سی پیک کا اقتصادی ترقی میں اہم کردار
اشاعت کی تاریخ: 6th, February 2025 GMT
دہشت گرد حملے پاکستان اور چین کے گہرے تعلقات اور دوستی کو متاثر نہیں کرسکتے۔ یہ یقین دہانی صدر مملکت آصف علی زرداری نے چینی ہم منصب شی جن پنگ کو چین کے عظیم عوامی ایوان میں ملاقات پر کرائی ہے۔
دونوں صدور کے درمیان ملاقات کے بعد مفاہمت کی یاد داشتوں پر دستخط کی تقریب منعقد ہوئی، جس میں سائنس اور ٹیکنالوجی، میڈیا، توانائی اور سماجی و اقتصادی ترقی سمیت دیگر شعبوں میں تعاون بڑھانے کے لیے مفاہمت کی یاد داشتوں پر دستخط کیے گئے۔
صدر آصف علی زرداری کا دورہ بہت اہم وقت پر ہو رہا ہے اور اس کا پس منظر یہ ہے کہ چین اور پاکستان کے درمیان سیکیورٹی امور پر معاملات طے ہونے جا رہے ہیں۔
چین کا کافی عرصے سے یہ اصرار تھا کہ پاکستان کی حکومت اپنے ملک میں چینی شہریوں اور منصوبوں کی سیکیورٹی کا جامع میکنزم بنائے۔ حال ہی میں بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں دہشت گردی کے خلاف فوجی آپریشن کا آغاز اس بات کا عندیہ دیتا ہے کہ پاکستان دہشت گردی کے مسائل کو حل کرنے کے لیے آگے بڑھا ہے اور قومی عزم کے ساتھ دہشت گردی کا خاتمہ چاہتا ہے تاکہ ملک میں امن و امان کی صورتِ حال بحال ہوسکے۔
موجودہ حکومت کی خواہش ہے کہ سی پیک کا دوسرا مرحلہ آگے بڑھے اور جاری منصوبے مکمل ہوں اور نئے منصوبے بھی شروع کیے جا سکیں۔ بلاشبہ سی پیک ایک اہم منصوبہ ہے جس پر پیش رفت سے صرف پاکستان اور چین کو نہیں بلکہ خطے کے تمام ممالک کو فائدہ ہوسکتا ہے۔
پاکستان جغرافیائی طور پر اہم جگہ پر واقع ہے اور خطے کو جوڑنے کے لیے اپنا کردار ادا کر رہا ہے۔ پاکستان کے درآمدات پر مبنی اقتصادی ڈھانچے کے پیش نظر امریکا کی جانب سے چین، میکسیکو اور کینیڈا پر عائد کیے گئے حالیہ ٹیکسوں کے پاکستان کی معیشت پر مثبت اثرات مرتب ہونے کی توقع ہے۔
دوسری جانب چین پر پاکستان کے بڑھتے ہوئے انحصار کو دیکھتے ہوئے امریکا پاکستان کو تنبیہ کرتا رہا ہے کہ چین پر بڑھتا ہو انحصار اس کی معیشت کے لیے بہتر نہیں رہے گا، تاہم پاکستان ان خدشات کو غیر حقیقت پسندانہ قرار دیتا ہے۔ پاکستان کی پالیسی رہی ہے کہ وہ امریکا اور چین کے درمیان تعلقات میں توازن رکھے گا۔
امریکا اور چین کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کی نوعیت میں بہت فرق پایا جاتا ہے کیوں کہ خطے میں جیو پولیٹیکس کے حوالے سے پاکستان کے مفادات چین پر منحصر ہیں جب کہ معاشی مفادات امریکا سے وابستہ ہیں۔ موجودہ صورتِ حال میں پاکستان کسی ایک طرف جھکاؤ کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ صدر ٹرمپ کی جانب سے پاکستان کے لیے امریکی امداد پر عارضی پابندی کے بھی منفی اثرات سامنے آئیں گے۔
چین نے 2014 میں سی پیک کے تحت پاکستان میں لگ بھگ 60 ارب ڈالر کے توانائی اور انفرا اسٹرکچر منصوبوں میں چینی کمپنیوں کی سرمایہ کاری کا اعلان کیا تھا اور گزشتہ سال اس منصوبے کے 10 سال مکمل ہوئے تھے۔ چینی میڈیا کے مطابق سی پیک منصوبے کے پہلے مرحلے دونوں ملکوں نے مل کر 38 منصوبے مکمل کیے، جن کی مالیت 25.
دونوں ممالک اپنے تزویراتی تعلقات کی اہمیت سے بخوبی آگاہ ہیں جو خطے کی ترقی، امن اور استحکام کے لیے بہت ضروری ہیں۔ سی پیک کا مذاکراتی فریم ورک چینی صدر شی جن پنگ کے حقیقی وژن کے تحت آتا ہے جس میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ بی آر آئی کے تحت آگے بڑھنے والے تمام منصوبے مثبت نتائج پیدا کرنے کے لیے باہمی اور بامعنی مشاورت کی عکاسی کرتے ہیں۔
بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو سے شروع ہونے والے پیغام سے ظاہر ہوتا ہے کہ چین دنیا کی دوسری بڑی معیشت ہے اور اپنے شراکت داروں کی ہمیشہ حمایت کرے گا جو موجودہ عالمی اقتصادی نظام کے تحت پہلے ہی مغربی طاقتوں کے ہاتھوں استحصال کا شکار ہیں۔ حکومت پاکستان نے کئی بار مغربی تھنک ٹینکس اور میڈیا آؤٹ لیٹس کے نام نہاد قرضوں کے جال کے دعوؤں پر تبصرہ کرکے صورتحال کو واضح کیا ہے۔ اس حوالے سے کہا گیا ہے کہ سی پیک کے بارے میں مغربی میڈیا کی رپورٹس غلط معلومات، مسخ شدہ حقائق اور افراد کی یک طرفہ رائے پر مبنی ہیں۔
سی پیک مالیات کو حکومت سے حکومت کے قرضوں، سرمایہ کاری اور گرانٹس میں تقسیم کیا گیا ہے۔ انفرا اسٹرکچر سیکٹر کو بلاسود یا سرکاری رعایتی قرضوں کے ذریعے ترقی دی جا رہی ہے۔ گوادر پورٹ گرانٹ یا سرمایہ کاری پر مبنی ہے جس کا مطلب ہے کہ حکومت پاکستان کو بندرگاہ کی ترقی کے لیے سرمایہ کاری کی گئی رقم واپس کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ توانائی کے منصوبے انڈیپنڈنٹ پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) موڈ کے تحت چلائے جا رہے ہیں اور مالیات بنیادی طور پر نجی کمپنیاں چائنا ڈویلپمنٹ بینک اور چائنا ایگزم بینک سے ان کی اپنی بیلنس شیٹ سے لیتی ہیں، لہٰذا کوئی بھی قرض چینی سرمایہ کاروں کی طرف سے پاکستانی حکومت کی ذمے داری سے لیا جاتا ہے۔
پاکستان نے سازگار مالیاتی انتظامات کی وجہ سے سی پیک کے تحت چینی سرمایہ کاری کا انتخاب کیا ہے۔ چین ایک ایسے وقت میں پاکستان کی ترقی میں مدد کے لیے آگے بڑھا جب غیر ملکی سرمایہ کاری ختم ہو چکی تھی اور اقتصادی سرگرمیاں توانائی کی قلت اور بنیادی ڈھانچے کے خلا کی وجہ سے مفلوج ہو رہی تھیں۔
سی پیک قرضوں کی ادائیگی اور توانائی کے شعبے کے اخراج کے حوالے سے کوئی فوری بوجھ نہیں ڈال رہا ہے۔ پاکستانی معیشت کو اس سرمایہ کاری کے نتیجے میں ہونے والے فوائد ان قرضوں سے کہیں زیادہ ہوں گے۔ پاک چین اقتصادی راہداری(سی پیک) اپنے پہلے مرحلے میں حکومت سے حکومت کے درمیان سرمایہ کاری کے ماڈل سے دوسرے مرحلے میں کاروبار سے کاروبار روابط میں تبدیل ہوگیا ہے جہاں اس دوسرے مرحلے میں چینی سرمایہ کاری میں اضافہ متوقع ہے۔ پاکستان سی پیک کے دوسرے مرحلے کو کامیابی سے مکمل کرنے کے بعد ہی چین کی جانب سے دیا گیا قرض ادا کر سکتا ہے۔
گوادر پورٹ چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کی وجہ سے یہ عالمی تجارتی مرکز کا روپ دھار چکا ہے۔ بلوچستان کے قدرتی وسائل جن میں ریکوڈک کاپر، گولڈ مائن، کرومائیٹ، سنگ مرمر اور قدرتی گیس کے وسیع ذخائز شامل ہیں جو عالمی سرمایہ کاروں کے لیے بے مثال مواقعے فراہم کرتے ہیں۔ زراعت اور ماہی گیری کے شعبے بھی سرمایہ کاری کے لیے پرکشش ہیں، یہاں اعلیٰ معیار کی کجھور، سیب، انار اور انگور کی پیداوار ہوتی ہے جب کہ ساحلی علاقوں میں ماہی گیری اور آبی زراعت کے شعبے سرمایہ کاروں کے لیے وسیع روشن امکانات ہیں اور اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اگلے 10سے 12سال میں بلوچستان پاکستان کا سب سے امیر صوبہ ہوگا۔
بلوچستان میں اس وقت تابنے کے ذخائر نکالنے پر کام جاری ہے۔ چینی کمپنیاں یہاں مزید سرمایہ کاری کرنے کے لیے تیار ہیں جب کہ متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب نے بھی قدرتی ذخائر (ریکوڈک) پر سرمایہ کاری میں گہری دلچسپی کا اظہار کیا ہے، جوکہ نہایت خوش آئند بات ہے۔ ریکوڈک میں کاپر اور گولڈ کے ذخائر کھربوں ڈالر میں ہیں جو پورے پاکستان خصوصاً بلوچستان کے لیے گیم چینجرثابت ہونگے اور انٹرنیشنل پارٹنرز کی وجہ سے یہاں مہارت پیدا ہوگی اور بلوچستان خود مائننگ کے قابل ہوجائے گا۔
گوادر انٹرنیشنل ایئر پورٹ کے فعال ہونے سے تجارت اور سیاحت کی نئی راہیں کھلیں گی جو ملکی معیشت کے لیے خوش آئند ہے۔ جنوب ایشیائی، مغربی ایشیاء اور وسط ایشیائی ریاستوں کے مابین ٹرانزٹ ٹریڈ میں گوادر پورٹ کو مرکزی حیثیت حاصل ہوگی۔ ترکمانستان، قازقستان، عمان، ایران، قطر، سعودی عرب اور چین کے ساتھ معاشی رابطوں کے نئے دور کے آغاز سے پاکستان معاشی ترقی اور خوشحالی کی راہ پر گامزن ہوگا۔
اس کے خلاف محاذ آرائی پاکستان دشمنی ہے۔ بھارت اور چند دیگر ممالک کھل کر یا خفیہ طور پر اس منصوبے کو ناکام بنانے کی سازشیں کرتے رہے ہیں، کیونکہ یہ منصوبہ نہ صرف خطے میں طاقت کا توازن بدل سکتا ہے بلکہ پاکستان کو اقتصادی لحاظ سے ایک مضبوط پوزیشن میں لے کر آسکتا ہے۔ توقع ہے کہ 2030 تک گوادر بندرگاہ کے ذریعے برآمدات 10 ارب ڈالر سالانہ تک پہنچ جائیں گی۔ سی پیک کے دوسرے مرحلے میں تعلیم، صحت اور ٹیکنالوجی پر توجہ دی گئی ہے۔
گزشتہ دہائی کے دوران سی پیک نے پاکستان میں توانائی، انفرا اسٹرکچر، تجارت اور صنعتی کاری میں انقلابی تبدیلیاں پیدا کی ہیں۔ چیلنجز کے باوجود، اس کے طویل مدتی فوائد بے پناہ ہیں۔ سی پیک کے دوسرے عشرے میں داخل ہونے کے ساتھ، حکمت عملی پر مبنی منصوبہ بندی اور شراکت داروں کے تعاون سے اس کے فوائد کو زیادہ سے زیادہ کرنے میں مدد ملے گی، جو پاکستان اور پورے خطے کے لیے ترقی کا ضامن ہے۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: دوسرے مرحلے سرمایہ کاری پاکستان کی پاکستان کے سے پاکستان اور چین کے کے درمیان مرحلے میں سی پیک کے کی وجہ سے کے لیے ا کے ساتھ کرنے کے گیا ہے کے تحت ہے اور رہا ہے
پڑھیں:
انٹیلی جنس کے شعبے میں اسرائیل پر ایران کی کاری ضرب، اسرائیلی میڈیا میں ہلچل
ایران کے سرکاری میڈیا ذرائع نے اعلان کیا ہے کہ ایرانی انٹیلی جنس اداروں نے اسرائیل کے خلاف ایک کامیاب آپریشن انجام دیا ہے جس میں ہزاروں انتہائی خفیہ دستاویزات جن کی زیادہ تر تعداد اسرائیل کے جوہری پروگرام سے متعلق ہے، حاصل کر کے ایران منتقل کر دی گئی ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ ایران کے سرکاری میڈیا ذرائع کے مطابق ایران نے اسرائیل کے خلاف ایک بڑا کامیاب انٹیلی جنس آپریشن انجام دیا ہے جس کے نتیجے میں اسرائیل کے جوہری اور سیکورٹی مراکز کے بارے میں خفیہ دستاویزات حاصل کر کے ایران منتقل کر دی گئی ہیں۔ باخبر سیکورٹی ذرائع کے مطابق یہ انٹیلی جنس آپریشن اب تک انجام پانے والے تمام آپریشنز میں سب سے بڑا ہے اور اس میں زیادہ تر اسرائیل میں موجود جاسوس افراد کا استعمال کیا گیا ہے۔ ایک باخبر ذریعے نے بتایا: "یہ سب سے بڑا سیکورٹی اقدام افراد کے ذریعے انجام پایا ہے اور اسرائیل کے حساس مراکز میں موجود جاسوسوں کی مدد سے بڑی تعداد میں خفیہ دستاویزات ایران منتقل کر دی گئی ہیں۔" اس نے مزید بتایا: "ایران اس وقت ان دستاویزات کا جائزہ لے رہا ہے اور بہت جلد ان کی تفصیلات منظرعام پر لائی جائیں گی۔ جو چیز واضح ہے وہ یہ کہ اسرائیلی انٹیلی جنس ایجنسی موساد ایران کے اس آپریشن سے آخر تک مطلع نہیں ہو سکی اور یہ آپریشن پوری کامیابی سے انجام پایا ہے۔" دوسری طرف اسرائیل کے انٹیلی جنس ادارے شین بت نے دو ہفتے پہلے این بیانیہ جاری کیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ مقبوضہ فلسطین کے شمالی شہر نشر کے دو شہری روی مزراحی اور الموگ آتیاس کو ایران کے لیے جاسوسی کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے۔
اسرائیل کے خلاف ایران کے اس کامیاب انٹیلی جنس آپریشن پر اسرائیلی میڈیا میں ہلچل مچ گئی ہے۔ اسرائیلی ٹی وی چینکل 12 نے اپنی رپورٹ میں ایران کے سرکاری ٹی وی کی جانب سے اس خبر کے اعلان کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اس آپریشن میں ہزاروں خفیہ دستاویزات چوری کی گئی ہیں۔ اس چینل کی رپورٹ کے مطابق یہ انٹیلی جنس آپریشن اسرائیل پر کاری ضرب ہے جس میں اسرائیل کی جوہری تنصیبات کے بارے میں بڑی تعداد میں دستاویزات ایران کے ہاتھ لگی ہیں۔ عبری زبان کے اس چینل نے مزید کہا کہ بظاہر دو ہفتے پہلے گرفتار ہونے والے دو اسرائیلی شہری روی مزراحی اور الموگ آتیاس بھی اسی آپریشن کا حصہ تھے لیکن یہ دستاویزات ان کی گرفتاری سے پہلے ایران منتقل ہو چکی تھیں۔ ان دو افراد پر الزام ہے کہ انہوں نے اسرائیل کے وزیر جنگ یسرائیل کاتس کی رہائش گاہ کے قریب کیمرے نصب کر رکھے تھے۔ اسرائیل کے ایک اور میڈیا ذریعے واللا نیوز نے ڈیمونا نیوکلیئر ری ایکٹر کی تصاویر شائع کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ ایران نے اسرائیل سے حساس دستاویزات چوری کرنے کا دعوی کیا ہے جن میں اسرائیل کی جوہری تنصیبات سے متعلق دستاویزات بھی ہیں۔
شاموریم نیوز ویب سائٹ نے بھی اپنی نئی رپورٹ میں اعلان کیا ہے کہ اسرائیل کے سیکورٹی اداروں سے بڑی تعداد میں حساس معلومات ایران کے ہاتھ لگی ہیں جن سے ہزاروں اسرائیلی شہریوں کی جان کو خطرہ پیش آ گیا ہے۔ اس ویب سائٹ نے مزید کہا کہ ان حساس معلومات کے چوری ہونے کے کئی ماہ بعد تک اسرائیل کے انٹیلی جنس اور سیکورٹی ادارے اس بارے میں آگاہ نہیں ہو پائے تھے اور اب بھی اس بارے میں تفصیلات شائع کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ اسی طرح اسرائیل کے انٹیلی جنس اداروں سے وابستہ سوشل میڈیا پر انٹیل ٹائمز نامی اکاونٹ نے بھی اس انٹیلی جنس آپریشن کی تصدیق کرتے ہوئے اعلان کیا ہے: "اگر اس بات پر توجہ دیں کہ اسرائیل کے جوہری پروگرام سے متعلق دستاویزات 2024ء میں چوری کی گئی ہیں تو ممکن ہے یہ وہی واقعہ ہو جس کے بارے میں انونیمس آرگنائزیشن نے 24 مارچ کے دن اعلان کیا تھا اور اس بات کا اعتراف کیا تھا کہ اسرائیل کے جوہری تحقیقاتی اداروں سے ہزاروں دستاویزات چوری ہوئی ہیں۔"