Juraat:
2025-07-24@20:47:18 GMT

ریڈیو کا عالمی دن۔مواصلات کے انقلاب کی نمائندگی

اشاعت کی تاریخ: 13th, February 2025 GMT

ریڈیو کا عالمی دن۔مواصلات کے انقلاب کی نمائندگی

ڈاکٹر جمشید نظر

دنیا بھر میں ہر سال اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسکو کے زیر اہتمام 13 فروری کو ریڈیو کا عالمی دن منایا جاتا ہے جس کا مقصد نہ صرف ریڈیو کی اہمیت اور افادیت کو اجاگر کرنا ہے بلکہ لوگوں میں اس کے استعمال کا شعور اجاگر کرتے ہوئے یہ بھی واضح کیا جاتا ہے کہ ریڈیوکس طرح مختلف ممالک کے درمیان ثقافتی کردار ادا کررہا ہے۔ریڈیو کا عالمی دن منانے کی ابتداء سن 2012 سے شروع ہوئی تھی حالانکہ ریڈیو کی ایجاد بہت پرانی ہے۔لفظ ریڈیو،ریڈیائی لہروں سے منسوب ہے۔ریڈیو ایک ایسی ٹیکنالوجی ہے جس کے ذریعے آواز کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے کے لئے ریڈیائی لہروں کا استعمال کیا جاتا ہے۔ریڈیو کے عالمی دن کے موقع پر بہت کم لوگ یہ جانتے ہیں کہ ریڈیواٹلی کے سائنس دان اور الیکٹریکل انجینئر گوگلیلمو مارکونی( (Guglielmo Marconi) کی ایجاد ہے۔آج کے دور میں تقریبا ہر کسی کے پاس موبائل فون ہے،موبائل فون رکھنے والے بھی یہ نہیں جانتے کہ ان کے پاس یہ جدید ٹیکنالوجی مارکونی کی مرہون منت ہے۔مارکونی ایک ایسا سائنس دان اور انجینئر تھا۔ 25اپریل 1874ء میں اٹلی کے مشہور شہر بولونیا میں پیدا ہونے والے گگلیلمومارکونی کو کم عمری سے ہی بجلی کے تجربات کرنے کا شوق تھا۔ جب وہ بیس برس کا ہوا تو اس نے سائنس دان” جیمزکلارک” کی ایک تحریر پڑھی جس میںجیمز کلارک نے دریافت کردہ وائرلیس لہروں کے بارے میں بتایا تھا۔اس تحریر کا مارکونی پر اتنا اثر ہوا کہ اس نے ان لہروں پر تجربات کرناشروع کردیئے دراصل وہ ریڈیائی لہروں یعنی تار کے بغیر ٹیلی گراف پیغام کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے کے تصور کو حقیقت کا روپ دینا چاہتا تھا۔جب لوگوں کو اس کے تصورکا علم ہوا تو انھوں نے مارکونی کا تمسخر اڑانا شروع کردیا لیکن مارکونی مسلسل اپنے تجربات میں مصروف رہا اوربالآخر وہ ہوا کی لہروں پر اپنا پیغام دو میل کے فاصلہ تک پہنچانے میں کامیاب ہوگیا۔
اس کامیابی کے بعد جب مارکونی کواپنی نئی ایجاد پراٹلی میںکوئی خاص پذیرائی اور مددنہ ملی تو وہ لندن چلا گیا اور وہاں اپنے تجربات کو جاری رکھا جو مزید کامیاب ہوتے گئے اور مارکونی کو شہرت کی بلندیوں پرپہنچا دیا۔شہرت ملنے پراٹلی کی حکومت نے اسے واپس بلوالیا، مارکونی اپنے وطن واپس آگیا اور حکومت کے تعاون سے وہاں ریڈیائی لہروں کا ایک اسٹیشن قائم کیا۔پہلی جنگ عظیم میں اس اسٹیشن کے ذریعے بحری جہازوں کا پیغامات بھیجے جانے کا سلسلہ شروع ہوا۔1897ء میں مارکونی نے سمندر پار پہلا وائرلیس پیغام بھیجا۔ مارکونی نے مزید تجربات کرکے ریڈیائی لہروں کے ذریعے پیغامات بھیجنے کا فاصلہ بڑھانا شروع کردیا۔سن 1901ء میں مارکونی نے پہلا ٹرانزلانٹک ریڈیو سگنل نشر کیا اور وائرلیس پیغام بحراوقیانوس سے پار انگلستان سے کینیڈا بھیجنے میں کامیاب ہوگیا۔اس کے ریڈیائی سگنلز نے سمندری سفر کی تنہائی کو ختم کردیا تھا۔کہا جاتا ہے کہ مارکونی کے وائرلیس پیغام کی بدولت ٹائی ٹینک کے زندہ بچ جانے والے مسافروں کو ریسکیو کرنے میں مدد ملی تھی۔اس نئی ایجاد پرمارکونی کو 1915ء میں نوبیل انعام سے بھی نوازا گیا۔مارکونی کی ایجاد کی باقاعدہ شکل 1922ء میں سامنے آئی جب انگلینڈ میں ریڈیو براڈ کاسٹنگ کا سلسلہ شروع ہوا۔مارکونی کی تحقیق اور تجربات سے ثابت ہوا کہ وائر لیس کمیونیکیشن بھی ممکن ہے۔یہ بھی ایک عجیب اتفاق ہے کہ جب20 جولائی 1937ء کو اٹلی کے شہر روم میں نوبل انعام یافتہ سائنس دان گوگلیلمو مارکونی کی وفات ہوئی تو اس کے انتقال کی خبراسی کے ایجاد کردہ ریڈیو پر دنیا بھر میں سنی گئی ۔
موجودہ ترقی یافتہ دور میںبھی ریڈیو کی افادیت کم ہونے کی بجائے مزید بڑھی ہے ۔عالمی جنگوں سے لے کر عالمی وباؤں تک ریڈیو نے نا قابل فراموش کردار ادا کیا ہے خصوصا موجودہ عالمی وباء کورونا کے دور میں ریڈیو کے ذریعے دنیا بھر کے ممالک نے دور دراز کے علاقوں میںرہنے والے لوگوں کو ریڈیو کے ذریعے کورونا سے متعلق معلومات اور رہنمائی فراہم کی۔پاکستان میںایسے علاقے جہاں کسی اور میڈیا کی رسائی ممکن نہیں تھی وہاں ریڈیو پاکستان کے ذریعے لوگوں کو نہ صرف کورونا سے متعلق اپ ڈیٹ کیا جاتا رہا بلکہ طلباء کوتعلیم دی جاتی رہی اور صحت سے متعلق رہنمائی اور معلومات بھی بہم پہنچائی جاتی رہی ہے۔

.

ذریعہ: Juraat

کلیدی لفظ: ریڈیائی لہروں مارکونی کی مارکونی کو عالمی دن کے ذریعے جاتا ہے

پڑھیں:

عالمی ادارہ صحت نے چکن گونیا وائرس کی عالمی وبا کا خدشہ ظاہر کر دیا

جنیوا: عالمی ادارہ صحت نے خبردار کیا ہے کہ چکن گونیا وائرس کی ایک نئی اور ممکنہ طور پر عالمگیر وبا دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے، جس کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔

ڈبلیو ایچ او کے مطابق، دنیا بھر میں 5.6 ارب افراد اس وائرس کے خطرے سے دوچار ہیں کیونکہ یہ وائرس 119 ممالک میں رپورٹ ہو چکا ہے۔

ڈبلیو ایچ او کی ماہر ڈیانا روجاس الواریز کا کہنا تھا کہ "چکن گونیا کو عام طور پر زیادہ جانا پہچانا وائرس نہیں سمجھا جاتا، لیکن یہ بیماری بخار اور شدید جوڑوں کے درد کا باعث بنتی ہے جو اکثر مریض کو معذور بنا دیتی ہے، اور بعض کیسز میں یہ جان لیوا بھی ثابت ہو سکتی ہے۔"

انہوں نے یاد دلایا کہ 2004-2005 میں چکن گونیا کی ایک بڑی وبا بحر ہند کے جزائر سے شروع ہوئی تھی اور بعد میں یہ دنیا بھر میں پھیل گئی تھی، جس سے لاکھوں افراد متاثر ہوئے تھے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ 2025 کے آغاز سے اب تک ری یونین، مایوٹے اور ماریشس میں چکن گونیا کے بڑے پیمانے پر کیسز رپورٹ ہوئے ہیں، جو کہ پچھلی وبا جیسے خدشات کو جنم دے رہے ہیں۔

ڈبلیو ایچ او کی ٹیم اس وقت صورتحال کا تجزیہ کر رہی ہے تاکہ مؤثر حکمت عملی تیار کی جا سکے اور دنیا کو ایک اور ممکنہ مہلک وبا سے بچایا جا سکے۔

 

متعلقہ مضامین

  • پی ٹی آئی رہنما بشارت راجہ گرفتاری کے بعد رہا
  • سو سے زائد عالمی امدادی تنظیموں نے غزہ میں قحط کی صورتحال کو سنگین قرار دے دیا
  • 100 سے زائد عالمی امدادی تنظیموں نے غزہ میں قحط کی صورتحال کو سنگین قرار دے دیا
  • مصدق ملک کی آذربائیجان میں کوپ 29 کے سربراہ سے ملاقات
  • عالمی ادارہ صحت نے چکن گونیا وائرس کی عالمی وبا کا خدشہ ظاہر کر دیا
  • چین میں 32 ویں بین الاقوامی ریڈیو، فلم اور ٹیلی ویژن نمائش بی آئی آر ٹی وی 2025 کا آغاز
  • اسپیکر پنجاب اسمبلی کے حکم پر اپوزیشن کے 26معطل ارکان کو بحال کر دیا گیا
  • پنجاب اسمبلی، معطل کئے گئے اپوزیشن کے 26 ارکان کو بحال کر دیا گیا
  • اسپیکر پنجاب اسمبلی کا اپوزیشن کے 26معطل ارکان کو فوری بحال کرنے کا حکم
  •  امید ہے کہ امریکہ چین  کے ساتھ  بات چیت اور مواصلات کے ذریعے اتفاق رائے بڑھائے گا،  چینی وزارت خارجہ