پی ٹی آئی میں اگر کوئی عمران خان کو مائنس کرے گا تو وہ خود مائنس ہوجائےگا
اشاعت کی تاریخ: 5th, July 2025 GMT
اسلام آباد ( اردوپوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ آئی پی اے ۔05 جولائی 2025ء )رہنماء پی ٹی آئی علی محمد خان نے کہا ہے کہ پی ٹی آئی میں اگر کوئی عمران خان کو مائنس کرے گا تو وہ خود مائنس ہوجائے گا،پاکستانی عوام نے بانی پی ٹی آئی کو مائنس نہیں پلس کیا ہے، کوئی وزیر مشیر یا رکن اسمبلی بھی بانی کو مائنس نہیں کرسکتا۔ انہوں نے اے آروائی نیوز کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی احتجاجی تحریک کی تیاری جاری ہے ، پارلیمانی پارٹی میں مشورہ دیا کہ چاہتے ہیں کہ ملک گیر پرامن احتجاج ہو، اس کے ساتھ مذاکرات کی بات ہوئی ہے، حکومت اگر مذاکرات میں سنجیدہ ہے تو عمران خان کے سامنے پیشرفت رکھ دیں گے، وہ اجازت دیں گے تو مذاکرات بھی شروع ہوجائیں گے۔
اگر کسی کا خیال ہے کہ مذاکرات کی بات کرکے احتجاج کا آپشن روک دیں گے، میرا خیال ہے کہ جس دن احتجاج کا آپشن مئوخر کریں گے، پھر مذاکرات بھی نہیں ہوسکیں گے، احتجاجی تحریک کا مقصد صرف احتجاج نہیں بلکہ تحریک میں مذاکرات بھی ہوتے ہیں ،احتجاج کا مقصد عمران خان کی رہائی اور ملک میں آئین قانون کی حکمرانی قائم کرنا ہے،ملک میں عدلیہ کی حالت، جمہوریت کی حالت کیا کردی گئی ہے ، ملک میں ہائبرڈ نظام قائم ہے اس کی وضاحت خود وزیر نہیں کی۔(جاری ہے)
مذاکرات سیاسی جماعتوں میں ہونے چاہئیں لیکن پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ کا مضبوط رول ہے اور ریاستی امور میں رہا ہے۔مذاکرات سیاستدانوں اور اسٹیبلشمنٹ دونوں سے ہونے چاہئیں۔ انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی میں اگر کوئی عمران خان کو مائنس کرے گا تو وہ خود مائنس ہوجائے گا،پاکستانی عوام نے بانی پی ٹی آئی کو مائنس نہیں پلس کیا ہے، کوئی وزیر مشیر یا رکن اسمبلی بھی بانی کو مائنس نہیں کرسکتا۔پی ٹی آئی کو عمران نے ادارے کی طرز پر چلایا ہے۔.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے کو مائنس نہیں پی ٹی آئی
پڑھیں:
نواز شریف دوبارہ سیاسی مکالمے کے حق میں، عمران خان سے اڈیالہ جا کر ملنے کو بھی تیار، بڑا دعویٰ سامنے آگیا
اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن)مسلم لیگ (ن) کے صدر نواز شریف ایک بار پھر ملک میں سیاسی کشیدگی کے خاتمے اور جمہوری عمل کے استحکام کے لیے بین الجماعتی مذاکرات کے حامی نظر آتے ہیں۔ وی نیوز سے بات کرتے ہوئے مسلم لیگ ن کے سینیئر رہنما نے انکشاف کیا ہے کہ نواز شریف نے حالیہ دنوں میں پارٹی رہنماؤں کو واضح پیغام دیا ہے کہ وہ مذاکرات کے دروازے بند کرنے کے قائل نہیں، اور اگر جمہوریت کو آگے بڑھانا ہے تو تمام سیاسی قوتوں کو ڈائیلاگ کا راستہ اپنانا ہوگا۔
نیوز ویب سائٹ (we news)کے مطابق تحریک انصاف کے رہنما شاہ محمود قریشی سمیت پارٹی کے 5 رہنماؤں نے جیل سے ایک خط لکھا ہے جس میں پی ٹی آئی قیادت کو مشورہ دیا گیا ہے کہ حکومت سے مذاکرات کیے جائیں۔ پی ٹی آئی کے چیئرمین بیرسٹر گوہر بھی حالیہ بیانات میں مذاکرات کی آمادگی ظاہر کر چکے ہیں۔ن لیگی رہنما کے مطابق، نواز شریف کی سوچ یہ ہے کہ اگر سیاسی جماعتیں ایک صفحے پر آ جائیں تو ریاستی ادارے مداخلت کا جواز تلاش نہیں کر سکیں گے۔ نواز شریف سمجھتے ہیں کہ مذاکرات میں کامیابی اس وقت ممکن ہے جب فریقین سخت مؤقف میں لچک دکھائیں۔ اگر عمران خان اس بار سنجیدہ ہیں تو انہیں بھی کچھ سیاسی نرمی کا مظاہرہ کرنا ہوگا، اور حکومت کی جانب سے بھی مثبت پیش قدمی کی جائے گی۔
’’ڈار ڈپلومیسی‘‘ ۔۔۔خارجہ پالیسی میں خاموش انقلاب
رہنما کے مطابق نواز شریف اس حد تک مذاکرات کے لیے سنجیدہ ہیں کہ اگر ضرورت پڑی تو وہ اڈیالہ جیل جا کر عمران خان سے ملنے کو بھی تیار ہیں جیسا کہ وہ ماضی میں بنی گالہ جا چکے ہیں جب عمران خان اسلام آباد میں دھرنا دیے بیٹھے تھے۔رہنما کا کہنا تھا کہ نواز شریف اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ نفرت اور تلخی کی سیاست ملک و قوم کے لیے زہر قاتل ہے۔ اُن کے نزدیک، ماضی کی طرح آج بھی ’میثاقِ جمہوریت‘ جیسی جامع سیاسی مفاہمت وقت کی اہم ضرورت ہے۔وزیراعظم شہباز شریف، خواجہ سعد رفیق اور رانا ثنا اللہ متعدد بار اپنے بیانات میں مذاکرات کی اہمیت پر زور دے چکے ہیں۔ حالیہ دنوں میں خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ سیاسی جماعتوں کو مل بیٹھ کر طے کرنا ہوگا کہ ملک کو کس سمت لے کر جانا ہے۔ اگر دشمن ممالک آپس میں بات چیت کر سکتے ہیں تو پاکستانی جماعتیں کیوں نہیں؟ اسی طرح رانا ثنا اللہ بھی کئی مواقع پر کہہ چکے ہیں کہ اگر نواز شریف کو عمران خان سے ملنے کے لیے جیل جانا پڑا تو وہ اس سے بھی گریز نہیں کریں گے۔
وزیرِ اعظم ای سی او سربراہی اجلاس میں شرکت کیلئے آذربائیجان پہنچ گئے
نواز شریف کی اس سوچ کو پارٹی کے اندر مثبت پذیرائی مل رہی ہے اور امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ آنے والے دنوں میں مسلم لیگ ن مذاکرات کی بحالی کے لیے باضابطہ اقدامات اٹھا سکتی ہے، بشرطیکہ تحریک انصاف کی جانب سے بھی سنجیدگی کا مظاہرہ کیا جائے۔نواز شریف کے قریبی ذرائع کے مطابق، وہ سمجھتے ہیں کہ اگر نفرت کی سیاست جاری رہی تو کوئی نہ کوئی کسی نہ کسی کا آلہ کار بنتا رہے گا اور اس کا نقصان صرف ایک جماعت کو نہیں بلکہ پورے جمہوری نظام کو ہوگا۔
مزید :