امریکی امدادی ادارے یو ایس ایڈ بارے ہوشربا انکشافات
اشاعت کی تاریخ: 11th, February 2025 GMT
اسلام ٹائمز: یہ پہلی بار نہیں ہے کہ USAID پر متنازعہ منصوبوں میں ملوث ہونے کا الزام لگایا گیا ہے۔ 2013 میں ویکی لیکس کی جانب سے جاری کردہ دستاویزات نے ظاہر کیا تھا کہ یہ ادارہ وینزویلا کی حکومت کو کمزور کرنے اور ہوگو شاویز کے حامیوں کی سماجی زندگی اور تعلقات میں دراڑ ڈالنے کے لیے منصوبہ بندی کر رہا تھا۔ ایک سال بعد یعنی 2014 میں، ایسی رپورٹس سامنے آئیں جن میں کہا گیا کہ USAID نے کیوبا میں خفیہ میڈیا پلیٹ فارمز کی مالی معاونت کی ہے، جن کا مقصد حکومت کیخلاف احتجاج کو بھڑکانا اور اس ملک کی حکومت کو غیر مستحکم کرنا تھا۔ تحریر: علی مزروعی
ایلون مسک، مشہور ارب پتی ہیں، اب ڈونالڈ ٹرمپ کے مشیر بھی ہیں۔ سوشل میڈیا نیٹ ورک X کے مالک ایلون مسک نے ایک ٹویٹ کے ذریعے امریکہ کی بین الاقوامی ترقیاتی ایجنسی (USAID) کے کورونا وائرس سے متعلق تحقیق، مالی معاونت اور کردار کو بے نقاب کیا ہے۔ ایلون ماسک کے حالیہ ٹویٹس نے ایک بار پھر پوری دنیا نے USAID کی جانب متوجہ کر دیا ہے۔ مسک نے اپنے دعووں میں اس ادارے پر کورونا وائرس سے متعلق تحقیق کی مالی معاونت اور یہاں تک کہ اس وائرس کے بنانے میں شامل ہونے کا الزام لگایا ہے۔ انہوں نے کچھ مواد کو دوبارہ شائع کرتے ہوئے USAID کو نہ صرف ایک خیراتی اور ترقیاتی ادارے کے طور پر بلکہ امریکہ کی معلوماتی اور سیاسی کارروائیوں کے لیے ایک آلے کے طور پر متعارف کروایا ہے۔
یہ الزامات اس صورتحال میں سامنے آئے ہیں جب اس سے پہلے بھی مختلف ممالک میں USAID کی سرگرمیوں کے بارے میں ایسی ہی منفی معلومات سامنے آ چکی تھیں، جن میں عراق، شام، یمن اور ایران شامل ہیں۔ جبکہ یہ ادارہ خود کو ترقیاتی ادارے کے طور پر پیش کرتا ہے جس کا مقصد ترقی پذیر کمیونٹیز کی حمایت کرنا ہے، بہت سے رپورٹس یہ ظاہر کرتی ہیں کہ USAID درحقیقت امریکہ کے اسٹریٹجک اور سیاسی مفادات کو آگے بڑھانے کے لیے ایک ڈھال ہے۔
حیاتیاتی ہتھیاروں کے لئے مالی معاونت:
ایلون مسک کے حالیہ بیانات نے USAID کے کرونا وائرس سے متعلق تحقیق کی مالی معاونت کے کردار پر ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے۔ مسک نے ایک ٹویٹ میں دعویٰ کیا کہ یہ ایجنسی، جو کہ امریکہ کی ترقیاتی ادارہ کے طور پر جانی جاتی ہے، براہ راست حیاتیاتی ہتھیاروں کی تحقیق بشمول کرونا وائرس، کی مالی معاونت میں شامل رہی ہے۔ انہوں نے رپورٹوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ USAID نے EcoHealth Alliance کو 53 ملین ڈالر منتقل کیے ہیں، یہ ادارہ چین کے ووہان میں کرونا وائرس پر گین آف فنکشن تحقیق کرنے کا الزام اٹھا چکا ہے۔ حیاتیاتی تحقیق کے میدان میں، USAID کے خلاف الزامات مہلک کرونا وائرس کی تخلیق سے بھی بڑھ کر ہیں۔
رپورٹس کے مطابق یہ ایجنسی 2009 سے 2019 تک EcoHealth Alliance کے ساتھ ایک منصوبے PREDICT میں تعاون کر رہی تھی، یہ پروگرام نئے وائرس کی شناخت، تحقیقی لیبارٹریوں کے قیام اور متعدی بیماریوں کی تشخیص میں ماہرین کی تربیت پر مرکوز تھا، تاہم یہ پروگرام صرف سائنسی مقاصد تک محدود نہیں تھا، بلکہ یہ سی آئی اے کے لیے دنیا بھر میں حیاتیاتی تحقیقاتی سہولیات میں براہ راست شمولیت کا ایک چینل بھی فراہم کرتا تھا۔ اسی سلسلے میں EcoHealth Alliance کے نائب صدر اینڈریو ہاف نے 2022 میں دعویٰ کیا کہ اس ادارے کے صدر پیٹر ڈزاک سی آئی اے کے ساتھ وسیع روابط رکھتے ہیں۔ یہ مالی معاونت صحت اور میڈیکل کے شعبے میں ریسرچ کے نام پر کی جاتی ہے۔
سی آئی اے کی معاونت:
انکا کہنا ہے کہ USAID کی حمایت سے ہونے والی حیاتیاتی تحقیقات پوشیدہ طور پر سیاسی اور سیکیورٹی مقاصد کے ساتھ وابستہ تھیں۔ USAID کے کرونا تحقیق کی مالی معاونت میں کردار کے بارے میں کیے گئے دعوے اس وقت سامنے آتے ہیں جب امریکی حکومت اس موضوع پر شفافیت ثابت نہیں کر سکی۔ مسک نے اس ادارے کے سی آئی اے (مرکزی انٹیلی جنس ایجنسی) کے ساتھ تعلقات کا بھی ذکر کیا ہے اور کہا کہ اس ایجنسی کی تاریخ یہ ظاہر کرتی ہے کہ اس کی سرگرمیاں ہمیشہ مختلف ممالک میں انٹیلی جنس آپریشنز کے ساتھ جڑی رہی ہیں۔
دستاویزات، جن کا مسک نے ذکر کیا ہے، USAID طویل عرصے سے سی آئی اے کی انٹیلی جنس سرگرمیوں کے لیے ایک ڈھانچے کے طور پر استعمال ہوتی رہی ہے، یہ ایجنسی 50 بلین ڈالر سے زائد کے بجٹ کے ساتھ دنیا کے 100 سے زائد ممالک میں سرگرم ہے اور اس پر پچھلے سالوں میں مختلف ممالک میں مختلف تحریکوں کی حمایت کرنے کا بار بار الزام لگایا گیا ہے۔ یہ بات جان گیلیگن، USAID کے سابق ڈائریکٹر کے بیانات سے ہم آہنگ ہے، جنہوں نے ایک بار کہا تھا کہ اس ادارے میں اوپر سے نیچے تک سی آئی اے کے ایجنٹوں کی دراندازی ہوتی ہے۔ انہوں نے اپنے بیانات میں اس دراندازی کا مقصد یہ بتایا تھا کہ انٹیلی جنس ایجنٹوں کو USAID کی بیرون ملک چلائی جانے والی تمام عملیاتی اور رضاکارانہ سرگرمیوں میں شامل کیا جاتا ہے۔
یہ پہلی بار نہیں ہے کہ USAID پر متنازعہ منصوبوں میں ملوث ہونے کا الزام لگایا گیا ہے۔ 2013 میں ویکی لیکس کی جانب سے جاری کردہ دستاویزات نے ظاہر کیا تھا کہ یہ ادارہ وینزویلا کی حکومت کو کمزور کرنے اور ہوگو شاویز کے حامیوں کی سماجی زندگی اور تعلقات میں دراڑ ڈالنے کے لیے منصوبہ بندی کر رہا تھا۔ ایک سال بعد یعنی 2014 میں، ایسی رپورٹس سامنے آئیں جن میں کہا گیا کہ USAID نے کیوبا میں خفیہ میڈیا پلیٹ فارمز کی مالی معاونت کی ہے، جن کا مقصد حکومت کیخلاف احتجاج کو بھڑکانا اور اس ملک کی حکومت کو غیر مستحکم کرنا تھا۔
دنیا میں این جی اوز کا نیٹ ورک اور سوشل انجنئیرنگ کا جال:
امریکی بین الاقوامی ترقیاتی ایجنسی (USAID) کئی سالوں سے خود کو ایک انسانی ہمدردی کے لئے کام کرنیوالے ادارے کے طور پر پیش کر رہی ہے، جس کا مقصد ترقی پذیر ممالک اور بحران زدہ کمیونٹیز کی مدد کرنا ہے، لیکن عملی طور پر بہت سے شواہد اور دستاویزات یہ ظاہر کرتی ہیں کہ یہ ادارہ نہ صرف ہدف ممالک کی ترقی اور خوشحالی بجائے اسے دوسرے ممالک کے داخلی امور میں مداخلت اور امریکی اثر و رسوخ بڑھانے کے لیے ایک آلے کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ اس ایجنسی کی پالیسیوں کا جائزہ لینے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ USAID نے غیر سرکاری تنظیموں، میڈیا آوٹ لیٹس اور مخصوص گروپوں کو بڑے بجٹ کی فراہمی کے ذریعے امریکہ کے اسٹریٹجک مفادات کو پورا کرنے کی کوشش کی ہے۔
امریکی حاکم کے دعووں کے برعکس، یہ ادارہ زیادہ تر واشنگٹن کے ہدف ممالک میں سیاسی اور سماجی انجینئرنگ کے لئے مصروف عمل رہا ہے اور اس کے اقدامات کا براہ راست تعلق امریکہ کی عالمی پالیسیوں سے ہے۔ USAID نے غیر سرکاری تنظیموں، یونیورسٹیوں اور شہری سرگرم گروپوں کی مالی معاونت کے ذریعے خاص طور پر ترقی پذیر ممالک میں اپنے اثر و رسوخ کو وسیع کیا ہے۔ یہ امدادی سرگرمیاں عموماً شہری معاشرے کو مضبوط کرنے، جمہوریت کی ترقی، اظہار رائے کی آزادی اور خواتین کے حقوق کی حمایت جیسے عنوانات کے تحت انجام دی جاتی ہیں، لیکن حقیقت میں اس کا اصل مقصد واشنگٹن کی پالیسیوں کے ساتھ وابستہ نیٹ ورکس بنانا اور انہیں توسیع دینا ہوتا ہے۔
مثال کے طور پر، مشرق وسطیٰ کے کئی ممالک، بشمول عراق، لبنان اور شام میں، USAID نے مقامی اداروں کی حمایت کے ذریعے امریکہ مخالف حکومتوں کو کمزور کرنے کی کوشش کی ہے۔ عراق میں اس ایجنسی نے سیاسی اشرافیہ اور انتظامی عملے کی تربیت پر خاص توجہ دی ہے، تاکہ اس ملک کی طاقت کے ڈھانچے میں اثر و رسوخ حاصل کیا جا سکے۔ عمومی تصور کے برعکس یہ حمایتیں عراق کی سماجی اور اقتصادی ترقی میں کم مددگار ثابت ہوئی ہیں اور زیادہ تر امریکہ کی پالیسیوں کے ساتھ ساختی وابستگی پیدا کرنے کی سمت میں انجام دی جا رہی ہیں۔
دنیا میں عدم استحکام پیدا کرنا اور دہشت گرد گروہوں کی حمایت:
USAID کو کئی ممالک میں عدم استحکام پیدا کرنے اور مسلح اور دہشت گرد گروہوں کی حمایت کرنے کا الزام بھی لگایا گیا ہے۔ یہ ایجنسی بار بار ان حکومتوں کے مخالف گروہوں کی مالی معاونت میں کردار ادا کرتی رہی ہے جو امریکہ کے ساتھ ہم آہنگ نہیں ہیں اور ان گروپوں کی مالی امداد اور تربیتی پروگراموں کے ذریعے ان کی طاقت کو بڑھاتی رہی ہے۔ اس موضوع کی ایک واضح مثال شام میں دیکھی جا سکتی ہے، جہاں USAID نے انسانی امداد کے پردے میں مسلح گروہوں اور نیم فوجی دستوں کی حمایت کی ہے۔ اس ایجنسی نے شام میں 12 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے، جس میں گروپوں کی دوبارہ بحالی، تربیت اور امریکہ سے وابستہ فورسز کی موجودگی کو مستحکم کرنے کے تین شعبوں میں کام کیا گیا ہے۔
ان امدادی سرگرمیوں کا بنیادی مقصد لوگوں کی بنیادی ضروریات کو پورا کرنا نہیں تھا بلکہ ان گروہوں کی حمایت کرنا ہے جو واشنگٹن کے مقاصد کو شام میں پورا کر سکیں۔ مثال کے طور پر مشرقی شام کے علاقوں میں USAID نے زیادہ تر سرمایہ کاری دیرالزور اور حسکہ جیسے علاقوں میں کی ہے جو ہمیشہ شامی حکومت کی فورسز اور امریکہ کی حمایت یافتہ گروہوں کے درمیان جھڑپوں کا مرکز رہے ہیں۔ یہ ادارہ انسانی امداد کے نام پر شمالی شام میں ایک آزاد کرد علاقے کے قیام میں مصروف ہے اور اس طرح شامی مرکزی حکومت کو مزید کمزور کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
یمن کی فوج اور عوامی کمیٹیوں نے ایسے ہتھیاروں کی کھیپیں پکڑی ہیں جن پر USAID کا نشان درج تھا۔ یہ ہتھیار البیضاء صوبے میں ملے جو کہ القاعدہ کے دہشت گرد گروہوں کی سرگرمیوں کا ایک مرکز ہے۔ شواہد سے ظاہر ہوتا ہے کہ USAID نہ صرف ان گروہوں کو مالی اور لاجسٹک مدد فراہم کرتا ہے، بلکہ مختلف امدادی سرگرمیوں کے نام پر کام کرنے والے اداروں کے ذریعے فوجی ساز و سامان بھی بھیجتا ہے۔
غیر سیاسی اور غیر سرکاری ہونیکا لیبل:
آزادی سے کام کرنے کے دعوے کے برخلاف، USAID ایک مکمل طور پر امریکی حکومت کے زیر اثر ادارہ ہے جو امریکی قومی سلامتی کونسل اور واشنگٹن کی انٹیلیجنس ایجنسیوں کے ماتحت کام کرتا ہے۔ یہ ادارہ نہ صرف اپنا بجٹ امریکی حکومت سے حاصل کرتا ہے، بلکہ برطانیہ، فرانس، ہالینڈ اور سویڈن جیسے یورپی ممالک کی مالی مدد بھی حاصل کرتا ہے۔ در حقیقت USAID امریکہ کی خارجہ پالیسیوں کے لیے ایک سرگرم بازو ہے، جو مختلف ممالک کے سیاسی، سماجی اور ثقافتی ڈھانچوں کو تبدیل کرنے کے لیے مخفیانہ طور پر سازشوں کو عملی جامہ پہناتا ہے۔
جیسا کہ ٹرمپ کے وزیر خارجہ مارکو روبیو نے ایک واضح بیان میں کہا ہے کہ امریکہ ایک خیراتی ادارہ نہیں ہے، ہم صرف ان لوگوں کو پیسے دیتے ہیں جو ثابت کریں کہ یہ پیسے امریکی قومی مفادات کے لیے خرچ کیے جا رہے ہیں۔ یہ اعتراف واضح طور پر ظاہر کرتا ہے کہ USAID سے فنڈ حاصل کرنے والی تنظیمیں امریکہ کے قومی مفادات کے نفاذ کی ایجنٹ ہیں، نہ کہ انسانی حقوق اور جمہوریت کی محافظ۔ ان حقائق کے پیش نظر ہی روس، چین اور ایران جیسے ممالک نے اس ادارے کی بعض سرگرمیوں کو غیر قانونی قرار دیا ہے اور اس کی کارروائیوں کو روک دیا ہے۔
امریکہ پوری ڈھٹائی کیساتھ یہ دعویٰ کرتا ہے کہ یہ ادارہ مختلف ممالک میں جمہوریت اور ترقی کو فروغ دینے کی کوشش کر رہا ہے، لیکن متعدد شواہد یہ ظاہر کرتے ہیں کہ USAID ایک انسانی ہمدردی کا ادارہ ہونے سے زیادہ، دنیا بھر میں واشنگٹن کی مداخلتی اور تخریبی پالیسیوں کے نفاذ کا ایک ذریعہ ہے۔ USAID کے بارے میں انکشافات ٹرمپ کے مقدمات سے متعلق بھی ہیں۔ ایلون مسک نے USAID کے خلاف ٹویٹس میں اس ادارے پر ان وکیلوں کی مالی معاونت کا الزام لگایا ہے جو ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف قانونی مقدمات کی پیروی کر رہے ہیں۔ یہ کہانی اس وقت شروع ہوئی جب امریکہ تجزیہ کار مائیک بینز نے ایک ٹویٹ میں دعویٰ کیا کہ ٹرمپ کے مقدمات کے وکیلوں کی مالی امداد USAID کی طرف سے کی گئی ہے۔
اس ٹویٹ میں کہا گیا کہ جارج سوروس کے ان وکیلوں کو دی جانے والی مالی امداد USAID کی امداد کے مقابلے میں بہت کم ہے اور درحقیقت ان مقدمات کے اخراجات کی بنیادی ذمہ داری نجی سرمایہ داروں کی بجائے امریکی حکومت کے رسمی اداروں پر عائد ہوتی ہے۔ اگر یہ دعویٰ درست ہو تو یہ امریکی عدلیہ کی خود مختاری کو زیر سوال لے آتا ہے اور یہ ظاہر کرتا ہے کہ امریکہ کا عدالتی عمل سیاسی گروہوں کے ہاتھ میں مخالفین کو ختم کرنے کا ایک ذریعہ ہے۔ ایلون مسک نے اس ٹویٹ کو دوبارہ شیئر کرتے ہوئے لکھا ہے یہ کوئی مذاق نہیں ہے، درحقیقت اس نے اس الزام کی ایک طرح سے توثیق کی ہے۔
موجودہ امریکی اشرافیہ تنقید سے یو ایس ایڈ کو مضبوط بنانا چاہتی ہے:
ایلون مسک نے اسی موضوع پر نیو یارک پوسٹ کی رپورٹ بھی دوبارہ شیئر کی اور لکھا ہے موجودہ فعال ججوں کو منظر سے ہٹا دینا چاہیے، ورنہ انصاف نہیں ہوگا۔ یہ بیانات اس وقت سامنے آئے ہیں جب ٹرمپ کے خلاف امریکہ کی مختلف ریاستوں میں قانونی مقدمات جاری ہیں اور ان کا دوبارہ صدر منتخب ہونا اس عمل کو روک رہا ہے۔ نیو یارک اور جارجیا کے پراسیکیوٹرز نے ان کے خلاف مالی بدعنوانی، ٹیکس چوری اور 2020 کے انتخابات کے نتائج میں تبدیلی کی کوشش جیسے الزامات عائد کیے ہیں۔ اس دوران کچھ قدامت پسند اور ٹرمپ کے قریبی میڈیا کا دعویٰ ہے کہ ڈیموکریٹس نے امریکی عدالتی نظام میں اثر و رسوخ کا استعمال کرتے ہوئے انہیں 2024 کے انتخابی مقابلے سے ہٹانے کی کوشش کی ہے۔
ایلون مسک اچھی طرح جانتے ہیں کہ ایسے ٹویٹس کا اجراء امریکی میڈیا کے ماحول پر اثر انداز ہو سکتا ہے اور سیاست اور عدلیہ میں پیسے کے کردار پر بحث کو ایک عوامی موضوع بنا سکتا ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ امریکی عدلیہ مکمل طور پر سرکاری اور نجی سرمایہ کاری کے زیر اثر ہے، دراصل یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے کہ ٹرمپ کا مقدمہ، قانونی عمل سے زیادہ، انہیں طاقت کے میدان سے ہٹانے کے لیے ایک سیاسی منصوبہ ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ٹرمپ کی ٹیم یو ایس ایڈ کی انسانیت دشمن پالیسیوں کو روک نہیں رہی بلکہ انہیں مزید مضبوط کر رہی ہے۔
USAID پر حالیہ تنقید سے، خاص طور پر امریکی وزیر خارجہ کے بیانات کے بعد یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ادارہ محض ایک انسان دوست ادارہ نہیں ہے، بلکہ دنیا میں امریکہ کے سیاسی اور تزویراتی اہداف کو آگے بڑھانے کا آلہ کار ہے۔ جمہوریت اور ترقی کو فروغ دینے کی کوششوں کے دعووں کے برعکس، حقیقت یہ ہے کہ USAID، امریکی خارجہ پالیسی کے ایک ایگزیکٹو بازو کے طور پر مختلف ممالک میں بغاوت اور سوشل انجینئرنگ کے منصوبوں پر عمل پیرا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ نے بالواسطہ طور پر ان عطیات کی اصل نوعیت کو اس بات پر زور دے کر ظاہر کیا کہ امریکہ کوئی خیراتی ادارہ نہیں ہے اور گرانٹس کو امریکہ کے قومی مفاد میں خرچ کیا جانا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ ان فنڈز کا ایک بڑا حصہ کمیونٹیز تک پہنچنے کے بجائے فنڈز کو جمع کرنے والوں کے پاس جاتا ہے جو ہر 100 سینٹ میں سے 88 سینٹ چوری کرتے ہیں۔ یو ایس ایڈ پر تنقید کو امریکی مداخلتوں کے خاتمے سے تعبیر نہیں کیا جا سکتا، بلکہ ان مداخلتوں کو بہتر بنانے اور دراندازی اور تخریب کاری کے منصوبوں کی کارکردگی کو بڑھانے کی کوشش کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ ٹرمپ کی ٹیم ان مذموم پالیسیوں پر عمل درآمد کے طریقہ کار کو نئے سرے سے متعین کرنے اور دنیا میں مداخلتوں کو زیادہ احتیاط اور مؤثر طریقے سے آگے بڑھانے کی کوشش کر رہی ہے، اس لیے یہ بھث اور تنقید دوسرے ممالک میں اثر و رسوخ اور سماجی و سیاسی انجینئرنگ کی تبدیلی کے آلات پر عبور حاصل کرنے کا مقابلہ ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: مختلف ممالک میں کی مالی معاونت امریکی حکومت کی کوشش کی ہے کرنے کی کوشش ایلون مسک نے پالیسیوں کے کرونا وائرس کی حکومت کو کہ یہ ادارہ انٹیلی جنس کے لیے ایک یو ایس ایڈ امریکہ کی گروہوں کی سیاسی اور امریکہ کے کہ امریکہ یہ ایجنسی اس ایجنسی سی آئی اے ہے اور اس کے طور پر دنیا میں کے ذریعے کہ USAID نے کی حمایت ہے کہ USAID ادارے کے کرنے اور انہوں نے کے ساتھ کے خلاف کرنے کا نہیں ہے کا مقصد ہوتا ہے کرتا ہے میں کہا یہ ظاہر ٹرمپ کے نے ایک ہیں کہ کر رہی کا ایک رہی ہے رہا ہے کیا جا تھا کہ کیا کہ کیا ہے اور ان کر رہا
پڑھیں:
پاکستان سمیت دنیا بھر میں سونا کیوں مہنگا ہو رہا ہے، کیا امریکی ڈالر اپنی قدر کھونے والا ہے؟
اسلام آباد(نیوز ڈیسک)امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ٹیرف کی جنگ چھیڑ تو بیٹھے ہیں لیکن وہ بھول گئے کہ چین اور جاپان کے ہاتھ میں ایک ایسا ہتھیار ہے جس کی بدولت وہ امریکی ڈالر کی قدر گراسکتے ہیں۔ چین نے ابھی اس ہتھیار کا ایک راؤنڈ ہی فائر کیا ہے اور امریکہ کو جھٹکے لگنا شروع ہوگئے ہیں لیکن ساتھ ہی دنیا بھر میں سونے کی قیمت بڑھ گئی ہے۔ خدشہ ظاہر کیا جا رہے کہ پاکستان میں جلد ہی سونے کی قیمت چار لاکھ روپے فی تولہ ہو جائے گی۔
یہ کیا معاملہ ہے؟ ڈالر اور سونے کا آپس میں کیا تعلق ہے اور ڈالر کی قدر گرنے اور سونے کی قدر بڑھنے سے امریکی ٹیرف کا کیا تعلق ہے، اسے سمجھنے کے لیے بات بالکل ابتدا سے شروع کرتے ہیں۔
شاید آپ نے سنا ہوگا کہ امریکہ پر اربوں ڈالر کا قرض ہے۔ یا یہ کہ چین کے پاس بہت بڑی مقدار میں ڈالرز موجود ہیں۔
امریکہ نے اربوں ڈالر کا یہ قرض ٹریژری بانڈز بیچ کر حاصل کیا ہے۔ امریکی حکومت کے جاری کردہ ٹریژری بانڈز چین، جاپان سمیت مختلف ممالک نے خرید رکھے ہیں۔ بانڈز خریدنے والے ملکوں کو ان پر منافع ملتا ہے اور یہ منافع امریکی حکومت دیتی ہے۔
جاپان کے پاس سب سے زیادہ امریکی ٹریژری بانڈز ہیں جن کی مالیت 1126 ارب ڈالر بنتی ہے۔ فروری 2025 کے ڈیٹا کے مطابق چین کے پاس 784 ارب ڈالر کے ٹریژری بانڈز تھے۔
سعودی عرب، متحدہ عرب امارات سمیت کئی ممالک نے بھی امریکی ٹریژری بانڈز خرید رکھے ہیں اور امریکہ سے ان پر منافع لیتے ہیں۔
اس منافع کی شرح حالات کے ساتھ تبدیل ہوتی رہتی ہے اور کمرشل بینکوں کے شرح منافع سے کم ہوتی ہے۔ نو اپریل کو جب صدر ٹرمپ نے ٹیرف کا اعلان کیا تو یہ شرح 4 اعشاریہ 20 فیصد تھی۔ لیکن ٹیرف کے جھٹکے کے سبب ایک ہفتے میں اس شرح میں 50 بیسس پوائنٹ کا اضافہ ہوگیا اور یہ 4 اعشاریہ 49 فیصد پر پہنچ گئی۔
امریکی ٹریژری بانڈ کی شرح منافع میں جب بھی 100 بیسس پوائنٹس اضافہ ہوتا ہے امریکہ کو 100 ارب ڈالر کا نقصان ہوتا ہے۔
نئی صورت حال میں امریکی ٹریژری بانڈز خریدنے والوں کی دلچسپی کم ہوگئی تھی اور اس کے نتیجے میں امریکہ کو اس پر زیادہ منافع کی پیشکش کرنا پڑی۔
اس کا سیدھا مطلب یہ ہے کہ اگر امریکی ٹریژری بانڈز خریدنے والا کوئی نہ ہو تو ان پر امریکہ کو بہت زیادہ شرح منافع کی پیشکش کرنا پڑے گی اور اگر ٹریژری بانڈز رکھنے والے ممالک انہیں بیچنا شروع کردیں تو نہ صرف امریکہ کو منافع کی شرح مزید بڑھانا پڑے گی بلکہ ڈالر کی قدر بھی گرنا شروع ہو جائے گی۔ کیونکہ امریکہ ڈالر چھاپ کر ہی بانڈز پر منافع ادا کرتا ہے۔
عالمی منڈی میں ڈالر پہلے ہی دباؤ کا شکار ہے۔ 20 برس پہلے دنیا میں 70 فیصد تجارت ڈالر سے ہوتی تھی۔ اب صرف 58 فیصد عالمی لین دین ڈالر سے ہوتا ہے۔
امریکہ نہیں چاہتا کہ بانڈز کی مارکیٹ میں افراتفری پیدا ہو یا ڈالر کی قدر گرے۔ یا امریکہ کو بانڈز پر بہت زیادہ منافع دینا پڑے۔
اسی لیے صدر ٹرمپ نے چین کے سوا تمام ممالک کیلئے اضافی ٹیرف پر عمل درآمد تین ماہ کیلئے موخر کردیا۔
دوسری جانب امریکہ کا مرکزی بینک ٹریژری بانڈز پر شرح منافع کو زبردستی کم رکھنے کی کوشش کو رہا ہے۔
لیکن یہ کوشش بھی بد اعتمادی کا سبب بن رہی ہے۔
ایسے میں چین نے مزید ٹریژری بانڈز خریدنے کے بجائے سونا خریدنا شروع کردیا ہے۔ پچھلے مسلسل پانچ ماہ سے چین ہر ماہ اپنے ذخائر میں سونے کا اضافہ کر رہا ہے۔
اس کا اثر دیگر ممالک پر بھی ہوا ہے اور وہاں بھی مرکزی بینک سونے کو محفوظ سرمایہ کاری سمجھنے لگے ہیں۔
بلوم برگ جیسے ممتاز امریکی مالیاتی ادارے بھی سوال اٹھا رہے ہیں کہ کیا ڈالر کی جگہ سونا لینے والا ہے۔
ان حالات میں مارکیٹ میں یہ بحث بھی چل رہی ہے کہ چین اور جاپان اپنے پاس موجود ٹریژی بانڈز فروخت کریں گے یا نہیں۔
امریکہ میں کئی مالیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ جاپان اور چین کم از کم اعلانیہ طور پر ایسا نہیں کریں گے کیونکہ اس کے نتیجے میں انہیں خود بھی نقصان ہوگا۔ ان کے پاس موجود بانڈز کی مالیت بھی کم ہو جائے گی۔
لیکن قیاس آرائیاں ہو رہی ہیں کہ چین نے 24 ارب ڈالر کے بانڈز فروخت کیے ہیں۔
حقیقت میں چین خاموشی سے اپنے پاس موجود ٹریژری بانڈز کو بیچ رہا ہے۔ 2013 میں چین کے پاس 1350 ارب ڈالر کے امریکی ٹریژری بانڈز تھے جن کی مالیت اب 780 ارب ڈالر کے لگ بھگ رہ گئی ہے۔
لیکن یہ سرکاری اعدادوشمار ہیں۔ خیال کیا جاتا ہے کہ چین کے پاس امریکی بانڈز کی مالیت اس سے زیادہ تھی کیونکہ یورپی اکاونٹس استعمال کرتے ہوئے بھی اس نے بانڈز خریدے تھے اور اب چین یہ بانڈز مارکیٹ میں پھینک رہا ہے۔
بلوم برگ کے مطابق دیگر عالمی سرمایہ کار بھی ڈالر کے بجائے متبادل جگہ سرمایہ کاری کے مواقع ڈھونڈ رہے ہیں۔ کینڈا کا پنشن فنڈ اپنا سرمایہ یورپ منتقل کرنے کی تیاری کر رہا ہے۔
ڈالر پر اعتماد ختم ہوا تو اس کی قدر میں لا محالہ کمی ہوگی۔ دوسری جانب سونے کو محفوظ سرمایہ کاری سمجھا جاتا ہے کیونکہ اس کی سپلائی محدود ہے اور قدر گرنے کا امکان نہیں۔
ڈالر کا استعمال کم ہونے یا De dollarization کے نتیجے میں سونے کی قدر میں اضافہ ناگزیر ہے۔
پاکستان میں سونے کی قیمت پہلے ہی 3 لاکھ 57 ہزار روپے فی تولہ ہوچکی ہے۔ جس کی وجہ ٹیرف جنگ کے دوران عالمی منڈی میں قیمتوں میں اضافہ ہے۔
اگر چین اور امریکہ کی ٹیرف جنگ نے طول پکڑا تو سونے کی قیمت چار لاکھ روپے فی تولہ پر پہنچتے دیر نہیں لگے گی۔
مزیدپڑھیں:قائد اعظم سے ملاقات کر چکا ہوں، فیصل رحمٰن