Jasarat News:
2025-09-18@03:46:16 GMT

میرا برانڈ پاکستان، ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں

اشاعت کی تاریخ: 1st, February 2025 GMT

میرا برانڈ پاکستان، ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں

پاکستان بزنس فورم کے زیر اہتمام 18 اور 19 جنوری کو میرا برانڈ پاکستان نمائش نہ صرف اپنی نہاد میں ایک خوش آئند اقدام تھا بلکہ اس کے ساتھ یہ ایک انتہائی کامیاب اور بہترین پیغام لے کر آیا تھا نہ صرف کراچی والوں کے لیے بلکہ پورے پاکستان کے لیے کہ ہم اپنی قوت کو پہچانیں، اور دنیا کو بتائیں کہ ہمارے پاس صرف غیر ملکی برانڈز نہیں ہیں بلکہ غیر ملکی برانڈ ہی کی طرح اور ان سے اچھے متبادل پاکستانی برانڈز موجود ہیں، بہت سے برانڈز کا ہمیں پتا نہیں تھا کہ پاکستانی ہیں اور اس نمایش میں ہمیں نظر آیا کہ ارے واہ یہ بھی پاکستانی برانڈز ہیں بہت عرصے سے اس کی ضرورت محسوس ہو رہی تھی کہ ہم اپنے پیروں پر کھڑے ہوں اور ہم اس بات کو ثابت کریں کہ پاکستانی کسی چیز میں بھی پیچھے نہیں، یہ احساس تو تھا کہ پاکستانی قوم بہت باصلاحیت ہے اور بہت ہنرمند ہے لیکن ہمیں پتا نہیں چلتا کس کس میدان میں کس کس چیز میں پاکستانی کہاں تک پہنچ چکے ہیں۔

18 اور 19 جنوری کو ہونے والی نمایش میں پاکستان بزنس فورم نے جو پلیٹ فارم مہیا کیا اس پر نہ صرف وہ مبارکباد کے مستحق ہیں بلکہ انہوں نے پاکستانیوں کو یہ پیغام پہنچایا کہ وہ یہ سوچ سکیں کہ ہم بہت کچھ کر سکتے ہیں اور ہم بہت کچھ کر رہے ہیں۔ اس نمایش میں نظر آنے والی مصنوعات کے علاوہ بھی ابھی بہت کچھ ہے اور بھی کمپنیاں اور برانڈز ہوں گے، جو اس مرتبہ شامل نہ ہو سکے ہوں یہ کمپنیاں بڑی بڑی ہوں یا کچھ اور چھپی ہوئی وہ ان شاء اللہ اگلے سال سب کو نظر آ جائیں گی۔ پاکستان بزنس فورم کے تحت ہونے والی میرا برانڈ پاکستان، نمایش میں بہت سے ایس ایم ایز کو سامنے آنے کا موقع ملا اور انہوں نے ثابت کیا کہ پاکستانی اشیا کا معیار بھی اچھا ہے اسے اور بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔

باہر کے برانڈز پیکنگ اور پیشکش یعنی پریزینٹیشن میں آگے ہیں اور یہ کام پاکستانی بھی کرسکتے ہیں۔ اس نمایش میں پاکستان کے کئی بڑے بڑے برانڈز نظر نہیں آئے، اب لوگ ان کی بھی آمد کے منتظر رہیں گے۔ اس نمایش میں نہ صرف مصنوعات ملبوسات اور کھانے پینے کی چیزیں نظر آئیں بلکہ بہت سی ایسی چیزیں جو ہم سمجھتے رہے کہ غیر ملکی اس میں زیادہ آگے ہیں، ان میں بھی پاکستانی بہت آگے نظر آئے۔ جیسے ینگز والوں کے پیزا اور برگر اور مارننگ فریش کے کیک پیسٹری اور سینڈوچ واقعی اپنے معیار میں بہت اچھے ثابت ہوئے اور بہت مزیدار بھی۔ ہماری طرح بہت سے لوگ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ ان کی آوٹ لیٹ کہاں کہاں ہیں یا وہ صرف آن لائن کام کرتے ہیں۔ وہ اپنا ایک معیار رکھتے ہیں اور ایک معیار قائم کر چکے ہیں تو ان کو سامنے آنا چاہیے تاکہ ہم زیادہ سے زیادہ اپنی چیزوں سے مستفید ہو سکیں، یہ صارفین کا بھی حق ہے، بزنس فورم آئندہ ان کو اپنے نظام سے واقف کروانے کی تجویز بھی دے۔

کراچی جو ہمیشہ خیر کے کاموں میں آگے رہتا ہے بازی لے جاتا ہے اس کے لیے یہ بات بھی بہت خوش آئند تھی بلکہ یہ ایک خوشخبری تھی اور حیران کن بھی تھی کہ اس دور میں اس وقت ایسے لوگ موجود ہیں جنہوں نے اپنی ساری آمدنی سارے منافع کو فلسطین کے لیے وقف کر دیا اور اسے فلسطین فنڈ میں دینے کا فیصلہ کر لیا اور لوگوں نے بھی بڑے جوش و خروش سے خریداری کی اور بڑے جذبے کے ساتھ یہ کام کیا۔ اور ہم دیکھتے ہیں کہ بڑے برانڈز کی طرح ایس ایم ایز نے بھی اپنے تناسب سے خوب منافع کمایا اور ان کے پاس بھی بہت آرڈر آئے اور آئندہ کے لیے ان کی بڑی ترقی کے امکانات پیدا ہوئے۔

اس نمایش کی جاندار اور شاندار ابتدا اور اسی طرح شاندار اختتام اور لوگوں کی بھرپور شرکت کا تقاضا ہے کہ آئندہ سال بھی اس سے بڑی اور اس سے اور اچھی اور نئے عزم، نئے جذبے کے ساتھ ایسی نمایش پاکستان بزنس فورم منعقد کرے، اور پاکستانی برانڈز کو دنیا بھر میں پھیلائے۔ ابھی تو ابتدا ہے ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: پاکستان بزنس فورم اس نمایش میں کہ پاکستانی ہیں اور اور بہت اور اس کے لیے

پڑھیں:

سید علی گیلانیؒ… سچے اور کھرے پاکستانی

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

250916-03-6
متین فکری
سید علی گیلانی کی چوتھی برسی یکم ستمبر کو منائی گئی۔ اس موقع پر اسلام آباد کے قومی عجائب گھر میں سید علی گیلانی کارنر کا افتتاح کیا گیا جس میں ان کے زیر مطالعہ قرآن پاک، جائے نماز اور دیگر اشیا رکھی گئی ہیں۔ انہیں بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناحؒ، مصور پاکستان علامہ اقبالؒ اور دیگر اکابرین کے ساتھ ان اہم شخصیات کی صف میں جگہ دی گئی ہے۔ جنہوں نے تاریخ میں انمٹ نقوش چھوڑے ہیں۔ گیلانی صاحب سچے اور کھرے پاکستانی تھے۔ اتنے سچے اور کھرے کہ شاید ہماری حکمران اشرافیہ ان کے مقابلے میں خاک چاٹتی نظر آئے۔ وہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوجوں کے درمیان جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے نعرہ لگاتے تھے ’’ہم پاکستانی ہیں، پاکستان ہمارا ہے‘‘ سامعین پوری قوت سے اس نعرے کو دہراتے اور مقبوضہ کشمیر کی سرزمین دیر تک اس نعرے سے گونجتی رہتی۔ یہ نعرہ گیلانی صاحب کی پہچان بن گیا تھا وہ جہاں بھی جاتے یہ نعرہ ان کے ہمرکاب ہوتا تھا۔ وہ مقبوضہ کشمیر میں پیدا ہوئے وہیں پلے بڑھے اور کم و بیش 60 سال تک اِس مقتل میں سینہ تانے کھڑے اپنے پاکستانی ہونے کا برملا اعتراف کرتے رہے لیکن کوئی طاقت انہیں ان کے موقف سے منحرف نہ کرسکی۔ بتایا جاتا ہے کہ جب گیلانی صاحب نے جماعت اسلامی کے پلیٹ فارم سے اپنی سیاست کا آغاز کیا تو انہیں بھارتی خفیہ ایجنسیوں کے اہلکاروں نے گھیر لیا اور انہیں مالی و مادی ترغیبات کے ذریعے ٹریپ کرنے کی کوشش کی۔ ان سے کہا گیا کہ آپ بے شک بھارت کی حکومت پر تنقید کریں اس کی کشمیر پالیسی کے بخیے اُدھیڑیں، بھارتی فوج کے مظالم کو نشانہ ہیں لیکن ہمارا آپ سے صرف ایک مطالبہ ہے کہ آپ کشمیر کے بھارت سے الحاق کو متنازع نہ بنائیں۔ اس کے بدلے میں ہم آپ کی ہر طرح خدمت کو تیار ہیں، آپ کو ماہانہ وظیفہ دیں گے، اگر حکومت نے آپ کو گرفتار کرلیا تو آپ کی فیملی کی دیکھ بھال کی جائے گی اور اس کی تمام ضرورتیں پوری کی جائیں گی۔ آپ کو بیرون ملک سفر کی بھی اجازت ہوگی۔ گیلانی صاحب نے خفیہ اہلکاروں سے کہا کہ یہ پیش کش کسی اور کو کرو وہ بکائو مال نہیں ہیں۔ گیلانی صاحب نے بھارت پر یہ بھی واضح کردیا کہ وہ ریاست جموں و کشمیر کے بھارت کے ساتھ الحاق کو کسی صورت بھی جائز نہیں سمجھتے، یہ ایک غیر فطری الحاق ہے جو لازماً ختم ہو کر رہے گا اور کشمیر پاکستان کا حصہ بن کر رہے گا۔ ان کے اس واضح اور دو ٹوک موقف نے بھارت کو ان کا جانی دشمن بنادیا۔ انہیں بار بار گرفتار کیا جاتا رہا، اس طرح انہوں نے پندرہ سال سے بھی زیادہ عرصہ سلاخوں کے پیچھے گزارا جبکہ عمر کا آخری حصہ انہوں نے گھر میں نظر بندی کی حالت میں بسر کیا۔

گیلانی صاحب کی پاکستانیت کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ جنرل پرویز مشرف کے دور میں جب ایک سازش کے تحت مظفرآباد سے سرینگر تک دوستی بس کا اجرا ہوا تو بھارت اور پاکستان دونوں کی خواہش تھی کہ افتتاحی سفر میں دوسرے کشمیری لیڈروں کے ساتھ گیلانی صاحب بھی اس بس میں مظفر آباد آئیں۔ پرویز مشرف نے حزب المجاہدین اور جماعت اسلامی کے ذریعے گیلانی صاحب پر دبائو ڈالا کہ وہ دوستی بس کے ذریعے پاکستان

ضرور تشریف لائیں اس طرح نہ صرف پاکستان میں ان کی مقبولیت میں اضافہ ہوگا بلکہ کشمیر کاز کو بھی تقویت ملے گی۔ گیلانی صاحب نے ہر طرف سے دبائو کے بعد فیصلہ حریت کانفرنس کی مجلس شوریٰ پر چھوڑ دیا جس نے ان کا موقف سننے کے بعد یہ فیصلہ دیا کہ گیلانی صاحب کو دوستی بس کے ذریعے پاکستان نہیں جانا چاہیے، حقیقت یہ ہے کہ گیلانی صاحب پاکستان آنا چاہتے تھے اور بار بار آنا چاہتے تھے، پاکستان ان کے دل کی دھڑکنوں میں بسا ہوا تھا۔ انہوں نے اپنی طالب علمانہ زندگی کے کئی قیمتی سال لاہور میں گزارے تھے اور اس کی یاد انہیں بے چین کیے رکھتی تھی۔ وہ اوّل و آخر پاکستانی تھے، لیکن ان کی پاکستانیت ان سے تقاضا کررہی تھی کہ وہ بھارتی پاسپورٹ پر پاکستان نہ جائیں اور ایک آزاد پاکستانی کی حیثیت سے پاک سرزمین پر قدم رکھیں۔ چنانچہ انہوں نے بھارتی شہری ہونے کی حیثیت سے پاکستان آنے سے انکار کردیا۔ مزید برآں ان کی دور اندیش نگاہیں دیکھ رہی تھیں کہ دوستی بس کے ذریعے مسئلہ کشمیر کو پس پشت ڈالنے کی سازش کی گئی ہے، چنانچہ انہوں نے اس سازش کا حصہ بننے سے گریز کیا۔ دوسرے کشمیری لیڈر دوستی بس کے ذریعے پاکستان آئے لیکن ان کی حیثیت دولہا کے بغیر براتیوں کی سی تھی اور پاکستانیوں نے ان کی پزیرائی سے آنکھیں چرالیں۔ پھر دنیا نے دیکھا کہ یہ دوستی بس چند ماہ سے آگے نہ چل سکی۔

گیلانی صاحب اقوام متحدہ کی قراردادوں کے تحت مسئلہ کشمیر حل کرنے کے قائل تھے۔ ان کے اس موقف میں کبھی تبدیلی نہیں آئی پاکستان بھی سرکاری سطح پر اسی موقف کا علمبردار تھا، چنانچہ جب جنرل پرویز مشرف نے اس موقف سے ہٹ کر مسئلہ کشمیر کا ’’آئوٹ آفس بکس‘‘ حل پیش کیا تو گیلانی صاحب نے اسے قبول کرنے سے گریز کیا۔ وہ اس حد تک برہم ہوئے کہ انہوں نے دہلی کے پاکستانی سفارت خانے میں صدر جنرل پرویز مشرف کے ساتھ ہاتھ ملانے سے انکار کردیا۔ اس کے نتیجے میں پرویز مشرف نے ناراض ہو کر گیلانی صاحب کے خلاف کئی انتقامی کارروائیاں کیں۔ ان کی حریت کانفرنس کی جگہ میر واعظ عمر فاروق کی حریت کانفرنس کو سرکاری سطح پر تسلیم کرلیا اور اس کی سرپرستی شروع کردی۔ او آئی سی میں گیلانی صاحب کی جگہ عمر فاروق کو مبصر کا درجہ دلوا دیا۔ ان تمام ناانصافیوں کے باوجود گیلانی صاحب اپنے موقف پر ڈٹے رہے۔

مقبوضہ کشمیر میں جب پرامن سیاسی جدوجہد کی ناکامی کے بعد جہاد کا غلغلہ بلند ہوا اور کشمیری نوجوانوں نے قابض بھارتی فوجوں کے خلاف بندوق اٹھالی تو گیلانی صاحب نے بلاتوقف اس کی حمایت کا اعلان کیا اور سیاسی محاذ پر اسے تقویت دینے کے لیے حریت کانفرنس کی بنیاد رکھی۔ انہوں نے برملا کہا کہ بھارت کے غیر مصالحانہ رویے نے نوجوانوں کو بندوق اُٹھانے پر مجبور کیا ہے۔ جماعت اسلامی مقبوضہ کشمیر کا موقف چونکہ اس کے برعکس تھا اس لیے انہوں نے ایک سمجھوتے کے تحت جماعت اسلامی سے علاحدگی اختیار کرلی اور خود کو نوجوانوں کی سیاسی حمایت کے لیے وقف کردیا۔ گیلانی صاحب اب ہم میں نہیں ہیں لیکن انہوں نے ایک سچے اور کھرے پاکستانی کی حیثیت سے صبر و استقامت اور عزم و ہمت کی جو مشعل فروداں کی ہے وہ اب بھی ہر طرف اُجالا کررہی ہے اور ان کی موجودگی کا احساس دلا رہی ہے۔ رہے نام اللہ کا۔

متعلقہ مضامین

  • اسرائیل امریکا کا نہیں بلکہ امریکا اسرائیل کا پراڈکٹ ہے: خواجہ آصف
  • نادرا لاہور ریجن میں ’’میری شناخت، میرا تحفظ‘‘ کے موضوع پر خصوصی آگاہی ہفتہ شروع
  • پی ٹی آئی قیادت جانتی ہے کہ عمران خان کے بیان عاصم منیر کے نہیں بلکہ ریاست کے کیخلاف ہیں: کوثر کاظمی 
  • انقلاب – مشن نور
  • پنجاب حکومت نے ہڑپہ میوزیم میں چار نئی گیلریوں کا افتتاح کر دیا
  • ورلڈ ایتھلیٹکس چیمپیئن شپ: ارشد ندیم کی شاندار نتائج کے لیے قوم سے دعاؤں کی اپیل
  • بھارت کی انتہا پسندی کرکٹ میدان میں بھی
  •  اوزون کی تہہ کے تحفظ کا عالمی دن آج منایا جا رہا ہے
  • قائد پاکستان مسلم لیگ نواز شریف سوئٹزر لینڈ روانہ
  • سید علی گیلانیؒ… سچے اور کھرے پاکستانی