انسانی حقوق کا مغربی فلسفہ اور امتِ مسلمہ
اشاعت کی تاریخ: 26th, January 2025 GMT
(گزشتہ سےپیوستہ)
مگر یہ بات تاریخی طور پر طے شدہ ہے کہ معاشرے کے پسے ہوئے طبقات اور عام شہریوں کے حقوق اور ان کی بنیادی ضروریات کی طرف مغرب کے معاشرتی انقلاب سے صدیوں پہلے جناب نبی اکرمؐ نے حقوق کی بات کی اور عورتوں، غلاموں، بچوں اور ماتحتوں کے حقوق کی نشاندہی کر کے ان کی ادائیگی اور بحالی کو اسلام کے عادلانہ نظام کا حصہ بنا دیا۔
انسانی اور شہری حقوق کے حوالے سے مغرب کے اس یکطرفہ دعوے کا چند اور حوالوں سے بھی جائزہ لیا جا سکتا ہے۔ مثلاً:حکومت کا قیام جبر کی بجائے عوام کی رائے پر ہو، اس کا عملی نمونہ سب سے پہلے جناب رسول اکرمؐ نے پیش کیا کہ اپنا جانشین نامزد کرنے کی بجائے امت کی اجتماعی رائے پر اعتماد کیا اور آپؐ کے وصال کے بعد صحابہ کرامؓ نے باہمی بحث و مباحثہ کے ذریعے حضرت ابوبکرؓ کو خلیفہ اول کے طور پر منتخب کیا۔
حاکم وقت کا رائے عامہ کے سامنے جوابدہ ہونے کا تصور بھی اسلام نے دیا کہ خلیفہ اول حضرت ابوبکرؓ نے اپنے پہلے خطبے میں عوام کو یہ حق دینے کا اعلان کیا کہ اگر میں صحیح طریقے سے حکومت کروں تو میرا ساتھ دو اور اگر غلط رخ پر چلنے لگوں تو مجھے پکڑ کر سیدھا کر دو۔ چنانچہ دنیا نے یہ مناظر دیکھے کہ حضرت عمرؓ جیسے با رعب حکمران کو بھی ایک عام آدمی خطبہ جمعہ کے دوران ٹوک دیا کرتا تھا۔
شخصی یا گروہی حکومت کی بجائے دلیل اور قانون کی حکومت کا تصور بھی ہمیں خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیقؓ کے اس اعلان سے ملتا ہے کہ میں قرآن و سنت کے مطابق حکومت کروں گا، اگر میں اس دستور و قانون کا پابند رہوں تو تم پر میری اطاعت واجب ہے، اور اگر میں قرآن و سنت کی خلاف ورزی کروں تو تم پر میری اطاعت واجب نہیں ہے۔ شخصی حکمرانی کی بجائے قانون اور دستور کی حکمرانی کے لیے حضرت ابوبکرؓ کا یہ تاریخی اعلان اس بات کا ثبوت ہے کہ اسلام دلیل اور قانون کی حکمرانی کا قائل ہے، اور مغرب میں دستوری حکومتوں کا آغاز ہونے سے ایک ہزار قبل دنیا نے اس کا عملی مشاہدہ کر لیا تھا۔
قانون کے سامنے سب کے برابر ہونے اور حکمرانوں کے عدالتی نظام کا پابند ہونے کی بات بڑے فخر کے ساتھ کی جاتی ہے، مگر یہ خوشگوار منظر بھی تاریخ کم و بیش ڈیڑھ ہزار سال قبل دیکھ چکی ہے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ امیر المومنین ہونے کے باوجود قاضی شریع کی عدالت میں ایک فریق کے طور پر پیش ہوئے اور مقدمہ گواہی مکمل نہ ہونے کی وجہ سے ہار گئے۔
حکمرانوں اور عوام کے مل کر رہنے اور ان کے معیار زندگی میں یکسانیت کی بات بھی کی جاتی ہے۔ جبکہ اس سلسلہ میں بھی اسلامی خلافت کو سبقت حاصل ہے کہ خلیفہ منتخب ہونے کے بعدجب بیت المال سے ان کا وظیفہ مقرر کرنے کا فیصلہ کیا گیا تو یہ طے پایا کہ مدینہ منورہ کے ایک متوسط شہری کے معیار زندگی کو سامنے رکھ کر خلیفہ کا وظیفہ مقرر کیا جائے۔ چنانچہ انہوں نے پوری خلافت کے دوران اسی وظیفے پر گزارا کیا۔ جبکہ حضرت عمرؓ نے خلافت سنبھالتے ہی اعلان کیا کہ ان کا کوئی افسر باریک لباس نہیں پہنے گا، چھنے ہوئے آٹے کی روٹی نہیں کھائے گا، ترکی گھوڑے پر سوار نہیں ہوگا، اور گھر کے باہر ڈیوڑھی نہیں بنائے گا۔ یہ باتیں اس دور میں معاشرتی امتیاز اور اسٹیٹس سمبل سمجھی جاتی تھیں، چنانچہ حضرت عمرؓ نے یہ اعلان کر کے اصول بتا دیا کہ ایک اسلامی ریاست کے حکمران عام شہریوں سے امتیاز رکھنے والا معیار زندگی اختیار نہیں کریں گے اور عام لوگوں جیسی زندگی گزاریں گے۔
یہ چند مثالیں اس لیے ہم نے عرض کی ہیں کہ مغرب کا یہ کہنا کہ انسانی حقوق اور شہری آزادیوں کے تصور کا آغاز وہاں سے ہوا ہے، اسے مغربی ممالک کی حد تک تو تسلیم کیا جا سکتا ہے، لیکن دنیا کی باقی اقوام بالخصوص اسلام پر اس پس منظر کا اطلاق کرنا اور تاریک صدیوں کے ردعمل میں تشکیل پانے والے مغربی فلسفے کو عالم اسلام پر مسلط کرنے کی مہم سراسر نا انصافی ہے۔ اس لیے کہ اسلام اس سے بہت پہلے سے انسانی حقوق اور شہری آزادیوں کی بات کر رہا ہے، حتٰی کہ امت مسلمہ کی تاریخ میں جن حکمرانوں کو خلافت کی بجائے ملوکیت کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، ان کے ادوار حکومت میں بھی عوام کو ان کے حقوق عام طور پر حاصل رہے ہیں، بالخصوص عدلیہ کا آزادانہ کردار تو بدنام ترین مسلم حکمرانوں کے دور میں بھی پورے وقار اور اعتماد کے ساتھ جاری رہا ہے۔ جبکہ انقلاب فرانس سے پہلے مغربی معاشروں میں عورتوں، مزدوروں، کسانوں اور عام شہریوں کو جس اندوہناک صورتحال کا صدیوں تک سامنا رہا ہے وہ صورتحال مسلم خلافت کے کسی دور میں بھی اس درجے پر نظر نہیں آتی۔
پھر یہ امتیاز بھی اسلامی تاریخ کا حصہ ہے کہ ملت اسلامیہ میں مذہبی قیادت کا ادارہ بحیثیت ادارہ ہمیشہ عوام کے ساتھ رہا ہے اور ظلم و جبر کے خلاف مسلم علماء کی قربانیاں تاریخ کے ایک اہم باب کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اس لیے مغرب کی تاریک صدیوں کے حوالے سے مغرب کے پس منظر اور ردعمل کو مغرب کی حد تک تسلیم کرتے ہوئے ہم صرف یہ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ مغرب کے پس منظر کو عالم اسلام کے ساتھ نتھی نہ کیا جائے اور اس کا ردعمل مسلم امہ پر مسلط کرنے کی روش پر نظرثانی کی جائے، کیونکہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات نے مغرب کے انقلاب سے بارہ سو سال قبل نسل انسانی کو حقوق، انصاف اور علم کی شاہراہ پر گامزن کر دیا تھا۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: کی بجائے مغرب کے کے ساتھ میں بھی بھی اس کی بات رہا ہے
پڑھیں:
جموں وکشمیر دنیا کا سب سے زیادہ عسکری علاقہ بن چکا ہے، الطاف وانی
اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے 60ویں اجلاس کے موقع پر مکالمے کے دوران گفتگو کرتے ہوئے اان کا کہنا تھا کہ جب تک کشمیری عوام کو ان کا ناقابل تنسیخ حق خودارادیت نہیں دیا جاتا، اس وقت تک ایک جمہوری اور منصفانہ عالمی نظام کے قیام کا عالمی وعدہ پورا نہیں ہو سکتا۔ اسلام ٹائمز۔ انسانی حقوق کے معروف کارکن اور کشمیر انسٹی ٹیوٹ آف انٹرنیشنل ریلیشنز کے چیئرمین الطاف حسین وانی نے کشمیری عوام کو ان کے ناقابل تنسیخ حق خودارادیت سے محروم رکھنے کی بھارت کی پالیسی کی شدید مذمت کی ہے۔ ذرائع کے مطابق الطاف وانی نے اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے 60ویں اجلاس کے موقع پر "جمہوری اور منصفانہ عالمی نظام کے فروغ" کے موضوع پر ایک آزاد ماہر کے ساتھ باضابطہ مکالمے کے دوران گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی سنجیدہ یقین دہانیوں کے باوجود، بھارت نے کشمیریوں کے ساتھ اپنے وعدوں کو دس لاکھ سے زائد قابض فوجیوں کی تعیناتی، بڑے پیمانے پر نگرانی اور آبادی کے تناسب کو تبدیل کرنے جیسے سنگین اقدامات سے بدل دیا ہے۔ انہوں نے بھارت کے اگست2019ء میں جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کے یکطرفہ اورغیر قانونی اقدامات کا حوالہ دیا جن کے تحت جموں و کشمیر کے الحاق اور آبادی کے تناسب کو بگاڑنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ الطاف وانی نے خبردار کیا کہ جموں و کشمیر دنیا کا سب سے زیادہ عسکری علاقہ بن چکا ہے جہاں پرامن اختلافِ رائے کو جرم بنا دیا گیا ہے اور صحافیوں کو غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کے ایکٹ جیسے کالے قوانین کے تحت نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ انہوں نے انسانی حقوق کونسل پر زور دیا کہ وہ اپنے آئندہ اجلاس سے قبل کشمیر پر ایک خصوصی بین الاجلاسی پینل طلب کرے، جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالیوں کی نگرانی کے لیے اقوام متحدہ کا فیلڈ مشن دوبارہ قائم کرے اور مستقبل کے اقدامات میں کشمیری سول سوسائٹی کے نمائندوں کی شمولیت کو یقینی بنائے۔ انہوں نے زور دیا کہ جب تک کشمیری عوام کو ان کا ناقابل تنسیخ حق خودارادیت نہیں دیا جاتا، اس وقت تک ایک جمہوری اور منصفانہ عالمی نظام کے قیام کا عالمی وعدہ پورا نہیں ہو سکتا۔