افغان طالبان اور انڈیا: کل کے دشمن آج دوست
اشاعت کی تاریخ: 15th, January 2025 GMT
بین الاقوامی تعلقات میں دوستی اور دشمنی کبھی مستقل نہیں ہوتی وقت کے ساتھ مفادات بدلتے رہتے ہیں کل کے دشمن آج کے دوست ہو سکتے ہیں اس حقیقت کا سب سے بڑا منہ بولتا ثبوت انڈیا اور افغان طالبان حکومت کے درمیان تعلقات اور دوستی کی بڑھتی ہوئی پینگیں ہیں کسی نے کبھی سوچا بھی نہیں ہو گا کہ طالبان اور انڈیا اس قدر جلدی اور اتنے گہرے انداز میں راتوں رات شیر و شکر ہو جائیں گے اور دوبئی جیسا ملک جو اپنے ملک میں ہندوؤں کے مندر بنانے کی اجازت دے چکا ہے وہ ان دونوں کا سہولت کار ہو گا۔
گزشتہ ہفتے دبئی میں ہونے والی انڈین خارجہ سیکرٹری وکرم مستری اور افغانستان کے عبوری وزیر خارجہ امیر خان متقی کی ملاقات آج کل سفارتی حلقوں میں حیرت کا باعث بنی ہوئی ہے۔ خصوصاً پاکستانی سفارتی حلقوں میں اس کا نوٹس لیا جا رہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ 1996ء میں طالبان کے افغانستان میں پہلی بار حکومت سنبھالنے سے لے کر اب تک انڈیا نے ہمیشہ طالبان مخالف قوتوں کی حمایت کی ہے خواہ یہ شمالی اتحاد ہو، حامد کرزئی ہو یا اشرف غنی کی حکومت ہو انڈیا نے ہر فورم پر طالبان کو دہشت گرد ثابت کیا اور اپنا سارا وزن افغان طالبان کے مخالفوں کے پلڑے میں ڈالا۔ 2021ء میں طالبان کے دوبارہ بر سر اقتدار آنے کے بعد اب یہ دونوں ایک دوسرے کے بہت تیزی سے قریب آ رہے ہیں جس سے پاکستان میں تاثر ابھر رہا ہے کہ مشرقی اور مغربی محاذوں پر پاکستان کے چیلنجز میں اضافہ ہو جائے گا کیونکہ انڈیا کے ساتھ پہلے ہی تعلقات ہمیشہ سے کشیدہ ہیں افغان طالبان کے انڈیا کے ساتھ ملنے سے مغربی بارڈر جو 2600 کلو میٹر ہے وہ غیر محفوظ ہی نہیں بلکہ پاکستان انڈیا اور افغانستان کے درمیان سینڈ وچ بن جائے گا۔
بنگلہ دیش میں حسینہ واجد کے اقتدار کا سورج غروب ہوا تو یہ انڈیا کے لیے بہت بڑا دھچکا تھا کیونکہ حسینہ کے ساتھ مودی حکومت کے مثالی تعلقات کی بڑی وجہ پاکستان تھا دونوں ممالک پاکستان کو اپنا مخالف سمجھتے تھے لیکن وقت بدلا تو بنگلہ دیش کی نئی حکومت نے محمد یونس کی سربراہی میں پاکستان کے ساتھ تعلقات کو بہت زیادہ فروغ دیا جس سے مودی حکومت کی نیندیں اڑ گئیں۔ اس سفارتی شکست کا بدلہ لینے کے لیے انڈیا ایک عرصے سے افغان طالبان کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کے چکر میں تھا گزشتہ سال 24 دسمبر کو پاکستان کی جانب سے دوسری بار افغان علاقوں پر بمباری کے نتیجے میں افغان طالبان نے اس کو اپنی خود مختاری پر حملہ قرار دیا۔ اور انتقامی طور پر انڈیا کے ساتھ تعلقات کا فیصلہ کیا جو ایک ردعمل تھا۔ دوسری جانب انڈیا پاکستان کی بنگلہ دیش کے ساتھ سفارتی کامیابی کا اثر زائل کرنے کے لیے بھی موقع کی تلاش میں تھا۔
یہ دلچسپ بات ہے کہ انڈیا نے ابھی تک افغان طالبان حکومت کو تسلیم نہیں کیا مگر اب انہوں نے افغان طالبان کے نامزد کردہ سفارتکاروں کی میزبانی کرنے، طالبان سکیورٹی فورسز کے لیے انڈیا میں فوجی تربیت دینے پر اتفاق کر لیا ہے۔ یاد رہے کہ اشرف غنی کے دور میں انڈیا نے ایک ارب ڈالر کی لاگت سے کابل میں افغان پارلیمنٹ ہاؤس کی عمارت بنا کر اشرف غنی کو تحفہ میں دی تھی۔ نئے تعلقات کی مد میں ایران میں چاہ بہار پورٹ کے ذریعے دونوں ممالک کے درمیان تجارت کے فروغ کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے۔ پاکستان کو اس نئی پیش رفت پر تشویش ہے کیونکہ انڈیا نے شمالی اتحاد حکومت اور اشرف غنی کے دور میں جاسوسی کا ایک وسیع نیٹ ورک پھیلا رکھا تھا جو افغان بارڈر سے پاکستان میں داخل ہوتے تھے۔ کل بھوشن واقعہ اسی پراجیکٹ کی ایک اہم کڑی تھا۔ افغان انڈیا گٹھ جوڑ سے پاکستان کے سکیورٹی پیرامیٹرز میں اہم تبدیلی آئے گی۔ پاکستانی سرزمین پر افغانستان میں موجود ٹی ٹی پی کی کارروائیاں کوئی راز کی بات نہیں ہے۔ افغان طالبان بہت سیاسی ہو چکے ہیں انہوں نے سوچ سمجھ کر انڈیا کے ساتھ تعلقات کا فیصلہ کیا ہے اس ضمن میں انڈیا کی طرف سے کشمیری مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کو مکمل طور پر بالائے طاق رکھ دیا گیا ہے۔ افغان طالبان خود کو Islamic Emirate کہتے ہیں لیکن اقتدار اور فائدے کے لیے وہ کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ پاکستان کے لیے یہ کافی تشویشناک صورتحال ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے پچھلے دور میں افغانستان سے امریکی انخلا کے لیے جو مذاکرات قطر میں ہوئے تھے ان کی بنیادی شرط یہ تھی کہ افغان سرزمین دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں کی جائے گی پاکستان کو جامع سفارتکاری کے ذریعے دنیا پر واضح کرنا ہو گا کہ پاکستان میں دہشت گردی کے سب سے زیادہ واقعات افغان بارڈر یار سے منظم منصوبہ بندی کے ذریعے ہو رہے ہیں۔ انڈیا 2021ء میں افغانستان سے مکمل طور پر آؤٹ ہو گیا تھا کیونکہ اس وقت افغان طالبان انڈیا کے سخت مخالف تھے لیکن اس نے زیر زمین سفارتکاری جاری رکھی اور ایک وقت یہ بھی آیا کہ اب وہ طالبان حکومت کے ساتھ دوستی کے نئے باب رقم کر رہا ہے۔ افغان طالبان کی موقع پرستی کا یہ عالم ہے کہ افغان طالبان کا قیام پاکستانی مدرسوں سے پڑھے ہوئے طالبان کے ہاتھوں وجود میں آیا تھا مگر اقتدار میں آنے کے بعد یہ پاکستان کے احسان مند ہونے کی بجائے پاکستان مخالف قوتوں کے ساتھ کھڑے ہو گئے۔ ٹی ٹی پی کے معاملے میں افغان طالبان نے پاکستان کی بجائے دہشت گردوں کا ساتھ دیا اب یہ انڈیا کے پراکسی بن کر پاکستان کے خلاف افغان سر زمین کے استعمال کے لیے ایک بار پھر نئی صف بندی کے لیے تیار ہیں۔
ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: افغان طالبان کے کے ساتھ تعلقات پاکستان کے میں افغان انڈیا نے کے لیے
پڑھیں:
افغان طالبان سے مذاکرات میں پاکستان کا مؤقف لکھ کر مان لیا گیا ہے، طلال چوہدری
وزیرِ مملکت برائے داخلہ طلال چوہدری نے کہا ہے کہ افغان طالبان سے مذاکرات میں پہلی مرتبہ پاکستان کا مؤقف تحریری طور پر تسلیم کر لیا گیا ہے، اور خلاف ورزی کی صورت میں پاکستان ثالثوں کو بلیک اینڈ وائٹ میں دکھا سکے گا کہ دراندازی کہاں سے ہوئی۔
یہ بھی پڑھیں: کالعدم ٹی ٹی پی کے لوگ طالبان حکومت میں شامل ہیں، وزیرِ دفاع خواجہ آصف
نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے طلال چوہدری نے کہا کہ پاک افغان مذاکرات کا اعلامیہ ثالثوں نے جاری کیا ہے، جو دونوں فریقین کے اتفاقِ رائے سے طے پایا۔ یہ پہلی بار ہے کہ افغانستان کے ساتھ معاملہ تحریری طور پر طے ہوا ہے۔ ان کے مطابق ایک میکنزم بنانے پر اتفاق ہوا ہے، فی الحال ایک عبوری جنگ بندی نافذ ہے، جب کہ مذاکرات کا اگلا دور 6 نومبر کو ہوگا جس میں جنگ بندی کی خلاف ورزی کے نکات طے کیے جائیں گے۔
پاکستان کی دوہری کامیابیانہوں نے کہا کہ یہ پاکستان کی دوہری جیت ہے کہ دنیا نے بھی ہمارا مؤقف مانا اور افغانستان کو بھی اسے تسلیم کرنا پڑا۔ ماضی میں افغان طالبان سے مختلف فورمز پر براہِ راست بات ہوئی، لیکن یہ پہلا موقع ہے کہ ثالثوں کے ذریعے بات چیت ہوئی ہے۔
افغانستان کا کردار اور بھارت سے تعلقطلال چوہدری کا کہنا تھا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ افغانستان بھارت کی پراکسی کے طور پر کام کر رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: بھارت کے کہنے پر دہشتگردی ہوئی تو پھر ’اینج تے اینج ہی سہی‘، خواجہ آصف
انہوں نے واضح کیا کہ اگر افغان طالبان کہتے ہیں کہ وہ لکھ کر نہیں دیں گے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ کسی چیز کو چھپا رہے ہیں۔ اگر ان کا دامن صاف ہے تو انہیں تحریری طور پر مؤقف دینا چاہیے۔
تحریری ضمانت سے پاکستان کا کیس مضبوطانہوں نے کہا کہ ہمارے پاس ٹھوس شواہد موجود ہیں جن سے انکار ممکن نہیں۔ افغان طالبان بھی نجی طور پر مانتے ہیں کہ افغان سرزمین پر دہشت گرد گروپس موجود ہیں۔ ان کی جانب سے پیشکش کی گئی کہ ٹی ٹی پی کے لوگوں کو شمالی افغانستان منتقل کیا جا سکتا ہے، تاہم اس کے لیے مالی امداد کا مطالبہ بھی کیا گیا۔
فتووں اور سزاؤں کا ذکروزیرِ مملکت نے کہا کہ جن افغان علما نے پاکستان کے خلاف فتوے دیے، انہیں گرفتار کر کے ایک سے دو ہفتوں کی معمولی سزائیں دی گئیں، حالانکہ انہی فتووں کے نتیجے میں دہشت گردی، شہادتیں اور معصوم جانوں کا ضیاع ہوا۔
ٹی ٹی پی اور کابل کی نئی سوچطلال چوہدری کے مطابق ٹی ٹی پی کو اب محسوس ہو رہا ہے کہ افغانستان لکھ کر دینے کو تیار ہے، اور افغان علما بھی فتوی دینے کو تیار ہیں کہ پاکستان میں جہاد نہیں ہو سکتا۔ اسی بنیاد پر ٹی ٹی پی کہہ رہی ہے کہ کابل بھی اب ان کے لیے دشمن تصور کیا جائے گا۔
انہوں نے ایک بار پھر کہا کہ افغان طالبان سے مذاکرات میں پہلی مرتبہ پاکستان کا مؤقف تحریری طور پر مان لیا گیا ہے، جو ایک بڑی سفارتی کامیابی ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
we news افغانستان پاکستان ترکیہ جنگ بندی قطر مذاکرات