Nai Baat:
2025-11-03@11:12:59 GMT

کیا پی ٹی آئی کے پاس آپشنز ختم ہو گئے ہیں؟

اشاعت کی تاریخ: 16th, February 2025 GMT

کیا پی ٹی آئی کے پاس آپشنز ختم ہو گئے ہیں؟

ویسے تو پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) یا اس کے بانی مسٹر عمران خان کی سیاسی حکمت عملیوں کی ناکامی کی تاریخ کافی طویل ہے لیکن ماضی میں بہت دور تک جائے بغیر اگر صرف عمران خان حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کیے جانے اور اس کے کامیاب ہو جانے سے لے کر آج تک کی صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے اول تو ابتدا سے ہی انہوں نے درست حکمت عملی نہیں اپنائی ، اور اگر کہیں ان کی پلاننگ درست تھی بھی تو ٹائمنگ کسی بھی طور درست نہ تھی۔
جب عمران خان حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی گئی تو قومی اسمبلی میں ارکان کی تقسیم بالکل واضح تھی لیکن ان کی جانب سے تحریک کو ناکام بنانے کے لیے ہر قسم کے تاخیری حتیٰ کہ غیر قانونی حربے استعمال کیے گئے جن میں ایک واضح طور پر کامیاب ہوتی ہوئی تحریک عدم اعتماد کو مسترد کرنا اور قومی اسمبلی کو تحلیل کرنے کی کوششیں بھی شامل ہیں۔

یہاں سبکی کاسامنا کرنے کے بعد انہوں نے اپنے ارکان سے قومی اسمبلی سے استعفے دلوا لیے۔ پھر بھی دل کو تسلی نہ ہوئی تو صوبہ پنجاب اور خیبر پختونخواہ میں اپنی اچھی بھلی چلتی ہوئی حکومتیں ختم کر ڈالیںاور جو سپورٹ اور قوت انہیں ان صوبائی حکومتوں سے مل سکتی تھی خود ہی اپنے آپ کو اس سے محروم کر ڈالا۔
اس کے علاوہ مستقل بنیادوں پر نو مئی، چھبیس نومبر اور اسلام آباد پر چڑھائی جیسے کارنامے سر انجام دیتے رہے۔ملک میں ہونے والے عام انتخابات میں بھرپور انداز میں شرکت تو کی، ڈپٹی سپیکر، سپیکر ، وزیر اعظم غرض ہرآئینی عہدہ کے انتخاب میں نہ صرف شامل ہوئے بلکہ اپنے امیدوار بھی کھڑے کیے۔ پھر قومی اسمبلی میں ہونے والی قانون سازی کے عمل کا حصہ بھی بنتے رہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ اسمبلی کی جعلی کہنے کی گردان بھی جاری رکھی۔

پاکستان کو اقتصادی طور پر کمزور کرنے اور نقصان پہنچانے کی تمام تر کوششیں کی گئیں، آئی ایم ایف کو خط لکھے گئے اور سول نافرمانی کی کال تک دے کر دیکھ لیا گیا لیکن حاصل مکمل ناکامی اور سبکی کے علاوہ کچھ بھی نہ ہوا۔
پھر وہ دن بھی آیا کہ جب ہم نے دیکھا کہ وہی مولانا فضل الرحمن اور محمود اچکزئی جن پر بھرے جلسوں میں تبرے چھوڑے جاتے تھے ان کے نام بگاڑے جاتے تھے اور کسی سٹیج اداکار کی طرح ان کی نقالی کی جاتی تھی ان کو اپنا رہبر اور راہنما تسلیم کر لیا گیا اور یہ ہر وقت حاضری کے لیے ان کی چوکھٹ پر موجود رہنے لگے۔
پہلے حکومت اور موجودہ سیٹ اپ کے ساتھ مذاکرات کے امکان کو یکسر مسترد کرتے رہے پھر اچانک ہی اس پر راضی ہو ئے۔ لیکن مذاکرات کو درمیان میں ہی چھوڑ کر فرار کا راستہ اختیار کر لیا۔ جس اسٹیبلشمنٹ کو اپنی حکومت کے خاتمے کا ذمہ دار قرار دیتے رہے، ان کی اعلیٰ قیادت پر طرح طرح کے الزامات لگاتے رہے، ان کے نام بگاڑتے رہے اوران کے دفاتر پر حملے کرتے رہے پھر انہیں کو واحد نجات دہندہ سمجھ کر ان سے مذاکرات کی کوششیں اور کاوشیں کرتے رہے۔ کورا جواب ملنے کی صورت میں خط لکھنے کا سلسلہ شروع ہوا اس میں بھی ناکامی پر کھلے خط لکھنے کی آپشن اپنائی گئی۔ خیال ہے کہ دراصل اس طرح سے وہ آرمی چیف کو نہیں بلکہ آرمی کو آوازیں دے رہے ہیں۔

مجھے یاد ہے کہ سانحہ نو مئی کے روز جب پی ٹی آئی کی قیادت کارکنان کے ہمراہ لاہور کینٹ کی جانب گامزن تھی تو شیرپاو پل سے پہلے گلبرک کے علاقہ میں موجود ایک بڑے پلازہ میں موجود میرے چند احبات نے فون پر مجھے ان کے کینٹ کی جانب جانے کی خبردی۔ ابتدا میں تو مجھے لگا کہ بتانے والے کو کچھ غلط فہمی ہو رہی ہے ۔ ممکن ہے کہ پی ٹی آئی کارکن لبرٹی چوک کی جانب جا رہے ہیں لیکن کالز نے اصرار کیا کہ وہ کینٹ کی جانب ہی جا رہے ہیں۔ جب بات کنفرم ہو ئی تو میں نے اسے جو جواب دیا وہ فوری طور پر تو نہیں لیکن بعد ازاں بالکل درست ثابت ہوا اور یقینا اس کا اطلاق آنے والے دنوں میں بھی ہو گا۔ میں نے جواب میں کہا تھا اگر جاتے ہیں تو جانے دو آگے تگڑے لو گ بیٹھے ہیں وہ ان لوگوں سے بخوبی نمٹ لیں گے۔ پھر ہم نے ایسا ہوتے ہوئے دیکھا بھی کہ جو لوگ گلا پکڑنے پر آمادہ نظر آتے تھے انہوں نے پاوں پکڑ لیے اور چھوڑنے کے لیے تیار نہ تھے۔

اس وقت یہ عالم ہے کہ ناقص حکمت عملی کی وجہ سے پی ٹی آئی دوسے زائد دھڑوں میں تقسیم ہو چکی ہے۔ قیادت کا ایک بڑا حصہ تو پہلے ہی پارٹی سے علیحد گی اختیار کر چکا ہے۔ بچی کھچی قیادت کا ایک حصہ پر امن پارلیمانی سیاست کے حق میں ہے اور ان کا خیال ہے کہ سسٹم کے اندر موجود رہتے ہوئے اپنی جدوجہد جاری رکھنی چاہیے اور اگلے انتخابات کی تیاری کرنی چاہیے، جبکہ دوسرے مشورہ دیتے ہیں کہ پر تشدد احتجاج کا اہتمام کرکے زیادہ محاذ آرائی کا طریقہ اختیار کیا جائے اور یا تو جمہوریت کو ہی ڈی ریل کر دیا جائے یا پھر قبل از وقت انتخابات کی راہ ہموار کی جائے۔
اگر تکنیکی اعتبار سے دیکھا جائے تو شائد یہ دونوں حکمت عملیاں ہی پی ٹی آئی کے لیے مناسب نہیں۔پر امن سیاست اور بر وقت انتخابات سے پی ٹی آئی کو فتح کی ضمانت نہیں مل سکتی ہے، خاص طور پر ایک بکھری ہوئی پارٹی اور زیادہ متحد مخالفت کے ساتھ۔ دریں اثنا، محاذ آرائی کا نقطہ نظر اسے عوام کو مزید دور کر سکتا ہے، خاص طور پر اگر احتجاج میں شدت پسندی کا عنصر بھی شامل ہو جاتا ہے۔

کسی تجزیہ کار نے پی ٹی آئی کی سیاست کے بارے میںبہت خوب خلاصہ کیا ہے اور میں بھی اس تجزیے سے مکمل طور پر متفق ہوں کہ سیاسی عمل اور جدوجہد میں جو کام نہیں کرنے چاہیں یا اگر کرنے کی نوبت آ ہی جائے تو اسے آخری آپشن کے طور پر استعمال کیا جانا چاہیے پی ٹی آئی نے انہیں پہلی آپشن کے طور پر استعمال کر لیا ہے اور ان کی ناکامی کے بعد اب اسے سمجھ نہیں آ رہی کہ اس کی اگلی حکمت عملی کیا ہونی چاہیے۔ اگرچہ ایسا نہیں ہو سکا لیکن اگر یہ لوگ اس بات کو سمجھتے کہ ملک کے دفاعی اداروں کو نشانہ بنانے، ریاست کی اقتصادی صورتحال کو نقصان پہنچانے کی کوششیں کرنے یا وفاق پر چڑھائی کرنے جیسی حرکتوں سے کسی بھی طور سیاسی ٹارگٹ حاصل نہیں کیے جا سکتے، یہ لوگ اگر پر امن جلسہ، جلوس اور جدوجہد سے بات شروع کرتے اور اپنی تحریک میں صرف ہلڑ باز گروپ کو ہی نہیںسنجیدہ عناصر کو بھی شامل رکھتے تو آج نہ صرف ان کی جدوجہد اور تحریک کا رنگ ڈھنگ کچھ اور ہوتابلکہ اس وقت ان کے پاس کئی سیاسی آپشنز موجود ہوتے۔

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: قومی اسمبلی پی ٹی ا ئی کی جانب کے لیے ہے اور

پڑھیں:

معاملات بہتر کیسے ہونگے؟

دنیا کا کاروبارِ زندگی بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ یہ کرہ ارض‘ حقیقت کی بنیاد پر چل رہا ہے۔ عرض کرنے کا مدعا ہے کہ یہ تمام دنیا Physical laws پر مبنی ہے۔ عمل اور رد عمل کا قانون ہر طریقہ سے لاگو ہے۔ یورپ کی نشاۃ ثانیہ اور سائنسی انقلاب کے بعد‘ دنیا میں پہلی مرتبہ Nation Statesکی شروعات ہوئیں۔ اس سے قبل مملکتیں ‘ کسی بھی مخصوص سرحد کے بغیر چل رہی تھیں اور آنے جانے کے معاملات یکسر مختلف تھے۔

ویزہ یا پاسپورٹ کا کوئی وجود نہیں تھا۔ فرانس ‘ جرمنی اور یوکے کے چند فلسفیوں کی سوچ نے دنیا کی تشکیل نو کر دی۔ بدقسمتی سے‘ اس جوہری تبدیلی میں مسلمانوں کا کسی قسم کا حصہ نہیں تھا۔ ویسے یہ المیہ‘ صدیاں گزرنے کے باوجود‘ آج بھی اپنی ہیئت میں بالکل قائم ہے۔ پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے بعد کی دنیا میں‘ مسلمان‘ بالکل اجنبی سے تھے۔ فکری طور پر متحد اور ترقی کرنے کے لیے‘ کسی قسم کا کوئی سہارا موجود نہیں تھا۔ جدید تعلیم اور سائنس سے ویسے ہی ہمیں کوئی غرض نہیں تھی۔

اس جھول کا فائدہ‘ سب سے زیادہ ہمارے مذہبی طبقے نے اٹھایا۔ برصغیر کی حد تک معاملات کو دیکھیے تو ایسا لگتا ہے کہ وہ عام لوگوں سے کوئی سنجیدہ انتقامی بدلہ لے رہے ہیں۔ جدید علوم کوحرام قرار دے دیا گیا۔انگریزی تعلیم کو کافر کی زبان بتایا گیا۔ ضعیف العتقادی اور جہالت کو اوڑھنا بچھونا بنا دیا گیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ مجموعی طور پر مسلمان اور بالخصوص برصغیرکے مسلمان ‘ سائنسی انقلاب اور جدت پسندی سے دور ہوتے گئے۔ اور ایک مخصوص دائرہ میں زندگی گزارنے لگے۔ باورکروایا گیا کہ ہمارا دین خطرے میں ہے۔

دنیا ہمارے خلاف ہے۔ لہٰذا ہر قسم کی تبدیلی لانے والی سوچ کفر کے نزدیک لے جاتی ہے۔ یہ بیانیہ‘ ہمارے ڈی این اے کا حصہ بنا دیا گیا۔ مغرب کی اعلیٰ ترین درس گاہوں سے تعلیم یافتہ‘ چند بلند پایہ لوگ‘ اس معاملہ کو بھانپ گئے اور ان کی حد درجہ محنت بلکہ ریاضت کی بدولت‘ پاکستان وجود میں آیا۔ یہاں یہ سمجھنا ضروری ہے کہ برصغیر میں مسلمانوں کے لیے علیحدہ ملک کے حصول اور ہمارے سیاسی اکابرین کے خلاف ‘ سب سے مہلک محاذ‘ مذہبی طبقے نے ہی قائم کیا۔ آپ ہمارے کسی لیڈر کی سیاسی زندگی کا جائزہ لیجیے۔ مذہبی طبقے نے ان کی ذاتی زندگی سے لے کر سیاسی سوچ‘ سب میں کیڑے نکالے۔ انھیں ملحد‘کافر اور مسلمانوں کا دشمن قرار دیا گیا۔ سرسید احمد خان‘ علامہ اقبال اور قائداعظم سب تختہ مشق بنے۔

پاکستان تو بن گیا مگر وہ لبرل سوچ‘ جس کا ذکر بار بار اس ملک کو بنانے والوں نے کیا تھا اسے پنپنے نہیں دیا گیا۔ کمال یہ ہے کہ ان مذہبی جماعتوں کے قائدین‘ جو پاکستان بنانے کے خلاف تھے، نیا ملک بنتے ہی‘ بڑے اطمینان سے ہندوستان چھوڑ کر نئے ملک میں بس گئے۔ یہاں آ کر انھوں نے ماضی کا چلن نہیں بدلا۔ فرقہ پرستی‘ جذباتیت ‘ حقیقت پسندی سے اجتناب اور بے یقینی کی فضا کو اتنی ہوا دی کہ بحیثیت قوم‘ ہمیں پختہ یقین ہو گیا کہ ہمارے خلاف ایک بین الاقوامی سازش ہو رہی ہے۔

پوری قوم کی فطرت میں یہ نکتہ منجمد کر دیا گیا کہ ہمارے بچنے کا بھی ایک ہی راستہ ہے اور وہ یہ کہ ہم قدامت پسندی کو اپنا وطیرہ بنا لیں۔ ملکی سیاست دان اتنی سنجیدہ سوچ کے مالک تھے ہی نہیں کہ اس باریک عمل کو سمجھ پاتے جس کو عقیدت کا لبادہ بھی پہنا دیا گیا ۔ پاکستان میں ایک ایسا عمل پیہم ہوا جو پوری دنیا میں تصور نہیں کیا جا سکتا۔ ریاستی اداروں نے چند مذہبی حلقوں کو ساتھ ملا کر‘ عام لوگوں کی مزید منفی ذہن سازی کر ڈالی اور اس چلن سے اقتدار پر دائم قبضہ کر لیا۔ جو قیام پاکستان سے لے کر آج تک مسلسل جاری ہے۔ اس کا ادراک ہمارے ملک میں بہت کم لوگوں کو ہے۔

یہ معاملہ عام آدمی کو اس طرح معلوم پڑا جس مذہبی طبقہ کو ہم نے ریاست کی سوچ کے مطابق‘ کشت و خون کرنے کے لیے استعمال کیا تھا،وہ اپنا بنیادی کام کرنے کے بعد ہمارے ملک پر ہی پل پڑے۔ دہشت گردی کا جن‘ پاکستان کے ہر کونے میں برہنہ ہو کر رقص کرنے لگا۔ جب یہ سمجھ آئی کہ ریاست کا اپنا وجود خطرے میں پڑ چکا ہے۔تو دہشت گردوں کا خاتمہ کرنے کی کوشش کی گئی جو آج بھی جاری وساری ہے۔ مگر اسی اثناء میں ‘ بین الاقوامی صورت حال یکسر تبدیل ہو گئی۔ اسرائیل اور حماس کی جنگ نے مسلمان دنیا کو سوچنے پر مجبور کر دیا۔ حماس‘ جو کہ الفتح کے مقابلہ میں اسرائیل ہی کے چند اداروں نے کھڑی کی تھی۔

جس کے متعلق مسلسل لکھتا چلا آ رہا ہوں کہ ان کا غزہ کو برباد کرنے میں کلیدی کردار ہے۔ اس نے اسرائیل کے شہریوں پر حملہ کر کے اس ملک کو وہ جواز مہیا کیا‘ جو یکسر‘ ان کے حق میں تھا۔ ذرا سوچئے کہ حماس کے بے ربط حملوں سے غزہ کو کتنی بربادی کا سامنا کرنا پڑا۔ پورا شہر‘ مٹی اور لاشوں کا ڈھیر بنا دیا گیا۔ حماس کے اس ناپختہ قدم سے غزہ کو حد درجہ نقصان پہنچا۔ مگر ہمارے جیسے ملک میں‘ اس باریک نقطہ پر بات کرنے کو مشکل تر بنا دیا گیا۔ بلکہ یہاں اس معاملہ پر کھل کر غیر متعصب سوال کرنے کو ہی پیچیدہ تر بنا ڈالا گیا۔ اب ہوا کیا۔

ہمارا ملک‘ ایک تو دہشت گردوں کے نرغہ میںسانس لینے پر مجبور ہو گیا اور دوسرا ہم حماس اور اسرائیل کی جنگ میں ایک ایسے فریق کے ساتھ کھڑے ہونے کی کوشش کرنے لگے جن کا قصور بھی زیادہ تھا اور وہ اپنے ہی مسلمان شہریوں کے لیے زہر قاتل ثابت ہوئے تھے۔ ہمیں ذہنی دھچکا اس وقت لگا جب ہمارے سب سے قریبی دوست مسلم ممالک نے ‘ اسرائیل کے ساتھ چلنے کا فیصلہ کیا۔ اس کا یہ مطلب نہیں تھا کہ وہ فلسطین کے مسئلہ سے مونہہ پھیر چکے تھے۔

وہ سمجھ چکے تھے کہ اس مسئلہ کو حل کرنے کے لیے زمینی حقائق کے مطابق قدم اٹھانے پڑیں گے۔متحدہ عرب امارات اور متعدد‘ مشرق وسطیٰ کے ممالک‘ اسرائیل کو تسلیم کرنے لگے۔ دنیا کی واحد سوپر پاور نے Abrahamic Accords کاڈول ڈالا ۔ اور پھر معاملات جوہری طور پر تبدیل ہو گئے۔ امریکا کے موجودہ صدر‘ اسرائیل کے حد درجہ ثابت قدم دوست ثابت ہوئے۔

پاکستان میں مذہبی شدت پسندی کا سب سے زیادہ فائدہ ہندوستان نے اٹھایا اور وہ اسرائیل کے ساتھ مثالی تعلقات قائم کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ پاکستان اور ہندوستان کی باہمی حالیہ جنگ میں اسرائیلی ماہرین‘ ہندوستان میں موجود تھے اور انھوں نے اپنے ڈرون ‘ ہمارے ہر علاقے میں کامیابی سے بھجوائے ۔ ریاستی ادارے‘ موجودہ حالات کو بھانپ چکے ہیں۔ انھوںنے اپنا طرز عمل‘ ایک سو اسی ڈگری کے زاویہ سے تبدیل کر لیا ہے۔ ابراہیمک معاہدے کا کیا کرنا ہے؟ دشت گردی کے ناسور کو کیسے جسم سے کاٹنا ہے؟ ملک کے اندر جاری و ساری شدت پسندی کو کس طرح اعتدال پر لے کر آنا ہے؟ یہ وہ سوالات ہیں جنھیں حل کیے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے۔

دلیل کی بنیاد پر عرض کرتا چلوں کہ ملک کے وجود کو کسی قسم کا کوئی خطرہ نہیں۔ مگر جو سوچ ہم نے خود پروان چڑھائی تھی‘ اس کو تبدیل کیسے کرنا ہے؟ اس کا جواب کسی کے پاس موجود نہیں ہے۔ حالیہ دنوں میں‘ ایک مذہبی جماعت کے جلوس کے ساتھ ‘ جو سلوک روا رکھا گیا اس سے یہ عنصر عیاں ہوتا ہے کہ ریاستی ادارے‘ اب مذہبی شدت پسندی سے اپنے آپ کو دور کر رہے ہیں۔ سیاست دان‘ اتنے کمزور ہیں کہ وہ معاملات کو صرف ریاستی اداروں پر ڈال کر خود بری الذمہ ہونا چاہتے ہیں۔ بلکہ ان کے اندر خوف بھی ہے کہ کہیں تشدد پسند حلقے ‘ ان کا وجود ہی ختم نہ کر دیں۔ یہ خدشہ بہرحال موجود ضرور ہے۔

موجودہ صوت حال نازک ضرور ہے‘ مگر ان تمام معاملات کا حل موجود ہے۔ دفاعی ادارے بالکل درست سمت میں کام کر رہے ہیں۔ مگر ان کے مثبت اقدامات کو موجودہ سیاسی ڈھانچہ کی معاونت حاصل ہونا ضروری ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ موجودہ حکومت کے پاؤں نمک کے ہیں اور وہ مسائل کے پانی میں کھڑے نہیں ہو سکتے۔ حل کیا ہے؟ کیا ہونا چاہیے ؟ یہ مسئلہ بھی ہے کہ صرف طاقت کے بل بوتے پر حتمی تبدیلی نہیں لائی جا سکتی۔ موجودہ سیاسی نظام ‘ مسائل کو بڑھا تو سکتا ہے کم نہیں کر سکتا۔ اور پھر یہ موجودہ لوگ اتنے کائیاں ہیں کہ اپنی ناکامیاں چھپانے کے لیے‘ دفاعی اداروں کو عوام کے ساتھ متصادم راہ پر دھکیلنا چاہتے ہیں۔

دانشمندی یہی ہے کہ اندرونی سیاسی خلفشار کو ختم کیا جائے۔ جس سیاست دان کو عوامی پذیرائی حاصل ہو‘ اسے ‘ نظام کا حصہ بنایا جائے۔ پھر بغیر کسی تردد کے اپنے ملک کے قومی مفاد میں انقلابی اور دور رس فیصلے کیے جائیں‘ جن سے ہمارے ملک کے دشمنوں کی تعداد میں کمی ہو سکے۔حکمت یہی ہے کہ سب فریقین کو اپنے ساتھ لے کر چلیں۔ اس خطرناک شدت پسند سوچ کا خاتمہ کرنے کی کوشش کریں‘ جو ہمارے ملک کو یرغمال بنا چکی ہے۔ یہ وقت‘ کسی انتقام کا نہیں‘ بلکہ دانش مندی اور حکیمانہ فیصلوں کا ہے! مگر اس وقت تو مجھے سنجیدہ سوچ کا فقدان نظر آ رہا ہے۔ دیکھیے ۔ آگے معاملات کیا رخ اختیار کرتے ہیں؟

متعلقہ مضامین

  • پاکستان کرکٹ زندہ باد
  • فیکٹری کے ایک ملازم کے اکاؤنٹ میں تمام ملازمین کی تنخواہ ٹرانسفر
  • امریکہ نے فیلڈ مارشل کی تعریفیں بہت کیں لیکن دفاعی معاہدہ ہندوستان کیساتھ کرلیا، پروفیسر ابراہیم
  • کس پہ اعتبار کیا؟
  • کراچی میں سڑکیں ٹھیک نہیں لیکن بھاری ای چالان کیے جارہے ہیں، حافظ نعیم
  • کبھی لگتا ہے کہ سب اچھا ہے لیکن چیزیں آپ کے حق میں نہیں ہوتیں، بابر اعظم
  • روس میں فیکٹری ملازم کو تمام ملازمین کی تنخواہیں غلطی سے وصول، واپس کرنے سے انکار
  • ہر چیزآن لائن، رحمت یا زحمت؟
  • معاملات بہتر کیسے ہونگے؟
  • ایران امریکا ڈیل بہت مشکل ہے لیکن برابری کی بنیاد پر ہوسکتی ہے