Jasarat News:
2025-06-09@16:25:26 GMT

عدل سے مایوسی؟؟

اشاعت کی تاریخ: 11th, February 2025 GMT

عدل سے مایوسی؟؟

حیدر آباد میں قانون کے رکھوالے وکلا اور قانون پر عملدرآمد کے ذمے دار پولیس کے اہلکار کے درمیان زور آزمائی کا سلسلہ کئی روز تک جاری رہا۔ پولیس نے ایک کار جس کی فینسی نمبر پلیٹ اور سیاہ شیشے پر قانون کی عملداری کرنے کی خاطر ایف آئی آر درج کی تو کار جو وکیل کی ہے وہ اس کو گستاخی قرار دے کر اپنے مددگار ساتھیوں کے ہمراہ ایس پی آفس حیدرآباد جا پہنچا اور پھر مطالبہ ہوا کہ ایس پی سے لے کر اُن تمام لوگوں کو معطل کیا جائے جو قانون کے رکھوالے پر قانون کا اطلاق کرنے کی جسارت کر بیٹھے۔ دوسری طرف پولیس اہلکاروں نے بھی چھٹی کی درخواستیں دے کر اس صورت حال میں کنارہ کشی کا بڑے پیمانے پر فیصلہ کر ڈالا۔ یوں رسہ کشی میں شدت آئی۔

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ قانون کے رکھوالے اور عمل در آمد کرانے والے دونوں فریق عدالت سے رجوع کرتے اور انصاف کے طلب گار بنتے مگر یہ کیا ہوا؟ قانون کے رکھوالے وکلا نے وہی کچھ کیا کہ شاہراہوں کو بند کرنا اور بوڑھے، بیمار، بچوں کو جو سفر میں ہیں عذاب سے دوچار کرنا شروع کردیا۔ یہ تو وتیرہ اُن کا ہے جو قانون کی پیچیدگی اور ہتھکنڈوں سے مایوس ہو کر دھرنے پر روتے دھوتے ہیں کہ کہاں جائیں۔ وہ تو عدالتوں کے چکر کاٹنے، وکلا کی بھاری بھرکم فیس ادا کرنے کے قابل بھی نہیں ہوتے اگر کہیں سے رقم کا بندوبست ہوجائے تو پھر دادا کی انصاف طلبی پوتے تک بھی مشکل ہوتی ہے۔ کیا وکلا نے اس بات کو گھر کے بھیدی کے طور پر تسلیم کرلیا ہے کہ عدالتوں کا نظام، اُن کو کب انصاف دلا سکے گا۔ ویسے بھی ایک محترم جج نے حال ہی میں کہا ہے کہ عدالتوں پر مقدمات کا بوجھ ہے اور ججوں کی تعداد اتنی کم ہے کہ وہ ان کو نمٹانے میں تاخیر کا شکار ہوتی ہے۔ بلکہ اب یوں کیا جائے کہ اسلاف کی روایت کے تحت جھگڑے باہمی مشاورت سے نمٹا لینا ہی مسائل عدل کا حل ہے یعنی ’’جرگہ‘‘ جس کی عدالت عظمیٰ کے فیصلے کی رو سے ممانعت ہے اس کو نظریہ ضرورت کے تحت نرم کرلیا جائے۔

مقدمات کے فیصلوں میں تاخیر سے کہتے ہیں کہ ایک سبب وکلا بھی ہیں۔ جسٹس کاظم ملک کا ارشاد گرامی ہے کہ آدھے سے زیادہ مقدمات ایک پیشی پر ختم کیے جاسکتے ہیں اور قتل کے مقدمے کا فیصلہ تین پیشیوں پر سنایا جاسکتا ہے مگر مسئلہ یہ ہے کہ اگر ایسا کیا گیا تو وکلا کی اکثریت مالی مشکلات کا شکار ہوجائے گی اور اس سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وکلا کی آمدنی حلال ہوجائے گی۔ وکلا کا دھرنا مبینہ قانون شکنی پر اس بات کو ثابت کرنے کو کافی ہے کہ وہ قانون کی عدالتوں سے انصاف کو وقت کا زیاں سمجھتے ہیں۔وکلا کا عدلیہ پر عدم اعتماد بھی خطرے کی گھنٹی ہے۔ چرچل نے برطانیہ کی جنگ عظیم میں تباہی کے بعد کہا تھا کہ عدالتیں کام کررہی ہیں تو ہم اپنے پیروں پر پھر کھڑے ہوجائیں گے۔ عدل مظلوم و مقبور کا سہارا ہوتا ہے، محکمہ پولیس عدالتوں کی پیچیدگیوں سے بچنے کے لیے جعلی مقابلے اور ہاف فل فرائی کا نسخہ آزما رہا ہے۔ ایک بڑے صحافی نے اپنی کتاب میں مسلم لیگ کے وزیر داخلہ کے حوالے سے لکھا کہ ایک خفیہ میٹنگ جس کی راز داری کا حلف تھا اُس کے بعد یہ ہاف اور فل فرائی کا سلسلہ چل پڑا۔ مگر اب ان کالی وردی والوں کے مابین زور آزمائی اور جتھا بندی یہ بتانے کو کافی ہے کہ نظام عدل لرزہ براندام ہے ویسے بھی عدلیہ کی تاریخ ہے کہ عدالت عظمیٰ کے 9 رکنی بنچ نے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل محمد ضیا الحق کے پارلیمنٹ کو توڑنے اور مارشل لا نافذ کرنے کے عمل کو ریاست کی ضرورت اور فلاح عامہ کی خاطر جائز قرار دیا اور کہا کہ چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر قانون سلامتی کے تحت جو چاہے وہ کرسکتا ہے، اور اب تو عدالتوں کے جج صاحبان کے درمیان رسہ کشی کی خبریں بھی اخبارات میں آرہی ہیں۔ ملک میں کیا اب قانون نام کی کوئی چیز ہے جو بچی ہے۔ قانون سے حق دلانے والے اور قانون کو نافذ کرنے والے دونوں غیر قانونی جنگ میں مصروف ہیں، اس کو المیہ نہ کہیں گے تو اور کیا کہیں گے۔ مجھے ایک گوشہ سے یہ قرآن کی آواز آرہی ہے کہ: ’’ہم ظالموں کو آپس میں لڑا دیتے ہیں‘‘۔ عدل سے مایوسی ملک کی تباہی کے سوا کیا ہے!

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: قانون کے رکھوالے

پڑھیں:

گورنر کیلیفورنیا نے صدر ٹرمپ کا فیصلہ غیر قانونی قرار دے دیا

مظاہروں کے بارے میں ٹرمپ کی بیان بازی کے باوجود، صدر ٹرمپ نے بغاوت ایکٹ، 1807 کا قانون صدر کو سول ڈس آرڈر جیسے واقعات کو دبانے کے لیے امریکی فوج کو تعینات کرنے کا اختیار دیتا ہے۔ اس حوالے سے جب صحافیوں نے صدر ٹرمپ سے پوچھا کہ کیا وہ اس کا اطلاق کریں گے؟ جس پر صدر ٹرمپ نے کہا کہ یہ اس بات پر منحصر کہ بغاوت ہوتی ہے یا نہیں۔ اسلام ٹائمز۔ لاس اینجلس میں امیگریشن قوانین کیخلاف تارکین وطن کے تیسرے روز بھی مظاہرے جاری ہیں، احتجاج کو کنٹرول کرنے کیلیے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے لاس ایجنلس میں نیشنل گارڈ کی تعیناتی کی منظوری دے دی ہے، جسے کیلفورنیا کے ڈیموکریٹک گورنرگیون نیوسم نے غیرقانونی فیصلہ قرار دیا ہے۔ عالمی خبررساں ایجنسی ’رائٹرز‘ کے مطابق مجموعی طور پر 39 مظاہرین کو حراست میں لیا گیا ہے، نیشنل گارڈز سرکاری عمارتوں پر مامور ہے جبکہ پولیس اور مظاہرین کے درمیان لاس اینجلس میں جھڑپوں کا سلسلہ جاری ہے۔

لاس ایجنلس کی پولیس نے مظاہروں کو غیرقانونی قار دیتے ہوئے کہا کہ مظاہرین نے پولیس پر پتھراؤ اور بوتلوں سمیت دیگر نقصان دہ اشیا سے حملے کیے۔ لاس اینجلس کے مرکزی علاقے میں کچھ جگہوں پر سیلف ڈرائیونگ گاڑیوں کو آگ لگانے کے واقعات بھی رپورٹ ہوئے، شہر میں پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپوں کا سلسلہ جاری ہے جہاں مظاہرین کو تمھیں شرم آنی چاہیے، کے نعرے لگاتے سنا گیا، اس دوران چند مظاہرین نے شہر کے مرکزی علاقے کو ملانے والی شاہراہ 101 فری وی کو بلاک کر دیا۔

مظاہروں میں شریک بیشتر مظاہرین کو میکسیکو کے جھنڈے اٹھائے دیکھا گیا جو ٹرمپ انتظامیہ کے تارکین وطن کیخلاف قوانین کی مخالفت کر رہے تھے۔ کیلیفورنیا کے گورنر گیون نیوسم نے مقامی ٹی وی ’ایم ایس این بی سی‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ انھوں نے صدر ٹرمپ سے لاس ایجنلس میں 2 ہزار نیشنل گارڈز کی تعیناتی کے فیصلے کو واپس لینے کی درخواست کی ہے ساتھ ہی انھوں نے صدر ٹرمپ کے اس فیصلے کو غیرقانونی بھی قرار دیا۔

گیون نیوسم نے سوشل میڈیا سائٹ ایکس پر لکھا کہ صدر ٹرمپ تشدد کو بڑھاوا دے رہے ہیں، بڑے پیمانے پر افراتفری پھیلانے، شہروں میں مسلح افواج کی تعیناتی اور مخالفین کو حراست میں لے رہے ہیں، یہ اقدامات کسی آمر کے ہو سکتے ہیں صدر کے نہیں۔ دوسری جانب لاس اینجلس کے پولیس چیف جیم میکڈونلڈ نے میڈیا بریفنگ کے دوران کہا کہ مظاہرین اب پولیس کے قابو سے باہر ہورہے ہیں۔ پولیس چیف نے کہا ہے کہ ہم درست سمت میں جا رہے ہیں، ہمیں دوبارہ سے منصوبہ بندی کرنے کی ضرورت ہے۔

صدر ٹرمپ نے ایک سوشل میڈیا پوسٹ پر کہا کہ پولیس چیف جیم میکڈونلڈ کو یہ کرنا ہوگا، ان ٹھگوں کو یہاں سے بھاگنے نہیں دینا چاہیے، امریکا کو دوبارہ سے عظیم بنانا ہوگا۔ ترجمان وائٹ ہاوس نے بھی کیفلیفورنیا کے گورنر گیون نیوسم کے الزامات کو صدر ٹرمپ کی ذات پر جواب دیتے ہوئے کہا کہ لاس ایجنلس میں پھیلی افراتفری، پر تشدد واقعات اور لاقانونیت سب نے دیکھ لی ہے۔ نیشنل گارڈز سرکاری عمارتوں کے گرد مظاہرے کرنے والے مظاہرین کو پیچھے ہٹانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔

یو ایس ناردرن کمانڈ نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ کیلیفورنیا کے300 نیشنل گارڈز کو لاس اینجلس کے 3 مختلف حصوں میں تعنیات کیا گیا ہے، ان گارڈز کو سرکاری اہلکاروں اور املاک کی حفاظت کی ذمہ داری تفویض کی گئی ہے۔ صدر ٹرمپ نے ایک سوشل میڈیا پوسٹ پر لاس اینجلس میں مظاہرے کرنے والے مظاہرین کو پرتشدد، تشدد کو بڑھاوا دینے والے مظاہرین کہا اور ساتھ ہی صدر ٹرمپ نے بتایا کہ انھوں نے کابینہ کے افسران کو مظاہرین کیخلاف تمام ضروری اقدامات اٹھانے کی ہدایت کی ہے تاکہ شہر میں جاری ان فسادات کو روکا جا سکے۔

نیوجرسی میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ٹرمپ نے مظاہرین کو دھمکی دی کی اگرمظاہرین پولیس یا نیشنل گارڈز پر تھوکیں گے تو بھی ان پر جوابی حملہ کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ اگر ہمیں محسوس ہوا کہ ملک اور شہریوں کی کسی بھی قسم کا خطرہ ہے تو پھر قانون کے مطابق سختی سے نمٹا جائے گا۔ دوسری جانب ایف بی آئی نے پولیس کی گاڑیوں پر پتھراؤ کرنے والے مظاہرین کی معلومات دینے پر 50 ہزار ڈالر انعام کا بھی اعلان کیا ہے۔

مظاہروں کے بارے میں ٹرمپ کی بیان بازی کے باوجود، صدر ٹرمپ نے بغاوت ایکٹ، 1807 کا قانون صدر کو سول ڈس آرڈر جیسے واقعات کو دبانے کے لیے امریکی فوج کو تعینات کرنے کا اختیار دیتا ہے۔ اس حوالے سے جب صحافیوں نے صدر ٹرمپ سے پوچھا کہ کیا وہ اس کا اطلاق کریں گے؟ جس پر صدر ٹرمپ نے کہا کہ یہ اس بات پر منحصر کہ بغاوت ہوتی ہے یا نہیں۔

متعلقہ مضامین

  • گورنر کیلیفورنیا نے صدر ٹرمپ کا فیصلہ غیر قانونی قرار دے دیا
  • محصولات میں اضافہ،نیا بجٹ، نئے ٹیکس: کئی شعبوں پر چھوٹ ختم
  • متعلقہ پانیوں میں چینی جنگی جہازوں کی سرگرمیاں بین الاقوامی قانون اور عمل کے مطابق ہیں، چینی وزارت خارجہ
  • بلی کے ذریعے جیل میں چرس اسمگل کی کوشش ناکام
  • مریخ کی کھوج۔۔۔۔
  • عیدالاضحیٰ۔۔۔ سر تسلیم خم کرنے کا عہد
  • ایک لاکھ جرمانہ ؟؟ گاڑی مالکان کیلئے پریشان کن خبر آ گئی
  • چین اور یورپی یونین کے درمیان  تین ” اہم معاملات ” میں پیش رفت
  • ڈاکٹر، مگر کونسا؟
  • وزیرخزانہ کی ڈیجیٹل اثاثوں کیلئے قانونی فریم ورک جلد نافذ کرنے کی ہدایت