بنگلہ دیش اور پاکستان میں فروغ پاتے تعلقات پر بھارت سیخ پا
اشاعت کی تاریخ: 27th, January 2025 GMT
شیخ حسینہ واجد کا اقتدار ختم ہونے کے بعد سے اب تک پاکستان اور بنگلہ دیش کے بہتری کی جانب گامزن باہمی تعلقات نے بھارت کی پریشانی بڑھادی۔
پاکستان اور بنگلہ دیش کے بہتر ہوتے ہوئے تعلقات بھارت کے لیے ناقابل برداشت ہونے لگے جس کی بنیاد پر پروپیگنڈا کیا جارہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں پاکستان کے لیے براہ راست پروازوں پر غور کررہے ہیں، بنگلہ دیش
خطے میں اجارہ داری کے بھارتی منصوبے کی راہ میں پاکستان بنگلہ دیش تعلقات چیلنج بن گئے ہیں۔
بین الاقوامی خبر رساں ادارے ڈی ڈبلیو کے مطابق بھارت کا کہنا ہےکہ پاکستان بنگلہ دیش کے درمیان ہونے والی پیش رفت پر گہری نظر ہے۔
ڈی ڈبلیو کے مطابق بھارتی وزارت داخلہ کا کہنا ہے کہ ضرورت پڑنے پر مناسب کارروائی کی جائےگی۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حالیہ دنوں میں بنگلہ دیش نے سرحد پر بھارت کی جانب سے باڑ لگانے پر کئی بار اعتراض کیا۔ رواں ماہ بنگلہ دیشی فوج کے سیکنڈ ان کمان لیفٹیننٹ جنرل قمر الحسن کے پاکستان کےحالیہ غیر معمولی دورے پر بھی بھارت پریشان ہے۔
سفارتی تجزیہ کاروں کے مطابق شیخ حسینہ کی حکومت ہمیشہ بھارت کے زیر سایہ رہی اور اس نے پاکستان کی جانب سے تعلقات میں بہتری کی کوشش پر مثبت جواب نہ دیا۔
تجزیہ کاروں نے کہاکہ پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان تعلقات شیخ حسینہ کے 15 سالہ دور اقتدار میں تعطل کا شکار رہے، جس میں پس پردہ بھارتی کردار نمایاں رہا۔
تجزیہ کاروں کے مطابق بھارت نے پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان تعلقات میں بہتری کی راہ میں ہمیشہ رکاوٹیں کھڑی کیں جس میں شیخ حسینہ سہولت کار بنی رہی۔
یہ بھی پڑھیں پاکستانی تجارتی وفد کی چٹاکانگ میں بنگلہ دیشی تاجروں سے ملاقات، دو طرفہ تجارت بڑھانے پر اتفاق
واضح رہے کہ بنگلہ دیش میں طلبا انقلاب کے نتیجے میں شیخ حسینہ واجد کی حکومت کا تختہ الٹ گیا تھا، جس کے بعد حسینہ واجد ملک سے فرار ہوکر بھارت پہنچ گئی تھیں اور اب تک وہیں مقیم ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
wenews بنگلہ دیش بھارت پاکستان پاکستان بنگلہ دیش تعلقات سفارتی تجزیہ کار وی نیوز.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: بنگلہ دیش بھارت پاکستان پاکستان بنگلہ دیش تعلقات سفارتی تجزیہ کار وی نیوز پاکستان اور بنگلہ دیش کے کے مطابق
پڑھیں:
پاک افغان تعلقات کا نیا دور
پاکستان اور افغانستان کے درمیان حالیہ چند برسوں میں پیدا ہونے والی کشیدگی کی بنیادی وجہ پاکستان میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات ہیں جو افغان سرزمین سے آنے والے خوارج کی فتنہ گری کا نتیجہ ہیں۔
پاکستان کی جانب سے اعلیٰ ترین حکومتی سطح پر افغانستان میں برسر اقتدار طالبان قیادت کو بارہا یاد دہانی کرائی جاتی رہی کہ وہ اپنی سرزمین پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال ہونے سے روکے۔ اس کے جواب میں طالبان حکومت وعدوں اور زبانی کلامی یقین دہانیوں سے آگے عملی طور پر دہشت گردوں کو روکنے میں ناکام رہی۔ ادھر پاکستان نے غیر قانونی طور پر مقیم افغان مہاجرین کو، جو روسی مداخلت کے بعد کئی دہائیوں سے پاکستان میں مقیم ہیں واپس بھیجنا شروع کر دیا تو طالبان قیادت نے اس پر اپنے تحفظات کا اظہارکرتے ہوئے پاکستان کے وزیر خارجہ کو کابل دورے کی دعوت دی تاکہ دو طرفہ بات چیت کے ذریعے کشیدگی کو کم کرتے ہوئے خوشگوار تعلقات کے قیام کی راہیں تلاش کی جا سکیں۔
اس پس منظر میں پاکستان کے نائب وزیر اعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار پہلے ایک روزہ سرکاری دورے پرکابل گئے جہاں انھوں نے افغانستان کے عبوری وزیراعظم ملا محمد حسن اخوند اور افغان وزیرخارجہ امیر خان متقی سے تفصیلی مذاکرات کیے۔ اسحاق ڈار نے پاکستان میں ہونے والی دہشت گرد کارروائیوں میں ملوث شرپسندوں کے افغانستان سے تعلق کے حوالے سے پاکستان کے موقف کو افغان حکومت کے سامنے رکھا۔ باہمی گفت و شنید کے بعد اس بات پر دونوں جانب سے اتفاق کیا گیا کہ ہر دو جانب سے اعلیٰ سطح پر روابط برقرار رکھے جائیں گے۔
علاوہ ازیں مختلف شعبوں سیکیورٹی، تجارت، ٹرانزٹ تعاون اور عوامی سطح پر رابطوں کو بڑھانے کے حوالے سے متعدد فیصلے کیے گئے۔ سب سے اہم بات یہ طے ہوئی کہ دونوں ممالک دہشت گردی کے خلاف اپنی سرزمین استعمال نہیں ہونے دیں گے اور اگر ایسے واقعات رونما ہوتے ہیں تو دونوں ممالک مشترکہ طور پر فوری کارروائی کریں گے۔ افغان حکومت اس سے قبل بھی وعدہ وعید سے کام لیتی رہی ہے۔ حکومتی سطح پر باقاعدہ معاہدے کے بعد یہ توقع کی جانی چاہیے کہ طالبان حکومت اس پر سنجیدگی سے عمل درآمد کرے گی۔
پاکستان اور افغانستان دونوں برادر اسلامی ملک ہیں جو اپنے جغرافیائی محل وقوع کے باعث خطے کے اہم ملک شمار ہوتے ہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان گہرے اور دیرینہ تاریخی، تہذیبی اور مذہبی روابط بھی قائم ہیں۔ محمود غزنوی، احمد شاہ ابدالی اور ظہیرالدین بابر دونوں کے مشترکہ ہیروز ہیں۔ اس قدر طویل اور مضبوط تاریخی و تہذیبی مشترکہ اقدار کے باوجود گزشتہ چند دہائیوں سے دونوں ملکوں کے درمیان دوستی و تعاون کے جذبوں کے فروغ پانے کی بجائے تعلقات میں سردمہری، عدم تعاون،کشیدگی، نفرت، عداوت اور دشمنی جیسے رویوں کا پروان چڑھنا نہ صرف افسوس ناک بلکہ خطے کے امن کے لیے بھی خطرناک ہے۔
تاریخ کے اوراق بتاتے ہیں کہ پاکستان کے خلاف افغانستان کی دشمنی کا پہلا اظہار اقوام متحدہ میں 30 ستمبر 1947 کے اجلاس میں کیا گیا۔ جب افغان مندوب حسین عزیز نے پاکستان کی اقوام متحدہ کی رکنیت کے ضمن میں واحد مخالف ووٹ ڈالا۔ تاہم پاکستان تلخیوں کو پس پشت ڈال کر افغانستان کے ساتھ تعلقات کی بحالی کی اپنی پالیسی پر اخلاص نیت کے ساتھ کاربند رہا۔ اسی باعث جب دسمبر 1979 میں اس وقت کی سوویت یونین (روس) نے افغانستان میں فوجی مداخلت کی تو وہاں برسر اقتدار حفیظ اللہ امین حکومت کا خاتمہ کر کے کابل کے تخت پر ماسکو کی پسند کا آدمی حکمران بنا دیا گیا۔ روسی ہوائی حملوں کے نتیجے میں لاکھوں افغان باشندے ہجرت کر کے پاکستان آگئے۔
برادر اسلامی ملک اور دیرینہ رشتوں کے احترام میں پاکستان نے کشادہ دلی کے ساتھ افغان مہاجرین کی میزبانی کو صدق دل سے قبول کیا۔ آج بھی جو افغان باشندے قانونی طریقے سے پاکستان میں رہائش پذیر ہیں انھیں حکومت تحفظ فراہم کر رہی ہے۔ افغان مہاجرین کی وجہ سے پاکستان کے طول و عرض میں سماجی، معاشرتی اور معاشی سطح پر جو نقصانات ہو رہے ہیں، حکومت انھیں خوش دلی سے برداشت کر رہی ہے۔ تاہم دہشت گردی کے حوالے سے افغان سرزمین کا استعمال کسی بھی طرح قابل قبول نہیں ہے۔ پاکستان کی سلامتی و بقا ہر شے پر مقدم ہے۔
افغانستان کی طالبان حکومت سے توقع کی جانی چاہیے کہ وہ پاک افغان تازہ معاہدے پر اخلاص نیت اور سنجیدگی کے ساتھ عمل درآمد کو یقینی بناتے ہوئے اپنی سرزمین کو پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال ہونے سے ہر صورت روکے گی، تاکہ دونوں ملکوں کے درمیان ماضی جیسے خوشگوار و برادرانہ تعلقات کا ایک نیا دور شروع ہو سکے۔