سپریم کورٹ کے سابق جج عظمت سعید شیخ کی نماز جنازہ ادا، کون سی شخصیات شریک ہوئیں
اشاعت کی تاریخ: 14th, February 2025 GMT
سپریم کورٹ کے سابق جج عظمت سعید شیخ کی نماز جنازہ ادا، کون سی شخصیات شریک ہوئیں WhatsAppFacebookTwitter 0 14 February, 2025 سب نیوز
لاہور (آئی پی ایس )سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس (ر) عظمت سعید شیخ کی نماز جنازہ لاہور میں ادا کر دی گئی، نماز جنازہ میں سپریم کورٹ اور لاہور ہائیکورٹ کے موجودہ اور سابق ججزسمیت دیگر ماہرین قانون نے شرکت کی۔تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس (ر) عظمت سعید شیخ کی نماز جنازہ ڈیفینس لاہور میں ادا کی گئی، نماز جنازہ میں جسٹس شاہد وحید، جسٹس شاہد بلال حسن، سابق چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی، سابق چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار، چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال، جسٹس (ر) اعجاز الاحسن، لاہور ہائیکورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس شجاعت علی خان، جسٹس علی باقر شریف، جسٹس شمس محمود مرزا، جسٹس شاہد کریم، جسٹس مسعود عابد نقوی، جسٹس فیصل زمان خان نے شرکت کی۔
جسٹس (ر) عظمت سعید شیخ کی نماز جنازہ میں لاہورہائیکورٹ کے جسٹس ساجد محمود سیٹھی، جسٹس رضا قریشی، جسٹس خالد اسحاق، جسٹس اویس خالد، جسٹس سید احسن رضا کاظمی، جسٹس حسن نواز مخدوم، سابق چیف لاہورہائیکورٹ جسٹس یاورعلی، سابق چیف جسٹس لاہورہائیکورٹ امیربھٹی، جسٹس (ر) شیخ نجم الحسن نے بھی شرکت کی۔اس کے علاوہ سابق جج سپریم کورٹ کی نماز جنازہ میں اٹارنی جنرل پاکستان منصور عثمان اعوان، سابق اٹارنی جنرل اشتر اوصاف، سئنیر وکیل بابر اعوان ، سئنیر وکیل وقار اے شیخ، پیر مسعود چشتی، صدر لاہور ہائیکورٹ بار اسد منظور بٹ سمیت وکلا کی بڑی تعداد بھی شریک ہوئی۔
یاد رہے کہ سپریم کورٹ کے سابق جج عظمت سعید شیخ 12 فروری کو لاہور میں انتقال کرگئے تھے، جسٹس ریٹائرڈ عظمت سعید شیخ کچھ عرصے سے علیل اور اسپتال میں زیر علاج تھے، وہ گردوں اور جگر کے عارضے میں مبتلا تھے۔سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس (ر) عظمت سعید شیخ 28 اگست 1954 کو راولپنڈی میں پیدا ہوئے، انہوں نے پنجاب یونیورسٹی لا کالج سے قانون کی ڈگری لی اور 1978 میں راولپنڈی سے وکالت کا اغاز کیا۔
سابق جج 1981 کو لاہور ہائیکورٹ کے وکیل بنے، جسٹس ریٹائرڈ عظمت سعید شیخ 2004 کو لاہورہائیکورٹ کے ایڈیشنل جج تعیینات ہوئے جبکہ ایک برس بعد لاہور ہائیکورٹ کے مستقل جج بن گئے۔جسٹس ریٹائرڈ عظمت سعید شیخ 2011 سے 2012 تک چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ تعینات رہے، جسٹس ریٹائرڈ عظمت سعید شیخ یکم جون 2012 کو سپریم کورٹ کے مستقل جج مقرر ہوئے، 30 جولائی 2019 کو جسٹس ریٹائرڈ عظمت سعید شیخ سپریم کورٹ کے قائمقام چیف جسٹس بھی مقرر ہوئے۔
سپریم کورٹ کے سابق جج براڈ شیٹ سکینڈل انکوائری کے سربراہ بھی مقررہوئے، جسٹس عظمت سعید شیخ نے امریکا سمیت دیگر ممالک میں منی لانڈرنگ سے متعلق کانفرنسز میں شرکت کی۔پریکٹس کے دوران جسٹس ریٹائرڈ عظمت سعید شیخ احتساب بیورو کے سپیشل پروسیکیوٹر اورنیب کے ڈپٹی پروسیکیوٹر بھی تعینات رہے۔ جسٹس (ر) شیخ عظمت سعید نواز شریف کو پانامہ کیس میں نا اہل کرنیوالے بینچ کا بھی حصہ رہے۔
.ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: عظمت سعید شیخ کی نماز جنازہ سپریم کورٹ کے سابق جج
پڑھیں:
پارلیمنٹ ہو یا سپریم کورٹ ہر ادارہ آئین کا پابند ہے، جج سپریم کورٹ
سپریم کورٹ کے جج جسٹس جمال خان مندوخیل نے سپر ٹیکس سے متعلق درخواستوں پر سماعت کے دوران ریمارکس دیے ہیں کہ ہر ادارہ آئین کا پابند ہے، پارلیمنٹ ہو یا سپریم کورٹ ہر ادارہ آئین کے تحت پابند ہوتا ہے۔
سپریم کورٹ کے آئینی بینچ میں سپر ٹیکس سے متعلق درخواستوں پر سماعت جاری ہے، جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں پانچ رکنی آئینی بینچ سماعت کر رہا ہے۔
وکیل ایف بی آر حافظ احسان نے مؤقف اپنایا کہ سیکشن 14 میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی، صرف اس کا مقصد تبدیل ہوا ہے، 63 اے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ سمیت کئی کیسز ہیں جہاں سپریم کورٹ نے پارلیمنٹ کی قانون سازی کی اہلیت کو تسلیم کیا ہے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ کیا قومی اسمبلی مالی سال سے ہٹ کر ٹیکس سے متعلق بل پاس کر سکتی ہے، کیا آئین میں پارلیمنٹ کو یہ مخصوص پاور دی گئی ہے۔
حافظ احسان کھوکھر نے دلیل دی کہ عدالت کے سامنے جو کیس ہے اس میں قانون سازی کی اہلیت کا کوئی سوال نہیں ہے، جسٹس منصور علی شاہ کا ایک فیصلہ اس بارے میں موجود ہے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ وہ صورتحال علیحدہ تھی، یہ صورت حال علیحدہ ہے۔
حافظ احسان نے مؤقف اپنایا کہ ٹیکس پیرز نے ٹیکس ریٹرنز فائل نہیں کیے اور فائدے کا سوال کر رہے ہیں، یہ ایک اکیلے ٹیکس پیرز کا مسئلہ نہیں ہے، یہ آئینی معاملہ ہے، ٹیکس لگانے کے مقصد کے حوالے سے تو یہ عدالت کا دائرہ اختیار نہیں ہے، عدالتی فیصلے کا جائزہ لینا عدالت کا کام ہے۔
انہوں نے اپنے دلائل میں کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کا فیصلہ قانونی طور پر پائیدار نہیں ہے، اسلام آباد ہائیکورٹ کا فیصلہ ایک متضاد فیصلہ ہے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ ہر ادارہ آئین کا پابند ہے، پارلیمنٹ ہو یا سپریم کورٹ ہر ادارہ آئین کے تحت پابند ہوتا ہے، حافظ احسان نے مؤقف اپنایا کہ اگر سپریم کورٹ کا کوئی فیصلہ موجود ہے تو ہائیکورٹ اس پر عملدرآمد کرنے کی پابند ہے۔
اس کے ساتھ ہی ایف بی آر کے وکیل حافظ احسان کے دلائل مکمل ہوگئے اور اشتر اوصاف نے دلائل شروع کردیے۔