چیئرمین نیپرا اور ممبران نے خود ہی اپنی تنخواہیں بڑھالیں، ذرائع
اشاعت کی تاریخ: 17th, February 2025 GMT
فوٹو: فائل
نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) کے چیئرمین اور ممبران نے خود ہی اپنی تنخواہیں 220 فیصد سے زیادہ بڑھالیں۔
اس سلسلے میں ذرائع کا کہنا ہے کہ تنخواہوں میں اضافے کےلیے وفاقی کابینہ کی منظوری لازمی ہوتی ہے، نیپرا اتھارٹی نے بغیر کسی منطوری کے تنخواہوں میں 20 سے 22 لاکھ روپے تک اضافہ کیا۔
ذرائع نے بتایا کہ تنخواہوں میں من مانا اضافہ ایڈہاک ریلیف اور ریگولیٹری الاؤنس کی مد میں کیا گیا، اکتوبر 2023 کے نظرثانی شدہ نوٹیفکیشن کے مطابق تنخواہ تمام مراعات، 10 لاکھ روپے تک بنتی ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ چیئرمین اور نیپرا ممبران تمام ایم پی ون میں شامل ہیں، چیئرمین نیپرا کی تنخواہ بڑھ کر 32 لاکھ سے زیادہ ہوگئی ہے۔
نیپرا کے چاروں ممبران کی تنخواہیں بھی بڑھ کر 29 لاکھ روپے تک ہوگئیں۔
دوسری جانب جیو نیوز سے بات چیت کرتے ہوئے چیئرمین نیپرا توصیف ایچ فاروقی کا کہنا تھا کہ میری ماہانہ تنخواہ سب کچھ شامل کر کے 7 لاکھ 90 ہزار روپے تھی، میں اگست 2023 تک چیئرمین نیپرا رہا۔ میرے دور میں نیپرا ممبران کی تنخواہ 7 لاکھ 40 ہزار روپے تھی۔
انہوں نے بتایا کہ چیئرمین نیپرا، ممبران کی تنخواہوں میں اضافہ صرف وفاقی کابینہ کرسکتی ہے۔
.ذریعہ: Jang News
کلیدی لفظ: چیئرمین نیپرا تنخواہوں میں کی تنخواہ
پڑھیں:
ڈسٹرکٹ ہیلتھ اتھارٹی راولپنڈی میں کروڑوں روپے کے گھپلے بے نقاب
راولپنڈی:ڈسٹرکٹ ہیلتھ اتھارٹی راولپنڈی میں مبینہ طور پر 16 کروڑ 18 لاکھ 59 ہزار 587 روپے کے گھپلوں کا انکشاف ہوا ہے۔
آڈٹ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ ادویات کی خریداری صرف کاغذوں تک محدود رہی جبکہ مہنگے نرخوں پر بلز کلیئر کیے گئے۔
رپورٹ کے مطابق خریداری کے عمل میں پیپرا رولز کی خلاف ورزی کی گئی اور بغیر کسی باقاعدہ ڈیمانڈ کے ادویات خریدی گئیں۔ 100 بنیادی مراکز صحت میں جعلی سپلائیز ظاہر کی گئیں جبکہ 13 میونسپل میڈیکل سینٹرز اور 15 ڈسپنسریز میں بھی بے ضابطگیاں سامنے آئیں۔
آڈٹ رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ 6 زچہ بچہ مراکز میں صرف کاغذوں پر ادویات کی سپلائی دکھائی گئی، جبکہ مارکیٹ ریٹس سے زائد قیمت پر سٹیشنری اور پرنٹنگ کا سامان خریدا گیا۔ رپورٹ کے مطابق ٹینڈر کے بجائے کوٹیشنز کے ذریعے مہنگی ادویات اور آلات خریدے گئے، جبکہ بعض ذمہ دار افسران نے اپنی ہی کمپنیاں بنا رکھی تھیں۔
ذرائع کے مطابق سابق سی ای او ڈسٹرکٹ ہیلتھ اتھارٹی کو بھی ذمہ دار قرار دیا گیا ہے۔ انکوائری کے دوران 89 لاکھ 65 ہزار 744 روپے کا کوئی ریکارڈ پیش نہیں کیا گیا۔ معاملہ اس وقت پنجاب کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی میں زیر سماعت ہے۔
رپورٹ میں انکشاف ہوا کہ ایک کے بعد ایک انکوائری کمیٹیاں توڑی گئیں، جبکہ ابتدائی انکوائری رپورٹ میں 6 کروڑ 62 لاکھ 67 ہزار 980 روپے کی ریکوری اور پیڈا ایکٹ کے تحت کارروائی کی سفارش کی گئی۔
انکوائری میں مالی سال 2019-20 سے 2023 تک کی خریداریوں کا جائزہ لیا گیا۔ وزیر اعلیٰ انسپکشن ٹیم نے معاملے پر نوٹس لیتے ہوئے سیکرٹری صحت پنجاب سے دس دن میں تفصیلی رپورٹ طلب کرلی۔