Nai Baat:
2025-09-18@13:51:32 GMT

افغان طالبان اور انڈیا: کل کے دشمن آج دوست

اشاعت کی تاریخ: 15th, January 2025 GMT

افغان طالبان اور انڈیا: کل کے دشمن آج دوست

بین الاقوامی تعلقات میں دوستی اور دشمنی کبھی مستقل نہیں ہوتی وقت کے ساتھ مفادات بدلتے رہتے ہیں کل کے دشمن آج کے دوست ہو سکتے ہیں اس حقیقت کا سب سے بڑا منہ بولتا ثبوت انڈیا اور افغان طالبان حکومت کے درمیان تعلقات اور دوستی کی بڑھتی ہوئی پینگیں ہیں کسی نے کبھی سوچا بھی نہیں ہو گا کہ طالبان اور انڈیا اس قدر جلدی اور اتنے گہرے انداز میں راتوں رات شیر و شکر ہو جائیں گے اور دوبئی جیسا ملک جو اپنے ملک میں ہندوؤں کے مندر بنانے کی اجازت دے چکا ہے وہ ان دونوں کا سہولت کار ہو گا۔

گزشتہ ہفتے دبئی میں ہونے والی انڈین خارجہ سیکرٹری وکرم مستری اور افغانستان کے عبوری وزیر خارجہ امیر خان متقی کی ملاقات آج کل سفارتی حلقوں میں حیرت کا باعث بنی ہوئی ہے۔ خصوصاً پاکستانی سفارتی حلقوں میں اس کا نوٹس لیا جا رہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ 1996ء میں طالبان کے افغانستان میں پہلی بار حکومت سنبھالنے سے لے کر اب تک انڈیا نے ہمیشہ طالبان مخالف قوتوں کی حمایت کی ہے خواہ یہ شمالی اتحاد ہو، حامد کرزئی ہو یا اشرف غنی کی حکومت ہو انڈیا نے ہر فورم پر طالبان کو دہشت گرد ثابت کیا اور اپنا سارا وزن افغان طالبان کے مخالفوں کے پلڑے میں ڈالا۔ 2021ء میں طالبان کے دوبارہ بر سر اقتدار آنے کے بعد اب یہ دونوں ایک دوسرے کے بہت تیزی سے قریب آ رہے ہیں جس سے پاکستان میں تاثر ابھر رہا ہے کہ مشرقی اور مغربی محاذوں پر پاکستان کے چیلنجز میں اضافہ ہو جائے گا کیونکہ انڈیا کے ساتھ پہلے ہی تعلقات ہمیشہ سے کشیدہ ہیں افغان طالبان کے انڈیا کے ساتھ ملنے سے مغربی بارڈر جو 2600 کلو میٹر ہے وہ غیر محفوظ ہی نہیں بلکہ پاکستان انڈیا اور افغانستان کے درمیان سینڈ وچ بن جائے گا۔

بنگلہ دیش میں حسینہ واجد کے اقتدار کا سورج غروب ہوا تو یہ انڈیا کے لیے بہت بڑا دھچکا تھا کیونکہ حسینہ کے ساتھ مودی حکومت کے مثالی تعلقات کی بڑی وجہ پاکستان تھا دونوں ممالک پاکستان کو اپنا مخالف سمجھتے تھے لیکن وقت بدلا تو بنگلہ دیش کی نئی حکومت نے محمد یونس کی سربراہی میں پاکستان کے ساتھ تعلقات کو بہت زیادہ فروغ دیا جس سے مودی حکومت کی نیندیں اڑ گئیں۔ اس سفارتی شکست کا بدلہ لینے کے لیے انڈیا ایک عرصے سے افغان طالبان کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کے چکر میں تھا گزشتہ سال 24 دسمبر کو پاکستان کی جانب سے دوسری بار افغان علاقوں پر بمباری کے نتیجے میں افغان طالبان نے اس کو اپنی خود مختاری پر حملہ قرار دیا۔ اور انتقامی طور پر انڈیا کے ساتھ تعلقات کا فیصلہ کیا جو ایک ردعمل تھا۔ دوسری جانب انڈیا پاکستان کی بنگلہ دیش کے ساتھ سفارتی کامیابی کا اثر زائل کرنے کے لیے بھی موقع کی تلاش میں تھا۔
یہ دلچسپ بات ہے کہ انڈیا نے ابھی تک افغان طالبان حکومت کو تسلیم نہیں کیا مگر اب انہوں نے افغان طالبان کے نامزد کردہ سفارتکاروں کی میزبانی کرنے، طالبان سکیورٹی فورسز کے لیے انڈیا میں فوجی تربیت دینے پر اتفاق کر لیا ہے۔ یاد رہے کہ اشرف غنی کے دور میں انڈیا نے ایک ارب ڈالر کی لاگت سے کابل میں افغان پارلیمنٹ ہاؤس کی عمارت بنا کر اشرف غنی کو تحفہ میں دی تھی۔ نئے تعلقات کی مد میں ایران میں چاہ بہار پورٹ کے ذریعے دونوں ممالک کے درمیان تجارت کے فروغ کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے۔ پاکستان کو اس نئی پیش رفت پر تشویش ہے کیونکہ انڈیا نے شمالی اتحاد حکومت اور اشرف غنی کے دور میں جاسوسی کا ایک وسیع نیٹ ورک پھیلا رکھا تھا جو افغان بارڈر سے پاکستان میں داخل ہوتے تھے۔ کل بھوشن واقعہ اسی پراجیکٹ کی ایک اہم کڑی تھا۔ افغان انڈیا گٹھ جوڑ سے پاکستان کے سکیورٹی پیرامیٹرز میں اہم تبدیلی آئے گی۔ پاکستانی سرزمین پر افغانستان میں موجود ٹی ٹی پی کی کارروائیاں کوئی راز کی بات نہیں ہے۔ افغان طالبان بہت سیاسی ہو چکے ہیں انہوں نے سوچ سمجھ کر انڈیا کے ساتھ تعلقات کا فیصلہ کیا ہے اس ضمن میں انڈیا کی طرف سے کشمیری مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کو مکمل طور پر بالائے طاق رکھ دیا گیا ہے۔ افغان طالبان خود کو Islamic Emirate کہتے ہیں لیکن اقتدار اور فائدے کے لیے وہ کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ پاکستان کے لیے یہ کافی تشویشناک صورتحال ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے پچھلے دور میں افغانستان سے امریکی انخلا کے لیے جو مذاکرات قطر میں ہوئے تھے ان کی بنیادی شرط یہ تھی کہ افغان سرزمین دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں کی جائے گی پاکستان کو جامع سفارتکاری کے ذریعے دنیا پر واضح کرنا ہو گا کہ پاکستان میں دہشت گردی کے سب سے زیادہ واقعات افغان بارڈر یار سے منظم منصوبہ بندی کے ذریعے ہو رہے ہیں۔ انڈیا 2021ء میں افغانستان سے مکمل طور پر آؤٹ ہو گیا تھا کیونکہ اس وقت افغان طالبان انڈیا کے سخت مخالف تھے لیکن اس نے زیر زمین سفارتکاری جاری رکھی اور ایک وقت یہ بھی آیا کہ اب وہ طالبان حکومت کے ساتھ دوستی کے نئے باب رقم کر رہا ہے۔ افغان طالبان کی موقع پرستی کا یہ عالم ہے کہ افغان طالبان کا قیام پاکستانی مدرسوں سے پڑھے ہوئے طالبان کے ہاتھوں وجود میں آیا تھا مگر اقتدار میں آنے کے بعد یہ پاکستان کے احسان مند ہونے کی بجائے پاکستان مخالف قوتوں کے ساتھ کھڑے ہو گئے۔ ٹی ٹی پی کے معاملے میں افغان طالبان نے پاکستان کی بجائے دہشت گردوں کا ساتھ دیا اب یہ انڈیا کے پراکسی بن کر پاکستان کے خلاف افغان سر زمین کے استعمال کے لیے ایک بار پھر نئی صف بندی کے لیے تیار ہیں۔

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: افغان طالبان کے کے ساتھ تعلقات پاکستان کے میں افغان انڈیا نے کے لیے

پڑھیں:

سعودیہ اور پاکستان جارح کے مقابل ایک ہی صف میں ہمیشہ اور ابد تک، سعودی وزیر دفاع

ریاض(انٹرنیشنل ڈیسک) سعودی وزیر دفاع شہزادہ خالد بن سلمان نے پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان دفاعی معاہدے کے بعد اہم پیغام جاری کیا ہے جبکہ وزیر دفاع خواجہ آصف نے سعودی ہم منصب کے بیان پر بھرپور اظہار یکجہتی کیا ہے۔

سعودی وزیر دفاع خالد بن سلمان نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر وزیراعظم شہباز شریف اور سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کی ملاقات کی خبر شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ ’سعودیہ اور پاکستان جارح کے مقابل ایک ہی صف میں ہمیشہ اور ابد تک‘، خالد بن سلمان نے اس جملے کو اردو، انگریزی اور عرب میں الگ الگ شیئر کیا۔

سعودیہ اور پاکستان۔۔
جارح کے مقابل ایک ہی صف میں۔۔
ہمیشہ اور ابد تک۔???????????????? https://t.co/3oBMFEU1G5

— Khalid bin Salman خالد بن سلمان (@kbsalsaud) September 17, 2025


وزیر دفاع خواجہ نے سعودی ہم منصب کی ایکس پوسٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ پاکستان اور سعودی عرب کے برادرانہ تعلقات کی تاریخ کا ایک اہم موڑ، دو برادر ملک دشمن کے سامنے صف آرا اور شانہ بہ شانہ، رب العزت کے سائے میں مشترک دشمن کے مقابل انشااللہ ساری امت متحد ہوگی، پاکستان زندہ باد، مسلم امہ پائندہ باد۔

پاکستان اور سعودی عرب کے برادرانہ تعلقات کی تاریخ ایک اہم موڑ۔ دو برادر ملک دشمن کے سامنے صف آرا اور شانہ بہ شانہ ۔ رب العزت کے سائے میں مشترک دشمن کے مقابل انشاء اللہ ساری امت متحد ھوگی۔ پاکستان زندہ باد مسلم امہ پائندہ باد https://t.co/1kQxh4KWDk

— Khawaja M. Asif (@KhawajaMAsif) September 18, 2025


واضح رہے کہ گزشتہ روز وزیراعظم شہباز شریف کے دورہ سعودی عرب میں پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان اسٹریٹجک باہمی دفاعی معاہدے پر دستخط ہوئے، جس کے تحت کسی بھی ایک ملک کے خلاف جارحیت کو دونوں ملکوں کے خلاف جارحیت تصور کیا جائے گا۔

مشترکہ اعلامیے میں بتایا گیا ہے کہ ریاض میں سعودی ولی عہد محمد بن سلمان اور وزیرِ اعظم شہباز شریف نے پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان اسٹریٹجک باہمی دفاعی معاہدے پر دستخط کردیے۔

یہ معاہدہ دونوں ممالک کی اپنی سلامتی کو بڑھانے اور خطے اور دنیا میں سلامتی اور امن کے حصول کے لیے مشترکہ عزم کی عکاسی کرتا ہے۔

اس کا مقصد دونوں ممالک کے درمیان دفاعی تعاون کو فروغ دینا اور کسی بھی جارحیت کے خلاف مشترکہ دفاع و تحفظ کو مضبوط بنانا ہے۔

Post Views: 5

متعلقہ مضامین

  • سعودیہ اور پاکستان جارح کے مقابل ایک ہی صف میں ہمیشہ اور ابد تک، سعودی وزیر دفاع
  • طالبان اور عالمی برادری میں تعاون افغان عوام کی خواہش، روزا اوتنبائیوا
  • پاکستان سے افغان مہاجرین کی واپسی میں تیزی، رواں برس کے آخر تک مکمل انخلا کا ہدف
  • افغان حکومت کی سخت گیر پالیسیاں، ملک کے مختلف علاقوں میں فائبر آپٹک انٹرنیٹ بند
  • پاکستان کا سخت مؤقف، افغانستان میں ٹی ٹی پی اور “را” کی موجودگی ناقابل قبول
  • ٹی ٹی پی اور را کی افغانستان میں موجودگی، پاکستان کا طالبان کو سخت پیغام
  • چارلی کرک کے قتل کے بعد ملزم کی دوست کے ساتھ کیا گفتگو ہوئی؟ پوری تفصیل سامنے آگئی
  • ٹی ٹی پی اور ’’را‘‘ کی افغانستان میں موجودگی، پاکستان کا طالبان حکومت کو سخت پیغام
  • طالبان نے بےحیائی روکنے کیلیے وائی فائی پر پابندی لگا کر انٹرنیٹ کیبل کاٹ دی
  • ڈکی بھائی کی طرح انڈیا کے نامور اداکار اور سابق کرکٹرز بھی آن لائن جوئے کی تشہیر پر گرفت میں آگئے