سرکاری ملازمین کی تقسیم اور انکی مالی مشکلات
اشاعت کی تاریخ: 17th, January 2025 GMT
تاج برطانیہ کے عہد میں جن سرکاری شعبہ جات کا قیام عمل میں لایا گیاان میں قابل ذکر ریلوے،آبپاشی،محکمہ پوسٹ ،پولیس ،جنگلات اور انتظامیہ کے محکمہ جات تھے،ان کا مکمل نیٹ ورک تھا،ناقدین کا خیال ہے کہ برصغیر کے وسائل کو برطانیہ منتقل کرنے کے لئے سفری سہولیات کے نام پر1861میں لنڈی کوتل سے راس کٹاری تک ہندوستان کو ریلوے کی وساطت سے ایک لڑی میں پرو دیا،ہر ریلوے سٹیشن پر ملازمین کی رہائش گاہیں تعمیر ہوئیں،زراعت کی ترقی کے لئے برطانوی انجینئرز نے1840کی دہائی میں سندھ کا سب سے بڑا نہری آبپاشی نظام بنایا، نہروں کے ساتھ ساتھ ڈاک بنگلے اور ملازمین کے مکانات بنائے گئے، اسی طرح 1837 میں ہندوستان میں پہلا ڈاک خانہ بنا ،بعد ازاں ملٹری ضرویات پوری کرنے کے لئے ڈاک کا جدید نظام قائم ہوا۔
مذکورہ محکمہ جات میں ملازمت کرنے والے ہزاروں ملازمین کا روزگار ان سے وابستہ تھا، اپنا تسلط برقرار رکھنے کے لئے فوج میں بھرتیاں ہوئیں، برصغیر کے جوان جنگیں لڑنے کے کام آئے، برطانوی سرکار آج بھی ان بیوائوں کو پنشن ادا کرتی ہے جن کے شوہروں نے ان میں حصہ لیا ۔ قیام پاکستان کے بعد مذکورہ ادارے ریاست کی ملکیت قرار پائے، ان میں قریباً وہی ضابطے، قانون، دفتری امور رائج العمل ہیںجو سامراج ورثہ چھوڑ گیا تھا،وقت کے ساتھ ساتھ نئے قومی ادارے بھی وجود میں آگئے ہیں،یوں سرکاری ملازمتوں کے نئے مواقع پیدا ہوئے، ان کی ورکنگ میں بھی سامراجی رنگ نظر آتا ہے۔ملازمتوں میں طبقاتی تقسیم اسی طرح ہے، جس طرح انگریز بہادر چھوڑ کر گیا ، افسر شاہی کا ڈنکہ آج بھی بجتا ہے،پولیس کے رعب ،نخوت میں بھی خاص کمی نہیں آئی ہے،انصاف کا بول بالا ماضی کی طرح اشرافیہ تک محدود ہے۔
سامراج کے چلے جانے کے بعد بھی یہ ملک فلاحی ریاست کا درجہ نہیں پا سکا،سرکاری اداروں میں فرائض منصبی انجام دینے والے ملازمین میں باقاعدہ حد فاصل قائم ہے، جس کوبرقرار رکھنے میں بڑا کردار ارباب اختیار کا ہے، ملازمین کے مابین
صوابدیدی اختیارات ،مراعات، تنخواہوں، الائونس کی ادائیگی نے اس تقسیم کو اور بھی گہرا کر دیا ہے،یہی تفریق وفاقی اور صوبائی ملازمین میں پائی جاتی ہے،اس کا بڑا نقصان یہ ہے کہ عوامی برتائو کے محکمہ جات کے ملازمین اپنی روزی آپ پیدا کرنے میں ماہر ہیں،ان میں اکثر اس فکر سے اب آزاد ہیں کہ تنخواہ کتنی ہے اور کب بڑھے گی،پنشن میں اضافہ ہو گا کہ نہیں،انکے اثاثہ جات نے ان کے بچوں کا مستقبل بھی محفوظ بنا دیا ہے۔ اس ماحول میں اصل پریشانی اس دیانت دار ملازم کو لاحق جو پراگندہ ماحول میں اپنا دامن صاف رکھنے کی کاوش میں مصروف عمل ہے۔
ریاست میں سرکاری ملازمین کا ایک طبقہ ایسا بھی ہے جس کی مراعات، اختیارات، الائونسز، ہائوس رینٹ، تنخواہ میں اضافہ کرنے کے لئے سرکار از خود بے تاب رہتی ہے، کس کے مفادات کس سے وابستہ ہوتے ہیں راوی یہ بتانے سے قاصر ہے، لیکن جہاں ملازمین کی مخصوص کلاس مراعات کی اس ’شفقت‘ سے مستفید ہوتی ہے، وہاں سرکار بھی اپنی مرضی کے فیصلے لے کر شاد ہوتی ہے۔
افسر شاہی کے بارے میں بانی پاکستان نے کہا تھا کہ یہ قوم کے خادم ہیں،ان خادمین کی بھاری بھر مراعات کا بوجھ جہاں قومی خزانہ کو برداشت کرنا پڑتا ہے وہاں سامراجی رویہ سے عوام کو بھی دو چار ہونا پڑتا ہے، یہ بھی طرفہ تماشا ہے کہ اس کلاس کو تو محلات نما گھروں کا ہائوس رینٹ چند ہزار روپے دنیا پڑتا ہے،مگر جو سرکاری گھروں کے مکیں نہیں ، وہاں گریڈ18کے سرکاری ملازم کو مبلغ ساڑھے آٹھ ہزار ہائوس رینٹ اس گرانی میںدے کر سرکارحاتم طائی کی قبرپر لات مارتی ہے۔ وزیر خزانہ نے نجانے یہ کیسے گمان کر رکھا ہے، کہ فیملی کے لئے کرایہ پر گھر اس رقم میں مل جاتا ہے،یہ الائونس تب سے فریز ہے جب محترمہ بی بی شہید کی حکومت تھی ،ملازمین کی غالب تعداد نا انصافیوں کے خلاف مسلسل سراپا احتجاج ہے،کہا جارہا ہے کہ آئی ایم ایف کے ایجنڈہ کی تکمیل کا راستہ سرکاری ملازمین کی پنشن، لیو ان کیش منٹ اورگریجوٹی میں کٹوتی جیسے اقدامات سے ہوکر گزرتا ہے، اگر سرکاری ملازم فرائض منصبی کی ادائیگی میں عہد شباب گزارنے کے بعد بھی اس قابل بھی نہ رہے کہ اس کے خاندان کو رہنے کے لئے چھت،بچوں کی شادیوں کے لئے روپیہ، پیسہ میسر نہ ہو توہ ماں جیسی ریاست کی محبت کا دعویٰ جھوٹے منہ سے کیسے کرے؟۔
ایک طرف ایلیٹ کلاس سے وابستہ ریٹائرڈ ملازمین ورلڈ ٹور پر نکل کھڑے ہوں، دوسری طرف کارپوریشن کا سیور مین گندگی کے مین ہول میں کام کرتے حفاظتی سامان کی عدم فراہمی پر ابدی نیند سو جائے، اس کے بچے بے آسرا ہو جائیں، ایسا تفاوت کیوں ہے؟ ہمارے وزراء اعظم اور صدور محض چند سال تک پارلیمانی منصب پر فائز رہ کر عمر بھر کی مراعات لیں مگر امریکہ جیسی سپر پاور کے صدور کو ریٹائرڈمنٹ کے بعد جامعات میں پڑھانا اور کتابیں لکھ کر کٹھن زندگی گزارنا پڑے کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟مقتدر طبقہ کی مراعات سے آئی ایم ایف نجانے صرف نظر کیوں کرتا ہے اس کا نزلہ ملازمین کی پنشن پر ہی کیوں گرتاہے؟ انشورنس کی رقم ملازمین کو ادا کرنے سے مشروط کیوں نہیں کرتا۔
دیگر ممالک میں پابندیاں عائد کیوں نہیں کرتا جہاں اوورسیز کو گھر، گاڑی،پلاٹ لینے کی لیز پر سہولت بعدازاں ملازم پنشن کا حق دار بنتا ہے وہاں تو ملازمین کو خزانہ پر بوجھ نہیں سمجھا جاتا، کیا یہ درست ہے کہ خرابی ملازمین کو مراعات فراہم کرنے میں نہیں بلکہ ناقص طرز حکومت میں ہے جس کی لاپروائی سے بدعنوانی کا پیسہ مخصوص جیب میں جاتا ہے۔
ارباب اختیار کی نظر سے خلیفہ اولؓ کا وہ قول کیوں اوجھل ہے کہ میری تنخواہ کا پیمانہ مزدور کی اجرت کے مطابق مقرر کیا جائے، سوشلزم کے پیرو کاروں کا کہنا ہے کہ ہوٹل منیجر اورکک کا مالی معاوضہ اس لئے برابر رکھا جاتا تھا کہ بنیادی ضروریات تو دونوں کی یکساں ہیں۔ سرکاری ملازمین کے معاوضہ جات، تنخواہ، پنشن میں تفاوت سامراجی نظام ہی کا تسلسل ہے،جوڈی سی اور بیلدار میں پایا جاتا تھا۔اسے دور کرنے میں نہ تو پیپلز پارٹی کا نظام’’ مساوات‘‘ کام آسکا نہ ہی’’ تبدیلی والے‘‘ کوئی معجزہ دکھا سکے،ووٹ کو عزت دو کے دعویٰ دار ملازمین کو مراعات دینے میں کوئی اچھی شہرت نہیں رکھتے۔ ملک بھر میں مراعات، پنشن، تنخواہوںکے حوالہ سے جبری تقسیم ملازمین کی مالی مشکلات میں اضافہ کا باعث ہے، ملازمین یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ اگرسامراج جیسا سلوک ہی ان کے ساتھ ہونا تھا تو پھر آزادی کسے کہتے ہیں؟۔
ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: سرکاری ملازمین سرکاری ملازم ملازمین کی ملازمین کو کے لئے کے بعد
پڑھیں:
پنجاب: بارشوں کے دوران 143 شہری جاں بحق، سیکڑوں زخمی
---فائل فوٹوصوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی پنجاب کی جانب سے رواں سال مون سون کی بارشوں کے نتیجے میں ہونے والے جانی و مالی نقصانات کی رپورٹ جاری کردی گئی۔
صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی پنجاب کے ترجمان کے مطابق مون سون بارشوں کا چوتھا سلسلہ 25 جولائی تک جاری رہنے کا امکان ہے۔ لاہور اور راولپنڈی سمیت پنجاب کے بیشتر اضلاع میں بارش متوقع ہے۔
پی ڈی ایم اے پنجاب کے ترجمان کا کہنا ہے کہ لاہور، سیالکوٹ، فیصل آباد اور گوجرانوالہ میں اربن فلڈنگ اور پنجاب کےدریاؤں اور ندی نالوں میں طغیانی کا خدشہ ہے۔
پی ڈی ایم اے پنجاب کے مطابق رواں سال مون سون بارشوں کے باعث تاحال 143 شہری جاں بحق جبکہ 488 افراد زخمی ہوچکے ہیں۔
مالی نقصانات سے متعلق پی ڈی ایم اے کا بتانا ہے کہ بارشوں کے نتیجے میں 200 گھر متاثر اور 121 مویشی ہلاک ہوئے۔
دوسری جانب ڈی جی پی ڈی ایم اے پنجاب کا کہنا ہے کہ سوگوار خاندانوں کی مالی معاونت کی جا رہی ہے اور کسانوں کی فصلوں اور مویشیوں کے نقصانات کا بھی ازالہ کیا جائے گا۔
ڈی جی پی ڈی ایم اے پنجاب کے مطابق منگلا ڈیم میں 53، تربیلا میں 79 فیصد پانی موجود ہے۔
دریائے سندھ میں کالا باغ اور چشمہ کے مقام پر درمیانے درجے کا سیلاب ہے، تربیلا اور تونسہ کے مقام پر نچلے درجے کا سیلاب ہے جبکہ دریائے چناب، راوی، جہلم اور ستلج میں پانی کا بہاؤ نارمل ہے۔