WE News:
2025-07-06@06:22:18 GMT

بہت آہستہ سیکھنے والے لوگ

اشاعت کی تاریخ: 14th, February 2025 GMT

دنیا میں بعض لوگ سلو لرنر ہوتے ہیں یعنی آہستہ رفتار سے سیکھنے والے۔ ان میں سے کامیاب لوگ وہی ہوتے ہیں جو سیکھنے کی رفتار کو آہستہ آہستہ بڑھاتے رہتے ہیں۔ ایک دن ایسا بھی آتا ہے کہ وہ دنیا کے کروڑوں، اربوں لوگوں سے زیادہ تیز رفتار ہوجاتے ہیں۔ شرط مگر یہ ہے کہ وہ اپنی اس صلاحیت کو بہتر بناتے رہیں۔

ایسے ہی متعدد کامیاب لوگوں سے بات ہوئی تو ان کا کہنا تھا کہ وہ سلو لرنر ضرور ہیں لیکن وہ اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ وہ کچھ نہ کچھ سیکھتے رہیں، مسلسل سیکھتے رہیں۔ اپنی اس صلاحیت کو بہتر بناتے رہیں چاہے کچھوے کی رفتار ہی سے سہی۔

جناب عمران خان کی اچھی عادت یہ ہے کہ وہ اپنی غلطی کا اعتراف نہایت آسانی سے کرلیتے ہیں لیکن ان کی شخصیت کا برا پہلو یہ ہے کہ وہ غلطیوں سے سیکھتے ہیں لیکن تب سیکھتے ہیں جب اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ دانا لوگ کہتے ہیں کہ غلطیاں اچھی ہوتی ہیں بشرطیکہ ان سے سبق سیکھا جائے۔ اور کوشش کی جائے کہ وہ غلطیاں دوہرائی نہ جائیں۔

خان صاحب سن دو ہزار چودہ میں اپنے ساتھیوں سمیت اسمبلیوں سے استعفے دے کر باہر آگئے۔ یہ الگ بات ہے کہ پی ٹی آئی کے تمام ارکان اسمبلی چپکے چپکے تنخواہیں برابر وصول کرتے رہے۔ خان صاحب کا موقف تھا کہ وہ چوروں کے ساتھ نہیں بیٹھیں گے، بہرحال یہ غلطی ان کے گلے پڑ گئی۔ خیر! اس غلطی سے انھوں نے کئی سال بعد سبق سیکھا۔  اب ان کے ساتھی اسمبلیوں میں موجود ہیں اور حکومت کو ٹف ٹائم دینے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔ تاہم بہت سی دیگر غلطیاں کر رہے ہیں جس سے وہ اپنی منزل کھوٹی کیے جا رہے ہیں۔

میاں نواز شریف کے بارے میں عام تاثر یہی ہے کہ وہ غلطیوں سے سبق جلدی سیکھ لیتے ہیں۔ مثلاً وہ بھی عمران خان کی طرح میدان سیاست میں کسی کی انگلی پکڑ کر آئے تھے۔ 1990 میں وزیراعظم بنے تو اگلے تین برسوں میں انھیں اندازہ ہوا کہ میدان سیاست میں کسی کی انگلی پکڑ کر داخل ہونا غلطی ہے کیونکہ اس کے بعد ’کسی‘ کی ضد ہوتی ہے کہ سیاست دان ’ان‘ کی انگلی نہ چھوڑے۔ وہ ’ان‘ کا ’بندہ‘ بن کر ہی رہے۔ چنانچہ میاں صاحب نے ان تین برسوں میں جو سبق سیکھا، اگلی سیاست اسی سبق کی روشنی میں کی۔ اگرچہ انھیں ایسی سیاست کرنے سے بار بار روکا بھی گیا تاہم انھیں آج بھی اپنا سبق خوب اچھی طرح سے یاد ہے۔  اور وہ اپنے بھائی اور بیٹی کو اپنے سیکھے ہوئے سبق کی روشنی میں کام کرنے کی تلقین کرتے ہیں۔

’عمران خان پراجیکٹ‘ کے نتیجے میں پاکستانی معیشت کو محض ساڑھے تین برسوں میں اس قدر زیادہ نقصان ہوا کہ خود اس پراجیکٹ کے خالقوں کے ہاتھ پاؤں پھول گئے۔ نتیجتاً انھیں اپنا یہ پراجیکٹ لپیٹنا پڑا۔ یہ الگ بات ہے کہ یہ پراجیکٹ ایک ایسا کمبل بن چکا ہے کہ وہ اس سے جان چھڑانا چاہ رہے ہیں لیکن کمبل ان کی جان نہیں چھوڑ رہا۔

بلاشبہ میاں شہباز شریف شبانہ روز محنت ملک کو اس دلدل سے نکالنے میں قدرے کامیاب ہوچکے ہیں۔ یہ میری رائے نہیں، انہی اداروں کی رپورٹس ہیں جن اداروں کے حوالے تحریک انصاف کے رہنما بھی کسی نہ کسی تناظر میں دیا کرتے تھے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ مہنگائی میں کسی قدر کمی واقع ہوئی ہے، اگرچہ اس کے اثرات عام آدمی تک پوری طرح نہیں پہنچ سکے۔ حکومت اور معاشی تجزیہ کار پرامید ہیں کہ اگلے مرحلے میں یہ نیچے تک پہنچیں گے۔ اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ  ترسیلات زر میں بھی اضافہ ہوا ہے حالانکہ عمران خان نے بیرون ملک پاکستانیوں سے اپیل کی تھی کہ وہ ملک میں کوئی پیسہ نہ بھیجیں تاکہ حکومت کی مشکلات میں اضافہ ہو۔ برآمدات میں بھی اضافہ ہوا، اس کے بھی ریکارڈز آئے روز میڈیا کے ذریعے لوگوں  کے زیر مطالعہ رہتے ہیں۔ شرح سود جس رفتار سے کم ہورہی ہے، وہ بھی غیر معمولی کامیابی ہے۔ اسی طرح اسٹاک ایکسچینج کے قد کاٹھ کا معاملہ ہے۔ زمین میں پڑی ہوئی تھی، اب فلک بوس ہے۔

شہباز شریف کے دور اقتدار میں غیرملکی سربراہان اور غیرملکی سرمایہ کاروں کے وفود جس رفتار سے آ رہے ہیں، ایسا منظر بہت عرصے بعد دیکھنے کو ملا۔ کہا جاتا ہے کہ یہ ’ایک صفحہ‘ کی برکات ہیں۔ یقیناً یہ فیکٹر بھی ہے۔ تاہم ’ایک صفحہ‘ تو جناب عمران خان کے دور میں بھی تھا۔ تب برکات کیوں نہ پھوٹیں؟ اس سوال کا جواب بہت سادہ ہے۔

جناب عمران خان وزیراعظم بن کر بھی اپوزیشن لیڈر ہی رہے۔ حالانکہ محترمہ بشریٰ بی بی انھیں بار بار بتاتی تھیں کہ آپ وزیراعظم بن چکے ہیں لیکن وہ اسلام آباد سے واشنگٹن تک اپوزیشن لیڈر ہی بنے رہے۔ اگر وہ مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کی سابقہ حکومتوں کے مقابلے میں زیادہ بہتر حکمرانی کرتے، عام آدمی کو زیادہ ریلیف  دیتے، معیشت کے تمام اشاریوں کو بہتر بنانے کی حکمت عملی ترتیب دیتے اور اس پر رات دن کام کرتے تو ان کے دور میں بھی ’ ایک صفحہ‘ سے برکات کے سوتے پھوٹتے۔

مکرر عرض ہے کہ جناب عمران خان غلطیوں سے سیکھتے نہیں یا پھر ان کی سیکھنے کی رفتار اس قدر آہستہ ہے کہ جب وہ کچھ سبق سیکھتے ہیں تو اس سبق سیکھے جانے کا کوئی فائدہ نہیں رہتا۔

اس وقت ہر کوئی کہہ رہا ہے کہ سبق سیکھا ہے وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف نے۔ وہ جس مںظم اور تیررفتار انداز میں کام کر رہی ہیں، اس کی مثال نہیں ملتی۔ وہ اپنے چچا سے زیادہ برق رفتاری سے بطور وزیراعلیٰ کام کر رہی ہیں۔ اگلے روز کراچی کے تاجروں نے ان کی تعریف کی تو پیپلزپارٹی کے سربراہ بلاول بھٹو زرداری’ جیلسی‘ محسوس کرتے پائے گئے۔ وہ انھوں نے کراچی کے تاجروں پر خوب ناراضی کا اظہار کیا۔

رہی بات سردار علی امین گنڈاپور، وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کی۔ انھیں مریم نواز کے کام اور اس کام پر ملنے والی داد و تحسین سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ وہ بھی ڈنڈے سوٹے لے کر احتجاج پر اترے رہتے ہیں۔ حالانکہ انھیں پنجاب کی مریم نواز حکومت اور سندھ کی مراد علی شاہ حکومت سے زیادہ کارکردگی کا مظاہرہ کرنا چاہیے تھا۔ تب پنجاب اور سندھ کے لوگ بھی پی ٹی آئی کو اپنی ترجیح بنانے کا سوچتے لیکن شاید تحریک انصاف کی قسمت میں حزب مخالف بن کر ہی رہنا ہے۔

یہی وہ غلطی ہے، جس سے وہ سبق نہیں سیکھ رہے۔ یا پھر وہ اس قدر سست رفتاری سے سبق سیکھتے ہیں کہ اس وقت تک چڑیاں کھیت چگ چکی ہوتی ہیں

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

عبیداللہ عابد

بلاول بھٹو زرداری پاکستان تحریک انصاف شہباز شریف علی امین گنڈاپور عمران خان مراد علی شاہ مریم نواز شریف مسلم لیگ ن.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: بلاول بھٹو زرداری پاکستان تحریک انصاف شہباز شریف علی امین گنڈاپور مراد علی شاہ مریم نواز شریف مسلم لیگ ن سیکھتے ہیں مریم نواز سبق سیکھا ہیں لیکن رہتے ہیں ہے کہ وہ وہ غلطی انھیں ا میں بھی رہے ہیں ا ہے کہ ا ہستہ کام کر ہیں کہ

پڑھیں:

کوئی نہ آیا

یہ سوات کی وادی جو اپنی خوبصورتی اور دلفریب نظاروں کے لیے مشہور ہے، آج وہاں وحشت طاری ہے۔ کبھی برف پوش پہاڑ پہ زندگی کا راز چھپا ہوتا تھا، کبھی ندی نالوں کی گونج میں انسان کا کلام، اس بار وہاں صرف بے بسی تھی، درد تھا، سسکیاں تھیں۔ جون کے آخری ہفتے میں ایک ہی خاندان کے سترہ افراد تفریح کی غرض سے گئے اور اس وادی سے نہیں لوٹے۔ یہ عام لوگ تھے جو وہاں پانی کے ریلے میں کئی گھنٹے پھنسے رہے اور مدد کے لیے پکارتے رہے مگر کوئی ان کی مدد کو نہ آیا۔

 وہ آخر وقت تک ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑے اس امید میں رہے کہ انھیں بچا لیا جائے گا لیکن ریاست کی مشینری خاموش تھی۔ انتظامیہ نے بعد میں یہ بیان دیا کہ ریسکیو ٹیمیں بھیجی گئیں، ہم نے کوشش کی مگر موسم خطرناک تھا، لیکن حقیقت یہ تھی کہ اس دن حکومت اور ارباب اختیار کی نااہلی کی وجہ سے وہ لوگ موت کے منہ میں چلے گئے۔

یہ سانحہ پہلی مرتبہ نہیں ہوا، اس سے پہلے بھی حکومت اور ارباب اختیار اس ہی طرح غیر ذمے داری کا ثبوت دیتے آئے ہیں۔ یہ واقعہ صرف سوات کا نہیں یہ ہمارا قومی المیہ ہے۔اور پھر سوال اٹھتا ہے کیا یہ ریاست ہے یا صرف ایک لفظ ہے کیونکہ ریاست کی کچھ ذمے داریاں ہوتی ہیں اور ریاست عوام کو جوابدہ ہوتی ہے۔

آپ ڈرون ٹیکنالوجی استعمال کرسکتے ہیں، چاند پر مشن بھیج سکتے ہیں لیکن سیلابی باڑ میں پھنسے انسانوں کو نہیں نکال سکتے، غریب کے لیے صرف افسوس باقی رہ جاتا ہے۔ چند دنوں میں لوگ اس واقعے کو بھول جائیں گے مگر جن معصوم اور بیگناہ لوگوں کے ساتھ یہ حادثہ پیش آیا، ان کا خاندان یہ کبھی بھلا نہیں سکے گا۔ ہم کچھ عرصے بعد پھر کوئی ایسی خبر سن رہے ہوں گے کیونکہ ہمارے ہاں حکومت یا ارباب اختیار کو کٹہرے میں تو کوئی کھڑا کر نہیں سکتا۔

ان میں ایک ماں، ایک باپ، ایک بھائی، ایک بیٹا تھے۔ ان کی موت ہم سے سوال کر رہی ہے کہ ہم کیوں خاموش ہیں؟ کیا ہم نے دیکھا سنا اور سن کر ان سے سوال کیا جن کی خاموشی اور بے حسی کی بدولت یہ واقعہ رونما ہوا۔ ہماری ریاست کا چلن ہے، وہ طاقتور کے لیے تو کچھ بھی کر گزرے مگر عام آدمی کے لیے اس کا ہونا نہ ہونا برابر ہے۔ ابھی بھی حکومت نے افسوس کا اظہار کیا اور بس ان کی نظر میں ان کی ذمے داری پوری ہوگئی۔ ریاست کا کام ہے کہ وہ عوام کے لیے ہر وقت اور ہر حال میں موجود رہے اور اپنی ذمے داری کو نبھائے۔ حکومت ذمے دار ہوتی ہے اور ریاستی مشین کو عوام کے لیے ہر حال میں حرکت کرنا چاہیے۔

ہم جانتے ہیں کہ فلڈ الرٹس سسٹم موجود ہے، ڈرون موجود ہیں، ہیلی کاپٹر موجود ہیں لیکن یہ سب اس دن کہاں تھے؟ کیونکہ جب کوئی سرکاری اہمیت کا معاملہ ہوتا ہے تو یہ سب فوراً حرکت میں آجاتے ہیں، طاقتور کی پکار ہوتی ہے عوام کی نہیں۔ لوگ کچھ دن اس سانحے پہ بات کریں گے اور پھر خاموشی چھا جائے گی۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہم نے اس خاموشی کو قبول کرلیا ہے؟ کیونکہ اگر ہم نے قبول کر لیا ہے تب ہمیں تیار رہنا ہوگا کہ ہمارے ساتھ یہی سب ہوگا، اگر ہمارے پاس ریاست ہے تو ریاست کی کچھ ذمے داری ہوتی ہے اور آج پاکستانی عوام اپنی ریاست اور ارباب اختیار سے سوال کررہے ہیں کہ جب عوام کو اس کی ضرورت ہوتی ہے تو وہ تب کہاں ہوتے ہیں۔

یہ کالم ایک احتجاج ہے یہ سوال ہے ریاست سے، سماج سے، ہم سب سے کہ آخر یہ بے حسی، یہ ظلم کب تک۔ریاست کو ہمارے سوالوں کا جواب دینا ہوگا اور اپنی ذمے داری نبھانی ہوگی، ہم کب تک لاوارث ہو کر جیئیں۔ ورنہ ہم ایک بے عمل ریاست کے زیر سایہ جیتے رہیں گے، وہ ریاست جو الفاظ میں تو موجود ہے مگر عمل کی دنیا میں کہیں کھو گئی ہے۔ 

وہ ریاست جو سترہ لوگوں کو ڈوبتا دیکھتی ہے اور اپنا سر جھکائے بیان دے دیتی ہے لیکن پھر چپ ہو جاتی ہے، یہ ریاست خود کو بچانا جانتی ہے مگر عوام کو خطرہ میں چھوڑ دیتی ہے۔اگر ہم نے اب بھی خاموشی اختیار کی تو تاریخ ہمیں معاف نہیں کرے گی۔ ہمیں اس خاموشی کے بیچ بولنا ہوگا، سوال کرنا ہوگا، اداروں کو ذمے دار ٹھہرانا ہوگا اور انصاف کے لیے لڑنا ہوگا۔ ہم صرف مایوس ہوکر نہیں رہ سکتے، ہماری ریاست زندہ ہے یا مردہ ہمارے درد اور خوشی میں ہماری ساتھ ہے یا نہیں۔

ہمارا حق ہے کہ ہم سوال کریں اور انصاف مانگیں ریاست کی خاموشی ناقابل قبول ہے، اگر ہم یہ چاہتے ہیں کہ آیندہ کوئی ایسا سانحہ نہ ہو تو ریاست کو اور ارباب اختیار کو جواب دینا ہوگا اور عوام کے لیے اپنی ذمے داری کو بہ خوبی نبھانا ہوگا۔ کیا ہم واقعی اتنے بے حس ہوچکے ہیں کہ بے گناہوں کے جنازے بھی ہماری بے حسی کو نہیں ہلا سکتے۔ کیا ان گھروں کے سناٹے کو ہم سننے کے قابل نہیں رہے جہاں ایک ہی وقت میں سترہ پیارے پانی کا ریلہ بہا کر لے گیا ہو اور وہ بھی ان کے پیاروں کی آنکھوں کے سامنے۔

میں سوچتی ہوں جب وہ پانی کے بیچ کھڑے سترہ لوگ آخری لمحوں میں ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ رہے تھے تو کیا ان کے دل میں یہ خیال آیا ہوگا کہ ریاست انھیں بچانے آرہی ہے یا شاید وہ جان چکے تھے کہ کوئی نہیں آئے گا۔ یہ المناک واقعہ ایک آئینہ ہے ہمارے نظام کا، ہماری حکومت کا، ہمارے ضمیر کا۔ ہمیں خود سے سوال کرنا ہوگا کیا ہم واقعی ایک ریاست رکھتے ہیں؟ یا ہماری ریاست صرف طاقتور اور بااثر لوگوں کے لیے ہے، عام لوگوں کے لیے نہیں۔

متعلقہ مضامین

  • کوئی نہ آیا
  • پی ٹی آئی میں اگر کوئی عمران خان کو مائنس کرے گا تو وہ خود مائنس ہوجائےگا
  • عمران خان کا چہرہ بے نقاب ہوگیا، احتجاج کی کال پر کوئی نہیں نکلے گا، رانا تنویر حسین
  • نواز شریف کا اڈیالہ جیل جانے کا ارادہ نہیں، عمران خان سے ملاقات کی کہانی بے معنی ہے، سینیٹر عرفان صدیقی
  • عمران خان نے کئی بار این آر او کا پیغام بھیجا، طلال چودھری
  • نواز شریف کی عمران خان سے اڈیالہ جیل میں ملاقات کی خبریں بے بنیاد، عرفان صدیقی کی تردید
  • عمران خان نے کئی بار این آر او کا پیغام بھیجا: طلال چوہدری کا دعویٰ
  • قاضی احمد ،شراب خانے سے کی جانے والی فائرنگ کیخلاف کوئی مقدمہ درج نہ ہوسکا
  • عمران خان سے ملاقات کا دن، کسی بھی سیاسی راہنما کو ملاقات کی اجازت نہ ملی
  • اسلام آباد ہائی کورٹ: نو مئی کیس میں سزا پانے والے پی ٹی آئی کے 4 کارکنان بری