Jasarat News:
2025-06-02@05:54:06 GMT

اشتہار

اشاعت کی تاریخ: 15th, January 2025 GMT

اشتہار

اشتہار.

ذریعہ: Jasarat News

پڑھیں:

چائے کے اشتہار میں علامہ اقبال اور کے ایل سہگل

انگریزی کے نامور ادیب امیتابھ گھوش نے اپنی کتاب ’سموک اینڈ ایشز‘ میں برطانیہ، چین، انڈیا اور باقی دنیا پر افیون کی تجارت کے معاشی و سماجی اثرات کو موضوع بنایا ہے۔ یہ کتاب افیون کی مخفی تاریخ اور اس دھندے سے فائدہ سمیٹنے والوں کی داستان سناتی ہے، اس کے پہلو بہ پہلو اور بھی قصے چلتے ہیں۔ ایک جگہ ہندوستان میں چائے کے ارتقا کی تاریخ بھی بیان ہوئی جس میں مصنف نے اپنی اور اپنے خاندان کی چائے سے رغبت کے بارے میں بھی بتایا ہے، ان کا کہنا ہے وہ واقعتاً اس کے بغیر ’فنکشن‘ نہیں کر سکتے۔

یہی حال ان کی والدہ کا تھا بلکہ شعور کی منزلیں طے کرتے انہوں نے اپنے آس پاس قریباً ہر کسی کو اسی حال میں پایا، ان کی دانست میں چائے نہ صرف ان کی صحت مندی کے لیے لازمی تھی بلکہ اسے انڈین شناخت کا اہم عنصر سمجھا جانے لگا تھا۔ ان کے خیال میں بہت سے دوسرے انڈینز کی طرح چائے اب ان کے لیے ناگزیر اور آئینی ضرورت بن چکی ہے اور ان کے بقول آج انڈیا میں چائے کا درجہ وہی ہے جو امریکیوں کے لیے ایپل پائی کا ہے۔

امیتابھ گھوش کا کہنا ہے کہ بیسویں صدی سے پہلے زیادہ تر ہندوستانی چائے کو ناپسند کرتے اور اسے شک کی نظر سے دیکھتے تھے لیکن پھر اشتہاروں کے ذریعے ان کے ذہن بدلے گئے۔ 40 کی دہائی میں برصغیر میں چائے کو مقبولیت حاصل ہوئی تو یہ جدید انڈیا کی شاید سب سے شاندار اشتہاری مہم کا نتیجہ تھی جس میں چوٹی کے آرٹسٹوں اور ڈیزائنرز نے حصہ لیا اور عظیم فلم ڈائریکٹر ستیہ جیت رے اور انڈیا میں کمرشل ڈیزائن کے بانی آنند منشی کی خدمات بھی حاصل کی گئی تھیں۔

امیتابھ گھوش نے کتاب میں آنند منشی کی ایک تصویر شامل کی ہے جس میں چرخہ کاتنے کی مشین کے ساتھ ساڑھی میں ملبوس ہندوستانی خاتون کو چائے نوش کرتے دکھایا گیا ہے۔ اس تصویر کا کیپشن ہے: ’چائے سو فیصد سودیشی ہے۔‘ اس سے لوگوں کے ذہن میں چرخے اور مدر انڈیا جیسی ٹھوس علامتوں کو چائے سے رلا ملا کر بدیشی مال کو دیسی مال قرار دیا گیا تھا۔

یہ اشتہار کی اس قوت کا ابتدائی زمانہ ہے جس کی انتہا ہم اب دیکھ رہے ہیں جس میں اشتہار نے انسان کی خود مختاری اور خود اختیاری پر کاری ضرب لگا کر اس کے دل و دماغ کو مٹھی میں کر رکھا ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ مختلف برانڈز کی چائے کے اشتہارات اب بھی عام ہیں جس کی ایک بڑی مثال کرکٹ میچوں میں دیکھنے کو ملتی ہے۔ میدان میں چائے پینے کے لیے ایک گوشہ مختص کر کے اسے تشہیر کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، وقفے وقفے سے اس کے اشتہارات چلتے رہتے ہیں۔ چائے کا کرکٹ سےدیرینہ رشتہ ہے اور ٹیسٹ میچ کی ایک خوب صورتی چائے کا وقفہ بھی ہے، کسی زمانے میں چائے کھلاڑیوں کو میدان میں ہی ’سرو‘ کی جاتی تھی۔

بات کرکٹ اور چائے کے اشتہارات کی ہو رہی تھی تو یہ کہے بنا رہا نہیں جاتا کہ چائے اور دیگر اشیا کے اشتہاروں کی پیہم یلغار نے ٹی وی پر میچ دیکھنے کا لطف غارت کردیا ہے۔ یوں لگتا ہے آپ میچ نہیں اشتہار نامہ دیکھ رہے ہیں۔ اس صورت حال کا عمدہ تجزیہ معروف مارکسسٹ دانشور اعجاز احمد نے اپنے خطبے ’عالمی ادب اور ذرائع ابلاغ‘ میں کیا تھا جس سے یہ اقتباس ملاحظہ کیجیے:

’کرکٹ میں آپ ایک وقت میں ایک اوور دیکھتے ہیں، اسی پر کمنٹری سنتے ہیں، اوور کے بیچ میں چار اشتہار دیکھتے ہیں، ہر کھلاڑی کا لباس اشتہار ہوتا ہے، کھیل کا میدان اشتہارات سے بھرا ہوتا ہے، وکٹ گرتی ہے تو پھر کارپوریٹ کیپیٹل کی عیش ہو جاتی ہے کیوں کہ وہ پھر آپ کو 10 اشتہار دکھا دے گا۔ کوئی فرق نہیں پڑتا کس کی وکٹ گری! وہ آسٹریلین ٹیم کی ہو، انڈین ٹیم کی ہو، پاکستانی کی ہو۔ کوئی فرق نہیں پڑتا۔ کرکٹ کو ٹیلی ویژن پر دکھانے کا بنیادی مقصد تو اسے اشیا کے اشتہار کے لیے استعمال کرنا ہے۔ آپ کے جو کرکٹ کے کھلاڑی ہیں وہ چلتی پھرتی اشیا ہیں۔ وہ اشتہار کی مدد سے اشیا بیچتے ہیں۔ ان سب کا اشیائے صرف میں بدل جانا آپ زندگی کے ہر شعبے میں دیکھ سکتے ہیں۔‘ ( بحوالہ ادبی کتابی سلسلہ ’لاہور‘، ہندی سے ترجمہ: ارجمند آرا)

اب دوبارہ چائے کی طرف چلتے ہیں، اس کے اشتہاروں میں ہم نے اپنے زمانے کے مشہور لوگوں کو تو دیکھ ہی لیا ہے اب ہم آپ کو پرانے وقتوں کی دو مثالوں کے بارے میں بتاتے ہیں جن میں سے ایک کا تعلق علامہ اقبال سے ہے۔ یہ بات پروفیسر سی ایم نعیم کی کتاب ’منتخب مضامین‘ میں شامل مضمون ’پرانے اخبار اور رسائل‘ کے ذریعے میرے علم میں آئی ہے اور یہ آپ کو بھی دلچسپ معلوم ہوگی:

’ان پرانے اشتہاروں میں کبھی کبھی ایسی چیزیں بھی نظر آجاتی ہیں جن کی ہمیں توقع بھی نہیں ہوتی۔ ’تہذیب نسواں‘ کے 14 مارچ 1931 کے شمارے میں ’سبز چائے‘ یا ’گرین ٹی‘ کے ایک لاہوری تاجر کا اشتہار شائع ہوا تھا، جسے میں نے ’نیرنگِ خیال‘ کے کسی شمارے میں بھی دیکھا تھا، اوپر موٹے حروف میں ’اعلیٰ سبز چائے‘ لکھ کر جلی حروف میں یہ عبارت درج کی گئی تھی :

کیا فرماتے ہیں ملک الشعرا جناب علامہ ڈاکٹر سر محمد اقبال اس کی تعریف میں کہ :

چائے سبز است کیمیائے شباب

پیر صد سالہ را جواں سازد

اشتہار کے شعر میں علامہ کی حس ظرافت کی جو جھلک ملتی ہے اسے عرصے سے ہم نے تصور کرنا بھی چھوڑ دیا ہے حالاں کہ ’بانگِ درا‘ میں اپنا ظریفانہ کلام شامل کرنے میں خود اقبال نے دریغ نہیں کیا تھا۔

شاعری میں علامہ اقبال کی شہرت برصغیر کے اطراف و اکناف میں پھیلی ہوئی تھی تو گلوکاری میں کے ایل سہگل کی آواز کا ہندوستان میں ڈنکا بج رہا تھا۔ وہ ایک طرزِ احساس کے نمائندہ بن گئے تھے۔ ایسے میں ان کی نگر نگر پھیلی مقبولیت سے چائے والوں نے فائدہ اٹھانے کی ٹھانی۔

اردو کے ادبی رسائل میں بڑے شوق سے پڑھتا ہوں۔

تقسیم سے پہلے کے رسالے میری دلچسپی کا خاص محور ہیں، ایک دن 1946 کے ’ادبی دنیا‘ کے ایک شمارے میں انڈین ٹی مارکیٹ ایکسپنشن بورڈ کے اشتہار میں کے ایل سہگل کا بھرپور طریقے سے ’استعمال‘ دیکھ کر میں رک گیا، اس میں ان کا سکیچ ہے اور تعارف بھی لیکن چیزے دیگری چائے کے آرٹ سے سمبندھ کو اجاگر کرتی لائنوں کے بعد سہگل کا چائے کے بارے میں قول زریں ہے، آپ یہ دونوں ملاحظہ کرکے جان سکتے ہیں کہ برصغیر میں چائے کی تشہیری مہم کے کیا رنگ ڈھنگ رہے ہیں:

’ساری دنیا کے بڑے بڑے آرٹسٹوں نے چائے کے حسن و خوبی سے محبت کرنا سیکھ لیا ہے، کوئی بھی دوسری چیز دماغ میں آرٹ کے تخلیق کرنے کی صلاحیت کو اتنا زیادہ متحرک نہیں کرتی۔ سنہری آواز والے سہگل کیا فرماتے ہیں، پڑھیے: میں بتاتا ہوں کہ چائے سے مجھے اتنی رغبت کیوں ہے، وجہ یہ ہے کہ گانا، ایکٹنگ اور ہر وہ کام جس سے مجھے اصلی خوشی حاصل ہوتی ہے، چائے میری طبیعت کو موزوں کر دیتی ہے۔‘

گلوکاروں کے چائے کی تشہیری مہم میں حصہ بننے کی ایک مثال ہیرا بائی بڑودیکر کی بھی ہے جو ملکہ موسیقی روشن آرا بیگم کے استاد عبدالکریم خاں صاحب کی صاحبزادی تھیں، ان کے بارے میں داؤد رہبر نے ’باتیں کچھ سریلی سی‘ میں لکھا ہے کہ غم کی دولت انہیں باپ سے ورثے میں ملی تھی، اس لیے وہ جوانی میں بھی اداس اداس گانا گاتی تھیں۔ 1947 میں معروف جریدے ’عالمگیر‘ (لاہور) میں چائے کے اشتہار میں ہیرا بائی بڑودیکر کی چائے کے بارے میں رائے نقل ہوئی ہے جس کے بعد کا رائٹ اپ بھی مزے کا ہے :

’فن موسیقی کی بے نظیر استادِ وقت فرماتی ہیں کہ ’مجھ کو چائے سے بے حد رغبت ہے اس لیے کہ میں نے تجربے سے اس کو خوشگوار متحرک دماغ جانا۔ گانے والوں کے لیے یہ نہایت ہی اہم اور ضروری شے ہے۔‘

ساری دنیا کے لوگ اور بالخصوص آرٹسٹوں کو اس کا تجربہ ہوگیا ہے کہ چائے کے مقابلہ میں کوئی بھی دوسری چیز ایسی نہیں ہے جو دماغ کو اتنا زیادہ تازہ زرخیز اور بار آور بنا سکتی ہے۔

برصغیر کے عوام کو چائے کی لت لگانے کے لیے اشتہارات کے ساتھ ساتھ دوسرے طریقے بھی اختیار کیے گئے۔ مثلاً اس کی پڑیاں گھر گھر پھینکی گئیں اور اسے بہت ارزاں قیمت پر پیش کیا جاتا تھا۔ اس طریقہ واردات کی ایک جھلک پران نول کی کتاب ’لاہور اے سینٹی مینٹل جرنی‘ میں دیکھی جاسکتی ہے:

’تیس کی دہائی کے دوران انڈین ٹی مارکیٹ ایکسپنشن بورڈ نے چائے کو مقبول بنانے کے لیے ایک زبردست مہم چلائی، لاہور کے بازاروں اور گلیوں میں نمایاں جگہوں پر موبائل ٹی اسٹال بنائے گئے جس میں چائے کی تیاری کا عملی مظاہرہ پیش کیا جاتا۔ چائے کے گرما گرم کپ مفت تقسیم کیے جاتے۔ اس کے بعد چائے کا ایک چھوٹا پیکٹ مارکیٹ میں متعارف کرایا گیا جس کی قیمت صرف ایک پیسہ تھی۔ جلد ہی چینی کے برتنوں میں چائے پینا نوجوان نسل کا فیشن بن گیا.’(ترجمہ: نعیم احسن)

صاحبو! چائے نے اشتہارات کے بل بوتے پر برصغیر میں اپنی جڑیں اس قدر مضبوط کر لی ہیں کہ اب یہ پینے والوں کی ’بشری کمزوری‘ بن چکی ہے۔ اس لیے جب تین سال پہلے وفاقی وزیر احسن اقبال نے قوم کو چائے کم پینے کا مشورہ دیا تو چائے کے ’شیدائیوں‘ نے ان کی خوب خبر لی تھی، کیوں کہ آخر ہم پاکستانی بھی تو امیتابھ گھوش کی طرح چائے کے بغیر ’فنکشن‘ نہیں کر سکتے۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

محمود الحسن

گزشتہ دو دہائیوں سے مختلف قومی اور بین الاقوامی میڈیا اداروں سے وابستہ ہیں۔ کتابوں میں 'شرفِ ہم کلامی 2017'، 'لاہور شہر پُرکمال 2020'، 'گزری ہوئی دنیا سے 2022' اور 'شمس الرحمٰن فاروقی ,جس کی تھی بات بات میں اک بات' شائع ہو چکی ہیں۔

wenews احسن اقبال اشتہار افیون امیتابھ گھوش برصغیر بھارت چائے علامہ اقبال کرکٹ محمودالحسن وی نیوز

متعلقہ مضامین

  • چائے کے اشتہار میں علامہ اقبال اور کے ایل سہگل