یورپ میں اسلامو فوبیا کے خلاف قانون سازی کی کوشش
اشاعت کی تاریخ: 14th, January 2025 GMT
11/9 کے بعد یورپ میں شان رسالت، قرآن اور مساجد کی بے حْرمتی کے واقعات میں تیزی آنا شروع ہوئی تو راقم نے اس ناپاک حرکت کو روکنے کے لیے قانون سازی کے لیے مہم کا آغاز ستمبر 2011 سے کیا۔ جس کے لیے چار مراحل پر مشتمل پلان تیار کیا۔ جس میں پہلے نمبر پر اسلام کا غیر متنازع تعارف ہے جو کہ 14ستمبر 2017 سے Introduction of Islam for Native European Non Muslims کے عنوان سے یوٹیوب پر موجود ہے، دوسرے نمبر پر یورپین ممالک میں موجود مسلمان اور نو مسلموں کے اعداد وشمار مرتب کیے، تیسرے نمبر پر سات محدود اسلامی اْمور کی اجازت کے حصول کی جدو جہدشروع کی جن میں: 1 ۔ لاؤڈ اسپیکر پر اذان۔ 2۔ مسلم زیادہ آبادی والے علاقوں میں مساجد تعمیر کی اجازت۔ 3۔ نمازیوں کے لیے ائر پورٹ، دفاتر، اسپتال اور تعلیمی اداروں وغیرہ میں جگہ مختص کرنا۔4۔ نماز جمعہ اور عیدین کے لیے مسلمانوں کو مختصر چھٹی دینا۔ 5۔سحری اور افطاری کے لیے مسلمانوں کو مختصر چھٹی دینا۔ 6۔ عقیقہ اور قربانی وغیرہ کے لیے ایک شہر میں ایک مذبح کی اجازت۔ 7۔ مسلم خواتین کو اسکارف لینے کی اجازت دینا۔ آخری مرحلے میں شان رسالت، قرآن اور مساجد کی بے حْرمتی پر یورپ میں اْسی طرح قانون سازی اور سزا ہونی چاہیے جیسا کہ ہوائی جہاز اغوا کرنے، منشیات اسمگل کرنے اور دہشت گردی پر دی جاتی ہے۔ اس حوالے سے میں نے کچھ کاوشیں کی ہیں جو درج ذیل ہیں:
(1) میں نے 17ستمبر 2015 کو امیر ِ جماعت اسلامی کراچی سے ملاقات کی تو انہوں نے قطر کونصلیٹ سے میرا رابطہ کرانے کے لیے خط لکھا اور دوسرا خط 20 ستمبر 2017 کو جماعت اسلامی پاکستان کے مرکزی دفتر کے شعبہ اْمور خارجہ کو لکھا۔ (2) 11اکتوبر 2022 کو میں نے ممتاز عالم دین مفتی زبیر صاحب سے ملاقات کی۔ اْنہوں نے میری کاوشوں کو نا صرف سراہا بلکہ چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل کو خط لکھنے کے لیے میری کاوشوں کی توثیق بھی کی۔ (3) 2022 اور 2023 کے دوران صدر پاکستان کو 2 خطوط لکھے۔ صدر پاکستان کے ملٹری سیکرٹری کو 2022 میں 2 خطوط لکھے۔ (4) 2022 میں دنیا کے تمام ممالک میں مسلمان اور دیگر مذاہب کے افراد کے اعداد وشمار اکھٹا کیے اور ان اعداد وشمار کو براعظم کے اعتبار سے بھی ترتیب دیا۔
یورپ میں قانون سازی کے ضمن میں بعض حوصلہ افزا واقعات بھی قابل ذکر ہیں۔ مئی 2012 میں امریکا میں نو مسلم خاتون نے امتیازی سلوک پر 50 لاکھ ڈالر کا مقدمہ جیتا، جنوری 2015 میں جرمن چانسلر کی اسلام مخالف تحریکوں کی مخالفت، جنوری 2017 میں برطانوی خاتون سابق وزیر اعظم کا اسلام کی حمایت کرنا، جنوری 2017 میں امریکی خاتون سابق وزیر خارجہ کا خود کو مسلمان رجسٹر کرانا، مارچ 2019 میں نیوزی لینڈ میں غیر مسلموں کا مسلمانوں سے اظہار یکجہتی کرنا، کینیڈا کے وزیر اعظم کا اسلام کے حق میں بیان دینا، روسی صدر کا اسلام کے حق میں بیان دینا، برطانوی سفیر اور اْن کی بیوی کا اسلام قبول کرنا، فروری 2024 میں برطانوی ارب پتی تاجر کا قبول اسلام، سویڈن میں 2020 میں قرآن مجید کی بے حْرمتی کرنے والے کو مجرم قرار دیا گیا۔ یہ فیصلہ اکتوبر 2023 میں آیا، دسمبر 2023 میں ڈنمارک میں توہین قرآن کو غیر قانونی قرار دیا گیا، 15 مارچ 2022 کو اسلاموفوبیا سے نمٹنے کا عالمی دن قرار دیا گیا۔
15 مارچ 2024 کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اسلاموفوبیا کے خلاف پاکستان کی قرار داد منظور کی گئی۔ اس کے ساتھ ساتھ قومی سطح پر 15 مارچ 2024 کو بلاول زرداری نے اسلامو فوبیا سے نمٹنے کے عالمی دن پر بیان دیا کہ اسلاموفوبیا کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا ضروری ہے۔
قانون سازی کیوں ضروری ہے اس حوالے سے چند واقعات پیش خدمت ہیں۔ اکتوبر 2018 میں ہالینڈ میں گستاخانہ ٹوئٹ کیا گیا، نومبر 2019 میں ناروے میں قرآن مجید شہید کیا گیا، اکتوبر 2020 میں فرانس کی سرکاری عمارتوں پر گستاخانہ خاکے آویزاں کیے گئے، اپریل 2022 میں سویڈن میں قرآن مجید کی بے حْرمتی کی گئی، اپریل 2022 میں فرانس کے صدارتی اْمیدوار نے غیر مسلموں کو اسلامی اْمور کی مخالفت پر اْکسایا، جنوری 2023 میں سویڈن میں قرآن مجید کی بے حْرمتی کی گئی، جنوری 2023 میں ہالینڈ میں قرآن مجید کی بے حْرمتی کی گئی، جنوری 2023 میں ڈنمارک میں قرآن مجید کی بے حْرمتی کی گئی، جولائی 2023 میں سویڈن میں قرآن مجید کی 2 مرتبہ بے حْرمتی کی گئی، اگست 2023 میں سویڈن میں شاہی محل کے سامنے قرآن مجید کی بے حْرمتی کی گئی، اگست 2023 میں ہالینڈ میں قرآن مجید کی بے حْرمتی کی گئی، ستمبر 2023 میں دی ہیگ میں سفارت خانوں کے باہر قرآن مجید کی بے حْرمتی کی گئی، 15 مارچ 2019 کو نیوزی لینڈ کی مسجد میں نماز جمعہ کے دوران دہشت گردی میں 6 پاکستانیوں سمیت 51 نمازی شہید ہوئے، جون 2021 میں کینیڈا میں 4 مسلمانوں کو قتل کیا گیا، مارچ 2022 میں کینیڈا کی مسجد میں نمازیوں پر کلہاڑی سے حملہ کیا گیا، اپریل 2022 میں کینیڈا میں نمازیوں پر فائرنگ کی گئی، اپریل 2023 میں کینیڈا میں نمازی پر گاڑی چڑھا دی گئی، جنوری 2024 میں امریکا میں اِمامِ مسجد کو شہید کر دیا گیا۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: میں قرا ن مجید کی بے ح رمتی کی گئی میں کینیڈا کی اجازت کا اسلام یورپ میں کیا گیا دیا گیا کے لیے
پڑھیں:
داعش خراسان کا بی ایل اے کے خلاف اعلانِ جنگ، پاکستان کے لئے اچھی خبر یا بری؟
اسلام ٹائمز: اگرچہ داعش خراساں کی بلوچستان میں اپنے آبائی گروپس، داعش عراق اور داعش شام کے ابتدائی دنوں سے ہی موجودگی رہی ہے اور یہ ان کی قیادت کی حمایت کرنے والا پہلا بین الاقوامی گروپ تھا۔ اس سب کے باوجود داعش خراساں نے اب تک کبھی بھی براہ راست قوم پرست قوتوں کا مقابلہ نہیں کیا۔ پہلے ہی صوبے کی غیرمستحکم صورت حال میں داعش خراساں کی انٹری کا مطلب کیا ہے؟ اور کیا یہ بلوچستان میں تنازعات کی حرکیات کو نئی شکل دے سکتا ہے؟ تحریر: محمد عامر رانا
بلوچ باغیوں کی جانب سے دہشتگردانہ حملوں میں اضافے اور اب داعش خراساں کی تنازع میں خاموش مگر حساب کے مطابق شمولیت کے بعد سے بلوچستان کا سیکیورٹی منظرنامہ تیزی سے پیچیدہ ہوتا جارہا ہے۔ ایک غیرمتوقع اقدام کے تحت داعش خراساں نے اپنے قوم پرست ایجنڈوں کو غیر اسلامی قرار دیتے ہوئے نہ صرف پاکستانی ریاست بلکہ اپنی صفوں میں موجود باغیوں کے خلاف اعلانِ جنگ کیا ہے۔ حال ہی میں داعش خراساں نے پاکستان میں نسلی لسانی قوم پرست تحریکوں کی مذمت کرتے ہوئے ایک کتابچہ جاری کیا جس میں واضح طور پر بلوچ اور پختون قوم پرست تحریکوں کو نشانہ بنایا گیا۔ گروپ نے بلوچ یکجہتی کمیٹی اور اس کی رہنما ماہ رنگ بلوچ کے ساتھ ساتھ پشتون تحفظ موومنٹ اور اس کے رہنما منظور پشتین پر بھی تنقید کی۔ ایسا کتابچہ جاری کیا جانا ہی اپنے آپ میں تشویش ناک تھا۔
تاہم اگلے دن داعش خراساں نے ایک آڈیو جاری کرکے معاملات کو مزید کشیدہ کیا جس میں بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) پر بلوچستان کے ضلع مستونگ میں اپنے جنگجوؤں کو ہلاک کرنے کے الزام کو جواز بنا کر بلوچ باغیوں کے خلاف باضابطہ اعلانِ جنگ کیا۔ اگرچہ داعش خراساں کی بلوچستان میں اپنے آبائی گروپس، داعش عراق اور داعش شام کے ابتدائی دنوں سے ہی موجودگی رہی ہے اور یہ ان کی قیادت کی حمایت کرنے والا پہلا بین الاقوامی گروپ تھا۔ اس سب کے باوجود داعش خراساں نے اب تک کبھی بھی براہ راست قوم پرست قوتوں کا مقابلہ نہیں کیا۔
پہلے ہی صوبے کی غیرمستحکم صورت حال میں داعش خراساں کی انٹری کا مطلب کیا ہے؟ اور کیا یہ بلوچستان میں تنازعات کی حرکیات کو نئی شکل دے سکتا ہے؟ 2016ء سے اب تک داعش خراساں بلوچستان میں 33 دہشتگرد حملوں میں ملوث رہی ہے جن کے نتیجے میں 436 افراد ہلاک اور 691 زخمی ہوئے۔ مزارات اور گرجا گھر اس کے بنیادی اہداف میں شامل رہے ہیں۔ داعش خراساں نے مزارات اور گرجا گھروں پر 8 حملے کیے ہیں جبکہ سیاسی شخصیات بالخصوص جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی) سے وابستہ سیاستدان اس کی ہٹ لسٹ میں سرفہرست رہے ہیں۔ سیکیورٹی فورسز اور پولیو ہیلتھ ورکرز بھی اس کے اہداف میں شامل رہے ہیں۔
جے یو آئی کے کئی سینئر رہنماؤں پر داعش خراساں نے بلوچستان میں حملہ کیا گیا جن میں مولانا عبدالغفور حیدری، حافظ حمد اللہ اور مولانا عبدالواسع شامل ہیں۔ اس نے سبی میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے امیدوار کو بھی نشانہ بنایا جبکہ سب سے خطرناک حملہ سابق صدر عارف علوی پر قاتلانہ حملہ تھا، جس میں وہ بال بال بچ گئے تھے۔ اس گروپ نے قوم پرست رہنماؤں اور ریاست نواز سیاستدانوں کو بھی نہیں بخشا ہے۔ واضح رہے کہ بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) کے سراج رئیسانی کو 2018ء کی انتخابی مہم کے دوران قتل کردیا گیا تھا۔ اس گروپ کی ایک اور اہم کارروائی مستونگ میں چینی شہریوں کا اغوا تھا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ خیبرپختونخوا کی طرح بلوچستان میں بھی داعش خراساں کی کارروائیاں مخصوص علاقوں تک ہی محدود ہیں۔ خیبرپختونخوا میں اس کی سرگرمیاں زیادہ تر قبائلی ضلع باجوڑ اور پشاور تک محدود ہیں جہاں اس نے بالترتیب 36 اور 19 حملے کیے ہیں۔ داعش خراساں، اسلام کی سلفی مکتبہ فکر کی سختی سے پیروی کرتا ہے جو باجوڑ اور افغانستان کے ہمسایہ علاقوں جیسے کنڑ اور نورستان میں بھی رائج ہے۔ یہ افغان علاقے جہاں داعش خراساں کی گرفت مستحکم ہے، ان کی پاکستان کے ساتھ سرحدیں ملتی ہیں، تاہم بلوچستان میں اس کے آپریشنل حالات مختلف ہے۔
داعش خراساں کی سرگرمیاں صوبے کے وسطی مغربی حصے میں، کوئٹہ کے مضافات سے مستونگ، قلات اور خضدار کے کچھ حصوں پر مرکوز ہیں۔ مستونگ سے اس کی کارروائیاں بولان تک پھیلی ہوئی ہے اور سندھ کی سرحد سے متصل ضلع سبی تک اس کا دائرہ موجود ہے۔ ایک موقع پر سندھ کے محکمہ انسدادِ دہشتگردی نے رپورٹ کیا کہ داعش خراساں نے صوبائی سرحد کے قریب بلوچستان میں تربیتی کیمپ قائم کیے ہیں اور وہ سندھی نوجوانوں بالخصوص براہوئی قبائل سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کو استعمال کرکے سندھ میں دہشتگردی برآمد کر رہے ہیں۔ یہ رپورٹس فروری 2017ء میں سیہون شریف کے مشہور مزار پر داعش خراساں کے دہشتگردانہ حملے کی تحقیقات کے بعد منظر عام پر آئیں۔
مستونگ اور کوئٹہ کے مضافات داعش خراساں کے بڑے مرکز کے طور پر کام کرتے ہیں جہاں اس نے بالترتیب 12 اور 10 حملے کیے ہیں۔ یہ قلات، بولان اور خضدار میں بھی موجود ہے جو قریب ہی واقع ہیں۔ ان علاقوں میں زیادہ تر بلوچ کمیونٹیز آباد ہیں جن میں سے اکثر مذہبی تنظیموں سے وابستہ ہیں۔ جے یو آئی کو یہاں مضبوط سیاسی حمایت حاصل ہے اور کچھ ماہرین اس مذہبی جھکاؤ کو پاکستان میں انضمام سے پہلے ریاست قلات کی دیوبندی مدارس کی سرپرستی کی پالیسی کو قرار دیتے ہیں۔ خیر وجوہات سے قطع نظر، بلوچستان میں مختلف اسلامی تحریکوں بشمول تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) اور شیعہ تنظیموں کے درمیان مسابقت بڑھ رہی ہے۔
شیعہ مدارس نے گزشتہ 15 سالوں میں خطے میں اپنی موجودگی کے دائرے کو وسعت دی ہے۔ بالخصوص لشکر جھنگوی (جو بعد میں داعش خراساں میں ضم ہوگئی) جیسے گروہوں کی جانب سے شیعہ زائرین پر حملے، مستونگ اور نوشکی اضلاع سے گزرنے والے راستوں پر کیے گئے۔ ماضی میں اکثر یہاں قافلوں کو نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ ٹی ایل پی نے بھی اس خطے میں اپنے قدم جما لیے ہیں۔ اس نے بنیادی طور پر کراچی سے، کوئٹہ-کراچی ہائی وے کے ساتھ ساتھ اپنا اثر و رسوخ بڑھایا ہے۔ کراچی میں رہنے والے اس علاقے کے کچھ بلوچ باشندوں نے اس اثر و رسوخ میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ بہر حال، جے یو آئی خطے میں ایک غالب سیاسی قوت ہے اور اس کے پاس اہم انتخابی طاقت موجود ہے۔
داعش خراساں خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں جے یو آئی کو نشانہ کیوں بناتا ہے، یہ انتہائی واضح ہے۔ یہ گروپ جے یو آئی کو پاکستان میں طالبان کے قریبی اتحادی کے طور پر دیکھتا ہے۔ افغانستان میں طالبان کے قبضے سے پہلے افغان طالبان اور داعش خراساں کے درمیان مسلح جھڑپیں جاری ہیں۔ دونوں گروہوں کے درمیان اہم فرق ریاستی ڈھانچے اور خلافت کے تصور کے حوالے سے ان کے خیالات میں ہے۔
داعش خراساں کا ماننا ہے کہ طالبان قوم پرست تحریک ہے جو مغرب کی اتحادی ہے جبکہ پاکستان، دیگر مسلم ریاستوں اور طالبان کے طاقتور اشرافیہ کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔ داعش خراساں کے نزدیک قوم پرستی غیراسلامی تصور ہے اور اب اس نے اپنی کارروائیوں کے دائرے کو ملک میں پُرتشدد اور پُرامن دونوں طرح کی قوم پرست تحریکوں تک پھیلا دیا ہے۔ یہ پیشرفت بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں قوم پرستوں اور انسانی حقوق کی تحریکوں کے لیے خطرے کو بڑھا دے گی جبکہ اسلام پسند عسکریت پسندوں اور قوم پرست باغیوں کے درمیان ممکنہ جھڑپوں کو بھی متحرک کرے گی۔
اب تک دونوں فریقین نے تصادم سے گریز کیا تھا، اس حقیقت کے باوجود کہ وہ ایسے علاقوں میں سرگرم ہیں کہ جہاں بیک وقت دونوں گروپس کارروائیاں کررہے ہیں۔ تاہم ان حرکیات میں تبدیلی کا امکان ہے۔ اگرچہ بی ایل اے نے اپنی آپریشنل کارروائیوں کو صوبے کے بیشتر حصوں میں وسعت دی ہے لیکن داعش خراساں بنیادی طور پر مستونگ اور اس کے اردگرد کے علاقوں تک محدود ہے۔ اس سب کے باوجود اس کی موجودگی بی ایل اے کے لیے ایک اہم خلفشار بن سکتی ہے۔
یہ غیر یقینی ہے کہ آیا یہ ریاست کے سیکیورٹی اداروں کے لیے اچھی خبر ہے یا نہیں۔ اگرچہ کچھ لوگ اسے ایک تنازع کے طور پر دیکھ سکتے ہیں جو بیک وقت دو مخالفین کو کمزور کرسکتا ہے لیکن حقیقت اس سے زیادہ پیچیدہ ہوسکتی ہے۔ داعش خراساں کی جانب سے اپنی آپریشنل حکمت عملی کو ترک کیے جانے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ اس کے بجائے، یہ گروہ حالات سے موافق ہوسکتا ہے اور خود کو مزید بڑھا سکتا ہے جو بلوچستان میں پہلے سے غیر مستحکم سیکیورٹی منظرنامے کو مزید پیچیدہ بنانے کا باعث بنے گا۔
اصل تحریر کا لنک:
https://www.dawn.com/news/1914647/is-k-in-balochistan