قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے آئی ٹی نے ڈیجیٹل نیشن پاکستان بل منظور کرلیا
اشاعت کی تاریخ: 22nd, January 2025 GMT
وزیر مملکت برائے آئی ٹی شزا فاطمہ— فائل فوٹو
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے آئی ٹی نے ڈیجیٹل نیشن پاکستان بل منظور کرلیا۔
وزیر مملکت برائے آئی ٹی شزا فاطمہ نے بل کو رشوت کے خاتمے اور لوگوں کے بنیادی مسائل کے حل کے لیے ضروری قرار دیا ہے۔
انہوں نے اجلاس میں کہا کہ ڈیٹا ایک جگہ جمع ہونے کا تاثر غلط ہے، ادارے ڈیجیٹلائز ہو رہے ہیں لیکن سرکاری ادارے ڈیجیٹل نہیں ہونا چاہتے ہیں، اس کے لیے جنگ لڑنا پڑ رہی ہے۔
تحریکِ انصاف کے رہنما عمر ایوب نے کہا ہے کہ شارک مچھلیوں نے کاٹ کاٹ کر انٹرنیٹ کیبل کا ستیاناس کر دیا ہے۔
پی ٹی آئی کے رکن عمر ایوب نے بل کی مخالفت میں کہا کہ بتائیں ڈیٹا کیسے محفوظ رہے گا؟ ڈیٹا کا غلط استعمال کیسے روکا جائے گا؟ نادرا، پی ٹی اے میں ریٹائر فوجی جرنیل بیٹھے ہیں، آپ کے پروفیشنل کہاں ہیں؟
چیئر مین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر نے کہا کہ پاکستان ڈیجیٹل اتھارٹی کو فکس کریں ،ایک چیئر پرسن اور 4 ممبر صوبوں سے لیں۔
علاوہ ازیں شیر ارباب نے کہا کہ جب پیکا ایکٹ آیا تو اس کا نقصان ان کو ہوا جو اسے لائے تھے۔
.ذریعہ: Jang News
پڑھیں:
قومی اسمبلی ارکان کو 1.16 ارب روپے کے فری سفری واؤچرز دیے گئے
ایک آڈٹ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ قومی اسمبلی سیکرٹریٹ نے مالی سال 2021-22ء سے 2023-24ء کے دوران ارکان قومی اسمبلی کو 1.16 ارب روپے کے فری سفری واؤچرز جاری کیے، جن میں سے 16 کروڑ 10 لاکھ روپے کے جاری کردہ واؤچرز اور بیان کردہ اخراجات میں فرق سامنے آیا ہے۔ آڈیٹر جنرل آف پاکستان (اے جی پی) کی رپورٹ کے مطابق قومی اسمبلی انتظامیہ نے بتایا کہ اس عرصہ کے دوران سفری واؤچرز کی مد میں باز ادائیگیوں (Reimbursement) اور انکیشمنٹ (Encashment) پر ایک ارب روپے کے اخراجات ہوئے ہیں۔تاہم، آڈٹ حکام کے مطابق قومی اسمبلی سیکرٹریٹ اُن واؤچرز کے اخراجات کا مفصل انداز میں میزانیہ (Reconciled Statement) بنانے میں ناکام رہا جو اسٹیٹ بینک نے باز ادائیگیوں کی صورت میں کیے تھے اور یہ اے جی پی آر کے پاس درج ہیں۔ پورٹ نے ان اخراجات کو غیر مجاز اور بے ضابطہ قرار دیتے ہوئے مالی رپورٹنگ میں قومی اسمبلی سیکرٹریٹ کے ضابطوں میں خامیوں کی نشاندہی کی ہے۔ 31 جنوری 2025ء کو منعقد ہونے والے ڈپارٹمنٹل اکاؤنٹس کمیٹی (ڈی اے سی) کے اجلاس میں قومی اسمبلی انتظامیہ کو ہدایت کی گئی کہ سفری واؤچرز کی باز ادائیگیوں کے اعداد و شمار درست کر کے آڈٹ حکام کو مکمل ریکارڈ فراہم کیے جائیں۔جب اس معاملے پر تبصرے کیلئے رابطہ کیا گیا تو قومی اسمبلی سیکرٹریٹ نے باضابطہ طور پر کوئی بیان دینے سے گریز کیا تاہم، ایک عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر میڈیا کو بتایا کہ Reconciled Statement تیار کرنے کا عمل جاری ہے لیکن اس میں وقت لگے گا۔اس عہدیدار نے مزید کہا کہ ری کنسائلمنٹ کے زیادہ تر کیسز سندھ اور بلوچستان کے ارکان قومی اسمبلی کے ہیں۔