شرمیلا فاروقی نے دریائے سندھ سے نہریں نکالنے کا معاملہ قومی اسمبلی میں اٹھادیا
اشاعت کی تاریخ: 10th, February 2025 GMT
پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی رکن قومی اسمبلی شرمیلا فاروقی نے دریائے سندھ سے نہریں نکالنے کا معاملہ ایوان میں اٹھادیا۔
ایوان میں خطاب کے دوران شرمیلا فاروقی نے کہا کہ سندھ کے بعض علاقوں میں مردے کو غسل دینے کےلئے بھی پانی دستیاب نہیں ہوتا۔
انہوں نے کہا کہ ارسا میں سندھ کے نمائندے کو گن پوائنٹ پر نہروں کے منصوبے پر قائل کیا گیا، دریائے سندھ سے ناجائز پانی نکالا گیا تو جنگ ہوگی۔
پی پی پی کی خاتون ایم این اے نے مزید کہا کہ کسانوں سے گندم نہ خرید کر حکومت نے پہلے ہی کسان کو مار دیا ہے، اب سندھ کے کسان کو پانی نہیں ملے گا تو وہ جیتے جی مرجائے گا۔
اُن کا کہنا تھا کہ مشترکہ مفادات کونسل کا 11 ماہ سے اجلاس نہیں بلایا گیا، ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ اجلاس بلایا جائے۔
.ذریعہ: Jang News
پڑھیں:
سندھ طاس معاہدہ کیا ہے، کیا بھارت پاکستان کا پانی روک سکتا ہے؟
سنہ1947 میں ہندوستان کی تقسیم کے بعد پاکستان اور بھارت کے درمیان پانی کی تقسیم پر ایک بڑا تنازعہ سامنے آیا تھا۔ اس تنازعے کو مختلف اوقات میں حل کرنے کوشش کی گئی لیکن وہ حل نہ ہو سکا۔ بالآخر ورلڈ بینک کی ثالثی سے19 ستمبر 1960 کو یہ تنازعہ حل کیا گیا اور ایک معاہدہ طے پایا جسے سندھ طاس معاہدہ کہا جاتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: پانی روکنے کا فیصلہ اعلان جنگ تصور کیا جائے گا، قومی سلامتی کمیٹی کا اعلامیہ جاری
معاہدے پر بھارتی وزیراعظم جواہر لال نہرو اور پاکستان کے سربراہ مملکت جنرل ایوب خان نے دستخط کیے جس کے بعد مشترکہ مفادات کے لیے ایک مستقل انڈس کمیشن بھی قائم کیا گیا جو کہ بھارت اور پاکستان کے کمشنرز پر مشتمل تھا۔
سندھ طاس معاہدے کے تحت 3 مغربی دریاؤں دریائے سندھ، دریائے جہلم اور دریائے چناب کے 80 فیصد پانی پر پاکستان اور 20 فیصد پر بھارت جبکہ 3 مشرقی دریاؤں دریائے راوی، دریائے ستلج اور دریائے بیاس کے پانی پر بھارت کا حق تسلیم کیا گیا۔
بھارت اور پاکستان کے درمیان ہونے والی جنگوں کے دوران بھی اس معاہدے کو قائم رکھا گیا تھا تاہم اب پہلگام میں حملے کے بعد بھارت میں اس معاہدے کو معطل کرنے کا اعلان کردیا ہے۔
مزید پڑھیے: بھارت کے خلاف حکومت کے شانہ بہ شانہ کھڑے ہیں، منہ توڑ جواب دیں گے، پیپلز پارٹی
سندھ طاس معاہدے کے تحت انڈس بیسن سے ہر سال آنے والے مجموعی طور پر 168 ملین ایکڑ فٹ پانی کو دونوں ملکوں پاکستان اور بھارت کے درمیان تقسیم کیا گیا تھا۔ چوں کہ مغربی دریاؤں میں سے بیشتر کا منبع بھارت اور مقبوضہ کشمیر میں تھا اس وجہ سے بھارت کو 3 اعشاریہ 6 ملین ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ کرنے اور محدود حد تک آب پاشی اور بجلی کی پیداوار کی اجازت بھی دی گئی تھی۔
گزشتہ 3 سال سے پاکستان اور بھارت کے انڈس واٹر کمشنرز کا اجلاس نہیں ہو سکا ہے۔ انڈس واٹر کمشنرز کا آخری اجلاس 30 اور 31 مئی 2022 کو نئی دہلی میں ہوا تھا جبکہ سندھ طاس معاہدے کے تحت سال میں دونوں ملکوں کے کمشنرز کا اجلاس ایک بار ہونا ضروری ہے۔
سابق ایڈیشنل کمشنر سندھ طاس معاہدہ شیراز میمن کا بھارت کی جانب سے معاہدہ معطل کیے جانے کے اعلان پر کہنا ہے کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان سندھ طاس معاہدہ گزشتہ 4 سال سے رکا ہوا ہے۔
انہوں نے کہا کہ بھارت نہ ہی سندھ طاس معاہدہ کے تحت سالانہ میٹنگ کررہا ہے اور نہ ہی دریائوں سے متعلق ڈیٹا پاکستان کے ساتھ شیئر کر رہا ہے۔
مزید پڑھیں: بھارت نے پاکستان پر حملہ کیا تو پاکستان ترکی بہ ترکی جواب دے گا، اسحاق ڈار
شیراز میمن نے کہا کہ بھارت اس وقت پاکستان کا پانی روک ہی نہیں سکتا ہے کیوں کہ اس کے لیے بھارت کو بڑے ڈیم بنانے ہوں گے جس میں کئی سال کا وقت لگ سکتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ بھارت کی جانب سے معاہدے کی معطلی کے اعلان کے خلاف پاکستان ورلڈ بینک سے بھی رجوع کر سکتا ہے جس سے پاکستان کو ریلیف مل ہی جائے گا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
بھارت بھارت کے انتہا پسند اقدامات پاکستان سندھ طاس معاہدہ شیراز میمن