Express News:
2025-04-26@10:28:31 GMT

مومل شیخ نے شوبز میں سب سے قریبی دوست کا نام بتادیا

اشاعت کی تاریخ: 15th, January 2025 GMT

شوبز کی دنیا میں طویل المدتی دوستی کا تصور کم ہی ملتا ہے لیکن اداکارہ مومل شیخ کے مطابق ان کی بہترین دوست اور کوئی نہیں بلکہ ماہرہ خان ہیں۔

حال ہی میں احمد علی بٹ کے پوڈکاسٹ میں گفتگو کرتے ہوئے مومل نے انکشاف کیا، "ماہرہ میری سب سے قریبی دوست ہیں۔ ہم اکثر ساتھ وقت گزارتے ہیں، چاہے ہم اپنی تصاویر اور سیلفیز شیئر نہ کریں۔"

مومل نے بتایا کہ وہ تمام ساتھی فنکاروں کے ساتھ اچھی ہم آہنگی رکھتی ہیں، لیکن ماہرہ کے ساتھ ان کا رشتہ خاص ہے۔ "جب بھی ہم ملتے ہیں، ایسا لگتا ہے جیسے ہم برسوں بعد مل رہے ہوں۔ ہم ہمیشہ وہیں سے بات شروع کرتے ہیں جہاں چھوڑی تھی۔"

ماہرہ اور مومل کی دوستی ان کے کیریئر سے بالکل الگ ہے۔ مومل نے وضاحت کی، "یہ دوستی انڈسٹری سے ہٹ کر ہے۔ ہمارے مشترکہ دوست بھی ہیں، اور ہم سب اکٹھے گھومتے ہیں۔"

مومل شیخ نے گزشتہ برس اپنے خاندان کو "کپورز آف پاکستان" کہنے کے حوالے سے وضاحت دی۔ مومل نے کہا، "میں نے کبھی ایسا نہیں کہا۔ مجھ سے ایک سوال کیا گیا اور میں نے جواب دیا۔ مسئلہ یہ ہے کہ لوگ کلپس اور ریلز دیکھ کر غلط نتائج اخذ کر لیتے ہیں۔"

مومل شیخ، جو معروف اداکار جاوید شیخ کی بیٹی ہیں، نے انکشاف کیا کہ ان کے والد نے کبھی ان کے کیریئر کے لیے سفارش نہیں کی۔ انہوں نے مذاقاً کہا، "بابا، اب تو کر لیں کال!"

مومل نے اپنے والدین کی علیحدگی پر بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ کبھی اپنے والد سے شکوہ نہیں کرتی اور "یہ آزمائشیں اللہ کی طرف سے آتی ہیں۔ اگر آپ اس بات پر یقین رکھیں تو زندگی آسان ہو جائے گی۔ میں نے اپنی زندگی میں چیلنجز کا سامنا کیا، لیکن بہتر مستقبل کے لیے ماضی میں نہیں رہنا چاہیے۔"

 

.

ذریعہ: Express News

پڑھیں:

پولیس اور عوام

مغل دور میں پولیس انسپکٹر کو داروغہ اور پولیس سٹیشن کو کوتوالی کہتے تھےلیکن پھر دور بدلا اور پولیس کے نئے نظام کا آغاز ہوا۔یہ نظام ہمیں انگریز کے دور کی یاد دلاتا ہے۔انگریزوں نے ہندوستان پر قبضہ کیا تو کئی اداروں کی طرح پولیس کے ادارے کا قیام بھی عمل میں لایا گیا،جبکہ 22 مارچ 1861 کو پولیس ایکٹ کی تشکیل ہوئی۔جس کے تحت پولیس نے اپنا کام شروع کیا۔کئی دہائیاں گزر جانے کے بعد پولیس کا محکمہ آج بھی اسی ایکٹ پر قائم ہےجسے مکمل آئینی تحفظ حاصل ہے۔اگرچہ مارچ 2002 میں اس میں تبدیلی کی کوشش کی گئی،تاہم یہ کوشش کامیاب نہ ہوسکی۔صدیوں پر محیط انسانی تاریخ ظاہر کرتی ہے کہ پولیس معاشرے سے جرائم کے خاتمے،امن کے قیام اور قانون کی بالادستی کے لیئے اپنا متعین کردار ادا کرتی ہے اور کرتی آرہی ہے۔وقت گزرنے کے ساتھ جس میں مزید وسعت اور گہرانی پیدا ہوتی جا رہی ہے۔بہت ترقی ہوئی،سائنس نے انسان کو کہاں سے کہاں پہنچا دیا۔تاہم آج تک کوئی ادارہ بھی پولیس کی جگہ نہیں لے سکا۔ریاست کو جب بھی ضرورت پڑتی ہے،ریاست کے مختلف ادارے اس کی معاونت کرتے ہیں۔یہ درست ہے ملک میں روز بروز جرائم کے بڑھتے ہوئے واقعات نے پولیس کی ذمہ داریوں میں انتہا کا اضافہ کیا ہے۔یہ الگ بات کہ ضرورت اور وقت کے تقاضوں کے مطابق پولیس جیسے اہم ادارے کو مناسب وسائل کی فراہمی دستیاب نہیں۔بھرتی اور تبادلوں میں میرٹ کا خیال نہیں رکھا جاتا ۔ بھرتیاں اور تبادلے اشرافیہ کی خواہشات پر ہوتے ہیں۔پولیس کے سربراہان اکثر اس مسئلے کی طرف توجہ دلاتے ہیں لیکن بہت کم ہوتا ہے کہ حکومت ان کی آرا پر توجہ مبذول کرے۔پولیس ایکٹ 1861 میں تبدیلی اب وقت کا تقاضا ہے تاکہ محکمہ کو انتظامی لحاظ سے خود مختار اور فعال بنایاجاسکے۔کیونکہ ڈیڑھ صدی پرانے ایکٹ کے ذریعے جرائم کاخاتمہ ممکن نہیں۔ ہماری خواہش ہے پولیس کو کسی فورس کی بجائے آزاد اور خودمختار قوموں کی طرح ایک خدمت گار ادارہ بنایاجائےتاکہ یہ عوام کے لیئے خوف اور دہشت کی علامت نہ ہو۔حالیہ سالوں کے دوران ملک میں عمومی طور پر امن و امان کی صورت حال میں کافی بہتری آئی ہے۔اس کی وجہ مذہبی انتہا پسندوں،دہشت گردوں اور جرائم پیشہ عناصر کے خاتمے کے لیئے ریاست کے موثر اقدمات ہیں۔ابھی بہت وقت گزراجب کراچی میں بھتہ خوری اور دیگر جرائم کی وارداتیں عام تھیں۔خوف و دہشت کا یہ عالم تھا کہ لوگ سر شام ہی گھروں کو لوٹ جاتے تھے جبکہ روشنیوں کا یہ شہر پوری طرح اندھیروں میں ڈوب چکا تھا،لیکن سندھ پولیس اور رینجرز کے باہمی تعان،بہترین انٹیلی جنس شیئرنگ کے نتیجے میں کراچی کا امن اور روشنیاں کافی حد تک بحال ہو چکی ہیں،جنہیں دائمی شکل دینے کے لیے ابھی اور بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔بدلتی ہوئی صورت حال اور چیلنجزکامقابلہ کرنے کے لیئے نا صرف ضروری قانون سازی درکار ہے بلکہ پوسٹنگ،ٹرانسفر اور ٹریننگ کے نظام میں بھی بہتری اور میرٹ کی بالادستی یقینی بنانےکی ضرورت ہے۔اس کے بغیرحقیقی معنوں میں پولیس کے محکمے کو سدھارا نہیں جاسکتا۔اچھے وقتوں میں پولیس سروس آف پاکستان ناصرف اندرون ملک بلکہ عالمی سطح پر بھی اچھی شہرت کی حامل پولیس سمجھی جاتی تھی۔دنیا بھی اسے بطور پاکستانی ادارہ تسلیم کرتی تھی۔اس سے وابستہ افسران بین الاقوامی سطح پر مختلف ممالک میں فساد کےخاتمے اور قانون کی عملداری کو یقینی بنانے کے لیےخدمات سرانجام دیتے رہے ہیں۔تاہم کمزور جمہوری حکومتوں اور آمروں کی مداخلت کے نتیجے میں زندگی کے دیگر شعبوں کی طرح پولیس کاادارہ بھی روبہ زوال ہوا ہے۔وسائل کی کمی،نت نئی شکل میں سامنے آنے والے جرائم کے خاتمے کے لیئے ناگزیر قانون ساز ی سے اجتناب،جرم و سزا کے کمزور پڑتے محکمانہ رویے،پوسٹنگ،ٹرانسفر میں سیاسی مداخلت،برسر اقتدار سیاسی جماعتوں کی طرف سے پولیس کو سیاسی اور گروہی مقاصد کے لیئے استعمال کرنے کےبڑھتے ہوئے رجحان اور عوامی نمائندوں کی بے جا مداخلت نے پولیس اسٹرکچر کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا ہے۔پھر یہ کہ پولیس اہلکاروں کی گھروں سے سینکڑوں میل دور تقرریاں،ڈیوٹی کےدوران مناسب آرام کے لیے بریک نہ ملنا۔محکمہ میں ناپید ہوتا چھٹی کا تصور اور کسی بھی ہنگامی صورت حال کا مقابلہ کرنے کے لیئے پولیس کا بے دریغ استعمال ایسے عوامل ہیں جنہوں نے اس ادارے کی کارکردگی پر انتہائی مضر اثرات مرتب کئے ہیں۔
وقت آ گیا ہے کہ ہم پولیس فورس کو ایک فعال قومی ادارہ بنانے کے لیے اپنی کوششوں کا آغاز کریں اور دیگر سیکورٹی اداروں کی طرح محکمہ پولیس کو بھی ہر طرح کی سیاست اور سیاسی اجارہ داری سے پاک کر دیں۔مالی اور انتظامی سطح پر جب تک اسے مکمل خودمختاری نہیں دی جاتی،اس سے اچھی توقعات رکنا عبث ہے۔ہو نہیں سکتا کہ ضروری تبدیلیاں لائے بغیر پولیس کوئی مثالی کردار ادا کر سکے۔پولیس کے ادارے سے وابستہ شکایات کے ازالے کے لیئےانتہائی لازم ہے کہ پولیس میں نچلی سطح پر خاندانی اور پڑھے لکھے باشعور نوجوانوں کی بھرتی کی جائے۔افسران بھی اپنے دفاتر میں نہ بیٹھیں بلکہ گاہے بگاہے تھانوں کے دورے کرتے رہیں،تاکہ تھانوں میں دادرسی کے حصول کو آسان بنایا جا سکے۔عمومی طور پر تھانوں سے یہ شکایات پیدا ہوتی ہیں کہ وہاں مظلوم اور غریب افراد کی داد رسی نہیں ہوتی۔اندراج مقدمہ کا حصول ان کے لیے انتہائی مشکل اور ناممکن بنا دیا جاتا ہے۔جائز ایف آئی آر کے لیے بھی رشوت طلب کی جاتی ہے۔رشوت نہ دی جائے تو تھانے کے چکر لگوائےجاتے ہیں۔ایف آئی آر درج ہونے کی صورت میں بھی اتنی مشکلات کھڑی کر دی جاتی ہیں کہ پیسے کے بغیر کسی کے لیے بھی دادرسی کا اگلا مرحلہ ناممکن ہو جاتا ہے۔ بعض صورتوں میں درخواست دہندہ یا مدعی کو ایف آئی آر کے اندراج کے لیئے افسران کے دفاتر کے چکر لگانا پڑتے ہیں یا وکیل کی وساطت سے مقامی سیشن کورٹ میں 22/A، 22/B کے تحت رٹ پٹیشن دائر کرنی پڑتی ہے۔جہاں دو تین سماعتوں کے بعد درخواست دہندہ بالآخر اندراج مقدمہ کا حکم لینے میں کامیاب ہوتا ہے۔اگرچہ یہ بات درست ہے کہ لوگ اکثر جھوٹی ایف آئی آرز کا اندراج کراتے ہیں مگر یہ بھی سچ ہے کہ جائز ایف آئی آر کا اندراج بھی نہیں ہوتاجس کے لیے درخواست دہندہ کو پتہ نہیں کتنے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔قانون میں ہے کہ جو بھی جھوٹی ایف آئی آر دراج کرائے۔بعداز تفتیش غلط ثابت ہونے پر مدعی کے خلاف تعزیرات پاکستان کی دفعہ 182 کے تحت کارروائی ہو سکتی ہے۔تاہم لوگ اس قانون سے ڈرتے اور 182 ت پ کو معمولی نوعیت کی دفعہ(سیکشن) سمجھ کر کارروائی نہیں کرتے۔ لوگوں میں 182 ت پ کا مطلق بھی خوف نہیں ضروری ہے کہ قانون کے اس سیکشن میں ترمیم کی جائے اور اس دفعہ کو اس قابل بنایا جائے کہ لوگ اس سے ڈریں اور خوفزدہ ہوں۔ جب تک 182 ت پ کا ڈر لوگوں پر نہیں بیٹھتا، جھوٹی ایف آئی آرز کا اندراج ہوتا رہے گا۔ ایسی ایف آئی آرز کے اندراج کے بعد لوگ جن مشکلات سے گزرتے ہیں اسکا اندازہ بھی نہیں لگایا جا سکتا۔ ہم نے پولیس کو یورپین پولیس کے مطابق کرنا ہے اور چاہتے ہیں کہ پولیس بھی ان جیسا طرز عمل اختیار کرے۔ قانون سے تجاوز ان کی سرشت میں شامل نہ ہو تو ہمیں پولیس کے ادارے میں بہت سی تبدیلیوں کی ضرورت ہو گی۔شعور کے بغیر ادارے کبھی زندہ نہیں رہ سکتے۔سوچ بدلیں گے تو حالات بدلیں گے۔ پولیس کو وہ تربیت اور وسائل دیں جن کی انہیں ضرورت ہے۔

متعلقہ مضامین

  • پولیس اور عوام
  • بہادر ہوں لیکن شادی سے ڈرلگتا ہے، اداکارہ نے دل کا حال بتادیا،پاکستانی اداکارہ
  • پاکستان مخالف بھارتی پروپیگنڈے پر پاکستانی شوبز شخصیات برہم
  • کراچی پر تیز دھوپ کا راج، گرمی کی شدت کتنی بڑھے گی؟ محکمہ موسمیات نے بتادیا
  • وہ ڈاکٹر اور یہ ڈاکٹر
  • کوچۂ سخن
  • ہم ہمیشہ چین کو اپنا قابل اعتماد دوست اور پارٹنر سمجھتے ہیں، سید عباس عراقچی
  • ماحول دوست توانائی کے انقلاب کو روکنا اب ناممکن، یو این چیف
  • معروف اداکارہ شوبز کی چکاچوند چھوڑ کر ویٹر بن گئیں؛ حیران کن وجہ
  • پاکستان اور روس کا تعاون مزید بڑھانے اور باہمی دلچسپی کے امور پر قریبی روابط پر اتفاق