غزہ ; عمارتوں کے ملبے سے 200 لاشیں برآمد، بغیر پھٹے بموں کی صفائی میں 10 سال لگیں گے
اشاعت کی تاریخ: 23rd, January 2025 GMT
غزہ میں اسرائیلی بمباری سے تباہ ہونے والی عمارتوں سے لاشیں برآمد ہونے کا سلسلہ جاری ہے۔
غیرملکی میڈیا کے مطابق غزہ کے محکمہ شہری دفاع اور طبی عملے نے جنگ بندی کے بعد سے اب تک عمارتوں کے ملبے سے 200 لاشیں برآمد کی ہیں۔ فلسطینی حکام کا کہنا ہے کہ بھاری مشینری نہ ہونے کے باعث لاشیں نکالنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔ اسرائیل نے متعدد مشینیں بھی تباہ کردی ہیں جبکہ 100 سے زائد ملازمین کو شہید کردیا۔ تا حال 10 ہزار فلسطینیوں کی لاشیں نہیں مل سکی ہیں۔
دوسری جانب اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ غزہ میں بغیر پھٹے بموں کی صفائی میں 10 سال لگ سکتے ہیں۔
غزہ میں جنگ بندی کے بعد عمارتوں کے ملبے سے اسرائیلی حملوں میں شہید ہونے والے فلسطینیوں کی لاشیں ملنے کا سلسلہ جاری ہے اور اب تک 200 لاشیں مل چکی ہیں، جبکہ اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ غزہ میں بن پھٹے بموں کی صفائی کے لیے کم ازکم 10 سال درکار ہیں۔
رواں ماہ جاری ہونے والے اقوام متحدہ کے نقصانات کے تخمینے کے مطابق اسرائیل کی بمباری کے بعد باقی رہ جانے والے 5 کروڑ ٹن سے زائد ملبے کو صاف کرنے میں 21 سال لگ سکتے ہیں اور اس پر 1.                
      
				
ذریعہ: Express News
پڑھیں:
بلیدہ میں پکنک پر گئے 4نوجوانوں کی مسخ شدہ لاشیں برآمد، خاندانوں میں صف ماتم
کوئٹہ:بلوچستان کے ضلع کیچ کی تحصیل بلیدہ کے علاقے جاڑین سے چار نوجوانوں کی مسخ شدہ لاشیں برآمد ہوئی ہیں۔
نوجوان تقریباً ایک ہفتہ قبل پکنک منانے کے لیے گئے تھے اور اس کے بعد سے لاپتا تھے اور آج یہ افسوسناک واقعہ سامنے آیا ہے جس نے علاقے میں خوف و ہراس پھیلا دیا۔
ذرائع کے مطابق قتل ہونے والے نوجوانوں کی شناخت ذاکر ولد عبداللہ، رزاق ولد عبداللہ، صادق اور پیرجان کے ناموں سے ہوئی ہے۔ تین نوجوان زِردان کوچہ بلیدہ کے رہائشی تھے، جبکہ ایک کا تعلق بٹ کورے پشت جاڑین بازار سے تھا۔
اہل علاقہ کا کہنا ہے کہ یہ نوجوان پکنک کے لیے نکلے تھے اور اسی دن سے ان کے موبائل فون بند ہوگئے تھے، ان کے اہل خانہ نے سوشل میڈیا پر متعدد پوسٹس کے ذریعے حکام بالا سے مدد کی اپیل کی تھی۔
لاشوں کی اطلاع ملتے ہی لواحقین اور مقامی افراد نے پہاڑی علاقے کی جانب روانگی اختیار کی، جہاں سے لاشیں برآمد ہوئیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ لاشیں بری طرح مسخ شدہ حالت میں تھیں اور نوجوانوں کی موٹر سائیکلیں بھی جلا دی گئی تھیں۔ یہ واقعہ بلوچستان میں جاری انسانی حقوق کی پامالیوں اور جبری گمشدگیوں کی ایک اور مثال کے طور پر دیکھا جا رہا ہے جہاں حالیہ مہینوں میں متعدد ایسے واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔
پولیس اور انتظامیہ کی جانب سے ابھی تک کوئی سرکاری بیان جاری نہیں کیا گیا تاہم مقامی ذرائع کا دعویٰ ہے کہ یہ ایک منظم کارروائی کا نتیجہ ہو سکتا ہے۔ خاندانوں نے مطالبہ کیا ہے کہ واقعے کی شفاف تحقیقات کی جائیں اور ذمہ داروں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔