Nai Baat:
2025-04-25@11:59:01 GMT

کیا پی ٹی آئی کے پاس آپشنز ختم ہو گئے ہیں؟

اشاعت کی تاریخ: 16th, February 2025 GMT

کیا پی ٹی آئی کے پاس آپشنز ختم ہو گئے ہیں؟

ویسے تو پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) یا اس کے بانی مسٹر عمران خان کی سیاسی حکمت عملیوں کی ناکامی کی تاریخ کافی طویل ہے لیکن ماضی میں بہت دور تک جائے بغیر اگر صرف عمران خان حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کیے جانے اور اس کے کامیاب ہو جانے سے لے کر آج تک کی صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے اول تو ابتدا سے ہی انہوں نے درست حکمت عملی نہیں اپنائی ، اور اگر کہیں ان کی پلاننگ درست تھی بھی تو ٹائمنگ کسی بھی طور درست نہ تھی۔
جب عمران خان حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی گئی تو قومی اسمبلی میں ارکان کی تقسیم بالکل واضح تھی لیکن ان کی جانب سے تحریک کو ناکام بنانے کے لیے ہر قسم کے تاخیری حتیٰ کہ غیر قانونی حربے استعمال کیے گئے جن میں ایک واضح طور پر کامیاب ہوتی ہوئی تحریک عدم اعتماد کو مسترد کرنا اور قومی اسمبلی کو تحلیل کرنے کی کوششیں بھی شامل ہیں۔

یہاں سبکی کاسامنا کرنے کے بعد انہوں نے اپنے ارکان سے قومی اسمبلی سے استعفے دلوا لیے۔ پھر بھی دل کو تسلی نہ ہوئی تو صوبہ پنجاب اور خیبر پختونخواہ میں اپنی اچھی بھلی چلتی ہوئی حکومتیں ختم کر ڈالیںاور جو سپورٹ اور قوت انہیں ان صوبائی حکومتوں سے مل سکتی تھی خود ہی اپنے آپ کو اس سے محروم کر ڈالا۔
اس کے علاوہ مستقل بنیادوں پر نو مئی، چھبیس نومبر اور اسلام آباد پر چڑھائی جیسے کارنامے سر انجام دیتے رہے۔ملک میں ہونے والے عام انتخابات میں بھرپور انداز میں شرکت تو کی، ڈپٹی سپیکر، سپیکر ، وزیر اعظم غرض ہرآئینی عہدہ کے انتخاب میں نہ صرف شامل ہوئے بلکہ اپنے امیدوار بھی کھڑے کیے۔ پھر قومی اسمبلی میں ہونے والی قانون سازی کے عمل کا حصہ بھی بنتے رہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ اسمبلی کی جعلی کہنے کی گردان بھی جاری رکھی۔

پاکستان کو اقتصادی طور پر کمزور کرنے اور نقصان پہنچانے کی تمام تر کوششیں کی گئیں، آئی ایم ایف کو خط لکھے گئے اور سول نافرمانی کی کال تک دے کر دیکھ لیا گیا لیکن حاصل مکمل ناکامی اور سبکی کے علاوہ کچھ بھی نہ ہوا۔
پھر وہ دن بھی آیا کہ جب ہم نے دیکھا کہ وہی مولانا فضل الرحمن اور محمود اچکزئی جن پر بھرے جلسوں میں تبرے چھوڑے جاتے تھے ان کے نام بگاڑے جاتے تھے اور کسی سٹیج اداکار کی طرح ان کی نقالی کی جاتی تھی ان کو اپنا رہبر اور راہنما تسلیم کر لیا گیا اور یہ ہر وقت حاضری کے لیے ان کی چوکھٹ پر موجود رہنے لگے۔
پہلے حکومت اور موجودہ سیٹ اپ کے ساتھ مذاکرات کے امکان کو یکسر مسترد کرتے رہے پھر اچانک ہی اس پر راضی ہو ئے۔ لیکن مذاکرات کو درمیان میں ہی چھوڑ کر فرار کا راستہ اختیار کر لیا۔ جس اسٹیبلشمنٹ کو اپنی حکومت کے خاتمے کا ذمہ دار قرار دیتے رہے، ان کی اعلیٰ قیادت پر طرح طرح کے الزامات لگاتے رہے، ان کے نام بگاڑتے رہے اوران کے دفاتر پر حملے کرتے رہے پھر انہیں کو واحد نجات دہندہ سمجھ کر ان سے مذاکرات کی کوششیں اور کاوشیں کرتے رہے۔ کورا جواب ملنے کی صورت میں خط لکھنے کا سلسلہ شروع ہوا اس میں بھی ناکامی پر کھلے خط لکھنے کی آپشن اپنائی گئی۔ خیال ہے کہ دراصل اس طرح سے وہ آرمی چیف کو نہیں بلکہ آرمی کو آوازیں دے رہے ہیں۔

مجھے یاد ہے کہ سانحہ نو مئی کے روز جب پی ٹی آئی کی قیادت کارکنان کے ہمراہ لاہور کینٹ کی جانب گامزن تھی تو شیرپاو پل سے پہلے گلبرک کے علاقہ میں موجود ایک بڑے پلازہ میں موجود میرے چند احبات نے فون پر مجھے ان کے کینٹ کی جانب جانے کی خبردی۔ ابتدا میں تو مجھے لگا کہ بتانے والے کو کچھ غلط فہمی ہو رہی ہے ۔ ممکن ہے کہ پی ٹی آئی کارکن لبرٹی چوک کی جانب جا رہے ہیں لیکن کالز نے اصرار کیا کہ وہ کینٹ کی جانب ہی جا رہے ہیں۔ جب بات کنفرم ہو ئی تو میں نے اسے جو جواب دیا وہ فوری طور پر تو نہیں لیکن بعد ازاں بالکل درست ثابت ہوا اور یقینا اس کا اطلاق آنے والے دنوں میں بھی ہو گا۔ میں نے جواب میں کہا تھا اگر جاتے ہیں تو جانے دو آگے تگڑے لو گ بیٹھے ہیں وہ ان لوگوں سے بخوبی نمٹ لیں گے۔ پھر ہم نے ایسا ہوتے ہوئے دیکھا بھی کہ جو لوگ گلا پکڑنے پر آمادہ نظر آتے تھے انہوں نے پاوں پکڑ لیے اور چھوڑنے کے لیے تیار نہ تھے۔

اس وقت یہ عالم ہے کہ ناقص حکمت عملی کی وجہ سے پی ٹی آئی دوسے زائد دھڑوں میں تقسیم ہو چکی ہے۔ قیادت کا ایک بڑا حصہ تو پہلے ہی پارٹی سے علیحد گی اختیار کر چکا ہے۔ بچی کھچی قیادت کا ایک حصہ پر امن پارلیمانی سیاست کے حق میں ہے اور ان کا خیال ہے کہ سسٹم کے اندر موجود رہتے ہوئے اپنی جدوجہد جاری رکھنی چاہیے اور اگلے انتخابات کی تیاری کرنی چاہیے، جبکہ دوسرے مشورہ دیتے ہیں کہ پر تشدد احتجاج کا اہتمام کرکے زیادہ محاذ آرائی کا طریقہ اختیار کیا جائے اور یا تو جمہوریت کو ہی ڈی ریل کر دیا جائے یا پھر قبل از وقت انتخابات کی راہ ہموار کی جائے۔
اگر تکنیکی اعتبار سے دیکھا جائے تو شائد یہ دونوں حکمت عملیاں ہی پی ٹی آئی کے لیے مناسب نہیں۔پر امن سیاست اور بر وقت انتخابات سے پی ٹی آئی کو فتح کی ضمانت نہیں مل سکتی ہے، خاص طور پر ایک بکھری ہوئی پارٹی اور زیادہ متحد مخالفت کے ساتھ۔ دریں اثنا، محاذ آرائی کا نقطہ نظر اسے عوام کو مزید دور کر سکتا ہے، خاص طور پر اگر احتجاج میں شدت پسندی کا عنصر بھی شامل ہو جاتا ہے۔

کسی تجزیہ کار نے پی ٹی آئی کی سیاست کے بارے میںبہت خوب خلاصہ کیا ہے اور میں بھی اس تجزیے سے مکمل طور پر متفق ہوں کہ سیاسی عمل اور جدوجہد میں جو کام نہیں کرنے چاہیں یا اگر کرنے کی نوبت آ ہی جائے تو اسے آخری آپشن کے طور پر استعمال کیا جانا چاہیے پی ٹی آئی نے انہیں پہلی آپشن کے طور پر استعمال کر لیا ہے اور ان کی ناکامی کے بعد اب اسے سمجھ نہیں آ رہی کہ اس کی اگلی حکمت عملی کیا ہونی چاہیے۔ اگرچہ ایسا نہیں ہو سکا لیکن اگر یہ لوگ اس بات کو سمجھتے کہ ملک کے دفاعی اداروں کو نشانہ بنانے، ریاست کی اقتصادی صورتحال کو نقصان پہنچانے کی کوششیں کرنے یا وفاق پر چڑھائی کرنے جیسی حرکتوں سے کسی بھی طور سیاسی ٹارگٹ حاصل نہیں کیے جا سکتے، یہ لوگ اگر پر امن جلسہ، جلوس اور جدوجہد سے بات شروع کرتے اور اپنی تحریک میں صرف ہلڑ باز گروپ کو ہی نہیںسنجیدہ عناصر کو بھی شامل رکھتے تو آج نہ صرف ان کی جدوجہد اور تحریک کا رنگ ڈھنگ کچھ اور ہوتابلکہ اس وقت ان کے پاس کئی سیاسی آپشنز موجود ہوتے۔

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: قومی اسمبلی پی ٹی ا ئی کی جانب کے لیے ہے اور

پڑھیں:

پاکستان نے اب اسکور بورڈ پر کچھ رنز بنالیا ہے لیکن ماضی کی غلطیوں سے بچنا ہوگا، وزیرخزانہ

WASHINGTON:

وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے معاشی اصلاحات، مالی استحکام اور ماحولیاتی عزم کی تجدید کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان نے اب اسکور بورڈ پر کچھ رنز بنالیا ہے لیکن ماضی کی غلطیوں سے بچنا ہوگا۔

وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے واشنگٹن ڈی سی میں عالمی مالیاتی ادارہ (آئی ایم ایف)-ورلڈ بینک کے اجلاس کے موقع پر اٹلانٹک کونسل کے جیو اکنامکس سینٹر میں "2025 اور اس کے بعد پاکستانی معیشت کو درپیش چیلنجز اور مواقع" کے موضوع پر گفتگو کی۔

انہوں نے پاکستان کی معاشی صورت حال، اصلاحاتی منصوبوں اور حکومتی ترجیحات پر کھل کر اظہار خیال کیا اور عالمی مالیاتی اداروں کے ساتھ مثبت شراکت داری کی اہمیت پر زور دیا۔

وزیر خزانہ نے بتایا کہ گزشتہ برس کے مقابلے میں پاکستان نے معاشی استحکام کی جانب اہم پیش رفت کی ہے، زر مبادلہ کے ذخائر میں اضافہ، مہنگائی میں کمی، کریڈٹ ریٹنگ میں بہتری اور مالی خسارے میں کمی کو اہم کامیابیاں قرار دیا۔

انہوں نے واضح کیا کہ یہ صرف پہلا قدم ہے، اصل مقصد پائیدار ترقی اور اصلاحات کا تسلسل ہے

کرکٹ کی مثال دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان نے اب "اسکور بورڈ پر کچھ رنز بنا لیے ہیں" لیکن ماضی کی غلطیوں سے بچنا ہوگا۔

مالیاتی نظم و ضبط کے حوالے سے وزیر خزانہ نے کہا کہ بجٹ میں توازن قائم رکھتے ہوئے عوامی فلاح اور ترقیاتی اخراجات کے لیے گنجائش پیدا کرنا ضروری ہے، رواں مالی سال میں ٹیکس ریونیو میں 29 فیصد اضافہ ہوا ہے اور ٹیکس کا جی ڈی پی تناسب 10.6 فیصد تک پہنچنے کی امید ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ قرضوں کی مؤثر مینجمنٹ سے تقریباً 10 کھرب روپے کی بچت ہوئی ہے، جبکہ پالیسی ریٹس میں کمی سے مالی گنجائش بڑھی ہے۔

انہوں نے صوبوں کے ساتھ قومی مالیاتی معاہدے کے تحت شراکت داری کو فروغ دینے پر بھی زور دیا اور پاکستان میں پہلی مرتبہ زرعی آمدن پر ٹیکس لگانے کو ایک تاریخی پیش رفت قرار دیا۔

ریونیو اصلاحات کے مؤثر نفاذ پر بات کرتے ہوئے وزیر خزانہ نے ڈیجیٹل نظام اور نفاذ کی اہمیت پر زور دیا اور پاکستان کی  بھاری بھر کم انفارمل معیشت اور لگ بھگ 90 کھرب روپے مالیت کے نوٹوں کی گردش کو ایک بڑا چیلنج قرار دیا۔

انہوں نے کہا کہ ریٹیل، رئیل اسٹیٹ، زراعت اور ہول سیل جیسے شعبوں کو باقاعدہ بنانے کے لیے جدید ٹیکنالوجی پر مبنی آڈٹ، ٹریک اینڈ ٹریس اور فیس لیس کسٹمز استعمال کیے جا رہے ہیں۔

وزیرخزانہ نے ایف بی آر میں اصلاحات کے لیے افراد، طریقہ کار اور ٹیکنالوجی میں بہتری کی ضرورت پر زور دیا۔

محمد اورنگزیب نے اپنی گفتگو میں آبادی میں اضافے اور ماحولیاتی تبدیلی کو بھی  پاکستان کے لیے بڑے چیلنجز قرار دیا اور بتایا کہ حکومت صوبوں کے ساتھ مل کر خاندانی منصوبہ بندی، ماں اور بچے کی صحت اور خاص طور پر لڑکیوں کی تعلیم پر جامع حکمتِ عملی پر کام کر رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ بچوں کی نشوونما متاثر ہونے کی بڑی وجہ بھی منصوبہ بندی کا فقدان ہے، جس سے انسانی وسائل پر منفی اثر پڑتا ہے، ان کا زور صرف مسائل کی نشان دہی نہیں بلکہ عملی اور مقامی سطح پر مؤثر حل پر ہے اور انہوں نے اس ضمن میں بنگلہ دیش کے ماڈل سے سیکھنے کی بات کی۔

وزیر خزانہ نے ماحولیاتی بہتری کے لیے پرائیویٹ سیکٹر کی سرمایہ کاری اور شفاف منصوبوں کی تیاری کو ناگزیر قرار دیا۔

انہوں نے ایشیائی ترقیاتی بینک کے 500 ملین ڈالر، ورلڈ بینک کے دس سالہ شراکتی فریم ورک اور آئی ایم ایف کے ساتھ 1.3 ارب ڈالر کے نئے پروگرام کو مثبت پیش رفت قرار دیا۔

ان کا کہنا تھا کہ اسٹیٹ بینک کے تحت پاکستان گرین ٹیکسونومی فریم ورک تیار کر رہا ہے جس کے ذریعے گرین بانڈز، گرین سکوکس اور پہلا پانڈا بانڈ متعارف کرایا جائے گا، جس کی رقم اقوام متحدہ کے ترقیاتی اہداف  کے مطابق استعمال کی جائے گی۔

عالمی سطح پر بات کرتے ہوئے وزیر خزانہ نے بریٹن ووڈز جیسے مالیاتی اداروں میں اصلاحات کی ضرورت پر زور دیا تاکہ ترقی پذیر ممالک کی ضروریات بہتر طریقے سے پوری ہو سکیں۔

انہوں نے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی قیادت کو سراہا اور زور دیا کہ عالمی سطح پر ایک ایسا پلیٹ فارم قائم کیا جائے جو رعایتی فنانس کے بہاؤ کو منظم کر سکے۔

وزیر خزانہ نے ادارہ جاتی احتساب کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے پاکستان کی جانب سے اصلاحات، عملی اقدامات اور عالمی شراکت داری کے عزم کا اعادہ کیا۔

متعلقہ مضامین

  • ہمارے نظریاتی اختلافات ہوسکتے ہیں لیکن پاکستان کی سالمیت سب سے مقدم ہے، سینیٹر ایمل ولی خان
  • غزہ: ملبے تلے لاپتہ افراد کی باوقار تجہیزوتکفین کی دلدوز کوشش
  • مجھ سے زبردستی اداکاری کروائی گئی؛ خوشبو نے درد ناک کہانی بتادی
  • پاکستان کسان اتحاد کا گندم کی کاشت میں بہت بڑی کمی لانے کا اعلان
  • وفاق نے معاملہ خراب کردیا، حکومت گرانا نہیں چاہتے لیکن گراسکتے ہیں، وزیراعلیٰ سندھ
  • ’’ہم آپ کے ہیں کون‘‘ کا سیکوئل؛ فلم میکر کا سلمان خان اور مادھوری کے حوالے سے اہم انکشاف
  • عمران خان کو  رہائی کی پیشکش کی گئی لیکن بات نہ بن سکی، لطیف کھوسہ
  • پاکستان نے اب اسکور بورڈ پر کچھ رنز بنالیا ہے لیکن ماضی کی غلطیوں سے بچنا ہوگا، وزیرخزانہ
  • مودی حکومت وقف کے تعلق سے غلط فہمی پیدا کررہی ہے، مولانا خالد سیف اللہ رحمانی
  • فلم اسٹار خوشبو خان نے اپنی زندگی کے دکھوں سے پردہ اٹھا دیا