زمین کے مرکزی حصے میں تبدیلیاں ہونے سے خطرات منڈلانے لگے ، سائنسدانوں نے انتباہ کردیا

زمین کھربوں ٹن مواد کا ایک بہت بڑاگولا جس کے اوپر کہیں درخت، گھاس ، کہیں مٹی ریت، کہیں برف اور کہیں پانی کے سمندر اور دریا ہیں لیکن اس گولے کے اندر کیا بھر اہے، یہ ہم جتنا کھود کر دیکھ سکتے تھے دیکھ چکے لیکن یہ تو صرف چند کلومیٹر تک گہرائی ہے جس کو ہم کھود کر دیکھ سکے ہیں، اس سے نیچے کیا ہے، وہ کیسا ہے، اسے کیسے جانیں؟ ہم عام انسان واقعی نہیں جان پاتے لیکن سائنس کی جیالوجی شاخ اور اس کی بہت سی ذیلی شاخوں نے ایسے ٹولز اختراع کر لئے ہیں کہ ہم دیکھے بغیر بھی زمین کی گہرائی میں موجود مواد کو دیکھ نہ ہی پائیں لیکن محسوس کر سکتے ہیں۔ گو کہ ہمارے یہ ٹولز کی مدد سے حاصل کئے محسوسات ہماری جسمانی حسیات جیسے نہیں ہوتے تب بھی ہم ان محسوسات سے نتائج اخذ کرتے ہیں، رائے تشکیل دیتے ہیں اور تھیوریاں بناتے ہیں جو ہمیں مزید جاننے میں مدد دیتی ہیں۔

گزشتہ دنوں امریکا میں ہونے والی ایک تحقیق میں یہ دلچسپ بات سامنے آئی تھی کہ زمین کی اوپری سطح جس تیزی سے اپنے مدار کے گرد گردش کرتی ہے زمین کے گولے کا کا مرکزی حصہ غالباً اتنی تیزی سے مدار کے گرد گردش نہین کر ہا۔ اب زلزلوں کی لہروں کی پیمائش سے یہ بات سامنے آ رہی ہے کہ زمین کے گولے کا بہت اندر کا یعنی مرکزی حصہ اپنی ہئیت بدل بھی رہا ہے یعنی اس میں کچھ نہ کچھ تبدیلیاں آ رہی ہیں جن کا زمین کی بیرونی پرتوں پر اور آخر کار زمین کی ہمیں آنکھ سے دکھائی دینے والی سطح پر بھی اثر ہوتا ہے۔ کیا اثر ہوتا ہے یہ ابھی دیکھنا اور سمجھنا باقی ہے۔

سدرن کیلیفورنیا یونیورسٹی کی تحقیق میں ایسے شواہد پیش کیے گئے جن سے عندیہ ملتا ہے کہ زمین کی اندرونی تہہ کی گردش کی رفتار میں 2010 سے کمی آنا شروع ہوئی۔ایسا 40 سال میں پہلی بار ہوا جب زمین کی سطح کے مقابلے میں اندرونی تہہ کی رفتار کم ہوگئی۔
زمین کی اوپری تہہ سیال دھات پر مبنی ہے جبکہ اندرونی تہہ ٹھوس دھاتوں پر مشتمل ہے اور اس کا حجم چاند کے 70 فیصد رقبے کے برابر ہے۔یہ تہہ ہمارے پیروں سے 4800 کلومیٹر گہرائی میں واقع ہے۔

اس تحقیق کے لیے ماہرین نے 1991 سے 2023 کے دوران ساؤتھ سینڈوچ آئی لینڈز میں ریکارڈ ہونے والے 121 زلزلوں کی ریڈنگ کا تجزیہ کیا۔انہوں نے 1971 سے 1974 کے دوران روسی جوہری ٹیسٹوں کے ساتھ ساتھ فرانس اور امریکی جوہری ٹیسٹوں ڈیٹا کی جانچ پڑتال بھی کی۔محققین نے بتایا کہ جب ہم نے زلزلے کے ریکارڈ میں اس تبدیلی کا اشارہ دیکھا تو ہم دنگ رہ گئے، مگر ہم نے دریافت کیا کہ مزید 2 درجن مشاہدات میں بھی اس بات کی تصدیق کی گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ زمین کی اندرونی تہہ کئی دہائی بعد پہلی بار سست روی سے گردش کر رہی ہے اور دیگر سائنسدانوں نے بھی یہ بات کی ہے مگر ہماری تحقیق میں زیادہ ٹھوس نتائج پیش کیے گئے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ اندرونی تہہ کی گردش سست ہونے کی ممکنہ وجہ اوپری تہہ کے گرد موجود سیال کی تیز حرکت ہے۔محققین کے مطابق اندرونی تہہ کے گھومنے کی رفتار میں کمی سے دنوں کی لمبائی اور زمین کے مقناطیسی میدان میں تبدیلیاں آسکتی ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ اندرونی تہہ کی رفتار سے دن کی لمبائی میں ایک سیکنڈ کے ایک ہزارویں حصے کے برابر تبدیلی آسکتی ہے جس کا جاننا بہت مشکل ہوتا ہے۔اب تحقیقی ٹیم کی جانب سے اس حوالے سے زیادہ گہرائی میں جاکر جاننے کی کوشش کی جائے گی کہ آخر اس کی رفتار میں کمی کیوں آئی۔

اس تحقیق کے نتائج جرنل نیچر میں شائع ہوئے۔اس سے قبل جنوری 2023 میں ایک تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ زمین کی اندرونی تہہ نے الٹی جانب گھومنا شروع کردیا ہے۔

ایسا مانا جاتا تھا کہ زمین کی اندرونی تہہ کاؤنٹر کلاک وائز گھومتی ہے مگر Peking یونیورسٹی کی تحقیق میں نتیجہ نکالا گیا کہ اندرونی تہہ کی گردش 2009 کے قریب تھم گئی تھی اور پھر وہ مخالف سمت یا کلاک وائز گھومنا شروع ہوگئی۔محققین نے بتایا کہ ہمارے خیال میں یہ تہہ پہلے ایک سمت میں گھومتی ہے اور پھر دوسری جانب گھومنے لگتی ہے۔انہوں نے کہا کہ دونوں سمتوں میں گھومنے کا یہ چکر 70 سال (ہر سمت کا چکر 35 سال میں مکمل ہوتا ہے) تک مکمل ہوتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ 2009 سے قبل آخری بار زمین کی اندرونی تہہ کی سمت 1970 کی دہائی میں تبدیل ہوئی تھی اور اگلی بار ایسا 2040 کی دہائی کے وسط میں ہوگا۔

اب سائنسدانوں نے زمین کے اندر بہت گہرائی میں چھپے ایک اور حیرت انگیز راز کا انکشاف کیا ہے۔سائنسدانوں کے مطابق زمین کی اندرونی تہہ کی ساخت میں تبدیلیاں آرہی ہیں۔واضح رہے کہ زمین کی اوپری تہہ سیال دھات پر مبنی ہے جبکہ اندرونی تہہ ٹھوس دھاتوں پر مشتمل ہے اور اس کا حجم چاند کے 70 فیصد رقبے کے برابر ہے۔یہ تہہ ہمارے پیروں سے 4800 کلومیٹر گہرائی میں واقع ہے۔تحقیق میں پہلی بار ایسے شواہد دریافت کیے گئے جن سے عندیہ ملتا ہے کہ گزشتہ 20 برسوں کے دوران اندرونی تہہ میں تبدیلیاں آئی ہیں۔اندرونی تہہ میں تبدیلیوں کا عندیہ زلزلے کی لہروں کے تجزیے سے ملا۔محققین نے 2024 کی اسی تحقیق کے زلزلوں کا ڈیٹا استعمال کیا جس میں زمین کی اندرونی تہہ کی گردش کی رفتار پر روشنی ڈالی گئی تھی۔

2024 کی تحقیق کے لیے ماہرین نے 1991 سے 2023 کے دوران ساؤتھ سینڈوچ آئی لینڈز میں ریکارڈ ہونے والے 121 زلزلوں کا ڈیٹا اکٹھا کیا تھا۔نئی تحقیق میں زلزلوں کی لہروں کے تجزیے سے عندیہ ملا کہ زمین کی اندرونی تہہ کی سطح میں تبدیلیاں آ رہی ہیں۔محققین نے بتایا کہ ہم نے زمین کی اندرونی تہہ سے زلزلہ ٹکرانے کے بعد واپس آنے والے سگنلز کا موازنہ ماضی کے سگنلز سے کیا تاکہ دیکھ سکیں کوئی فرق موجود ہے یا نہیں۔ اندرونی تہہ کی سطح میں آنے والی تبدیلیوں سے زمین کی بہت گہرائی میں موجود مقناطیسی توانائی کی طاقت کا اندازہ ہوتا ہے جو ہمارے سیارے کو شمسی موسم اور جان لیوا ریڈی ایشن سے تحفظ فراہم کرتی ہے۔ زمین کا ارتقا مسلسل جاری رہتا ہے تو ان تبدیلیوں کو جاننے سے ہمیں اندرونی تہہ کے بارے میں سمجھنے میں زیادہ مدد ملے گی۔محققین کے مطابق سابقہ تحقیقی رپورٹس میں زمین کی اندرونی تہہ کی گردش میں آنے والی تبدیلیوں پر روشنی ڈالی گئی اور ہماری تحقیق میں ایک نیا انکشاف سامنے آیا ہے۔زمین کی تمام تہوں میں اندرونی تہہ سب سے زیادہ دور اور پراسرار ہے جہاں کا درجہ حرارت ایک تخمینے کے مطابق 5400 ڈگری سینٹی گریڈ ہے۔محققین نے بتایا کہ یہ تصور کرنا بالکل سائنس فکشن جیسا ہے کہ زمین کی اندرونی تہہ کی سطح پر کیا ہو رہا ہے، یہ وہ مقام ہے جو ہماری باہری دنیا سے بالکل مختلف ہے، وہاں کا وقت مختلف ہے اور مادے مختلف ہیں، اس سب کے باوجود ہم وہاں تک جھانکنے اور جاننے میں کامیاب ہوئے۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: محققین نے بتایا کہ میں تبدیلیاں ا گہرائی میں ہے کہ زمین کے مطابق تحقیق کے کے دوران کی رفتار انہوں نے نے والی زمین کے ہوتا ہے ئی تھی ہے اور تھا کہ کی سطح

پڑھیں:

امریکی کے سمندر میں آتش فشاں کبھی بھی پھٹ سکتا ہے، ماہرین کا انتباہ

امریکا کے مغرب میں زیر سمندر آتش فشاں کسی بھی وقت پھٹ سکتا ہے اور دنیا بھر میں اس مظہر کو براہ راست دیکھا جا سکتا ہیں۔

ایکسیئل سی ماؤنٹ امریکی ریاست اوریگن کے ساحل سے 482 کلو میٹر کے فاصلے پر ژاں ڈی فوکا رج میں واقع ہے اور شمال مغرب پیسیفک میں سب سے فعال آتش فشان ہے۔

سائنس دانوں نے اس زیر سمندر آتش فشاں کی نگرانی کے لیے حال ہی میں اس کی چوٹی کے قریب ایک کیمرا نصب کیا ہے جس سے دنیا بھر کے لوگ اس کے پھٹے وقت کا نظارہ کر سکیں گے۔

یہ لائیو اسٹریم روزنہ ایسٹرن ٹائم اور پیسیفک ٹائم کے مطابق صبح دو بجے، صبح پانچ بجے، صبح آٹھ بجے اور صبح 11 بجے 14 منٹ کے ٹکڑوں میں انٹر ایکٹیو اوشیئنز ویب سائٹ پر چلائی جاتی ہے۔

اوشیئن آبزرویشن کا ایک بیان میں کہنا تھا کہ ایچ ڈی ویڈیو کا فوکس 14 فٹ لمبے مشروم پر ہے جو فعال ہے اور گرم ذخیرہ خارج کر رہا ہے، جو کہ آتش فشاں کے مغربی حصے پر ایکسیئل سی ماؤنٹ پر موجود ہے۔

واضح رہے کچھ روز قبل یونیورسٹی آف واشنگٹن کے ایک پروفیسر ولیم ولکاک نے ایک بیان میں متنبہ کیا تھا کہ وقت کے ساتھ آتش فشاں سطح کے اندر میگما بھر جانے کی وجہ سے پھول گیا ہے۔

انہوں نے کہا تھا کہ کچھ محققین نے خیال پیش کیا ہے کہ پھولنے کا حجم اس کے پھٹنے کے متعلق پیشگوئی کر سکتا ہے اور اگر وہ لوگ ٹھیک ہیں تو یہ بات دلچسپ ہوگی کیوں کہ یہ آتش فشاں اتنا پھول چکا ہے جتنا گزشتہ تین بار پھٹنے سے قبل پھولا تھا۔ یعنی اگر یہ خیال درست ہے تو یہ آتش فشاں کبھی بھی پھٹ سکتا ہے۔

5000 فٹ کی گہرائی میں موجود یہ آتش فشاں 1998، 2011 اور 2015 میں پھٹ چکا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • بھارت کشمیر کی آئینی حیثیت کی تبدیلی کا فیصلہ واپس لے، بلاول
  • زحل کے چاند ٹائیٹن کی فضا کیوں جھولتی ہے؟ نیا سائنسی انکشاف
  • تحفظ ماحول: سرسبز زمین کے لیے صاف نیلا سمندر ضروری
  • مراد علی شاہ کیجانب سے وزیراعلیٰ ہاؤس میں عید ملن تقریب کا انعقاد
  • چینی وزارت  دفاع کا تائیوان کی ڈی پی پی انتظامیہ کے لئے انتباہ
  • ماحولیاتی تبدیلیاں اور بھارتی کسانوں کی خودکُشیوں میں اضافہ
  • وقت ایک نہیں بلکہ تین سمتوں کا حامل ہے، نئی تحقیق
  • سبزی خور بنیں، بیماریوں سے بچیں: ماہرین صحت کی تحقیق نے سبزیوں کی اہمیت اجاگر کر دی
  • امریکی کے سمندر میں آتش فشاں کبھی بھی پھٹ سکتا ہے، ماہرین کا انتباہ
  • پاکستانی سائنسدانوں نے اے آئی جیو سائنس کے حوالے سے اہم اعزاز حاصل کرلیے