Nai Baat:
2025-04-25@08:33:45 GMT

افغان طالبان اور انڈیا: کل کے دشمن آج دوست

اشاعت کی تاریخ: 15th, January 2025 GMT

افغان طالبان اور انڈیا: کل کے دشمن آج دوست

بین الاقوامی تعلقات میں دوستی اور دشمنی کبھی مستقل نہیں ہوتی وقت کے ساتھ مفادات بدلتے رہتے ہیں کل کے دشمن آج کے دوست ہو سکتے ہیں اس حقیقت کا سب سے بڑا منہ بولتا ثبوت انڈیا اور افغان طالبان حکومت کے درمیان تعلقات اور دوستی کی بڑھتی ہوئی پینگیں ہیں کسی نے کبھی سوچا بھی نہیں ہو گا کہ طالبان اور انڈیا اس قدر جلدی اور اتنے گہرے انداز میں راتوں رات شیر و شکر ہو جائیں گے اور دوبئی جیسا ملک جو اپنے ملک میں ہندوؤں کے مندر بنانے کی اجازت دے چکا ہے وہ ان دونوں کا سہولت کار ہو گا۔

گزشتہ ہفتے دبئی میں ہونے والی انڈین خارجہ سیکرٹری وکرم مستری اور افغانستان کے عبوری وزیر خارجہ امیر خان متقی کی ملاقات آج کل سفارتی حلقوں میں حیرت کا باعث بنی ہوئی ہے۔ خصوصاً پاکستانی سفارتی حلقوں میں اس کا نوٹس لیا جا رہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ 1996ء میں طالبان کے افغانستان میں پہلی بار حکومت سنبھالنے سے لے کر اب تک انڈیا نے ہمیشہ طالبان مخالف قوتوں کی حمایت کی ہے خواہ یہ شمالی اتحاد ہو، حامد کرزئی ہو یا اشرف غنی کی حکومت ہو انڈیا نے ہر فورم پر طالبان کو دہشت گرد ثابت کیا اور اپنا سارا وزن افغان طالبان کے مخالفوں کے پلڑے میں ڈالا۔ 2021ء میں طالبان کے دوبارہ بر سر اقتدار آنے کے بعد اب یہ دونوں ایک دوسرے کے بہت تیزی سے قریب آ رہے ہیں جس سے پاکستان میں تاثر ابھر رہا ہے کہ مشرقی اور مغربی محاذوں پر پاکستان کے چیلنجز میں اضافہ ہو جائے گا کیونکہ انڈیا کے ساتھ پہلے ہی تعلقات ہمیشہ سے کشیدہ ہیں افغان طالبان کے انڈیا کے ساتھ ملنے سے مغربی بارڈر جو 2600 کلو میٹر ہے وہ غیر محفوظ ہی نہیں بلکہ پاکستان انڈیا اور افغانستان کے درمیان سینڈ وچ بن جائے گا۔

بنگلہ دیش میں حسینہ واجد کے اقتدار کا سورج غروب ہوا تو یہ انڈیا کے لیے بہت بڑا دھچکا تھا کیونکہ حسینہ کے ساتھ مودی حکومت کے مثالی تعلقات کی بڑی وجہ پاکستان تھا دونوں ممالک پاکستان کو اپنا مخالف سمجھتے تھے لیکن وقت بدلا تو بنگلہ دیش کی نئی حکومت نے محمد یونس کی سربراہی میں پاکستان کے ساتھ تعلقات کو بہت زیادہ فروغ دیا جس سے مودی حکومت کی نیندیں اڑ گئیں۔ اس سفارتی شکست کا بدلہ لینے کے لیے انڈیا ایک عرصے سے افغان طالبان کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کے چکر میں تھا گزشتہ سال 24 دسمبر کو پاکستان کی جانب سے دوسری بار افغان علاقوں پر بمباری کے نتیجے میں افغان طالبان نے اس کو اپنی خود مختاری پر حملہ قرار دیا۔ اور انتقامی طور پر انڈیا کے ساتھ تعلقات کا فیصلہ کیا جو ایک ردعمل تھا۔ دوسری جانب انڈیا پاکستان کی بنگلہ دیش کے ساتھ سفارتی کامیابی کا اثر زائل کرنے کے لیے بھی موقع کی تلاش میں تھا۔
یہ دلچسپ بات ہے کہ انڈیا نے ابھی تک افغان طالبان حکومت کو تسلیم نہیں کیا مگر اب انہوں نے افغان طالبان کے نامزد کردہ سفارتکاروں کی میزبانی کرنے، طالبان سکیورٹی فورسز کے لیے انڈیا میں فوجی تربیت دینے پر اتفاق کر لیا ہے۔ یاد رہے کہ اشرف غنی کے دور میں انڈیا نے ایک ارب ڈالر کی لاگت سے کابل میں افغان پارلیمنٹ ہاؤس کی عمارت بنا کر اشرف غنی کو تحفہ میں دی تھی۔ نئے تعلقات کی مد میں ایران میں چاہ بہار پورٹ کے ذریعے دونوں ممالک کے درمیان تجارت کے فروغ کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے۔ پاکستان کو اس نئی پیش رفت پر تشویش ہے کیونکہ انڈیا نے شمالی اتحاد حکومت اور اشرف غنی کے دور میں جاسوسی کا ایک وسیع نیٹ ورک پھیلا رکھا تھا جو افغان بارڈر سے پاکستان میں داخل ہوتے تھے۔ کل بھوشن واقعہ اسی پراجیکٹ کی ایک اہم کڑی تھا۔ افغان انڈیا گٹھ جوڑ سے پاکستان کے سکیورٹی پیرامیٹرز میں اہم تبدیلی آئے گی۔ پاکستانی سرزمین پر افغانستان میں موجود ٹی ٹی پی کی کارروائیاں کوئی راز کی بات نہیں ہے۔ افغان طالبان بہت سیاسی ہو چکے ہیں انہوں نے سوچ سمجھ کر انڈیا کے ساتھ تعلقات کا فیصلہ کیا ہے اس ضمن میں انڈیا کی طرف سے کشمیری مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کو مکمل طور پر بالائے طاق رکھ دیا گیا ہے۔ افغان طالبان خود کو Islamic Emirate کہتے ہیں لیکن اقتدار اور فائدے کے لیے وہ کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ پاکستان کے لیے یہ کافی تشویشناک صورتحال ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے پچھلے دور میں افغانستان سے امریکی انخلا کے لیے جو مذاکرات قطر میں ہوئے تھے ان کی بنیادی شرط یہ تھی کہ افغان سرزمین دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں کی جائے گی پاکستان کو جامع سفارتکاری کے ذریعے دنیا پر واضح کرنا ہو گا کہ پاکستان میں دہشت گردی کے سب سے زیادہ واقعات افغان بارڈر یار سے منظم منصوبہ بندی کے ذریعے ہو رہے ہیں۔ انڈیا 2021ء میں افغانستان سے مکمل طور پر آؤٹ ہو گیا تھا کیونکہ اس وقت افغان طالبان انڈیا کے سخت مخالف تھے لیکن اس نے زیر زمین سفارتکاری جاری رکھی اور ایک وقت یہ بھی آیا کہ اب وہ طالبان حکومت کے ساتھ دوستی کے نئے باب رقم کر رہا ہے۔ افغان طالبان کی موقع پرستی کا یہ عالم ہے کہ افغان طالبان کا قیام پاکستانی مدرسوں سے پڑھے ہوئے طالبان کے ہاتھوں وجود میں آیا تھا مگر اقتدار میں آنے کے بعد یہ پاکستان کے احسان مند ہونے کی بجائے پاکستان مخالف قوتوں کے ساتھ کھڑے ہو گئے۔ ٹی ٹی پی کے معاملے میں افغان طالبان نے پاکستان کی بجائے دہشت گردوں کا ساتھ دیا اب یہ انڈیا کے پراکسی بن کر پاکستان کے خلاف افغان سر زمین کے استعمال کے لیے ایک بار پھر نئی صف بندی کے لیے تیار ہیں۔

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: افغان طالبان کے کے ساتھ تعلقات پاکستان کے میں افغان انڈیا نے کے لیے

پڑھیں:

بھارت کی طرف سے اٹاری بارڈر بند کیے جانے کے بعد پاکستان نے بھی واہگہ بارڈر بند کردیا

بھارت کی طرف سے اٹاری بارڈر بند کئے جانے کے بعد پاکستان نے بھی واہگہ سرحد بند کردی ہے جس کے بعد بھارت سے پاکستانی اور یہاں سے بھارتی شہریوں کی اپنے ملک واپسی کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔

بھارت کی طرف سے اچانک ویزے منسوخ ہونے کی وجہ سے کئی پاکستانی خاندانوں کو واہگہ بارڈر سے واپس لوٹنا پڑا جبکہ انڈیا سے پاکستان میں شادی کی تقریب میں شرکت کے لئے آنیوالی ایک سکھ فیملی بھی شادی کی تقریبات ادھوری چھوڑ کر واپس لوٹ گئی۔

پاکستان اور بھارت کے درجنوں شہری روزانہ واہگہ /اٹاری بارڈر کے ذریعے ایک دوسرے ملک آتے جاتے ہیں لیکن حالیہ پاک بھارت کشیدگی اور واہگہ اٹاری بارڈر بند ہونے سے مسافروں کی آمدورفت بند ہوگئی ہے۔

جمعرات کے روز جہاں انڈیا سے 28 پاکستانی واپس لوٹے ہیں وہیں پاکستان میں مقیم 105 بھارتی شہری بھی واپس اپنے ملک لوٹ گئے۔

بھارت نے عام ویزا کے حامل پاکستانیوں کو یکم مئی تک بھارت چھوڑنے کا کہا ہے جبکہ سارک ویزا کے حامل افراد کو 48 گھنٹے کی مہلت دی گئی ہے۔

سبی بلوچستان سے تعلق رکھنے والے ایک ہندوخاندان کو بھی واہگہ بارڈر سے واپس لوٹنا پڑا۔ یہ خاندان اندور مدھیہ پردیش انڈیا جارہا تھا لیکن بھارت کی طرف سے بارڈ بند ہونے کے یہ خاندان انڈیا نہیں جاسکتے۔

پاکستانی ہندو فیملی کے ممبر اکشے کمار نے بتایا ان کی فیملی کے 7  لوگ اپنی بھانجی کی شادی میں شرکت کے لئے جارہے تھے، وہ خوش تھے کہ اپنے خاندان سے مل سکیں گے اور شادی کی خوشیوں میں شریک ہوں گے لیکن اب جب یہاں پہنچے ہیں تو معلوم ہوا انڈیا نے بارڈر بند کردیا ہے،اب رات ڈیرہ صاحب لاہور میں گزارنے کے واپس اپنے گھر لوٹ جائیں گے۔

انڈیا سے پاکستان میں شادی کی تقریب میں شرکت کے لئے آنیوالی ایک سکھ فیملی بھی واپس لوٹ گئی، سکھ فیملی کے رکن سردار رمیندر سنگھ نے بتایا وہ انڈیا سے دلہا کے ساتھ یہاں پاکستان دلہن بیاہنے آئے تھے۔ شادی ہوگئی لیکن ابھی کئی رسومات باقی تھیں۔

جب انہیں یہ معلوم ہوا کہ انڈیا نے بارڈر بند کردیا ہے تو وہ واپس جارہے ہیں۔ دلہا بھی چند روز تک واپس چلاجائیگا۔

گھوٹکی سندھ سے تعلق رکھنے والا ایک ہندو خاندان جو نئی دہلی بھارت میں مقیم ہے۔ یہ خاندان واپس پاکستان میں اپنے رشتہ داروں سے ملنے اور مذہبی رسومات ادا کرنے آیا تھا ۔ تاہم جمعرات کو انہیں بھی بھارتی حکام کی طرف سے واپس انڈیا داخلے کی اجازت نہیں مل سکی۔

ہندوفیملی کی رکن اندرا نے بتایا وہ پانچ لوگ جن میں ان کا کم سن بیٹا اوربیٹی جبکہ انکل اور آنٹی شامل ہیں یہ لوگ دوماہ قبل انڈیا سے واپس پاکستان آئے تھے۔

ان کے پاس پاکستانی پاسپورٹ ہیں جبکہ انڈیا کی طرف سے انہیں نوری ویزا دیا گیا تھا لیکن اب بھارتی حکام کی طرف سے انہیں واپس انڈیا جانے کی اجازت نہیں مل سکی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • دشمن کسی غلط فہمی میں نہ رہے: وزیرداخلہ محسن نقوی
  • پاک افغان تعلقات کا نیا دور
  • دشمن کسی غلط فہمی میں نہ رہے، امجد حسین ایڈووکیٹ
  • بھارت کی طرف سے اٹاری بارڈر بند کیے جانے کے بعد پاکستان نے بھی واہگہ بارڈر بند کردیا
  • افغان طالبان کو اب ماسکو میں اپنے سفیر کی تعیناتی کی اجازت
  • انڈیا اور پاکستان کے درمیان دریاؤں کی تقسیم کا سندھ طاس معاہدہ کیا ہے؟
  • ہم ہمیشہ چین کو اپنا قابل اعتماد دوست اور پارٹنر سمجھتے ہیں، سید عباس عراقچی
  • ماحول دوست توانائی کے انقلاب کو روکنا اب ناممکن، یو این چیف
  • انڈیا نے پاکستان کے ساتھ سند طاس معاہدہ معطل کر دیا، پاکستانیوں کو واپس جانے کا حکم، سرحد بند کر دی
  • کراچی: سوٹ کیس سے لاش ملنے کا معمہ حل، قاتل قریبی خاتون دوست نکلی