Express News:
2025-11-03@19:12:04 GMT

اندھیروں سے اجالوں کا سفر

اشاعت کی تاریخ: 10th, February 2025 GMT

مہذب و باوقار جمہوری معاشروں میں عام انتخابات کا شفاف، منصفانہ، غیر جانبدارانہ اور آزادانہ انعقاد کرانا الیکشن کمیشن کی ذمے داری ہوتی ہے، جہاں انتخابات میں دھاندلی، بدعنوانی اور جانبداری کا عنصر غالب آ جائے اور الیکشن کمیشن سمیت متعلقہ ادارے شفاف و منصفانہ الیکشن کرانے میں ناکام ہو جائیں یا دانستہ الیکشن کو دھاندلی زدہ بنا دیں اور عوام کے حقیقی مینڈیٹ کو تبدیل کر دیا جائے، ہارنے والے جیت جائیں اور جیتنے والے ہار جائیں تو ایسے انتخابی نتائج پر اعتراضات اٹھائے جاتے ہیں۔

دھاندلی زدہ انتخابات سے بننے والی حکومتیں بھی کمزور ہوتی ہیں۔ اپوزیشن اور حکومت کے درمیان تعلقات مثالی نہیں رہتے بلکہ ہمہ وقت کشمکش، الزام تراشی اور کشیدگی سے پارلیمنٹ کے اندر و باہر کا ماحول بھی مکدر ہی رہتا ہے اور کوئی فریق خلوص دل سے افہام و تفہیم پر آمادہ نہیں ہوتا۔

گزشتہ سال 8 فروری کو ہونے والے عام انتخابات پر پی ٹی آئی کی جانب سے فارم 45 اور 47 کا غوغا بلند ہوتا رہا جس کی آوازیں آج بھی اس کی طرف سے سنائی دیتی ہیں۔ ہر ہارنے والی جماعت دھاندلی کا الزام لگاتی آئی ہے ، لہٰذا اس بار بھی ہارنے والی اپوزیشن کی جماعت پی ٹی آئی نے کھلے لفظوں میں دھاندلی کا الزام لگا کر مسلم لیگ (ن) کی مخلوط حکومت کے خلاف شور مچانا شروع کر دیا ۔ جب کہ حکومت نے اپوزیشن کے الزامات کو مسترد کرکے انتخابی نتائج کو درست اور الیکشن کمیشن کے کردار کو سراہا ہے۔

موجودہ حکومت نے 8فروری کو یوم تعمیر و ترقی منایا اور اپنی ایک سالہ کارکردگی کو پیش کرتے ہوئے پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے اس کی خوب تشہیر کی۔ وزیر اعظم نے مذکورہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ان کی حکومت نے گزشتہ ایک سال میں اندھیروں سے نکل کر اجالوں کا سفر طے کیا۔

معیشت کو مستحکم کیا، سخت فیصلے کیے، اپنے پاؤں پر کھڑے ہو چکے، مشکلات برداشت کیں، پاکستان دوبارہ ٹیک آف کی پوزیشن میں ہے اور اب آگے بڑھنا ہے ہم اڑان بھریں گے، وزیر اعظم کا مزید کہنا تھا کہ مہنگائی کم ہوگئی تاہم عام آدمی کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ انھوں نے دعویٰ کیا کہ پہلی مرتبہ سیاسی حکومت اور ادارے ساتھ کام کر رہے ہیں۔

دوسری طرف پی ٹی آئی نے 8 فروری کو پورے ملک میں احتجاج کا اعلان کر رکھا تھا۔ پی ٹی آئی کو مینار پاکستان پر جلسے کی اجازت نہیںملی۔ پی ٹی آئی کا مرکزی جلسہ کے پی کے صوابی میں ہوا، جہاں مرکزی و صوبائی قیادت نے اپنے دل کی بھڑاس نکالی۔ 

مہنگائی کس قدم کم ہوئی ہے اس کا اندازہ (ن) لیگی سابق رکن اسمبلی اور وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کے بقول مہنگائی کم نہیں ہوئی بلکہ مہنگائی کے بڑھنے کی رفتار کم ہوئی ہے، لوگ آج بھی مہنگائی کے ہاتھوں نڈھال ہیں۔

حکومت کا دعویٰ ہے کہ معیشت مستحکم ہوگئی ہے، یہ کیسا دعویٰ ہے کہ حکومت اندرونی و بیرونی اداروں سے قرض پر قرض لے کر پوری قوم کو مقروض بناتی جا رہی ہے۔ وزارت خزانہ کی تازہ رپورٹ کے مطابق گزشتہ ایک سال کے دوران قرض8.

34 ٹریلین بڑھ گیا ہے اور حکومت عوامی قرضے میں کمی کے حوالے سے پارلیمنٹ سے کیے گئے اپنے وعدے پورے کرنے میں ناکام رہی۔

آئی ایم ایف اور دیگر اداروں سے حاصل کردہ قرض کی مالیت اربوں ڈالر بڑھ چکی ہے۔ اچھی حکومت کی پہچان یہ ہوتی ہے کہ وہ تمام حکومتی امور آئین و قانون کے مطابق چلائے۔ اس حوالے سے بھی حکومت کی گزشتہ ایک سالہ کارکردگی تسلی بخش نہیں رہی۔ وزیر اعظم کا دعویٰ ہے کہ اداروں کے درمیان مکمل ہم آہنگی ہے اور پہلی مرتبہ سیاسی حکومت اداروں کے ساتھ مل کر کام کر رہی ہے۔ آئین میں واضح لکھا ہے کہ عدالتی فیصلوں پر تمام ادارے من و عن عمل کرنے کے پابند ہیں۔ یہی آزاد عدلیہ کی نشانی اور پہچان بھی ہے۔

26ویں آئینی ترمیم پی ٹی آئی کے اراکین اسمبلی کے ووٹوں کے طفیل پارلیمنٹ سے رات کی تاریکی میں منظور کروائی گئی۔ کیا اسے اندھیرے سے اجالے کا سفر قرار دیا جاسکتا ہے؟

ملک کے وکلا تقسیم اور ایک مخصوص گروہ 26 ویں آئینی ترمیم کے خلاف سراپا احتجاج ہے۔ بعینہ آئین میں ہر شہری کو اظہار رائے کی جو آزادی حاصل ہے پیکا ایکٹ کے تحت اس آزادی اظہار کا گلا دبانے کی کوشش معلوم ہوتی ہے اس پر پورے ملک کی صحافی برادری یک زبان اور سراپا احتجاج ہے۔

صحافتی تنظیموں نے بھی پیکا ایکٹ کے خلاف احتجاجی تحریک کا عندیہ دیا۔ کیا صحافیوں کی زبان بندی اور سوشل میڈیا پر پابندیاں اندھیرے سے اجالے کا سفر ہے؟موجودہ حکومت اپنے ایک سالہ دور کو تعمیر و ترقی سے تعبیر کر رہی ہے اور اندھیرے سے اجالے کا سفر قرار دے رہی ہے لیکن زمینی حقیقت دیکھیں تو معاملہ الٹ دکھائی دیتا ہے۔ عوام بڑھتی ہوئی مہنگائی، غربت اور بے روزگاری سے تنگ ہوں تو ایسے سفر کو اندھیرے سے اجالے کا سفر قرار نہیں دیا جا سکتا ہے۔

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: پی ٹی آئی رہی ہے ہے اور

پڑھیں:

مودی کی ناکام زرعی پالیسیاں

ریاض احمدچودھری

بھارت میں کسانوں کی خودکشیوں سے متعلق نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو (NCRB) کی تازہ رپورٹ نے مودی حکومت کی ناکام زرعی پالیسیوں کا پردہ چاک کر دیا۔اعداد و شمار کے مطابق 2014 سے 2023 کے درمیان بھارت میں ایک لاکھ گیارہ ہزار سے زائد کسان خودکشی کر چکے ہیں۔ صرف سال 2023 میں ریاست مہاراشٹرا میں سب سے زیادہ اموات ریکارڈ ہوئیں، جہاں 10 ہزار سے زائد کسانوں نے اپنی زندگی کا خاتمہ کیا۔بین الاقوامی تحقیقاتی جریدے انٹرنیشنل جرنل آف ٹرینڈ ان سائنٹیفک ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ کے مطابق بھارتی کسانوں کی خودکشیوں کی بنیادی وجوہات میں 38.7 فیصد قرض اور 19.5 فیصد زرعی مسائل شامل ہیں۔تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ مودی کے نام نہاد ‘شائننگ انڈیا’ کے پیچھے دیہی علاقوں میں بڑھتی مایوسی، غربت اور ناانصافی نے کسانوں کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔ زرعی بحران پر حکومت کی خاموشی اور ناکام پالیسیوں نے مودی کابینہ کو شدید تنقید کی زد میں لا دیا ہے۔
مودی حکومت کی ناقص پالیسیوں کے نتیجے میں روزانہ تقریباً 31 بھارتی کسان خودکشی پر مجبور ہو رہے ہیں۔ حکومت کی جانب سے کسانوں کو دگنی آمدنی کا وعدہ اور فصل بیمہ اسکیموں کی ناکامی نے لاکھوں کسانوں کو قرض کے بوجھ تلے دبا دیا ہے۔بھارت کے مختلف علاقوں میں زرعی بحران کی کیفیت پائی جاتی ہے۔ اس بحران کا مرکزہ اجناس کی مسلسل گرتی ہوئی قیمتیں اور پھر بدحالی سے دل برداشتہ ہو کر خودکشی کرنے والے ہزارہا کسان بتائے جاتے ہیں۔بھارت کے زرعی بحران کے تناظر میں ایک بڑی پیش رفت مختلف علاقوں کے کسانوں کا ملکی دارالحکومت نئی دہلی کی جانب نومبر 2018 کے آخری ایام میں احتجاجی مارچ بھی تھا۔ اس احتجاج کے دوران ملک کے مختلف حصوں سے ایک لاکھ سے زائد غریب کسان نئی دہلی پہنچے اور حکومتی ایوانوں تک اپنی صدائے احتجاج پہنچانے کی کوشش کرتے رہے۔ مظاہرین وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت سے اپنی مشکلات کے ازالے کا مطالبہ کر رہے تھے۔
وجیشری بھگت انتیس برس کی ایک خاتون کسان ہے اور اْس کا تعلق مغربی بھارتی ریاست مہاراشٹر سے ہے۔ وہ ایک بیوہ ہے کیونکہ اْس کے شوہر پرشانت نے بھی زرعی مفلوک الحالی کی وجہ سے خودکشی کر لی تھی۔ اس ریاست کے کسانوں کو بھی اپنی زیر کاشت زمین سے کافی فصل نصیب نہیں ہو رہی اور ان پر بینکوں سے حاصل کیے گئے قرضوں کا حجم مسلسل بڑھتا جا رہا ہے۔ غربت کے بوجھ تلے انہیں مرنا آسان اور جینا مشکل دکھائی دیتا ہے۔ مجموعی طور پر اس علاقے کے کسانوں کو انتہائی مشکل حالات کا سامنا ہے اور اسی باعث ان کے لیے زندگی تنگ ہوتی جا رہی ہے۔ایسے حالات کا سامنا صرف وجے شری کو ہی نہیں، بلکہ خودکشی کرنے والے کسانوں کی لاکھوں بیواؤں کو بھی کم و بیش انہی حالات کا سامنا ہے۔ دو ماہ قبل اْس نے 80 دیگر بیواؤں کو لے کر مہاراشٹر کے ریاستی دارالحکومت ممبئی میں اختجاج بھی کیا تھا۔ وہ مثبت سماجی سکیورٹی کا مطالبہ کر رہی تھیں۔ اْن کے اس مظاہرے کو ایک سرگرم تنظیم مہیلا کسان ادھیکار منچ (MAKAAM) یا ‘مکام’ کی حمایت بھی حاصل تھی۔ اس تنظیم کے مطابق یہ مظاہرہ حقیقت میں اْن کی ذات کی سلامتی کے حق میں بھی ہے۔ سرگرم کارکنوں کے مطابق ایسے مظاہروں سے یقینی طور پر حالات میں تبدیلی پیدا ہو گی۔
وجے شری بھگت جیسی کئی خواتین ہیں، جن کے شوہر خودکشیاں کر چکے ہیں اور اب انہیں شدید معاشی مشکلات اور معاشرتی بدحالی کا سامنا ہے۔ زرعی بحران کے حوالے سے آواز اٹھانے والے سرگرم کارکنوں کی ایک تنظیم سے تعلق رکھنے والی سوراجیہ مترا کا کہنا ہے کہ کھیتوں میں اسّی فیصد کام خواتین کرتی ہیں اور اس کے باوجود ریاست اْن کی مشقت کو تسلیم کرنے سے انکاری ہے۔ ان بیوہ خواتین کی حالت زار کا صحیح اندازہ لگانا انتہائی مشکل ہے۔ یہ تنظیم مہاراشٹر کے علاقے امراوتی میں فعال ہے اور اسی علاقے میں کسان سب سے زیادہ خودکشیاں کرتے ہیں۔
ڈھائی سال قبل بھی کسانوں کے احتجاج کے باعث دہلی میں خاصی ہنگامہ آرائی ہوئی تھی۔ ہریانہ اور پنجاب کے کسانوں کا ایک بنیادی مطالبہ یہ ہے کہ مختلف اہم فصلوں کی امدادی قیمتِ خرید بڑھائی جائے۔ ساتھ ہی ساتھ فصلوں کی بیمہ کاری کا دائرہ وسیع کیا جائے تاکہ موسم کے ہاتھوں فصلیں تلف ہونے پر کسان کسی نہ کسی طور کام جاری رکھ سکیں۔مذاکرات کے دوران مودی حکومت نے کسانوں کو یقین دہانی کروائی تھی کہ حکومت 5 سالہ معاہدے کے تحت کسانوں سے اناج خریدے گی تاہم احتجاجی کسانوں کی طرف سے کہا گیا کہ حکومتی پیشکش ‘ہمارے مفاد میں نہیں۔’کسانوں کا کہنا ہے کہ وہ اپنے مطالبات پر اب بھی قائم ہیں اور چاہتے ہیں کہ حکومت انھیں تمام 23 اناج ‘منیمم سپورٹ پروگرام’ کے تحت خریدنے کی ‘قانونی گارنٹی’ دے۔بھارتی کاشت کاروں نے 2021 میں بھی ایسا ہی احتجاج کیا تھا، کاشت کار یوم جمہوریہ کے موقعے پر رکاوٹیں توڑتے ہوئے شہر میں داخل ہو گئے تھے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

متعلقہ مضامین

  • ملک میں مہنگائی ایک سال کی بلند ترین سطح 6.24فیصد تک پہنچ گئی، متعدد اشیا مہنگی ہو گئیں
  • اکتوبر بھی عوام پر گراں گزرا، مہنگائی کی شرح ماہانہ بنیاد پر 1.83 فیصد بڑھ گئی
  • ملک میں اکتوبر میں مہنگائی تخمینے سے زائد ریکارڈ
  • کراچی والوں کو بخش بھی دیں
  • زرمبادلہ کے ذخائر اور قرض
  • مودی کی ناکام زرعی پالیسیاں
  • جو کام حکومت نہ کر سکی
  • کشمیر:بے اختیار عوامی حکومت کے ایک سال
  • پیٹرول کی قیمت میں اضافہ ہوگیا، حکومت نے عوام پر مہنگائی کا نیا بوجھ ڈال دیا
  • ڈیم ڈیم ڈیماکریسی (پہلا حصہ)