Nai Baat:
2025-09-18@23:30:34 GMT

کیا پی ٹی آئی کے پاس آپشنز ختم ہو گئے ہیں؟

اشاعت کی تاریخ: 16th, February 2025 GMT

کیا پی ٹی آئی کے پاس آپشنز ختم ہو گئے ہیں؟

ویسے تو پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) یا اس کے بانی مسٹر عمران خان کی سیاسی حکمت عملیوں کی ناکامی کی تاریخ کافی طویل ہے لیکن ماضی میں بہت دور تک جائے بغیر اگر صرف عمران خان حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کیے جانے اور اس کے کامیاب ہو جانے سے لے کر آج تک کی صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے اول تو ابتدا سے ہی انہوں نے درست حکمت عملی نہیں اپنائی ، اور اگر کہیں ان کی پلاننگ درست تھی بھی تو ٹائمنگ کسی بھی طور درست نہ تھی۔
جب عمران خان حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی گئی تو قومی اسمبلی میں ارکان کی تقسیم بالکل واضح تھی لیکن ان کی جانب سے تحریک کو ناکام بنانے کے لیے ہر قسم کے تاخیری حتیٰ کہ غیر قانونی حربے استعمال کیے گئے جن میں ایک واضح طور پر کامیاب ہوتی ہوئی تحریک عدم اعتماد کو مسترد کرنا اور قومی اسمبلی کو تحلیل کرنے کی کوششیں بھی شامل ہیں۔

یہاں سبکی کاسامنا کرنے کے بعد انہوں نے اپنے ارکان سے قومی اسمبلی سے استعفے دلوا لیے۔ پھر بھی دل کو تسلی نہ ہوئی تو صوبہ پنجاب اور خیبر پختونخواہ میں اپنی اچھی بھلی چلتی ہوئی حکومتیں ختم کر ڈالیںاور جو سپورٹ اور قوت انہیں ان صوبائی حکومتوں سے مل سکتی تھی خود ہی اپنے آپ کو اس سے محروم کر ڈالا۔
اس کے علاوہ مستقل بنیادوں پر نو مئی، چھبیس نومبر اور اسلام آباد پر چڑھائی جیسے کارنامے سر انجام دیتے رہے۔ملک میں ہونے والے عام انتخابات میں بھرپور انداز میں شرکت تو کی، ڈپٹی سپیکر، سپیکر ، وزیر اعظم غرض ہرآئینی عہدہ کے انتخاب میں نہ صرف شامل ہوئے بلکہ اپنے امیدوار بھی کھڑے کیے۔ پھر قومی اسمبلی میں ہونے والی قانون سازی کے عمل کا حصہ بھی بنتے رہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ اسمبلی کی جعلی کہنے کی گردان بھی جاری رکھی۔

پاکستان کو اقتصادی طور پر کمزور کرنے اور نقصان پہنچانے کی تمام تر کوششیں کی گئیں، آئی ایم ایف کو خط لکھے گئے اور سول نافرمانی کی کال تک دے کر دیکھ لیا گیا لیکن حاصل مکمل ناکامی اور سبکی کے علاوہ کچھ بھی نہ ہوا۔
پھر وہ دن بھی آیا کہ جب ہم نے دیکھا کہ وہی مولانا فضل الرحمن اور محمود اچکزئی جن پر بھرے جلسوں میں تبرے چھوڑے جاتے تھے ان کے نام بگاڑے جاتے تھے اور کسی سٹیج اداکار کی طرح ان کی نقالی کی جاتی تھی ان کو اپنا رہبر اور راہنما تسلیم کر لیا گیا اور یہ ہر وقت حاضری کے لیے ان کی چوکھٹ پر موجود رہنے لگے۔
پہلے حکومت اور موجودہ سیٹ اپ کے ساتھ مذاکرات کے امکان کو یکسر مسترد کرتے رہے پھر اچانک ہی اس پر راضی ہو ئے۔ لیکن مذاکرات کو درمیان میں ہی چھوڑ کر فرار کا راستہ اختیار کر لیا۔ جس اسٹیبلشمنٹ کو اپنی حکومت کے خاتمے کا ذمہ دار قرار دیتے رہے، ان کی اعلیٰ قیادت پر طرح طرح کے الزامات لگاتے رہے، ان کے نام بگاڑتے رہے اوران کے دفاتر پر حملے کرتے رہے پھر انہیں کو واحد نجات دہندہ سمجھ کر ان سے مذاکرات کی کوششیں اور کاوشیں کرتے رہے۔ کورا جواب ملنے کی صورت میں خط لکھنے کا سلسلہ شروع ہوا اس میں بھی ناکامی پر کھلے خط لکھنے کی آپشن اپنائی گئی۔ خیال ہے کہ دراصل اس طرح سے وہ آرمی چیف کو نہیں بلکہ آرمی کو آوازیں دے رہے ہیں۔

مجھے یاد ہے کہ سانحہ نو مئی کے روز جب پی ٹی آئی کی قیادت کارکنان کے ہمراہ لاہور کینٹ کی جانب گامزن تھی تو شیرپاو پل سے پہلے گلبرک کے علاقہ میں موجود ایک بڑے پلازہ میں موجود میرے چند احبات نے فون پر مجھے ان کے کینٹ کی جانب جانے کی خبردی۔ ابتدا میں تو مجھے لگا کہ بتانے والے کو کچھ غلط فہمی ہو رہی ہے ۔ ممکن ہے کہ پی ٹی آئی کارکن لبرٹی چوک کی جانب جا رہے ہیں لیکن کالز نے اصرار کیا کہ وہ کینٹ کی جانب ہی جا رہے ہیں۔ جب بات کنفرم ہو ئی تو میں نے اسے جو جواب دیا وہ فوری طور پر تو نہیں لیکن بعد ازاں بالکل درست ثابت ہوا اور یقینا اس کا اطلاق آنے والے دنوں میں بھی ہو گا۔ میں نے جواب میں کہا تھا اگر جاتے ہیں تو جانے دو آگے تگڑے لو گ بیٹھے ہیں وہ ان لوگوں سے بخوبی نمٹ لیں گے۔ پھر ہم نے ایسا ہوتے ہوئے دیکھا بھی کہ جو لوگ گلا پکڑنے پر آمادہ نظر آتے تھے انہوں نے پاوں پکڑ لیے اور چھوڑنے کے لیے تیار نہ تھے۔

اس وقت یہ عالم ہے کہ ناقص حکمت عملی کی وجہ سے پی ٹی آئی دوسے زائد دھڑوں میں تقسیم ہو چکی ہے۔ قیادت کا ایک بڑا حصہ تو پہلے ہی پارٹی سے علیحد گی اختیار کر چکا ہے۔ بچی کھچی قیادت کا ایک حصہ پر امن پارلیمانی سیاست کے حق میں ہے اور ان کا خیال ہے کہ سسٹم کے اندر موجود رہتے ہوئے اپنی جدوجہد جاری رکھنی چاہیے اور اگلے انتخابات کی تیاری کرنی چاہیے، جبکہ دوسرے مشورہ دیتے ہیں کہ پر تشدد احتجاج کا اہتمام کرکے زیادہ محاذ آرائی کا طریقہ اختیار کیا جائے اور یا تو جمہوریت کو ہی ڈی ریل کر دیا جائے یا پھر قبل از وقت انتخابات کی راہ ہموار کی جائے۔
اگر تکنیکی اعتبار سے دیکھا جائے تو شائد یہ دونوں حکمت عملیاں ہی پی ٹی آئی کے لیے مناسب نہیں۔پر امن سیاست اور بر وقت انتخابات سے پی ٹی آئی کو فتح کی ضمانت نہیں مل سکتی ہے، خاص طور پر ایک بکھری ہوئی پارٹی اور زیادہ متحد مخالفت کے ساتھ۔ دریں اثنا، محاذ آرائی کا نقطہ نظر اسے عوام کو مزید دور کر سکتا ہے، خاص طور پر اگر احتجاج میں شدت پسندی کا عنصر بھی شامل ہو جاتا ہے۔

کسی تجزیہ کار نے پی ٹی آئی کی سیاست کے بارے میںبہت خوب خلاصہ کیا ہے اور میں بھی اس تجزیے سے مکمل طور پر متفق ہوں کہ سیاسی عمل اور جدوجہد میں جو کام نہیں کرنے چاہیں یا اگر کرنے کی نوبت آ ہی جائے تو اسے آخری آپشن کے طور پر استعمال کیا جانا چاہیے پی ٹی آئی نے انہیں پہلی آپشن کے طور پر استعمال کر لیا ہے اور ان کی ناکامی کے بعد اب اسے سمجھ نہیں آ رہی کہ اس کی اگلی حکمت عملی کیا ہونی چاہیے۔ اگرچہ ایسا نہیں ہو سکا لیکن اگر یہ لوگ اس بات کو سمجھتے کہ ملک کے دفاعی اداروں کو نشانہ بنانے، ریاست کی اقتصادی صورتحال کو نقصان پہنچانے کی کوششیں کرنے یا وفاق پر چڑھائی کرنے جیسی حرکتوں سے کسی بھی طور سیاسی ٹارگٹ حاصل نہیں کیے جا سکتے، یہ لوگ اگر پر امن جلسہ، جلوس اور جدوجہد سے بات شروع کرتے اور اپنی تحریک میں صرف ہلڑ باز گروپ کو ہی نہیںسنجیدہ عناصر کو بھی شامل رکھتے تو آج نہ صرف ان کی جدوجہد اور تحریک کا رنگ ڈھنگ کچھ اور ہوتابلکہ اس وقت ان کے پاس کئی سیاسی آپشنز موجود ہوتے۔

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: قومی اسمبلی پی ٹی ا ئی کی جانب کے لیے ہے اور

پڑھیں:

انسان کے مزاج کتنی اقسام کے، قدیم نظریہ کیا ہے؟

انسان کو سمجھنا ہمیشہ سے ایک معمہ رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صدیوں پہلے بھی لوگوں نے انسانی فطرت کو مختلف خانوں میں بانٹنے کی کوشش کی۔

یہ بھی پڑھیں: کتے انسانوں کے دوست کتنے ہزار سال پہلے بنے؟

شخصیت کو 4 بنیادی اقسام میں تقسیم کرنے کا ایسا ہی ایک قدیم نظریہ جسے ’4 مزاج‘ یا (فور ہیومرز) کہا جاتا ہے تقریباً ڈھائی ہزار سال پہلے یونان میں متعارف ہوا لیکن اس کی گونج آج بھی جدید نفسیات میں سنائی دیتی ہے۔

بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق اس نظریے نے صدیوں تک نہ صرف طب، خوراک اور طرز زندگی کو متاثر کیا بلکہ انسان کے جذبات اور رویوں کو سمجھنے کا ایک مستقل ذریعہ بھی بن گیا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ اگرچہ سائنسی لحاظ سے اس کی بنیادیں اب غلط تسلیم کی جا چکی ہیں لیکن اس نظریے کی جھلک آج کے ماڈرن نفسیاتی ماڈلز میں بھی دیکھی جا سکتی ہے۔

یونانی فلسفی ایمپیدوکلیز نے 4 عناصر زمین، پانی، ہوا اور آگ کو کائنات کی بنیاد قرار دیا اور بعد ازاں طبیب ہپوکریٹس نے اس سے متاثر ہوکر انسانی جسم کے اندر 4 مائعات کا نظریہ پیش کیا جو مندرجہ ذیل ہے۔

خون (Sanguine): خوش مزاج اور پُرجوش

بلغم (Phlegmatic): ٹھنڈے مزاج اور نرم طبیعت

پیلا صفرا (Choleric): غصیلا اور ضدی

سیاہ صفرا (Melancholic): افسردہ اور گہری سوچ رکھنے والا

مزید پڑھیے: 3 ہزار سال قبل یورپی باشندوں کی رنگت کیسی ہوتی تھی؟

ان مزاجوں کو جسم کی حرارت اور نمی کے ساتھ جوڑا گیا جیسے گرم و خشک مزاج والے چولیرک (Choleric) سمجھے گئے جبکہ سرد و مرطوب لوگ فلیگمیٹک (Phlegmatic) کہلائے۔

یہ نظام قرون وسطیٰ اور شیکسپیئر کے دور میں بھی رائج تھا۔ مثلاً شیکسپیئر کے مشہور ڈرامے’دی ٹیمنگ آف دی شریو‘ میں کردار کیتھرین کے بگڑے رویے کو ’پیلے صفرے‘ کی زیادتی سے جوڑا گیا اور علاج کے طور پر اسے گرم کھانوں سے دور رکھا گیا۔

قدیم نظریہ، جدید عکس

19ویں صدی میں جسمانی تحقیق، خوردبین کی ایجاد اور جدید طب کے باعث 4 مزاجوں کا نظریہ سائنسی طور پر متروک ہو گیا لیکن اس کے اثرات باقی رہے۔

سنہ 1950 کی دہائی میں معروف ماہر نفسیات ہینس آیزنک نے شخصیت کے 2 بنیادی پہلو متعارف کرائے جن میں ایکسٹروورژن (باہر کی جانب رجحان) اور نیوروٹسزم (جذباتی بےچینی) شامل تھے۔

انہوں نے پایا کہ ان 2 عناصر کو مختلف انداز میں ملا کر جو 4 اقسام بنتی ہیں وہ حیرت انگیز طور پر قدیم مزاجوں سے میل کھاتی ہیں جو مندرجہ ذیل ہیں

زیادہ نیوروٹک + زیادہ ایکسٹروورٹ = چولیرک

زیادہ نیوروٹک + کم ایکسٹروورٹ = میلینکولک

کم نیوروٹک + زیادہ ایکسٹروورٹ = سینگوئن

کم نیوروٹک + کم ایکسٹروورٹ = فلیگمیٹک

یہ اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ انسانی شخصیت میں کچھ مستقل پیٹرن موجود ہیں اب چاہے انہیں مزاج کہیں یا جدید سائنسی اصطلاحات۔

شخصیت کو زمرہ بنانا: فائدہ یا فریب؟

جدید ماڈل جیسے کہ ’بگ فائیو‘ جو شخصیت کی 5 بنیادی جہتوں (اوپننس، کانشسنیس، ایکسٹروورژن، اگری ایبلنس، نیوروٹسزم) پر مشتمل ہے۔ اب زیادہ سائنسی طور پر مستند سمجھے جاتے ہیں لیکن ماہرین تسلیم کرتے ہیں کہ ’کٹیگریز بنانے کی انسانی خواہش اب بھی موجود ہے جیسا کہ میئرز برگز یا آن لائن کوئزز سے ظاہر ہے۔

مزید پڑھیں: جرمنی کا صدیوں پرانا شاہ بلوط کا درخت پریمیوں کا پیغام رساں کیسے بنا؟

ماہرین خبردار کرتے ہیں کہ یہ نظام بعض اوقات انسانی پیچیدگی کو بہت حد تک سادہ کر دیتے ہیں۔ درحقیقت زیادہ تر لوگ شخصیتی پیمائش میں اوسط کے قریب ہوتے ہیں اور کٹیگری سسٹم ان اختلافات کو مکمل طور پر نہیں سمجھا سکتا۔

لیکن جیسے شیکسپیئر ’چولیرک‘ اور ’سینگوئن‘ کرداروں سے محظوظ ہوتا تھا ویسے ہی آج کا انسان ’ٹائپ اے‘، ’ای این ٹی جے‘ یا ’ورگو‘ جیسی درجہ بندیوں میں دلچسپی رکھتا ہے۔

ماہر نفسیات پامیلا رٹلج کہتی ہیں کہ انسانی فطرت میں درجہ بندی کی خواہش فطری ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ ہمیں دنیا کو سمجھنے، سیکھنے اور اس سے تعامل کرنے میں مدد دیتی ہے۔

یہ بھی پڑھیے: اظہار محبت کے خفیہ اشارے: کیا ایموجیز صدیوں پرانے کوڈ ورڈز کا تسلسل ہیں؟

پامیلا کا کہنا ہے کہ یہ نظریہ ہزاروں سال پرانا ہے لیکن آج بھی ہماری سوچ میں زندہ ہے۔

بہرحال 4 مزاجوں کا یہ قدیم نظریہ آج اگرچہ سائنسی طور پر مستند نہیں رہا لیکن یہ اس انسانی فطرت کی عکاسی ضرور کرتا ہے جو ہر دور میں خود کو، دوسروں کو اور دنیا کو سمجھنے کے لیے چیزوں کو خانوں میں بانٹنے کی کوشش کرتی ہے۔ خواہ زبان بدلے یا نظریہ انسان کا یہ تجسس اور تلاش اور خود فہمی کی یہ جستجو آج بھی جاری ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

4 مزاج انسانی فطرت چار مزاج یونانی فلسفی ایمپیدوکلیز

متعلقہ مضامین

  • موقع پرست اور سیلاب کی تباہی
  • انسان کے مزاج کتنی اقسام کے، قدیم نظریہ کیا ہے؟
  • اپنے حلف کی پاسداری کرتے ہوئے جرت مندانہ فیصلے کریں. عمران خان کا چیف جسٹس کو خط
  • چارلی کرک کا قتل ایک المیہ لیکن سیاسی مباحثے کو دبانا نہیں چاہیے،اوباما
  • غربت اور پابندیوں کے باوجود افغانستان میں کاسمیٹک سرجری کلینکس کی مقبولیت میں اضافہ
  • لیڈی ڈاکٹر نے نالے میں چھلانگ لگا لی، وجہ کیا بنی؟
  • ہونیاں اور انہونیاں
  • گزرا یوم آزادی اور تجدید عہد
  • انیق ناجی نے ولاگنگ سے دوری کی وجہ خود ہی بتا دی ، پنجاب حکومت پر تنقید
  • مہمان خصوصی کاحشرنشر