زمین کے اندر بڑی تبدیلیاں ،خطرہ منڈلانے لگا،سائنسدانوں کیجانب سے انتباہ جاری
اشاعت کی تاریخ: 11th, February 2025 GMT
زمین کے مرکزی حصے میں تبدیلیاں ہونے سے خطرات منڈلانے لگے ، سائنسدانوں نے انتباہ کردیا
زمین کھربوں ٹن مواد کا ایک بہت بڑاگولا جس کے اوپر کہیں درخت، گھاس ، کہیں مٹی ریت، کہیں برف اور کہیں پانی کے سمندر اور دریا ہیں لیکن اس گولے کے اندر کیا بھر اہے، یہ ہم جتنا کھود کر دیکھ سکتے تھے دیکھ چکے لیکن یہ تو صرف چند کلومیٹر تک گہرائی ہے جس کو ہم کھود کر دیکھ سکے ہیں، اس سے نیچے کیا ہے، وہ کیسا ہے، اسے کیسے جانیں؟ ہم عام انسان واقعی نہیں جان پاتے لیکن سائنس کی جیالوجی شاخ اور اس کی بہت سی ذیلی شاخوں نے ایسے ٹولز اختراع کر لئے ہیں کہ ہم دیکھے بغیر بھی زمین کی گہرائی میں موجود مواد کو دیکھ نہ ہی پائیں لیکن محسوس کر سکتے ہیں۔ گو کہ ہمارے یہ ٹولز کی مدد سے حاصل کئے محسوسات ہماری جسمانی حسیات جیسے نہیں ہوتے تب بھی ہم ان محسوسات سے نتائج اخذ کرتے ہیں، رائے تشکیل دیتے ہیں اور تھیوریاں بناتے ہیں جو ہمیں مزید جاننے میں مدد دیتی ہیں۔
گزشتہ دنوں امریکا میں ہونے والی ایک تحقیق میں یہ دلچسپ بات سامنے آئی تھی کہ زمین کی اوپری سطح جس تیزی سے اپنے مدار کے گرد گردش کرتی ہے زمین کے گولے کا کا مرکزی حصہ غالباً اتنی تیزی سے مدار کے گرد گردش نہین کر ہا۔ اب زلزلوں کی لہروں کی پیمائش سے یہ بات سامنے آ رہی ہے کہ زمین کے گولے کا بہت اندر کا یعنی مرکزی حصہ اپنی ہئیت بدل بھی رہا ہے یعنی اس میں کچھ نہ کچھ تبدیلیاں آ رہی ہیں جن کا زمین کی بیرونی پرتوں پر اور آخر کار زمین کی ہمیں آنکھ سے دکھائی دینے والی سطح پر بھی اثر ہوتا ہے۔ کیا اثر ہوتا ہے یہ ابھی دیکھنا اور سمجھنا باقی ہے۔
سدرن کیلیفورنیا یونیورسٹی کی تحقیق میں ایسے شواہد پیش کیے گئے جن سے عندیہ ملتا ہے کہ زمین کی اندرونی تہہ کی گردش کی رفتار میں 2010 سے کمی آنا شروع ہوئی۔ایسا 40 سال میں پہلی بار ہوا جب زمین کی سطح کے مقابلے میں اندرونی تہہ کی رفتار کم ہوگئی۔
زمین کی اوپری تہہ سیال دھات پر مبنی ہے جبکہ اندرونی تہہ ٹھوس دھاتوں پر مشتمل ہے اور اس کا حجم چاند کے 70 فیصد رقبے کے برابر ہے۔یہ تہہ ہمارے پیروں سے 4800 کلومیٹر گہرائی میں واقع ہے۔
اس تحقیق کے لیے ماہرین نے 1991 سے 2023 کے دوران ساؤتھ سینڈوچ آئی لینڈز میں ریکارڈ ہونے والے 121 زلزلوں کی ریڈنگ کا تجزیہ کیا۔انہوں نے 1971 سے 1974 کے دوران روسی جوہری ٹیسٹوں کے ساتھ ساتھ فرانس اور امریکی جوہری ٹیسٹوں ڈیٹا کی جانچ پڑتال بھی کی۔محققین نے بتایا کہ جب ہم نے زلزلے کے ریکارڈ میں اس تبدیلی کا اشارہ دیکھا تو ہم دنگ رہ گئے، مگر ہم نے دریافت کیا کہ مزید 2 درجن مشاہدات میں بھی اس بات کی تصدیق کی گئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ زمین کی اندرونی تہہ کئی دہائی بعد پہلی بار سست روی سے گردش کر رہی ہے اور دیگر سائنسدانوں نے بھی یہ بات کی ہے مگر ہماری تحقیق میں زیادہ ٹھوس نتائج پیش کیے گئے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ اندرونی تہہ کی گردش سست ہونے کی ممکنہ وجہ اوپری تہہ کے گرد موجود سیال کی تیز حرکت ہے۔محققین کے مطابق اندرونی تہہ کے گھومنے کی رفتار میں کمی سے دنوں کی لمبائی اور زمین کے مقناطیسی میدان میں تبدیلیاں آسکتی ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ اندرونی تہہ کی رفتار سے دن کی لمبائی میں ایک سیکنڈ کے ایک ہزارویں حصے کے برابر تبدیلی آسکتی ہے جس کا جاننا بہت مشکل ہوتا ہے۔اب تحقیقی ٹیم کی جانب سے اس حوالے سے زیادہ گہرائی میں جاکر جاننے کی کوشش کی جائے گی کہ آخر اس کی رفتار میں کمی کیوں آئی۔
اس تحقیق کے نتائج جرنل نیچر میں شائع ہوئے۔اس سے قبل جنوری 2023 میں ایک تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ زمین کی اندرونی تہہ نے الٹی جانب گھومنا شروع کردیا ہے۔
ایسا مانا جاتا تھا کہ زمین کی اندرونی تہہ کاؤنٹر کلاک وائز گھومتی ہے مگر Peking یونیورسٹی کی تحقیق میں نتیجہ نکالا گیا کہ اندرونی تہہ کی گردش 2009 کے قریب تھم گئی تھی اور پھر وہ مخالف سمت یا کلاک وائز گھومنا شروع ہوگئی۔محققین نے بتایا کہ ہمارے خیال میں یہ تہہ پہلے ایک سمت میں گھومتی ہے اور پھر دوسری جانب گھومنے لگتی ہے۔انہوں نے کہا کہ دونوں سمتوں میں گھومنے کا یہ چکر 70 سال (ہر سمت کا چکر 35 سال میں مکمل ہوتا ہے) تک مکمل ہوتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ 2009 سے قبل آخری بار زمین کی اندرونی تہہ کی سمت 1970 کی دہائی میں تبدیل ہوئی تھی اور اگلی بار ایسا 2040 کی دہائی کے وسط میں ہوگا۔
اب سائنسدانوں نے زمین کے اندر بہت گہرائی میں چھپے ایک اور حیرت انگیز راز کا انکشاف کیا ہے۔سائنسدانوں کے مطابق زمین کی اندرونی تہہ کی ساخت میں تبدیلیاں آرہی ہیں۔واضح رہے کہ زمین کی اوپری تہہ سیال دھات پر مبنی ہے جبکہ اندرونی تہہ ٹھوس دھاتوں پر مشتمل ہے اور اس کا حجم چاند کے 70 فیصد رقبے کے برابر ہے۔یہ تہہ ہمارے پیروں سے 4800 کلومیٹر گہرائی میں واقع ہے۔تحقیق میں پہلی بار ایسے شواہد دریافت کیے گئے جن سے عندیہ ملتا ہے کہ گزشتہ 20 برسوں کے دوران اندرونی تہہ میں تبدیلیاں آئی ہیں۔اندرونی تہہ میں تبدیلیوں کا عندیہ زلزلے کی لہروں کے تجزیے سے ملا۔محققین نے 2024 کی اسی تحقیق کے زلزلوں کا ڈیٹا استعمال کیا جس میں زمین کی اندرونی تہہ کی گردش کی رفتار پر روشنی ڈالی گئی تھی۔
2024 کی تحقیق کے لیے ماہرین نے 1991 سے 2023 کے دوران ساؤتھ سینڈوچ آئی لینڈز میں ریکارڈ ہونے والے 121 زلزلوں کا ڈیٹا اکٹھا کیا تھا۔نئی تحقیق میں زلزلوں کی لہروں کے تجزیے سے عندیہ ملا کہ زمین کی اندرونی تہہ کی سطح میں تبدیلیاں آ رہی ہیں۔محققین نے بتایا کہ ہم نے زمین کی اندرونی تہہ سے زلزلہ ٹکرانے کے بعد واپس آنے والے سگنلز کا موازنہ ماضی کے سگنلز سے کیا تاکہ دیکھ سکیں کوئی فرق موجود ہے یا نہیں۔ اندرونی تہہ کی سطح میں آنے والی تبدیلیوں سے زمین کی بہت گہرائی میں موجود مقناطیسی توانائی کی طاقت کا اندازہ ہوتا ہے جو ہمارے سیارے کو شمسی موسم اور جان لیوا ریڈی ایشن سے تحفظ فراہم کرتی ہے۔ زمین کا ارتقا مسلسل جاری رہتا ہے تو ان تبدیلیوں کو جاننے سے ہمیں اندرونی تہہ کے بارے میں سمجھنے میں زیادہ مدد ملے گی۔محققین کے مطابق سابقہ تحقیقی رپورٹس میں زمین کی اندرونی تہہ کی گردش میں آنے والی تبدیلیوں پر روشنی ڈالی گئی اور ہماری تحقیق میں ایک نیا انکشاف سامنے آیا ہے۔زمین کی تمام تہوں میں اندرونی تہہ سب سے زیادہ دور اور پراسرار ہے جہاں کا درجہ حرارت ایک تخمینے کے مطابق 5400 ڈگری سینٹی گریڈ ہے۔محققین نے بتایا کہ یہ تصور کرنا بالکل سائنس فکشن جیسا ہے کہ زمین کی اندرونی تہہ کی سطح پر کیا ہو رہا ہے، یہ وہ مقام ہے جو ہماری باہری دنیا سے بالکل مختلف ہے، وہاں کا وقت مختلف ہے اور مادے مختلف ہیں، اس سب کے باوجود ہم وہاں تک جھانکنے اور جاننے میں کامیاب ہوئے۔
.ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: محققین نے بتایا کہ میں تبدیلیاں ا گہرائی میں ہے کہ زمین کے مطابق تحقیق کے کے دوران کی رفتار انہوں نے نے والی زمین کے ہوتا ہے ئی تھی ہے اور تھا کہ کی سطح
پڑھیں:
مسلمانی کا ناپ تول
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 23 اپریل 2025ء) یہ کوئی ستم ظریفی نہیں بلکہ بھارت کی پارلیمنٹ کا حالیہ منظور شدہ وقف قانون ہے۔ ایسا قانون جو بظاہر جائیداد کے تحفظ کے لیے ہے، مگر درحقیقت محبت، بھائی چارے، اور عقیدے کے بیچ میں دیوار کھڑی کرنے کی ایک کامیاب کوشش ہے۔
نئے قانون کے تحت اب کوئی بھی شخص اگر اسلامی فلاحی مقاصد کے لیے وقف کرنا چاہے، تو یہ ثابت کرنا ضروری ہے کہ وہ گزشتہ پانچ برسوں سے "با عمل" مسلمان ہے۔
اس کا مطلب؟ باجماعت نماز؟ روزے کے کھاتے؟ حج کی مہر؟ یا پھر امام صاحب کی تحریری تصدیق؟ قانون خاموش ہے۔ لیکن واضح ہے کہ نیت نہیں ناپی جائے گی، ناپ تول کردار سے ہوگا۔ شاید کل کو وقف عطیہ دہندگان کے لیے "دینداری اسکینر" مشینیں ایئرپورٹ کے سامان چیکنگ جیسی لگائی جائیں گی۔(جاری ہے)
فسادات کے دنوں میں کچھ فسادی پاجامہ اتار کر مذہب کا فیصلہ کرتے تھے، اب حکومت ختنہ کے ساتھ تقویٰ بھی چیک کرے گی۔
لگتا ہے بھارت کی پارلیمنٹ نے بھی وہی 'پاجامہ ٹیسٹ‘ واپس لاگو کر دیا ہے، مگر اس بار اسے قانونی شکل دے دی گئی ہے۔ پہلے پاجامہ اتارنے کے بعد گردنیں اتاری جاتی تھیں، اب خیرات اور نیکی کے ارادوں پر قدعن لگائی جائیگی۔پنجاب کی مثال سب کے سامنے ہے۔ سکھ کسانوں نے گزشتہ دو دہائیوں میں 200 سے زائد ایسی زمینیں عطیہ کیں جہاں 1947 کے بعد اجڑی مساجد دوبارہ آباد ہو سکیں۔
گاؤں عمرپورہ، ضلع مالیر کوٹلہ میں سکھجندر سنگھ نونی اور ان کے بھائی اوینندر سنگھ نے مسجد کے لیے کئی ایکڑ زرعی زمین دی۔ ان کا کہنا تھا، "گاؤں میں مسلم گھرانے ہیں، ان کے پاس عبادت کی جگہ نہیں، ہمیں لگا یہ ہماری انسانی ذمہ داری ہے۔"ایسا صرف عمرپورہ میں نہیں، جٹوال کلاں جیسے سکھ اکثریتی دیہات میں بھی محض ایک درجن مسلمان خاندانوں کے لیے سکھ برادری نے نہ صرف زمین دی بلکہ تعمیراتی اخراجات بھی اٹھائے۔
مگر نیا قانون ان تمام جذبوں پر ایک ٹھنڈی فائل کی مہر لگا دیتا ہے، غیر مسلم شخص کسی اسلامی ادارے کو زمین نہیں دے سکتا، جب تک وہ خود مسلم نہ ہو، اور وہ بھی ایسا مسلم جو پانچ سال سے مسجد کی پہلی صف میں بیٹھا ہو، فطرہ اور زکوة وقت پر دے، اور سوشل میڈیا پر مولانا طارق جمیل کی ویڈیوز شیئر کرتا ہو۔
یہ سوال نہایت اہم ہے۔ اگر کسی سکھ، ہندو یا عیسائی کو اپنے مسلمان ہمسایوں کے لیے زمین دینی ہو تو کیا وہ مذہب تبدیل کرے؟ پھر پانچ سال کی دینداری کا ثبوت دے؟ یہ قانون صرف "مدد روکنے" کے لیے نہیں، بلکہ "دل توڑنے" کے لیے بھی بنایا گیا ہے۔
ایسا لگتا ہے جیسے حکومت لوگوں کو مذہبی خیرات سے باز رکھنے کے لیے "افسر شاہی اسلامیات" کا نیا مضمون متعارف کروا رہی ہے۔ کیا دینداری کی ماپ کے لیے کوئی ریاستی مولوی رکھے جائیں گے؟ کیا زکوٰۃ، نماز، حج اور روزے کی رسیدیں محکمہ وقف میں جمع ہوں گی؟ یا پھر آدھار کے محکمہ کو یہ ڈیٹوٹی بھی دی جائیگی کہ وہ طے کرے کہ کون باعمل مسلمان ہے۔
وقف بورڈز میں غیر مسلموں کی اکثریت
نیا قانون یہ بھی کہتا ہے کہ مرکزی وقف کونسل کے 22 میں سے 12 اراکین غیر مسلم ہوں گے، ریاستی وقف بورڈز میں 11 میں سے 7 اراکین غیر مسلم ہو سکتے ہیں۔ یہاں تک کہ وقف بورڈز کے چیئرمین اور چیف ایگزیکٹو افسر کے لیے مسلمان ہونا ضروری نہیں رہا۔
یہ ایسا ہی ہے جیسے مسجد کے انتظام کے لیے چرچ کے پادری یا مندر کے پجاری کو مقرر کیا جائے۔
افسوس کہ جب شری سائی بابا ٹرسٹ یا مندروں کے بورڈز کے لیے متعقد افسر کا ہندو ہونا ضروری ہو، تب کوئی سوال نہیں اٹھتا۔ لیکن مسلمانوں کے مذہبی اور فلاحی ادارے اب اقلیت میں بھی اقلیت کے رحم و کرم پر ہوں گے۔2013 میں جب کانگریسی حکومت نے وقف املاک کی واگزاری کے لیے سخت قانون بنایا، تو 21 لاکھ ایکڑ زمین واپس لی گئی۔ اس کے بعد وقف جائیدادوں کا مجموعی رقبہ 18 لاکھ ایکڑ سے بڑھ کر 39 لاکھ ایکڑ تک پہنچ گیا۔
تب سے ایک پروپیگنڈہ چلا: ''مسلمانوں کے پاس سب سے زیادہ زمینیں ہیں!‘‘ حالانکہ صرف جنوبی ہندوستان کی چار ریاستوں میں مندروں کے پاس 10 لاکھ ایکڑ اراضی ہے، اور شمالی بھارت کی تو بات ہی الگ ہے۔یہ "زمین کا فوبیا" سیاست کا نیا ہتھیار ہے، جس کے ذریعے اکثریتی طبقے کو مسلمانوں کے خلاف بھڑکایا جا رہا ہے۔ کہ دیکھو! تمہارے پاس کچھ نہیں اور یہ اقلیت سب کچھ لے اُڑی۔
بے آواز خیرات، بے زبان محبت
ہندوستانی موجودہ حکمران پارٹی جس کے پاس آج ایک بھی مسلم رکن پارلیمان نہیں، وہ مسلمانوں کی "فلاح و بہبود" کے لیے قوانین لا رہی ہے۔ ان قوانین کے پیچھے جس خلوص کا شور ہے، اس کے نیچے تعصب اور تنگ نظری کا شور زیادہ سنائی دیتا ہے۔
عمرپورہ اور جٹوال کلاں جیسے دیہاتوں میں جہاں مسلمان اور سکھ ساتھ بستے ہیں، یہ قانون اب ان کی محبت کو غیر قانونی، اور ان کی مشترکہ زندگی کو مشکوک بنا سکتا ہے۔
پاجامہ ٹیسٹ اب صرف فسادات کی داستان نہیں، بلکہ قانون کی شکل اختیار کر چکا ہے۔نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔