اسلام آباد:

پاکستان تحریک انصاف کے بانی چیئرمین عمران خان نے چیف جسٹس یحییٰ آفریدی اور جسٹس امین الدین کو 349 صفحات پر مشتمل طویل خط لکھ دیا۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق عمران خان نے خط میں انسانی حقوق، الیکشن دھاندلی، 26 نومبر سمیت تمام موضوعات ، پی ٹی آئی کارکنان کی گرفتاریوں کے حوالے سے رپورٹس بھی خط میں شامل کی ہیں۔ 

اپنے خط میں عمران خان نے لکھا کہ 24 سے 27 نومبر کے دوران بیشتر پی ٹی آئی کارکنان کو گرفتار کیا گیا، اسپتال کا رکارڈ سیل کرکے اُسے تبدیل کیا گیا۔

عمران خان نے لکھا کہ الیکشن میں ہونے والی دھاندلی، پچھلے 18 ماہ سے جاری انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف مسلسل عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا مگر انصاف نہ ملا، پی ٹی آئی کارکنان کو زخمی اور جبری طور پر لاپتہ کیا گیا جبکہ ہمارے کئی کارکنان کو جان سے ماردیا گیا۔

عمران خان نے لکھا کہ موجودہ حکومت الیکشن فراڈ اور تاریخی دھاندلی کے نتیجے میں وجود میں آئی، اس غیر آئینی حکومت نے پی ٹی آئی کے خلاف ظلم کر پہاڑ ڈھائے، ہمارے دفاتر توڑے گئے ، رہنماؤں پر وحشیانہ تشدد کیا گیا، 9 مئی کو مجھے اسلام آباد ہائیکورٹ کی حدود سے غیر قانونی طور پر گرفتار کیا گیا۔ اس سارے منظر کو ٹی وی اور سوشل میڈیا پر جان بوجھ لوگوں کو اشتعال دلانے کے لیے دکھایا گیا۔

عمران خان نے لکھا کہ میں ریاستی جبر کے خلاف ریلیف حاصل کرنے اسلام آباد ہائیکورٹ پہنچا تو حملہ کیا گیا جبکہ سپریم کورٹ نے اس پورے آپریشن کو غیر قانونی قرار دیا، اس وحشیانہ طریقے سے گرفتار کرنے پر پورے پاکستان میں لوگوں نے پر امن احتجاج کیا مگر اس صورتحال سے فائدہ اٹھانے کے لیے مشتعل افراد کو کارکنان کے ہجوم میں شامل کیا گیا۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: کیا گیا

پڑھیں:

بیوائیں بھی بلا امتیاز ملازمت، وقار، مساوات اور خودمختاری کی حقدار ہیں: سپریم کورٹ

اسلا م آباد (آئی  این پی ) سپریم کورٹ آف پاکستان  نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ بیوائوں کے حقوق ریاست کی خیرات  نہیں بلکہ آئینی ضمانتوں، قانونی تحفظ اور بدلتے ہوئے عدالتی اصولوں پر مبنی قانونی حقوق ہیں، تمام شہریوں کی طرح بیوائیں بھی بلا امتیاز ملازمت، وقار، مساوات اور خود مختاری کی حقدار ہیں۔قائم مقام چیف جسٹس سید منصور علی شاہ نے سپریم کورٹ کے دو رکنی بینچ کی سربراہی کرتے ہوئے ریجنل ٹیکس آفس، بہاولپور کے چیف کمشنر کی جانب سے 21 دسمبر کو لاہور ہائی کورٹ بہاولپور بینچ کی جانب سے جاری کردہ فیصلے کے خلاف اپیل پر سماعت کرتے ہوئے کہا کہ تمام شہریوں کی طرح بیوائیں بھی بلا امتیاز ملازمت، وقار، مساوات اور خود مختاری کی حقدار ہیں۔درخواست گزار شاہین یوسف کے شوہر جو محکمہ انکم ٹیکس کے ملازم تھے، 14 فروری 2006 ء کو ملازمت کے دوران انتقال کر گئے تھے، مرنے والے سرکاری ملازمین کے اہل خانہ کے لیے وزیر اعظم کے امدادی پیکیج کے تحت بیوہ کو 26 مئی 2010 ء کو دو سالہ کنٹریکٹ پر لوئر ڈویژن کلرک (ایل ڈی سی) کے طور پر تعینات کیا گیا تھا۔معاہدے میں کئی بار توسیع کی گئی، لیکن 4 جنوری، 2016 ء کو ایک آفس میمورنڈم (او ایم) کے ذریعے ان کی خدمات ختم کردی گئیں جس پر 15 دسمبر 2015 ء کی تاریخ درج تھی، میمورنڈم میں کہا گیا ہے کہ دوبارہ شادی کے بعد ایک بیوہ وزیر اعظم کے امدادی پیکیج کے تحت ہمدردانہ ملازمت کے لیے نااہل ہو جاتی ہے، لہذا دوبارہ شادی کی تاریخ سے انہیں برخاست کیا جاتا ہے۔بیوہ نے آفس میمورنڈم کو لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کیا جس نے فیڈرل بورڈ آف ریونیو(ایف بی آر)  کے ممبر (ایڈمنسٹریشن) کو ہدایت کی کہ وہ اسے نمائندگی کے طور پر لیں اور ایک زبانی حکم کے ذریعے ان کی شکایات کا ازالہ کریں۔عدالتی حکم کی تعمیل میں ایف بی آر نے معاملے کا جائزہ لیا اور 11 مئی 2017 ء کو ان کی درخواست مسترد کردی، اس کے بعد مدعا علیہ نے محکمانہ حکم کے خلاف لاہور ہائی کورٹ میں دوسری رٹ پٹیشن دائر کی، درخواست کو 21 دسمبر 2022 ء کو منظور کرلیا گیا تھا اور بیوہ کو ملازمت میں بحال کردیا گیا تھا۔قائم مقام چیف جسٹس منصور علی شاہ نے 5 صفحات پر مشتمل اپنے حکم نامے میں کہا ہے کہ کوئی بھی پالیسی جو عوامی ملازمت کو کسی خاتون کی ازدواجی حیثیت سے نتھی کرتی ہے، وہ نہ صرف انحصار کو بڑھاتی ہے بلکہ بنیادی آزادی کے استعمال پر اسے موثر طور سزا بھی دیتی ہے۔انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ قانون کو چاہیے کہ وہ فرسودہ معاشرتی درجہ بندیوں کو تقویت دینے کا آلہ بننے کے بجائے اخراج کے خلاف ڈھال بنے، انہوں نے مزید کہا کہ اس طرح کے انتظامی فیصلے جس سماجی تناظر میں کام کرتے ہیں اس پر غور کرنا ضروری ہے۔جسٹس منصور علی شاہ نے اپنے فیصلے میں مزید کہا کہ آسان ترین معنوں میں بیوہ سے مراد ایک ایسی عورت ہے جس کا شریک حیات فوت ہوچکا ہے، تاہم بہت سے معاشروں میں یہ لفظ ایک تہہ دار سماجی شناخت رکھتا ہے جس کے ساتھ اکثر بدنما داغ، تنہائی اور سماجی قدر کے کم ہونے کا احساس ہوتا ہے۔جسٹس شاہ نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بیواں کو اکثر نقصان اور انحصار کے نقطہ نظر سے دیکھا جاتا ہے، بجائے اس کے کہ انہیں باوسیلہ اور لچک دار فرد کے طور پر دیکھا جائے، دوبارہ شادی یا معاشی آزادی کی بات آتی ہے تویہ تصور خاص طور پر ان کے انتخاب کو محدود کرتا ہے۔جسٹس منصور علی شاہ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ قانون کو ان مضر ثقافتی بیانیوں کو مسترد کرنا چاہیے اور اس بات کی توثیق کرنی چاہیے کہ بیوہ ہونا خامی نہیں ہے بلکہ ایک ایسی زندگی ہے جو وقار ، تحفظ اور مساوی مواقع کی مستحق ہے۔انہوں نے کہا یہ عدالتوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ عوامی پالیسی اس تفہیم کی عکاسی کرے اور بیواں کو ظاہری اور پوشیدہ دونوں طرح کے منظم امتیاز سے بچائے۔اس فیصلے میں آفس میمورینڈم کو واضح طور پر امتیازی قرار دیا گیا ہے کیونکہ یہ رنڈوے مردوں پر کوئی پابندی عائد کیے بغیر بیواں، مرحوم سرکاری ملازمین کی شریک حیات کو دوبارہ شادی کرنے پر رحمدلانہ ملازمت سے نااہل قرار دیتا ہے، اس امدادی پیکیج کے باوجود جو بیوہ اور رنڈوے دونوں کو رحمدلانہ روزگار فراہم کرتا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • بیوائیں بھی بلا امتیاز ملازمت، وقار، مساوات اور خودمختاری کی حقدار ہیں: سپریم کورٹ
  • عمران کی گرفتاری کو ڈیڑھ سال گزر چکا، جسمانی ریمانڈ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا: سپریم کورٹ
  • عمران خان کی گرفتاری کو ڈیڑھ سال گزر چکا، اب تو جسمانی ریمانڈ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، سپریم کورٹ
  • عمران خان کی گرفتاری کو ڈیڑھ سال گزر چکا، اب جسمانی ریمانڈ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، سپریم کورٹ 
  • عمر سرفراز چیمہ وہی ہیں جو گورنر تھے؟ سپریم کورٹ کا استفسار
  • عمران خان کی گرفتاری کو ڈیڑھ سال گزر چکا ، جسمانی ریمانڈ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ، سپریم کورٹ
  • یہ عمر سرفراز چیمہ  وہ ہے جو گورنر رہے ہیں؟سپریم کورٹ کا استفسار
  • سپریم کورٹ نے عمران خان جسمانی ریمانڈ دینے سے انکار کر دیا
  • سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے سے وفاقی اداروں میں سخت تشویش
  • ہائیکورٹ جج اپنے فیصلے میں بہت آگے چلا گیا، ناانصافی پر آنکھیں بند نہیں کی جا سکتیں: سپریم کورٹ