حمل گر جانے پر بھی جرمنی میں زچگی کی چھٹیاں ممکن
اشاعت کی تاریخ: 31st, January 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 31 جنوری 2025ء) جرمن پارلیمان کے ایوان زیریں بنڈس ٹاگ نے ایک ایسا قانون منظور کیا ہے جس کے تحت 13 ہفتوں کے بعد اسقاط حمل کا شکار ہونے والی خواتین کو زچگی کی چھٹیاں لینے کا حق حاصل ہو جائے گا۔
حکمران سوشل ڈیموکریٹک پارٹی (ایس پی ڈی) سے تعلق رکھنے والی قانون ساز زارا لاہر کمپ نے اس قانون کی منظوری کے بعد جمعرات کے دن کہا کہ قانون سازوں کی ایک بڑی اکثریت نے اس بل کے حق میں ووٹ دیا ہے، جس کا مقصد خواتین کی جسمانی اور جذباتی بحالی کے لیے ان کی حمایت کرنا ہے۔
فرانس اسقاط حمل کے اتنے حق میں کیوں؟
اسقاط حمل کے قانون میں نرمی کا فیصلہ
اس موضوع پر تقریبا ایک ہی جیسے دو بل پیش کیے گئے تھے۔ تاہم پارلیمانی کمیٹی نے قدامت پسند کرسچن ڈیموکریٹک یونین (سی ڈی یو) اور کرسچن سدرن یونین (سی ایس یو) بلاک کی طرف سے پیش کردہ متن کو اپنانے کا فیصلہ کیا۔
(جاری ہے)
جرمنی کے موجودہ میٹرنٹی پروٹیکشن قانون کے تحت حاملہ خواتین عام طور پر زچگی سے چھ ہفتے قبل تنخواہ کے ساتھ چھٹیاں لے سکتی ہیں، جو بچے کی پیدائش کے بعد آٹھ ہفتوں تک جاری رہتی ہیں۔
تاہم اسقاط حمل کی صورت میں اس کا اطلاق نہیں ہوتا تھا۔ نیا قانون کیا تبدیل کرتا ہے؟اس نئے قانون سے قبل چوبیسویں ہفتے سے پہلے اسقاط حمل کا سامنا کرنے والی خواتین کو زچگی کے بجائے طبی بنیادوں پر چھٹی کی درخواست دینا ہوتی تھی جبکہ یہ بھی واضح نہیں ہوتا تھا کہ آیا ان کی یہ درخواست قبول کی جائے گی یا نہیں۔
نئے ضابطے کے تحت حمل کے 13 ویں ہفتے کے بعد حاملہ ہونے والی خواتین کے پاس زچگی کی چھٹی لینے کا آپشن ہو گا۔
تاہم اگر خواتین پابند نہیں کی انہیں یہ چھٹیاں لینی ہی ہیں۔اسقاط حمل پر آئرش قانون، یورپی عدالت کا فیصلہ
اسقاط حمل کی قانونی اجازت: آئرلینڈ میں تاریخ رقم کر دی گئی
اس قانون پر 14 فروری کو جرمن پارلیمان کے ایوان بالا بنڈس راٹ میں بحث کی جائے گی۔ اگر اسے وہاں بھی منظور کر لیا جاتا ہے، تو اس قانون کا اطلاق رواں سال یکم جون سے ہو سکتا ہے۔
ایک اندازے کے مطابق جرمنی میں ہر سال حمل کے 13 ویں سے 24 ویں ہفتے کے درمیان تقریبا 6000 اسقاط حمل ہوتے ہیں۔ تاہم اکثریت (تقریبا 84000) حمل کے 12 ویں ہفتے سے پہلے ہوتی ہیں، جو نئے زچگی کی چھٹی کے قانون میں شامل نہیں ہے۔
ع ب / ع ت (اے ایف پی، ڈی پی اے)
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے ویں ہفتے حمل کے کے بعد
پڑھیں:
قانون نافذ کرنیوالے اداروں کی خود مختاری یقینی بنائی جائے، جاوید قصوری
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
لاہور (وقائع نگارخصوصی)امیر جماعت اسلامی پنجاب وسطی محمد جاوید قصوری نے کہا ہے کہ 2025ء کے رول آف لا انڈیکس میں پاکستان کا مسلسل 130واں نمبر حکمرانوں کی بد ترین کارکردگی کا مظہر ہے۔قانون کی حکمرانی میں پاکستان، بھارت سے بھی پیچھے ہے، اسی انڈیکس میں بھارت کا نمبر 79واں ہے جبکہ پاکستان سے نیچے وینزویلا،افغانستان، سوڈان جیسے ممالک ہیں۔ عدل و انصاف اور قانون کی بالادستی صرف اس معاشرے میں قائم کی جا سکتی ہے جہاں اخلاقیات کے درجے بلند ہوں۔ اخلاقیات کے معیار پر ہی پارلیمانی نظامِ حکومت کامیابی سے چلایا جا سکتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ دنیا میں جو بھی ملک آگے بڑھے ہیں ان کے پاس اخلاقیات اور انصاف کے اوصاف تھے۔ ہم ملک میں قانون کی بالادستی قائم کرنے،فرسودہ نظام کے خاتمے، انصاف اور قانون کی بالادستی کی جنگ لڑتے رہیں گے۔ملک میں طاقتوروں کو قانون کے نیچے لے کر آنا ہو گا۔ جب تک ملک میں قانون کی بالادستی قائم نہیں ہو جاتی ملک میں بہتر جمہوریت کا تصور نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی ملک میں خوش حالی آ سکتی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ جس ریاست میں قانون کی حکمرانی نہ ہو وہاں کی جمہوریت بھی مادر پدر آزاد ہو جاتی ہے۔ایسی جمہوریت جو آئین اور قانون کی پابند ہی نہ ہو وہ سیاسی اور معاشی استحکام کبھی پیدا نہیں کر سکتی۔ وہ لوگ جو منتخب ہو کر پارلیمنٹ میں پہنچتے ہیں وہ بھی پارلیمنٹ کے اندر کھلم کھلا آئین قانون اور قواعد و ضوابط کی خلاف ورزیاں کرتے نظر آتے ہیں۔ جن ملکوں میں قانون کی حکمرانی نہیں ہوتی وہاں پر ناانصافی بددیانتی، کرپشن اور مہنگائی جیسے جرائم عروج پر ہوتے ہیں۔محمد جاوید قصوری نے کہا کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ عدلیہ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی خودمختاری کو یقینی بنایا جائے تاکہ اثر ورسوخ کے بغیر انصاف فراہم کیا جا سکے۔بدعنوانی کے خلاف جامع پالیسی اور مؤثر احتساب کا نظام نافذ کرنا وقت کا تقاضا ہے۔ پائیدار ترقی کی راہ پر گامزن ہونے کے لئے معاشرتی امن و قانون پر توجہ مرکوز کرنا، پولیس اصلاحات، مسلح فرقہ وارانہ واقعات کی روک تھام، اور تنازعات کا جلد حل یقینی بنانا ہو گا۔حکومتی اختیارات کی حد بندی کو مضبوط کرنا، شفافیت میں اضافہ اور عوامی شراکت کو فروغ دینا چاہیے۔