حیدر آباد میں قانون کے رکھوالے وکلا اور قانون پر عملدرآمد کے ذمے دار پولیس کے اہلکار کے درمیان زور آزمائی کا سلسلہ کئی روز تک جاری رہا۔ پولیس نے ایک کار جس کی فینسی نمبر پلیٹ اور سیاہ شیشے پر قانون کی عملداری کرنے کی خاطر ایف آئی آر درج کی تو کار جو وکیل کی ہے وہ اس کو گستاخی قرار دے کر اپنے مددگار ساتھیوں کے ہمراہ ایس پی آفس حیدرآباد جا پہنچا اور پھر مطالبہ ہوا کہ ایس پی سے لے کر اُن تمام لوگوں کو معطل کیا جائے جو قانون کے رکھوالے پر قانون کا اطلاق کرنے کی جسارت کر بیٹھے۔ دوسری طرف پولیس اہلکاروں نے بھی چھٹی کی درخواستیں دے کر اس صورت حال میں کنارہ کشی کا بڑے پیمانے پر فیصلہ کر ڈالا۔ یوں رسہ کشی میں شدت آئی۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ قانون کے رکھوالے اور عمل در آمد کرانے والے دونوں فریق عدالت سے رجوع کرتے اور انصاف کے طلب گار بنتے مگر یہ کیا ہوا؟ قانون کے رکھوالے وکلا نے وہی کچھ کیا کہ شاہراہوں کو بند کرنا اور بوڑھے، بیمار، بچوں کو جو سفر میں ہیں عذاب سے دوچار کرنا شروع کردیا۔ یہ تو وتیرہ اُن کا ہے جو قانون کی پیچیدگی اور ہتھکنڈوں سے مایوس ہو کر دھرنے پر روتے دھوتے ہیں کہ کہاں جائیں۔ وہ تو عدالتوں کے چکر کاٹنے، وکلا کی بھاری بھرکم فیس ادا کرنے کے قابل بھی نہیں ہوتے اگر کہیں سے رقم کا بندوبست ہوجائے تو پھر دادا کی انصاف طلبی پوتے تک بھی مشکل ہوتی ہے۔ کیا وکلا نے اس بات کو گھر کے بھیدی کے طور پر تسلیم کرلیا ہے کہ عدالتوں کا نظام، اُن کو کب انصاف دلا سکے گا۔ ویسے بھی ایک محترم جج نے حال ہی میں کہا ہے کہ عدالتوں پر مقدمات کا بوجھ ہے اور ججوں کی تعداد اتنی کم ہے کہ وہ ان کو نمٹانے میں تاخیر کا شکار ہوتی ہے۔ بلکہ اب یوں کیا جائے کہ اسلاف کی روایت کے تحت جھگڑے باہمی مشاورت سے نمٹا لینا ہی مسائل عدل کا حل ہے یعنی ’’جرگہ‘‘ جس کی عدالت عظمیٰ کے فیصلے کی رو سے ممانعت ہے اس کو نظریہ ضرورت کے تحت نرم کرلیا جائے۔
مقدمات کے فیصلوں میں تاخیر سے کہتے ہیں کہ ایک سبب وکلا بھی ہیں۔ جسٹس کاظم ملک کا ارشاد گرامی ہے کہ آدھے سے زیادہ مقدمات ایک پیشی پر ختم کیے جاسکتے ہیں اور قتل کے مقدمے کا فیصلہ تین پیشیوں پر سنایا جاسکتا ہے مگر مسئلہ یہ ہے کہ اگر ایسا کیا گیا تو وکلا کی اکثریت مالی مشکلات کا شکار ہوجائے گی اور اس سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وکلا کی آمدنی حلال ہوجائے گی۔ وکلا کا دھرنا مبینہ قانون شکنی پر اس بات کو ثابت کرنے کو کافی ہے کہ وہ قانون کی عدالتوں سے انصاف کو وقت کا زیاں سمجھتے ہیں۔وکلا کا عدلیہ پر عدم اعتماد بھی خطرے کی گھنٹی ہے۔ چرچل نے برطانیہ کی جنگ عظیم میں تباہی کے بعد کہا تھا کہ عدالتیں کام کررہی ہیں تو ہم اپنے پیروں پر پھر کھڑے ہوجائیں گے۔ عدل مظلوم و مقبور کا سہارا ہوتا ہے، محکمہ پولیس عدالتوں کی پیچیدگیوں سے بچنے کے لیے جعلی مقابلے اور ہاف فل فرائی کا نسخہ آزما رہا ہے۔ ایک بڑے صحافی نے اپنی کتاب میں مسلم لیگ کے وزیر داخلہ کے حوالے سے لکھا کہ ایک خفیہ میٹنگ جس کی راز داری کا حلف تھا اُس کے بعد یہ ہاف اور فل فرائی کا سلسلہ چل پڑا۔ مگر اب ان کالی وردی والوں کے مابین زور آزمائی اور جتھا بندی یہ بتانے کو کافی ہے کہ نظام عدل لرزہ براندام ہے ویسے بھی عدلیہ کی تاریخ ہے کہ عدالت عظمیٰ کے 9 رکنی بنچ نے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل محمد ضیا الحق کے پارلیمنٹ کو توڑنے اور مارشل لا نافذ کرنے کے عمل کو ریاست کی ضرورت اور فلاح عامہ کی خاطر جائز قرار دیا اور کہا کہ چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر قانون سلامتی کے تحت جو چاہے وہ کرسکتا ہے، اور اب تو عدالتوں کے جج صاحبان کے درمیان رسہ کشی کی خبریں بھی اخبارات میں آرہی ہیں۔ ملک میں کیا اب قانون نام کی کوئی چیز ہے جو بچی ہے۔ قانون سے حق دلانے والے اور قانون کو نافذ کرنے والے دونوں غیر قانونی جنگ میں مصروف ہیں، اس کو المیہ نہ کہیں گے تو اور کیا کہیں گے۔ مجھے ایک گوشہ سے یہ قرآن کی آواز آرہی ہے کہ: ’’ہم ظالموں کو آپس میں لڑا دیتے ہیں‘‘۔ عدل سے مایوسی ملک کی تباہی کے سوا کیا ہے!
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: قانون کے رکھوالے
پڑھیں:
نہروں کے معاملے پر وکلا کی ہڑتال، کراچی سمیت مزید 3 مقامات پر دھرنوں کا اعلان
وکلا نے خبردار کیا ہے کہ جب تک دریائے سندھ سے نئی نہریں نکالنے کے منصوبے کو مستقل طور پر ختم نہیں کیا جاتا، یہ احتجاج جاری رہے گا، یہ منصوبے سندھ کے پانی کے حصے پر ڈاکہ ہیں اور ان کے خلاف ہر قانونی، جمہوری اور آئینی طریقے سے مزاحمت کی جائے گی۔ اسلام ٹائمز۔ نہروں کی تعمیر کے معاملے پر کراچی کی سٹی کورٹ میں وکلا کی جانب سے ہڑتال کے باعث سائلین کو مشکلات کا سامنا ہے۔ تفصیلات کے مطابق سندھ بار کونسل کی کال پر کراچی بار ایسوسی ایشن نے سٹی کورٹ میں ہڑتال کی ہے، آج صبح وکلا نے سٹی کورٹ کے داخلی دروازے بند کر دیے جس کے بعد عدالت کے باہر سائلین کا رش لگ گیا اور عدالتی کارروائی معطل ہوگئی۔ سندھ بار کونسل کی جانب سے کہا گیا ہے کہ کینالز کی تعمیر کے حوالے سے وکلا برادری کے مطالبات تسلیم نہ ہونے تک عدالتی کارروائی کا بائیکاٹ جاری رہے گا۔ سندھ بار کونسل نے نہروں کی تعمیر کے معاملے پر غیر معینہ مدت کے لیے عدالتی کارروائی کے بائیکاٹ کا اعلان کیا ہے۔
کراچی بار ایسوسی ایشن نے نہروں کے معاملے پر کراچی میں بھی دھرنا دینے کا اعلان کردیا۔ سٹی کورٹ میں بار کے عہدیداروں کی پریس کانفرنس کے دوران قائم مقام جنرل سیکریٹری کراچی بار عمران عزیز نے کہا کہ کراچی بار گزشتہ 6 ماہ سے ایک تحریک چلا رہی ہے، کراچی بار نے 4 مسائل سامنے رکھے تھے، اس میں 2 مسئلے بہت اہم رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان مطالبات میں 6 کینالز اور کارپوریٹ فارمنگ کے حوالے سے تحفظات واضح ہیں، ہمارے پر امن اور آئینی مطالبے کو مسترد کیا گیا۔ عمران عزیز نے کہا کہ 5 دن ہوچکے ہیں، خیرپور میں ببر لو بائی پاس پر دھرنا جاری ہے۔ انہوں نے کہا کہ کل آل سندھ وکلا ایکشن کمیٹی کا اجلاس ہوا، جس میں مزید 3 مقامات پر دھرنوں کا اعلان کیا گیا، ایک دھرنا کموں شہید ، دوسرا کشمور اور تیسرا کراچی میں ملیر کورٹ کے باہر دیا جائے گا۔