خواتین کے لئے بنائے گئے قوانین پر مکمل عمل نہیں ہورہا ہے، ڈاکٹر نفیسہ شاہ
اشاعت کی تاریخ: 12th, February 2025 GMT
پیپلزپارٹی کی رہنما اور رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر نفیسہ شاہ نے کہا ہے کہ ملک میں صرف 5 فیصد خواتین سول سروس میں ہیں، خواتین کے حوالے سے بنائے گئے قوانین پر مکمل عمل درآمد نہیں ہورہا ہے۔
نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر نفیسہ شاہ نے کہا کہ جنرل ضیا کی آمریت میں خواتین کی جدوجہد اور 12فروری کے واقعہ کو یاد کرتے ہوئے یہ دن منایا جاتا ہے، جدوجہد ابھی باقی ہے۔
انہوں نے کہا کہ غیرت کے نام پر قتل کے قانون کو دو بار تبدیل کرنے کی کوشش کی گئی، قانون پر مکمل عمل درآمد نہیں ہورہا ہے، مقامی سطح پر قوانین تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔
پاکستان مسلم لیگ ن کی رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر شذرہ منصب نے کہا کہ قائد اعظم محمد علی جناح ؒنے اپنی بہن فاطمہ جناحؒ کو تحریک پاکستان میں شامل کیا تھا، قانون ہم نے بہت بنائے ہیں، لیکن ان پر عمل نہیں کیا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ غیرت کے نام پر بننے والے قوانین پر ہوم ورک کرنے کی ضرورت ہے، اور خواتین کے حوالے سے بنائے گئے قوانین پر عمل داری کرائی جانی چاہیے۔
سابق چیئرپرسن قومی ادارہ برائے وقار نسواں خاور ممتاز نے کہا ہے کہ اب بھی بہت ساری جگہوں پر کہا جاتا ہے کہ اگر دو عورتوں کی گواہی ہوتو بہتر ہے، ملک میں جو بھی قانون بنتا ہے اس کا مکمل طور پر اطلاق نہیں ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ غیرت کے نام پر قتل کے خلاف دو بار قانون آچکا ہے، پہلے پوچھا جاتا ہے سمجھوتہ ہوا ہے، ایسے ملزمان چھوٹ جاتے ہیں، قانون سازی میں جلدی کی جاتی ہے، جس کے باعث قوانین میں خامیاں رہ جاتی ہے۔
ایگزیکٹو ڈائریکٹر شرکت گاہ فریدہ شہید نے کہا کہ خواتین کے حقوق کا دن ہمارا قومی دن بن چکا ہے، آمریت کے دور میں بہت ساری پابندیاں تھیں، ہم نے جب جلوس نکالا تو پولیس نے گھیرائو کیا ہوا تھا، حبیب جالب نے اپنی نظمیں سنانے لگے تھے۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: خواتین کے قوانین پر نے کہا کہ جاتا ہے
پڑھیں:
لیڈی ڈاکٹر نے نالے میں چھلانگ لگا لی، وجہ کیا بنی؟
ایک وقت تھا جب کراچی میں اموات کا تعلق ٹارگٹ کلنگ، بھتے، چیھنا جھپٹی اور سیاست و قومیت سے ہوتا تھا لیکن پھر کراچی بدلا اور اس کی نئی کہانیاں سامنے آنے لگیں۔
یہ بھی پڑھیں: صحافی خاور حسین کی موت: قتل یا خودکشی؟
اب کوئی ٹینکر کے نیچے آجاتا ہے کوئی سیوریج لائن میں ڈوب جاتا ہے، کسی کو موبائل فون کے چکر میں مار دیا جاتا ہے لیکن ان سب مسائل سے بچنے کے بعد بھی اگر موت ہوتی ہے تو وہ طبعی یا خود کشی ہوتی ہے۔
چند روز قبل گلشن اقبال سے ایک وکیل دوست کی کال آئی جنہوں نے بتایا کہ آپ لوگ یہ خبر چلائیں تاکہ یہ لڑکی مل سکے، میں نے نذیراللہ محسود سے ہوچھا کہ کیا ہوا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ چھوٹا سا نالا ہے جس میں ایک لڑکی نے چھلانگ لگا دی ہے اب اس کی لاش نہیں مل رہی۔
پہلے مجھے لگا کہ شاید وہ گرنے کو غلطی سے چھلانگ لگانا بول گئے ہوں۔ یہ کہانی اس وقت تک اسی طرح لگ رہی تھی جیسے آئے روز کراچی میں سنی یا دیکھی جاتی ہے پھر میں نے وکیل دوست سے لوکیشن لی اور اس مقام پر پہنچ گیا۔
یہ ٹوٹا پھوٹا نالا ہے جس پر چھوٹا سا پل چیخ چیخ کر بتا رہا ہے کہ میں آج نہیں تو کل گر جاؤں گا۔ اس پل کے نیچے سے نالا گزر رہا ہے جو نالہ کم کچرا کنڈی زیادہ لگ رہا ہے۔
مزید پڑھیے: کراچی: باپ کی بچوں کے ہمراہ خود کشی، وجہ سامنے آگئی
پل پر حفاظتی دیوار نہ ہونے کے برابر ہے۔ دور 50 فٹ کے فاصلے پر نالے میں ریسکیو اہلکار کچھ ڈھونڈ رہے ہیں۔
وہاں کے مقامی کباڑیے عزیز اللہ جن کی دکان اس نالے کے پاس ہی ہے ان سے راستہ پوچھا تو وہ ساتھ چل دیے۔
ان کا کہنا تھا کہ بہت اچھی لڑکی تھی جناح کالج سے ڈاکٹر بنی تھی اور اس کو کچھ عرصے میں اسکالر شپ پر امریکا جانا تھا۔
چلتے چلتے اس پل کی ٹوٹی ہوئی جگہ پر پہنچ کر انہوں نے بتایا کہ یہاں سے چھلانگ لگا دی اس نے۔
مزید پڑھیں: ملیر جیل میں قید بھارتی شہری نے پھندا لگا کر زندگی کا خاتمہ کرلیا
انہوں نے بتایا کہ لڑکی شادی شدہ ہے، قریب ہی رہتی ہے گھر سے دوڑی تو پیچھے سے ایک عورت نے آواز دی کہ پکڑو اسے 2 لڑکے آگے لپکے لیکن جب تک پکڑتے لڑکی چھلانگ لگا چکی تھی۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ آخری بار اس کے ہاتھ اور تھوڑا سا سر اس گندے پانی سے باہر ہوتے دیکھا گیا جس کے بعد سے اس کا کچھ پتا نہیں۔
موقعے پر موجود ریسکیو اہلکاروں کا کہنا تھا کہ ہمارے غوطہ خور پانی میں غوطہ لگاتے ہیں لیکن اس نالے میں پانی سے زیادہ کچرا ہے اور کچرا ہٹنے سے پہلے ہم تلاش نہیں کر پائیں گے جس کے لیے مشینری لانی ہوگی لیکن راستہ ہی نہیں ہے۔
مقامی افراد نے اپنا نام نہ ظاہر کرنے کی صورت میں بتایا کہ یہ لڑکی بہت پڑھی لکھی اور سلجھی ہوئی تھی لیکن اس کے شوہر کا مسئلہ تھا جس سے اس کی آئے روز لڑائی ہوتی تھی۔
یہ بھی پڑھیے: کراچی: شادی کے روز دلہا پراسرار طور پر لاپتا ہوگیا
لڑکی اور اس کے شوہر کا خاندان گلگت کا رہائشی ہے۔ شوہر اپنے اہل خانہ کے ساتھ کراچی میں رہتا ہے جبکہ لڑکی کے ماں باپ گلگت سے کراچی پہنچے ہیں۔ اب تک کوئی مقدمہ درج نہیں کیا گیا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ڈاکٹر کی خودکشی کراچی کراچی لیڈی ڈاکٹر کی خودکشی لیڈی ڈاکٹر کی خودکشی