44 فیصد افراد حکومت اور پی ٹی آئی مذاکرات کے حامی، گیلپ سروے
اشاعت کی تاریخ: 25th, January 2025 GMT
ایک سروے کے مطابق حکومت اور تحریک انصاف کے درمیان مذاکرات کی کامیابی کے لیے ہر تین میں سے ایک پاکستانی پُرامید ہے، اکثریت نے مذاکرات کی حمایت کی ہے۔
گیلپ پاکستان کے سروے کے مطابق 44 فیصد پاکستانیوں نے سیاسی مسائل کے حل کےلیے حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان مذاکرات کی مکمل حمایت کی۔
البتہ سروے میں شامل 16 فیصد پاکستانی مذاکرات کی مخالفت کرتے دکھائی دیے، جبکہ 39 فیصد نے مذاکرات پر کوئی تبصر ہ کرنے سے انکار کیا۔
بانی پی ٹی آئی نے مذاکراتی کمیٹی سے ملاقات کا مطالبہ کردیا، ذرائعپی ٹی آئی چیئرمین بیرسٹر گوہر نے کہا کہ اگر حکومت کو جوڈیشل کمیشن نہیں بنانا تو انھیں بھی صرف ہیلو ہائے کے لیے نہیں بیٹھنا۔
گیلپ پاکستان کے اس سوال پر کہ کیا مذاکرات کامیا ب ہوں گے؟ 45 فیصد نے شکوک و شبہات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت وہ اس بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتے، البتہ 33 فیصد پاکستانی مذاکرات کی کامیابی کےلیے پُر امید نظر آئے، جبکہ 19 فیصد نے مذاکرات کی ناکامی کی پیشگوئی کی۔
گیلپ پاکستان نے یہ سروے ملک بھر سے 400 سے زائد افراد سے کیا۔
سروے کے نتائج کا تفصیلی جائزہ لینے سے پتہ چلا کہ مذاکرات کی کامیابی کے لیے خواتین کے مقابلے میں مرد زیادہ پُر امید دکھائی دیے، مردوں میں 41 فیصد جبکہ خواتین میں 25 فیصد نے مذاکرات میں کامیابی کی امید کی۔
اس کے برعکس مذاکرات کی مخالفت کی شرح مردوں میں 21 فیصد، خواتین میں 16فیصد دکھائی دی، مذاکرات میں کامیابی پر شک کا اظہار سروے میں شامل 55 فیصد خواتین نے کیا، جبکہ مردوں میں یہ شرح 35 فیصد نظر آئی۔
.ذریعہ: Jang News
کلیدی لفظ: مذاکرات کی نے مذاکرات پی ٹی آئی فیصد نے
پڑھیں:
وفاقی وزیر عمران شاہ کابی آئی ایس پی ہیڈ کوارٹرز کا دورہ،مستحق افراد کی بروقت مالی امداد پر زور
اسلام آباد: وفاقی وزیر برائے تخفیف غربت و سماجی تحفظ سید عمران احمد شاہ نے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام ہیڈ کوارٹرز کا دورہ کیا جہاں ان کا استقبال چیئرپرسن سینیٹر روبینہ خالد اور سیکرٹری بی آئی ایس پی عامر علی احمد نے کیا۔
چیئرپرسن بی آئی ایس پی سینیٹر روبینہ خالد نے پاکستان میں خواتین کو سماجی و اقتصادی طور پر بااختیار بنانے میں بی آئی ایس پی کے کردار پر روشنی ڈالی ۔ انہوں نے کہا کہ یہ پروگرام شہید محترمہ بینظیر بھٹو کا وژن ہے جنہوں نے دبئی میں جلاوطنی کے دوران اس پروگرام کی بنیاد رکھی۔
بعد ازاں صدر آصف علی زرداری نے 2008 میں پروگرام کو عملی جامہ پہنایا۔ پروگرام میں شمولیت کیلئے قومی شناختی کارڈ کو لازمی قرار دیا گیا اور اسطرح پاکستان کی تقریبا ًایک کروڑ غریب خواتین کو قومی شناخت ملی۔ یہ اقدام پاکستان کی ترقی اور بالخصوص خواتین کی معاشی خودمختاری کی جانب ایک اہم سنگ میل ہے۔ بی آئی ایس پی کی چیئرپرسن نے پاورٹی گریجویشن اور سکل ٹریننگ کے اقدامات جیسے کہ بینظیر ہنرمند پروگرام کے ذریعے مستحقین کی زندگیوں میں بہتری لانے کیلئے بی آئی ایس پی کے عزم کا اظہار کیا جس کا مقصد مستحق خواتین اور انکے گھرانوں کے افراد کو عالمی تقاضوں کے مطابق تکنیکی مہارتوں سے آراستہ کرنا ہے ۔ مزید برآں، انہوں نے وفاقی وزیر کو آگاہ کیا کہ بل اینڈ میلنڈا گیٹس فاؤنڈیشن اور اسٹیک بینک آف پاکستان کے تعاون سے مستحق خواتین کے بینک اکاؤنٹس کھولنے کیلئے پائلٹ مرحلے کا آغاز کیا جارہا ہے۔ ملاقات کے دوران وفاقی وزیر برائے تخفیف غربت و سماجی تحفظ سید عمران احمد شاہ نے سکل ٹریننگ کی اہمیت پر زور دیا ۔
انہوں نے ہنر مند افراد کو بیرون ملک بھیجنے کے حوالے سے جرمنی جیسے ممالک کے ساتھ اشتراک کی تجویز پیش کی۔ انہوں نے سروے کے تحت رجسٹرڈ مستحق افراد کو بروقت مالی امداد فراہم کرنے پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ صوبائی پولیس کے محکموں کے ساتھ مشترکہ کوششوں سے نظام میں شفافیت اور احتساب کو یقینی بنانے کے لیے فیلڈ وزٹ کرنا ضروری ہے۔وفاقی وزیر سید عمران احمد شاہ نے ملک میں تخفیف غربت کے حوالے سے بی آئی ایس پی کے کردار کی تعریف کی اور مستحقین میں پروگرام سے متعلق آگاہی بڑھانے کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے پسماندہ طبقات بالخصوص خواتین کی فلاح و بہبود کے لیے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے مشن کے لیے اپنی مکمل حمایت اور تعاون کا یقین دلایا۔سیکرٹری بی آئی ایس پی عامر علی احمد نے وفاقی وزیر کو بی آئ ایس پی کے تحت خواتین کی مالی معاونت اور سماجی تحفظ کے متعدد اہم اقدامات سے آگاہ کیا جن میں نئے ادائیگی کے ماڈل، ہائبرڈ سوشل پروٹیکشن سکیم، موبائل رجسٹریشن وینز (MRVs) اور نوعمر لڑکیوں کے لیے غذائیت کا پروگرام شامل ہیں۔ انہوں نے ملک میں ہنگامی حالات اور قدرتی آفات کے دوران متاثرہ افراد کی مدد کیلئے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے اہم کردار کو بھی اجاگر کیا۔قبل ازیں ایڈیشنل سیکرٹری بی آئی ایس پی ڈاکٹر طاہر نور نے بی آئی ایس پی کے بنیادی پروگراموں کا ایک جامع جائزہ پیش کیا جن میں بینظیر کفالت، بینظیر تعلیمی وظائف، بینظیر نشوونمااور قومی سماجی و اقتصادی رجسٹری (NSER) شامل ہیں۔