شاہد کپور نے سلمان خان پر تنقید کے الزامات پر وضاحت کر دی
اشاعت کی تاریخ: 30th, January 2025 GMT
بالی وڈ اداکار شاہد کپور نے حال ہی میں اپنے ایک تبصرے کے حوالے سے وضاحت دی ہے جس میں انہوں نے کچھ اداکاروں کو "خود پر زیادہ فخر کرنے والا” کہا تھا۔
اس بیان کے بعد سوشل میڈیا پر قیاس آرائیاں ہوئیں کہ شاہد کا اشارہ سلمان خان یا کارتک آریان کی جانب تھا، تاہم شاہد نے ان افواہوں کی سختی سے تردید کر دی ہے۔
28 جنوری کو شاہد کپور اپنی فلم دیوا کی شریک اداکارہ پوجا ہیگڑے کے ساتھ ایونٹ میں شریک ہوئے۔ ایک تفریحی ریپڈ فائر راؤنڈ میں شاہد سے پوچھا گیا کہ کیا ان کا تبصرہ سلمان خان کی طرف تھا؟
شاہد نے جواب دیا: "ہاں، لیکن مجھے دو تین لوگوں نے میسج کیا یہ سوچ کر۔ میں تو بس ایسے ہی بات کر رہا تھا، سوچا بھی نہیں تھا۔ لیکن اگر مجھے تنقید کرنی ہو، تو وہ کسی ایسے شخص پر کبھی نہیں ہوگی جو اتنے سینئر ہوں، اتنے مستحکم ہوں، اور جن کے لیے میرے دل میں اتنی عزت ہو۔ یہ صرف کلیئر کرنے کے لیے!”
شاہد کپور کی نئی فلم دیوا 31 جنوری 2025 کو ریلیز ہونے جا رہی ہے۔ یہ ایک زبردست ایکشن تھرلر ہے جسے مشہور ملیالم فلم ساز روشن اینڈریوز نے ڈائریکٹ کیا ہے، اور اسے زی اسٹوڈیوز اور رائے کپور فلمز نے پروڈیوس کیا ہے۔
فلم کی شوٹنگ کے دوران ایک انتہائی اہم سین محدود عملے کے ساتھ خفیہ طور پر فلمایا گیا تھا۔ رپورٹس کے مطابق، یہ سین کہانی میں کلیدی کردار ادا کرے گا، اور اس کی شدت کو برقرار رکھنے کے لیے ہر ممکن احتیاط برتی گئی تھی۔
TagsShowbiz News Urdu.
ذریعہ: Al Qamar Online
کلیدی لفظ: پاکستان کھیل شاہد کپور
پڑھیں:
ڈپٹی ڈائریکٹر این سی سی آئی اے لاپتا کیس میں کرپشن الزامات، حیران کن موڑ سامنے آ گیا
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد: این سی سی آئی اے کے ڈپٹی ڈائریکٹر عثمان کی گمشدگی اور کرپشن الزامات کا کیس ایک نیا اور ڈرامائی موڑ اختیار کر گیا ہے۔
نجی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں ہونے والی سماعت کے دوران ایسے انکشافات سامنے آئے جنہوں نے معاملے کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔ عدالت میں پولیس، وکیلِ صفائی اور درخواست گزار کی جانب سے پیش کیے گئے دلائل نے اس کیس کے مختلف پہلوؤں پر کئی سوالات اٹھا دیے ہیں۔
سماعت کے دوران ڈی ایس پی لیگل ساجد چیمہ نے عدالت کو بتایا کہ ڈپٹی ڈائریکٹر عثمان کے خلاف باقاعدہ کرپشن کیس درج ہو چکا ہے، ان کی گرفتاری عمل میں آچکی ہے اور ان کا بیان بھی ریکارڈ کیا گیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ عثمان نے خود اپنے تحریری بیان میں تسلیم کیا کہ وہ جاری انکوائری کے باعث روپوش تھے۔ پولیس کے مطابق عثمان پر الزام ہے کہ انہوں نے ایک مشہور ٹک ٹاکر سے 15 کروڑ روپے رشوت لی تھی۔
درخواست گزار کی جانب سے پیش ہونے والے وکیل رضوان عباسی نے اس مؤقف کو چیلنج کرتے ہوئے عدالت میں مؤقف اختیار کیا کہ عثمان کو 15 دن تک غیر قانونی طور پر حراست میں رکھا گیا اور بعد ازاں گرفتاری ظاہر کی گئی۔
انہوں نے مؤقف اختیار کیا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے دائرہ اختیار سے عثمان کو اغوا کیا گیا اور ان کی گرفتاری بعد میں ظاہر کر کے قانونی کارروائی کا لبادہ اوڑھا گیا۔ انہوں نے عدالت کو بتایا کہ عثمان کے دستخط زبردستی لیے گئے اور ان کے تحریری بیان کی ہینڈ رائٹنگ بھی ان سے مطابقت نہیں رکھتی۔
وکیل نے الزام لگایا کہ اغوا کے شواہد موجود ہیں، جن میں ایک ویڈیو بھی شامل ہے جس میں واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ چار افراد نے عثمان کو اسلام آباد سے اغوا کیا۔ یہ کوئی انوکھا واقعہ نہیں بلکہ ایک عام طریقہ کار بنتا جا رہا ہے کہ پہلے کسی کو اٹھا لیا جاتا ہے اور بعد میں اس کی گرفتاری ظاہر کر دی جاتی ہے۔
سماعت کے دوران جسٹس اعظم خان نے ریمارکس دیے کہ چونکہ اب مقدمہ درج ہو چکا ہے اور عثمان جسمانی ریمانڈ پر ہے، اس لیے عدالت کے لیے اسے یہاں طلب کرنا ممکن نہیں، تاہم وکیل نے مؤقف اپنایا کہ چونکہ واقعہ اسلام آباد کے دائرہ اختیار میں پیش آیا، اس لیے ہائی کورٹ کو معاملے پر سماعت کا حق حاصل ہے۔
دوسری جانب پولیس نے عدالت سے استدعا کی کہ چونکہ ملزم کے خلاف باقاعدہ انکوائری اور ایف آئی آر دونوں موجود ہیں، اس لیے بازیابی کی درخواست کو نمٹا دیا جائے۔ وکیلِ صفائی نے مؤقف اختیار کیا کہ اگر عثمان نے واقعی رشوت لی ہے تو قانون کے مطابق کارروائی ضرور کی جائے، مگر کسی شہری کو اغوا کر کے یا غیر قانونی طور پر حراست میں رکھ کر انصاف کے تقاضے پورے نہیں کیے جا سکتے۔
دلائل مکمل ہونے کے بعد عدالت نے کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا ہے۔