برطانیہ نے جرمنی سے مویشیوں کی درآمد پر پابندی لگا دی
اشاعت کی تاریخ: 14th, January 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 14 جنوری 2025ء) برطانوی دارالحکومت لندن سے منگل 14 جنوری کو موصولہ رپورٹوں کے مطابق اس پابندی کے بعد جرمنی سے مویشی، سؤر اور بھیڑیں برطانیہ درآمد نہیں کیے جا سکیں گے، تاکہ یورپی یونین کے رکن اس ملک سے، جہاں ابھی گزشتہ ہفتے ہی مویشیوں میں منہ کھر کی بیماری کے ایک کیس کی تصدیق ہو گئی تھی، یہ بیماری برطانیہ نہ پہنچے۔
جرمن کسانوں کا احتجاج جاری، وزیر خزانہ کا مزید سبسڈی سے انکار
لندن حکومت نے کہا ہے کہ اس وقت برطانیہ میں مویشیوں اور بھیڑوں میں اس بیماری کا کوئی ایک بھی کیس موجود نہیں اور یہ پابندی اس لیے لگائی گئی ہے کہ برطانوی کسانوں، ان کے ذرائع آمدنی اور ان کے مال مویشیوں سب کا تحفظ کیا جا سکے۔
(جاری ہے)
جرمنی میں تقریباﹰ چالیس سال بعد اس بیماری کا پہلا کیسجرمن دارالحکومت برلن کے مضافات میں گزشتہ جمعے کے روز حکام نے تصدیق کر دی تھی کہ ایک فارم پر گوشت کے لیے پالی جانے والی بھینسوں کے ایک ریوڑ میں منہ کھر کی بیما ری کی موجودگی ثابت ہو گئی تھی۔
یہ جرمنی میں مویشیوں میں اس بیماری کا گزشتہ تقریباﹰ 40 برسوں میں سامنے آنے والا پہلا واقعہ تھا۔
مویشیوں میں یہ بیماری ایک وائرس سے لگنے والا مرض ہے، جو بہت تیزی سے پھیلتا ہے اور جس کا نشانہ کھروں والے ایسے جانور بنتے ہیں، جن میں مویشی، سؤر، بھیڑیں اور بکریاں سبھی شامل ہوتے ہیں۔
جرمن گائیوں نے جنگلی خوکچہ گود لے لیا
اس بیماری کا شکار ہونے والے جانوروں کے منہ اور کھر گلنا شروع ہو جاتے ہیں۔
انسانوں کو اس بیماری سے کوئی خطرہ نہیںکھروں والے جانوروں میں یہ بیماری انسانوں کے لیے یا ان کے غذائی تحفظ کے لیے کوئی خطرہ نہیں ہوتی۔ برطانیہ میں پچھلی مرتبہ اس بیماری کی بہت زیادہ پھیل جانے والی وبا 2001ء میں دیکھنے میں آئی تھی۔
تب مجموعی طور پر وہاں چھ ملین سے زائد جانور تلف کرنا پڑ گئے تھے، جس کی وجہ سے ہزاروں برطانوی کسانوں کو شدید مالی نقصانات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
نیچر کی بحالی کے لیے یورپی پارلیمان کا تاریخی قانون کیا ہے؟
برطانیہ کی چیف ویٹرنری آفیسر کرسٹین مڈل مس نے ایک بیان میں کہا، ''ہم نے برطانیہ میں اس بیماری کے ممکنہ پھیلاؤ کی روک تھام کے لیے اقدامات کرتے ہوئے اور کسانوں اور عوام کے فوڈ سکیورٹی سے متعلق مفادات کا تحفظ کرتے ہوئے ایک جامع منصوبہ تیار کر لیا ہے، تاکہ مویشیوں کے لیے تباہ کن ثابت ہونے والا یہ وبائی مرض نہ برطانیہ پہنچے اور نہ ہی کسانوں اور ان کے جانوروں کے لیے کوئی خطرہ پیدا ہو۔‘‘
کرسٹین مڈل مس نے برطانوی کسانوں سے زور دے کر کہا کہ وہ خود بھی اپنے جانوروں میں اس بیماری کی ممکنہ ابتدائی علامات کے سامنے آنے کے حوالے سے بہت محتاط رہیں۔
م م / ک م (روئٹرز، ڈی پی اے)
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے اس بیماری کا کے لیے
پڑھیں:
جرمن چانسلر کی ترکی کو یورپی یونین کا حصہ بنانے کی خواہش
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
انقرہ: جرمنی کے چانسلر فریڈرک مرز نے کہا ہے کہ برلن چاہتا ہے کہ ترکی کو یورپی یونین میں شامل کیا جائے کیونکہ عالمی سیاست کے موجودہ منظرنامے میں ترکی کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔
عالمی میڈیا رپورٹس کےمطابق ترک صدر رجب طیب اردوان کے ساتھ ملاقات کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے جرمن چانسلر نے کہاکہ انہوں نے صدر اردوان کو بتایا ہے کہ وہ یورپی سطح پر ترکی کے ساتھ اسٹریٹجک ڈائیلاگ کا آغاز چاہتے ہیں اور اس سلسلے میں کوپن ہیگن معیارات پر بھی بات ہوئی ہے، ہم ایک نئے جغرافیائی سیاسی دور میں داخل ہو چکے ہیں، جہاں بڑی طاقتیں عالمی سیاست کی سمت طے کر رہی ہیں، ایسے میں یورپ کو ترکی کے ساتھ اپنے تعلقات کو مزید گہرا کرنا ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ ترکی تمام خارجہ و سیکیورٹی امور میں ایک اہم فریق ہے اور جرمنی اس کے ساتھ سیکیورٹی پالیسی کے میدان میں قریبی تعاون کو فروغ دینا چاہتا ہے، مشرقِ وسطیٰ میں یرغمالیوں کی رہائی اور جنگ بندی کی پیش رفت مثبت اشارہ ہے اور پہلی بار پائیدار امن کی امید پیدا ہوئی ہے۔
انہوں نے غزہ میں قیامِ امن کے لیے ترکی، قطر، مصر اور امریکا کے کردار کو سراہا تے ہوئے کہا کہ یہ عمل ان ممالک کے بغیر ممکن نہیں تھا، جرمنی اس امن عمل کو برقرار رکھنے کے لیے ہر ممکن کردار ادا کرے گا۔ انہوں نے تصدیق کی کہ جرمن افسران کو پہلی بار اسرائیل کے جنوبی حصے میں ایک سول-ملٹری سینٹر میں تعینات کیا گیا ہے تاکہ انسانی امداد کی فراہمی میں بہتری لائی جا سکے۔
انہوں نے زور دیا کہ غزہ میں بین الاقوامی سیکیورٹی موجودگی اور حماس کے بغیر گورننس سسٹم قائم کیا جانا ضروری ہے۔
مرز نے کہا کہ “اسرائیل کی جانب سے 7 اکتوبر 2023 کے بعد جو ردعمل آیا، وہ اس کا حقِ دفاع ہے، اور امید ظاہر کی کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے 20 نکاتی امن منصوبے کے تحت یہ عمل پائیدار امن کی راہ ہموار کرے گا۔
ترک صدر اردوان نے اس موقع پر کہا کہ ماس کے پاس نہ بم ہیں، نہ ایٹمی ہتھیار، مگر اسرائیل ان ہتھیاروں سے غزہ کو نشانہ بنا رہا ہے، جرمنی کو کیا یہ سب نظر نہیں آرہا،چانسلر مرز نے ترکی کی جانب سے یورو فائٹر ٹائیفون طیارے خریدنے کے فیصلے پر اطمینان کا اظہار کیا۔
انہوں نے کہا کہ یہ طیارے ہماری مشترکہ سیکیورٹی کے لیے اہم کردار ادا کریں گے، اور یہ تعاون دفاعی و صنعتی شعبے میں نئے مواقع پیدا کرے گا، دونوں ممالک نے ٹرانسپورٹ، ریلویز اور توانائی کے شعبوں میں تعاون بڑھانے پر بھی اتفاق کیا ہے۔
انہوں نے مزی کہاکہ ہم نیٹو اتحادی ہیں اور روس کی توسیع پسندانہ پالیسی یورپ و اٹلانٹک خطے کی سلامتی کے لیے خطرہ ہے، اس لیے نیٹو کی متفقہ حکمتِ عملی پر سختی سے عمل ضروری ہے، ترکی اور جرمنی دونوں اس بات پر متفق ہیں کہ یوکرین میں جنگ جلد ختم ہونی چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ روس کے منجمد اثاثوں سے یوکرین کو ہتھیار فراہم کرنے پر پیش رفت ہو رہی ہے اور یورپی یونین و امریکا اس ضمن میں مشترکہ پابندیاں عائد کرنے پر غور کر رہے ہیں۔
ایک سوال پر مرز نے کہا کہ جرمنی اور یورپ میں اسلاموفوبیا اور نسل پرستی کے خلاف بھرپور جدوجہد کی جا رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ جرمنی ایک آزاد اور کھلا معاشرہ ہے جہاں مسیحی اور مسلمان دونوں آئین کے تحت برابر تحفظ رکھتے ہیں۔ کوئی بھی شخص مذہب یا نسل کی بنیاد پر امتیاز کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔