا ہے ایم ڈبلیو ایم کے مرکزی رہنما مقصود علی ڈومکی نے کہا کہ نااہل لوگوں کو فارم 47 پر جتوانے والی طاقتیں سندھ میں امن کی بدترین صورتحال پر کیوں خاموش ہیں؟۔ سندھ میں امن کی بحالی ریاست کی ذمہ داری ہے، اغوا کلچر سندھ کا دردناک پہلو ہے۔ ہر آپریشن کے بعد جرائم بڑھ جاتے ہیں کیونکہ آپریشن کے نام پر ڈرامہ ہوتا ہے۔ پی ٹی آئی رہنما اقبال بجارانی نے کہا کہ زرداری اور سرداری نظام نے اپر سندھ کے 5 اضلاع کا امن تباہ کر دیا ہے۔ پیپلز پارٹی کی حکومت اور سردار ڈاکو راج میں برابر کے شریک ہیں۔ فوجی آپریشن کرکے فوری امن بحال کیا جائے۔ جے یو آئی (ف)کے محمد صالح اندھر نے کہا کہ حکومتی نااہلی کی وجہ سے اپر سندھ عملاً اغوا کی صنعت بن چکا ہے۔ بیوروکریسی کا پورا نظام تباہ ہے، رشوت کے بغیر کوئی اچھا عہدہ نہیں مل سکتا۔ عملی طور پر بیوروکریسی کو وڈیروں کا دربان بنا دیا گیا ہے، سینئر صحافی اور سندھ صحافی اتحاد کے صدر نعمت کھڑو نے کہا کہ سندھ میں امن امان کی بحالی اوردریائے سندھ کا پانی چوری کرنے کیخلاف ملین مارچ کیا جائے۔ سی ایم ہاؤس میں بیٹھے وزیر اعلیٰ کو ساڑھے سات لاکھ لوگوں کی پرواہ نہیں سات سال سے پریا کماری، 18 سال سے فضیلہ سراکی اغوا اور صحافیوں جان محمد مہر، نصراللہ گوانی کے قاتل گرفتار نہیں ہوئے، جو کہ ایک بہت بڑا المیہ ے۔ فنکشنل لیگ کے چیف آرگنائزر کاشف نظامانی نے کہا کہ پورا سندھ بدامنی کی لپیٹ میں ہے،پیپلز پارٹی کی حکومت نے سندھ کو اتنا نقصان پہنچایا ہے کہ 50 سال میں بھی ٹھیک نہیں ہو سکتا۔ جو سی ایس ایس افسر گھنٹوں وڈیروں اور سرداروں کے اوطاقوں پر انتظار کرتا ہے وہ چوروں کے سرپرستوں کو کیسے قانون کی گرفت میں لائے گا؟ ایس یو پی کے نائب صدر منیر نائچ نے کہا کہ بدامنی اور لاقانونیت کی وجہ سے ریاست اپنا کام نہیں کر رہی ہے۔ سندھ کی زمین اور پانی پرکنٹرول کرنے کے لیے پورے صوبے کو 16 سال سے پیپلزپارٹی کو ٹھیکے پر دیا گیا ہے، دریا سے 6 نہریں نکالنے کا مطلب 3 کالاباغ بنانا ہے۔ تمام سازشوں کو شکست دینے کا واحد حل مزاحمت ہے۔شیعہ علما کونسل کے رہنما علامہ ریاض حسین روحانی نے کہا کہ اس وقت پاراہ چنار سے کشمور تک امن کا پرندہ اڑ چکا ہے۔ جماعت اسلامی کے مرکزی ڈپٹی جنرل سیکرٹری ممتاز حسین سہتو نے کہا کہ امن بحال کرنا ہمارا دینی اور اخلاقی فرض ہے جہاں بھی کوئی جرم ہو مظلوم کا ساتھ دیں۔ دور جاہلیت میں بھی ایسا ظلم نہیں تھا، یہاں تو ہمارے گھر اور بچے محفوظ نہیں۔کندھ کوٹ شہری اتحاد کے ڈاکٹر مہر چند نے کہا کہ ہم جس ریاست کو ٹیکس دیتے ہیں وہ ہمیں امن دینے کی پابند ہے لیکن 103 دن احتجاج کیا مگر حکمران اندھے اور گونگے بن چکے ہیں،12لاکھ آبادی کے ضلع کندھ کوٹ کشمور کو 50 ڈاکووں نے یرغمال بنا رکھا ہے۔ہندو برادری کے 15 سے 20 فیصد لوگ نقل مکانی کر چکے ہیں۔ کیو اے ٹی سندھ کے مرکزی نائب صدر روشن کنرانی نے کہا کہ سندھ نے پاکستان بنایا، لیکن آج اسے بدامنی اور ڈاکو راج کا شکار کرکے امن، تعلیم تباہ اور زمینوں پر قبضہ کیا جارہا ہے۔ سندھ کی اصل ثقافت اور تہذیب کو برباد کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ پ ٹ الف کے انتظار چھلگری نے کہا کہ امن کی بحالی اور جرائم کے خاتمے کے لیے پولیس کو غیر سیاسی کرنا ضروری ہے۔ اے پی سی میں جماعت اسلامی سندھ کے جنرل سیکرٹری محمد یوسف، جے یو پی کے حافظ گنہور قادری، درگاہ چہپو شریف کے عبداللہ شاہ، مسکین پور درگاہ حضور بخش حضوری، عوامی تحریک کے حاکم جتوئی،مرکزی اہل حدیث کے قاری محمد عثمان، سماجی کارکن میڈم ناہید،سردار نذیر ببر، عبدالحئی سومرو، لاڑکانہ بار کے اسماعیل ابڑو، چیمبر آف کامرس کے ریوا چند، آل پاکستان ہندو پنچایت کے دنیش کمار، مسلم لیگ ق کے عبدالقادر چاچڑ، سکھر پریس کلب کے صدر ظہیر خان لودھی نے بھی خطاب کیا۔ علامہ حزب اللہ نے اے پی سی کا اعلامیہ پڑھ کر سنایا تو حافظ نصر اللہ اسٹیج سیکرٹری تھے۔

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: جماعت اسلامی سندھ پارٹی کی حکومت پیپلز پارٹی اے پی سی میں کہا کہ سندھ نے کہا کہ اپر سندھ ڈاکو راج کی بحالی پانی پر سندھ کا سندھ کی سندھ کے کے لیے سال سے امن کی

پڑھیں:

وزیراعلیٰ سرفراز بگٹی کی چلتن گھی مل کیخلاف اقدامات کی ہدایات

کوئٹہ میں منعقدہ اجلاس میں 33 سال سے زیر قبضہ چلتن گھی مل کو سیل کرنے اور قابضین کیخلاف سخت کارروائی کا فیصلہ کیا گیا۔ اسلام ٹائمز۔ بلوچستان کے وزیراعلیٰ سرفراز بگٹی کی زیر صدارت چلتن گھی مل سے متعلق اہم اجلاس چیف منسٹر سیکرٹریٹ کوئٹہ میں منعقد ہوا۔ جس میں صوبائی وزیر انڈسٹریز سردار کوہیار خان ڈومکی، چیف سیکرٹری بلوچستان شکیل قادر خان، پرنسپل سیکرٹری بابر خان، ایڈووکیٹ جنرل بلوچستان، سیکرٹری انڈسٹریز، کمشنر کوئٹہ، ڈپٹی کمشنر کوئٹہ، ایڈمنسٹریشن کوئٹہ میونسپل کارپوریشن سمیت متعلقہ حکام نے شرکت کی۔ اجلاس میں 33 سال سے زیر قبضہ چلتن گھی مل کو سیل کرنے اور قابضین کے خلاف سخت کارروائی کا فیصلہ کیا گیا۔ سیکرٹری انڈسٹریز نے وزیراعلیٰ بلوچستان کو تفصیلی بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ 1992 میں معاہدے کی خلاف ورزی پر نجی کمپنی کی لیز ختم کردی گئی تھی، تاہم اس کے باوجود کمپنی نے غیر قانونی طور پر مل پر قبضہ برقرار رکھا ہے۔

بریفنگ میں بتایا گیا کہ قابضین کی جانب سے عدالت عظمیٰ اور عدالت عالیہ میں دائر درخواستیں بھی مسترد ہوچکی ہیں، جبکہ کمپنی پر حکومت بلوچستان کے 23 کروڑ روپے سے زائد کی رقم واجب الادا ہے۔ وزیراعلیٰ سرفراز بگٹی نے اس معاملے پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے متعلقہ محکموں کو ہدایت کی کہ چلتن گھی مل کو فوری طور پر سرکاری تحویل میں لیا جائے اور قابضین کے خلاف قانونی و انتظامی کارروائی عمل میں لائی جائے۔ وزیراعلیٰ نے واضح کیا کہ سرکاری املاک پر قبضہ کسی صورت برداشت نہیں کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت بلوچستان کی پالیسی بالکل واضح ہے۔ سرکاری اثاثے عوام کی امانت ہیں۔ ان پر نجی قبضے کسی قیمت پر قبول نہیں کیے جائیں گے۔ سرفراز بگٹی نے متعلقہ محکموں کو ہدایت کی کہ سابق نجی کمپنی کے تمام قبضہ شدہ حصے واگزار کرائے جائیں۔ واجب الادا رقم کی فوری وصولی یقینی بنائی جائے اور اس ضمن میں غفلت برتنے والے ذمہ داران کے خلاف کارروائی کی جائے۔

متعلقہ مضامین