Jasarat News:
2025-04-26@02:22:49 GMT

حنیف گوہر کو 2025میں ٹریڈ باڈیز کے مجوزہ انتخابات پر تشویش

اشاعت کی تاریخ: 12th, February 2025 GMT

حنیف گوہر کو 2025میں ٹریڈ باڈیز کے مجوزہ انتخابات پر تشویش

کراچی (کامرس رپورٹر)ایسوسی ایشن آف بلڈرز اینڈڈیولرز (آباد)کے سابق چیئرمین،وفاق ایوان ہائے تجارت و صنعت پاکستان (ایف پی سی سی آئی) کے سابق سینئر نائب صدر اور یونائیٹڈ بزنس گروپ (یو بی جی) کے رہنما اور UBG سدرن ریجن کے سیکرٹری جنرل محمد حنیف گوہرنے، 2025-26 کی دو سالہ مدت کے لیے ستمبر 2024 میں ہونے والے حالیہ انتخابات کا حوالہ دیتے ہوئے، 2025 میں تجارتی باڈی کے مجوزہ انتخابات کے انعقاد کی سختی سے مخالفت کردی۔انہوں نے کہا کہ مختصر مدت کے اندر نئے انتخابات کرانے کا فیصلہ استحکام اور تسلسل کو نقصان پہنچاتا ہے اور تجارتی تنظیموں کے اندر موثر حکمرانی میں خلل ڈالتا ہے۔ گذشتہ ہونے والے انتخابات شفاف اور اِن کا انعقاد تمام تر قانونی طریقہ کار اختیار کرنے کے بعد کیا گیا۔ 2025 میں نئے انتخابات کا انعقاد تجارتی اداروں کے دو سالہ پروگرام کو متاثر کرے گا، جس سے اقتصادی اور کاروباری ترقی کے اقدامات سے توجہ ہٹ جائے گی۔ دوبارہ انتخاب غیر ملکی شراکت داری پر بھی اثر ڈالے گا، غیر یقینی صورتحال پیدا کرے گا اور کاروباری تعلقات کو خطرے میں ڈالے گا۔ مزید برآں، متواتر انتخابات لاگت میں اضافے کا باعث بنیں گے، تجارتی اداروں اور ان کے اراکین پر بوجھ پڑے گا۔ یہ بالآخر مجموعی کاروباری ماحول کو متاثر کرے گا، اقتصادی ترقی اور ترقی میں رکاوٹ بنے گا۔حنیف گوہر نے حکومت پر زور دیا کہ وہ دوبارہ غور کرے اور منتخب نمائندوں کو معاشی سرگرمیوں میں حصہ ڈالتے ہوئے اپنی مدت پوری کرنے کی اجازت دے۔ ٹریڈ آرگنائزیشن آرڈیننس میں ترامیم اسٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے کی جائیں۔ یونائیٹڈ بزنس گروپ حکومتِ وقت سے استقامت، تسلسل اور اقتصادی ترقی کو ترجیح دینے کی درخواست کرتا ہے، اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ تجارتی ادارے مؤثر طریقے سے کاروباری برادری کی خدمت کر سکیں۔

.

ذریعہ: Jasarat News

پڑھیں:

افغان مہاجرین کے انخلا سے بلوچستان میں کاروباری سرگرمیوں پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟

پاکستان میں مقیم غیرقانونی افغان مہاجرین کے انخلا کا دوسرا مرحلہ شروع ہو گیا ہے۔ حکومت کی جانب سے تارکین وطن کو افغانستان واپسی کے لیے 31 مارچ کی ڈیڈ لائن دی گئی تھی جس کے بعد مہاجرین کا انخلا وقتا فوقتا جاری ہے ادھر بلوچستان کے مکتلف علاقوں سے مہاجرین کے انخلا کا عمل جاری ہے۔

محکمہ داخلہ کے ذرائع کے مطابق اب تک 32 ہزار تارکین وطن کو افغانستان بھیجا جا چکا ہے جبکہ روزانہ کی بنیاد پر ایک ہزار سے ڈیڑھ ہزار تک مہاجرین کو چمن اور برابچہ سرحدی علاقوں سے ہمسایہ ملک بھیجا جاتا ہے۔

یہ بھی پڑھیے: پاک افغان اہم مذاکرات: نائب وزیراعظم و وزیرخارجہ اسحاق ڈار ایک روزہ دورے پر کابل پہنچ گئے

بلوچستان میں گزشتہ تین دہائیوں سے افغان تارکین وطن کی ایک بڑی تعداد آباد ہے جو کاروباری سرگرمیوں میں مصروف تھی۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مہاجرین کے انخلا سے بلوچستان میں کاروباری سرگرمیاں متاثر ہوں گی یا نہیں؟

وی نیوز سے بات کرتے ہوئے ایوان صنعت و تجارت کے سابق صدر فدا حسین نے بتایا کہ حکومت کی جانب سے ایک بار افغان تارکین وطن کو واپس بھیجنے کا سلسلہ شروع کر دیا گیا ہے جس کے سبب روزانہ کی بنیاد پر ہزاروں افراد افغانستان کا رخ کررہے ہیں، ایسی صورت میں بلوچستان میں کاروبار پر منفی اثرات مرتب ہونے کا خدشہ ہے کیونکہ بلوچستان میں سرحدی تجارت سمیت کئی اہم کاروباری شعبوں میں مہاجرین دہائیوں سے کام کر رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ان کاروباری افراد نے کروڑوں روپے کی سرمایہ کاری یہاں کر رکھی ہے اگر ایسے میں یہ افراد وطن واپس جاتے ہیں تو یہ اپنا سرمایہ مارکیٹ سے کھینچ لیں گے اور یوں کاروباری سرگرمیوں میں یک دم کمی آئے گی جس سے چھوٹا کاروباری سب سے زیادہ متاثر ہوگا۔

یہ بھی پڑھیے: پاک افغان اہم مذاکرات: نائب وزیراعظم و وزیرخارجہ اسحاق ڈار ایک روزہ دورے پر کابل پہنچ گئے

فدا حسین نے بتایا کہ افغان مہاجرین نے بلوچستان میں سب سے زیادہ سرمایہ کاری پراپرٹی کے شعبے میں کر رکھی ہے۔ صوبے میں سیکیورٹی کی مخدوش صورتحال کے سبب پہلے پراپرٹی کی قیمتیں کم ہوئی تھیں ایسے میں مہاجرین کے انخلا کے معاملے نے پراپرٹی کے کاروبار کو تباہ کر کے رکھ دیا ہے، اس وقت مارکیٹ میں ایک سے ڈیڑھ کروڑ روپے کی پراپرٹی 70 لاکھ تک پہنچ چکی ہے۔

فدا حسین نے بتایا کہ پالیسی سازوں کی جانب سے غیرمستحکم فیصلے کاروباری سرگریوں کو شدید متاثر کررہے ہیں، اگر صورتحال یہی رہی تو بلوچستان میں کاروبار ٹھپ ہو کر رہ جائے گا۔

یہ بھی پڑھیے: غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکیوں اور افغان سٹیزن کارڈ ہولڈرز کا انخلا تیزی سے جاری

دوسری جانب وی نیوز سے بات کرتے ہوئے چمن کے رہائشی ستار خوندئی نے کہا کہ پاک افغان سرحدی شہر چمن میں اس وقت کاروباری سرگرمیاں ٹھپ ہو کر رہ گئی ہیں، سرحد بند ہونے سے پہلے ہی کاروبار شدید متاثر ہوا تھا لیکن اب اشیاء کی ڈیمانڈ نہ ہونے کی وجہ سے کاروبار دھول چاٹ رہا ہے۔ چمن میں بسنے والے لوگوں کی رشتہ داریاں اور کاروبار افغانستان کے علاقے قندھار میں موجود منڈی ‘ویش منڈی’ سے منسلک تھا۔ ماضی میں چمن کے لوگ ویش منڈی سے سامان لے کر چمن اور بلوچستان کے مختلف علاقوں میں لے جایا کرتے تھے اور اسی طرح چمن سے سامان خرید کر لوگ قندھار لے جایا کرتے تھے تاہم سرحد بند ہونے اور مہاجرین کے انخلا سے کاروبار شدید متاثر ہوا ہے۔

تجزیہ نگاروں کا موقف ہے کہ اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ بلوچستان میں یک دم افغان مہاجرین کے انخلا سے کاروباری سرگرمیوں میں خلا پیدا ہوگا لیکن اگر غیرقانونی طور پر آئے مہاجرین اپنے وطن کو لوٹ جاتے ہیں تو ایسے میں مقامی افراد کے لیے روزگار کے مواقع بھی بڑھیں گے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

افغان انخلا افغان شہری بلوچستان تجارت کاروبار معیشت

متعلقہ مضامین

  • فیصل بینک نے 2025 کی پہلی سہ ماہی کیلئے مستحکم مالیاتی نتائج کا اعلان کردیا
  • شنگھائی تعاون تنظیم کا نمائشی علاقہ پاک چین اقتصادی تعاون کا مرکز بن کر ابھرا
  • جے این یو طلباء یونین انتخابات کی صدارتی بحث میں پہلگام، وقف قانون اور غزہ کا مسئلہ اٹھایا گیا
  • افغان مہاجرین کے انخلا سے بلوچستان میں کاروباری سرگرمیوں پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟
  • ریلوے پولیس نے سیکیورٹی پیکیج تیار کرلیا، حنیف عباسی
  • بیجنگ میں خصوصی پروگرام “شی جن پھنگ کی اقتصادی سوچ  کا مطالعہ ” کے موضوع پر سیمینار کا انعقاد 
  • ٹرمپ کے ٹیرف سے عالمی اقتصادی ترقی کی رفتار سست ہو گئی، آئی ایم ایف
  • اتحادی جماعتوں میں کوئی اختلاف نہیں،پیپلزپارٹی اور ن لیگ اسی تنخواہ پر کام کرتیں رہیں گی: حنیف عباسی
  • پنجاب میں بلدیاتی انتخابات ستمبر میں کرانیکا فیصلہ ، امیدواروں کیلئے تعلیمی قابلیت کی نئی شرط
  • ٹرمپ کے ٹیرف سے عالمی اقتصادی ترقی کی رفتار سست، آئی ایم ایف