عصرِ حاضر کے محقق…علامہ طاہرالقادری
اشاعت کی تاریخ: 18th, February 2025 GMT
عصرِ حاضر میں تحقیق کا معیار پہلے سا نہیں رہا اس لیے کہ اکیسویں صدی میں جہاں انسان نے بہت سی منازل طے کی ہیں اور اپنے لیے کئی راستے تلاش کیے ہیں۔ دوسری طرف اسے اب تحقیق جیسے مراحل سے گزرنا دشوار محسوس ہوتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ اب ہر کام میں ہم ایسے راستے کی تلاش میں رہتے ہیں کہ ہمیں محنت بھی نہ کرنا پڑے اور سب کام بھی ہو جائیں یا پھر دوسروں کی، کی ہوئی کوششوں سے اس طرح استفادہ کریںکہ ہم صرف مستفید نہ ہوں بلکہ دوسروںکی کوشش و محنت ہمارے کھاتے میں آ جائے۔ اس لیے ہمارامزاجِ تحقیق بدل گیا ہے اسی وجہ سے معیارِ تحقیق بھی وہ نہیں رہا جو ہونا چاہیے تھا۔ تحقیق کمال کا لفظ ہے ’جانچنا، پرکھنا‘ کسی بھی چیز کی جانچ پرکھ بغیر علم کے ممکن نہیں ہے۔ ہم جس دور سے گزر رہے ہیں اس دور میں تنقید کرنے کے لیے بھی علم لازم نہیں رہا بس آپ کو اگر کچھ ناپسند ہے تو آپ تنقید کر سکتے ہیں خواہ کسی کی ذات ہی پر کیوں نہ ہو۔ یہ سمجھنے اورجاننے کی کوشش بھی ہم نہیںکرنا چاہتے کہ جس بات پر ہم کسی کی ذات کو نشانہ بنا رہے ہیں کیا اس بات یا اس کام کے متعلق ہم کچھ جانتے بھی ہیں لیکن شاید اب اس کی ضرورت لوگ نہیںسمجھتے اس لیے کہ اکیسویںصدی کی جدت نے کچھ لوگوںکوشاید یہی سمجھایا ہے۔
علم ایک ایسی اعلیٰ چیزہے جو انسان کو اس کے انسان ہونے کی خبر دیتا ہے اور یہ علم ہی ہے جو انسان کے مزاج میں تحقیق کرنے کی خواہش کو اجاگر کرتا ہے۔ یہ درست ہے کہ آج کل تحقیقی مزاج میں کمی آئی ہے مگر اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ تحقیق کے دروازے بند ہو گئے ہیں اور لوگوں نے اس سمت جانا چھوڑ دیا ہے۔ آج بھی ایسے لوگ اسی روئے زمین پر موجود ہیں جنہوں نے اپنے علم کو تحقیق کی جانب موڑا اور پھر ریاضتوں کی شمعیں روشن کیں۔ جب ہم ایسے باکمال لوگوں کے متعلق سوچتے ہیں تو شیخ الاسلام ڈاکٹر طاہر القادری کا نام اذہان کے شفاف پنوں پر واضح ابھرتا ہے۔ ڈاکٹر طاہر القادری عصرِ حاضر کے ان عالموں میں نمایاں مقام و مرتبہ رکھتے ہیں جنہوں نے علم کو مقصد، تحقیق کو عادت اور تخلیق کو فرض سمجھا ہے۔ بے شمار کتب سپردِ قلم کیں۔ ہر کتاب ایک نئے موضوع پر مشتمل ہوتی ہے۔ سیرت لکھی تو نئے دور کے تقاضوں کو مدنظر رکھا ثقیل و گنجلک الفاظ لکھ کر قاری کو الجھایا نہیں بلکہ آج کے قارئین کو سامنے رکھ کر الفاظ سپردِ قلم کیے۔ ایسے الفاظ لکھے جنہیں پڑھنے والا آسانی سے سمجھ سکے ایک محقق کا اہم فریضہ یہ بھی ہے کہ جب وہ اپنی تحقیق کو دوسروں تک پہنچائے تو اس کا خاص خیال رکھے کہ قاری کو اس کا لکھا آسانی سے سمجھ آ جائے اس کی وجہ یہ ہے کہ محقق نے معلم کی طرح اگر اپنی بات پڑھنے والوں تک نہ پہنچائی تو پھر اس کے پڑھنے اور سمجھنے والے محدود اور مخصوص طبقہ کے لوگ ہوں گے۔ ڈاکٹر طاہر القادری نے اس بات کو پیشِ نظر رکھا ہے۔ دوسرا بڑا کمال جو ڈاکٹر صاحب نے کیا وہ ہے اپنی کہی ہوئی بات کو مدلل بنانے کے لیے صرف لفاظی ہی کا سہارا نہیں لیا۔ جس موضوع پر قلم فرسائی کی اس کے متعلق حوالہ جات مہیا کیے تاکہ قاری جب چاہے ان کے لکھے ہوئے الفاظ پر خود بھی تحقیق کر سکے۔ انہوں نے دین کے ہر موضوع پر اپنی تحقیق کو تحریری صورت دی۔ اس طرح آج ایک بڑا نوجوانوں کا حلقہ ان کی علمی پیروی میں نظر آتا ہے۔ علم کا رشتہ اگر کسی سے جڑ جائے تو اس سے مضبوط و معتبر رشتہ اور کیا ہو سکتا ہے؟
ڈاکٹر طاہرالقادری نے علمی وفلاحی کاموں میں اپنی زندگی صرف کی ہے۔ انسان کی کامیابی یا اس کی محنت اس وقت زیادہ پائیدار محسوس ہوتی ہے جب وہ اپنی اولاد کی تربیت اسی دستور و اصول کے تحت کرتا ہے جس کا وہ دعویدار ہوتا ہے۔ علامہ صاحب اس معاملے میں بہت کامیاب ہیں اس لیے کہ ان کی اولاد آج علمی لحاظ سے کامیابیاں سمیٹنے میں مصروف ہے۔ ان کے دونوں صاحب زادے پی ایچ ڈی اور اپنے اپنے مضمون میں مہارتِ تامہ رکھتے ہیں۔ تعلیمی ادارے بنائے، چارٹرڈ یونیورسٹی بنائی جہاں ہزاروں طلبا و طالبات زیرِتعلیم ہیں۔ بہت سے لوگ ڈاکٹر صاحب کی سیاسی فکر سے اختلاف کرتے ہوں گے مگر یہ کوئی ایسی بات نہیں ہے بلکہ یہ اختلاف معاشرتی حسن کے لیے ضروری ہے مگر وہ سیاسی اختلاف رکھنے والے بھی ڈاکٹر طاہر القادری کی علمی بصیرت کے قائل ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کی علمی ریاضتوں میں ان کی شب و روز کی محنت واضح نظر آتی ہے۔ عشقِ رسولﷺ ان کی تحریر کے ہر لفظ سے ظاہر ہے، ان کی تقریر کا ایک ایک لفظ اسی بات کا مظہر ہے۔ ان کی زبان سے لفظ ’’مصطفیٰﷺ‘‘ جب برآمد ہوتا ہے تو ان کے لہجے میں عقیدت کا ایک خاص سوز ہے جو دوسروں کی سماعتوں سے ٹکراتا ہے تو اثر انگیز ہوتا ہے۔ انہوں نے روایتی طریقہ مقرری کو ختم کیا اور مدلل طریقہ تقریر اپنایا۔ ان کے خطبات میں کسی کی تضحیک نہیں ہے مگر سننے والوں کے لیے اصلاح کے پہلو موجود ہیں۔ وہ ہر مسلک میں سنے جاتے ہیں اس لیے کہ جب آپ تحقیق کی بنیاد پر گفتگو کرتے ہیں تو اختلاف کرنے والے اسی معیار پر اختلاف کریں گے۔ جب اختلاف علمی بنیاد پر ہوں تو معاشرے میں علمیت کا ظہور ہوتا ہے۔ ذات سے اختلاف تو ہونا بھی نہیں چاہیے۔ علامہ صاحب کا وژن یہ ہے کہ نوجوان اسوہ حسنہﷺ کی طرف راغب ہوں اپنی زندگی کو مقصد دیں اور اسی مقصد کے تحت جئیں تو زندگی سہل ہو جائے گی۔ وہ اپنے لیکچرز میں عصرِ حاضر کے مسائل کا ذکر کرتے ہیں تو اس کا حل بھی بتاتے ہیں، وہ شعوری ریاضتوں کو پختہ کرنے کے خواہش مند ہیں۔ ان کے ادارے تربیت گاہ ہیں تربیت علم کی صورت نکھار دیتی ہے۔ تربیت کی کمی معاشروں کو گہنا دیتی اس لیے لازم یہ ہے کہ علم کے ساتھ ساتھ تربیت پر زور دیا جائے۔ اگر آپﷺ کی حیاتِ مقدسہ کا مطالعہ کریں تو آپﷺ نے بھی تربیت کی صحابہ کرامؓ کی اور پھر وہی تربیت یافتہ لوگ زمانے کے لیے نظیریں بن گئے۔ آج بھی علم کے ساتھ تحقیق اور مثبت تنقید کی ضرورت ہے اور یہ اسی وقت ممکن ہو سکتا ہے جب علم تربیت کے سائے میں پروان چڑھے یہی ڈاکٹر طاہرالقادری کا وژن ہے۔
.ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: ڈاکٹر طاہر القادری اس لیے کہ یہ ہے کہ ہوتا ہے کے لیے
پڑھیں:
کیا سیاست میں رواداری کی کوئی گنجائش نہیں؟
ہم اتنا کیوں سخت دل ہو گئے ہیں کہ رحم دلانہ رویوں سے ہی ناطہ توڑ لیا ہے اور انسانی ہمدردی کے جذبے سے ہی عاری ہو گئے ہیں۔ سب جانتے ہیں کہ میں عمران خان کے طرزِ سیاست اور ان کی غیر جمہوری سوچ کا ناقد ہوں مگر میں پی ٹی آئی کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کو بھی غلط کہتا ہوں۔
کئی بار کہہ چکا ہوں کہ ہندوستان کے خلاف جنگ میں اﷲ نے ہمیں جو فتح نصیب کی ہے، اسے پوری قوم کو اکٹھا کرنے، اتحاد اور یکجہتی پیدا کرنے کے لیے استعمال کرنا چاہیے اور اس ضمن میں پہلے قدم کے طور پر پی ٹی آئی کی تمام خواتین کو رہا کر دینا چاہیے۔
اخبار میں پڑھا کہ ڈاکٹر یاسمین راشد صاحبہ جیل میں زیادہ بیمار ہو گئی ہیں تو میں نے لکھا کہ ڈاکٹر صاحبہ خاتون بھی ہیں، عمر رسیدہ بھی ہیں اور علیل بھی ہیں لہٰذا انھیں انسانی بنیادوں پر رہا کر دیا جائے۔ میرا خیال تھا کہ سیاسی اختلاف کے باوجود حکمران پارٹی کے لوگ بھی اس تجویز سے اتفاق کریں گے، مگر یہ دیکھ کر بہت دکھ ہوا کہ پی ٹی آئی کے مخالفین نے میری تجویز پر نہ صرف تنقید کی بلکہ اس معمّر خاتون کے بارے میں توہین آمیز زبان استعمال کی، جو افسوسناک ہے۔
کچھ لوگوں نے ان کے 9 مئی کے جرم کا ذکر کیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ 9 مئی کو جب پی ٹی آئی کے ورکر لاہور میں جناح ہاوس جلارہے تھے اور ہمارے شہداء کی شبیہوں اور یادگاروں کو تباہ کررہے تھے تو میرا خون کھول رہا تھا، اُس وقت میں نے فوری طور پر لکھا تھا کہ جناح ہاؤس کی سیکیوریٹی کے ذمّے داروں کو فوری طور پر برخاست کردینا چاہیے۔
اگر میں موقعہ پر سیکیوریٹی کا ذمّے دار ہوتا تو شرپسندوں کے خلاف ہر قسم کی فورس استعمال کرکے انھیں منتشر ہونے پر مجبور کرتا۔ بہرحال جو شرپسند موقعہ پر موجود تھے ان کا ٹرائیل مکمل کرکے انھیں عبرتناک سزا دلوائی جائے۔ مگر اس سلسلے میں انصاف کے تقاضے پورے کیے جائیں، مجرموں کے درمیان ان کے اثرورسوخ اور contacts کی بنیاد پر کوئی فرق روا نہ رکھا جائے۔
کون نہیں جانتا کہ موقعۂ واردات پر موجودگی بڑا جرم قرار پاتی ہے، پی ٹی آئی ہی کی دو اہم خواتین تو کور کمانڈر ہاؤس کے اندر موجود تھیں۔مگر وہ دونوں اِس وقت آزاد ہیں۔ اور ایک تو پھر سے سیاست میں پوری طرح متحرّک ہے، مگر ڈاکٹر یاسمین راشد معمّر بھی ہیں اور بیمار بھی۔ اس کے باوجود جیل میں ہیں۔ اس کا کیا جواز ہے؟ کیا فراخدلی اور رواداری کا یہ تقاضا نہیں تھا کہ ڈاکٹر صاحبہ کو ان کی عمر اور بیماری کے پیشِ نظر رہا کردیا جاتا۔ آخر ایسا کیوں نہیں کیا جارہا۔ کیا سیاست میں انسانی ہمدردی کا داخلہ ممنوع ہوتا ہے۔ کیا سیاست میں رواداری کی کوئی گنجائش نہیں ہے؟
اس ملک میں پہلے تو ایسا نہیں ہوتا تھا، ایوب خان نے جماعتِ اسلامی پر پابندی لگا دی اور اس کے امیر مولانا مودودیؒ کو جیل میں بند کردیا۔ مگر جب دشمن ملک کے خلاف جنگ میں اُسی ایوب خان نے سیاسی قیادت کا تعاون مانگا تو مولانا مودودی ؒنے ایک لمحے کے لیے بھی ذاتی رنجش کو آڑے نہ آنے دیا۔ اور فوری طور پر اپوزیشن راہنماؤں کے ساتھ ایوب خان کے ساتھ ملاقات کی اور مکمل تعاون فراہم کیا۔
اگر پچھلی نصف صدی میں کسی کو بابائے جمہوریت یا سیاست کا استاد مانا جاتا ہے تو وہ نوابزادہ نصراللہ خان مرحوم ہیں۔ جنرل ضیاء الحق نے نوابزادہ صاحب کو پانچ سال گھر میں نظر بند رکھّا مگر انھوں نے جب بھی ضیاء الحق کا نام لیا، جمع کا صیغہ استعمال کیا اور نام کے ساتھ ہمیشہ صاحب بھی لگایا۔ وہ سیاست کے نوواردوں کو بتایا کرتے تھے کہ سیاست میں آپ کا حریف دشمن نہیں ہوتا۔ سیاسی مخالفت کبھی مستقل نہیں ہوتی، اور اس میں کل کا مخالف آج کا اتحادی بھی بن سکتا ہے۔
نوابزادہ صاحب سیاسی مخالفین کے بارے میں کبھی اوئے توئے نہیں کرتے اور نہ کبھی توہین آمیز زبان استعمال کرتے تھے، وہ اپنے کٹڑ مخالفین کے بارے میں بھی انتہائی شائستہ اور شُستہ زبان استعمال کیا کرتے تھے۔ موجودہ سیاستدانوں میں سے اگر نوابزادہ صاحب سے سیاست کی اعلیٰ اقدار کسی نے سیکھی ہیں تو وہ مولانا فضل الرحمن صاحب ہیں۔ وہ ہمیشہ اپنا نقطۂ نظربڑے عمدہ دلائل اور جرأت کے ساتھ بیان کرتے ہیں مگر الفاظ کا بہترین چناؤ کرتے ہیں اور ہمیشہ شائستہ زبان استعمال کرتے ہیں۔
ابھی چند سال پہلے جب ایک انتخابی مہم کے دوران عمران خان گر کر زخمی ہوگئے تھے اور اسپتال میں داخل ہوگئے تو ان کے سب سے بڑے سیاسی حریف میاں نواز شریف صاحب نے اپنی انتخابی مہم معطل کردی اور وہ عمران خان صاحب کی تیمارداری کے لیے خود اسپتال پہنچ گئے تھے۔
2024کے انتخابات میں پی ٹی آئی زیرِ عتاب تھی۔ نہ جانے ’کس کی‘ ہدایات پر پولیس اُن کے امیدواروں کے گھروں پر ریڈ کررہی تھی اور امیدواروں کو گرفتار کیا جارہا تھا۔ میرے آبائی شہر وزیرآباد میں میرے بھائی ڈاکٹر نثار احمد چیمہ مسلم لیگ ن کے امیدوار تھے۔ ان کے مخالف امیدوار کو پولیس جب ہراساں کررہی تھی تو ڈاکٹر نثار چیمہ نے میڈیا کے ذریعے اور میں نے کالموں کے ذریعے مخالف امیدوار کے خلاف ہونے والی پولیس کارروائیوں کی سخت مذمّت کی۔ ڈاکٹر صاحب نے تو واضح طور پر کہا کہ اگر انھیں گرفتاری کا خطرہ ہوتو وہ اپنے انتخابی کاغذات (Nomination papers) مجھے بھجوادیں، میں خود ان کے کاغذات منظور کراؤں گا۔ اسی طرح انتخابی نتائج آنے کے بعد انھوں نے جعلی کامیابی حاصل کرنے سے انکار کردیا اور اپنے سیاسی حریف محترم حامد ناصر چٹھہ کو کامیابی کی مبارکباد دی۔
سیاسی پارٹیوں کے کارکنوں کو مذکورہ بالا واقعات سے سبق سیکھنا چاہیے اور اپنے طرزِ عمل میں بہتری لانی چاہیے۔ سیاسی مخالفین کو اپنا دشمن ہرگز نہ سمجھیں، ان کی خوشی، غمی میں شریک ہوا کریں اور ان کے ساتھ اچھے سماجی مراسم قائم رکھیں۔ ڈاکٹر نثار چیمہ صاحب انتخابی مہم کے دوران پولیس افسروں کو جب پی ٹی آئی کے امیدواروں کو تنگ کرنے، اور ان کے خلاف کیس درج کرنے یا ان کے گھروں پر ریڈ کرنے سے منع کرتے تو وہ جواب دیتے کہ ’’ہمیں اوپر سے ہدایات ہیں‘‘ اوپر سے اگر غیر قانونی ہدایات ملیں تو سول سرونٹس کا فرض ہے کہ اوپر والوں کو عزّت اور احترام کے ساتھ بتائیں کہ یہ غیر قانونی ہدایات ہیں، ان پر ہم عمل نہیں کرسکیں گے۔ کسی کی بھی ہدایات ہوں مگر کسی سیاسی کارکن کے گھر میں گھس کر ان کا فرنیچر توڑ دینا اور خواتین کی بے حرمتی کرنا انتہائی شرمناک حرکت ہے۔جس پولیس افسر کا ضمیر بالکل مردہ نہیں ہوگیا، وہ ایسی حرکت کبھی نہیں کرتا اور سینئر افسروںسے ملکر اپنا تبادلہ کرالیتا ہے مگر شہریوں کے ساتھ کوئی ایسی زیادتی نہیں کرتا جس سے اس کی یونیفارم پر داغ لگے اور اس کا پورا محکمہ بدنام ہو۔
ایک بار لاہور پولیس نے ایسی ہی مہم کے دوران ریڈ لائن کراس کردی اور مفکّرِ پاکستان حضرت علّامہ اقبالؒ کے گھر گھس گئی۔ جس پر ہمارے عظیم محسن علّامہ اقبالؒ کی بہو ڈاکٹر جسٹس (ر) ناصرہ جاوید اقبال نے شدید احتجاج کیا۔ اس پر میں نے اس وقت کے آئی جی کو بڑا سخت میسج بھیجا کہ ’’تمہیں اور پوری پنجاب پولیس کو شرم آنی چاہیے۔ جانتے ہو تم نے اُس گھر کی چاردیواری کی حرمت پامال کی ہے کہ یہ ملک پاکستان جن کے خواب کی تعبیر ہے۔ اگر آزادی نہ ملتی تو زیادہ تر پولیس افسرآر ایس ایس کے گھروں میں نوکر ہوتے یا ہندو پولیس افسروں کے اردلی ہوتے‘‘ اُس وقت کے آئی جی کوفوراً غلطی کا احساس ہوگیا اور اس نے جسٹس صاحبہ سے معافی مانگ لی۔
بہت سے لوگوں کی طرح مجھے بھی توقّع تھی کہ میاں نواز شریف صاحب اپنی پرانی وضعداری اور رواداری کے باعث اپنا اثر و رسوخ استعمال کرکے ڈاکٹر یاسمین راشد صاحبہ کو رہا کروائیں گے۔ اگر انھوں نے ایسا نہیں کیا تو یہ حیران کن ہے ۔ پی ٹی آئی کے مخالفین نے بھی ڈاکٹر صاحبہ کے بارے میں نامناسب زبان استعمال کی ہے، جب کہ پی ٹی آئی کے حامی اور ورکر بھی مریم نواز صاحبہ کے بارے میں نامناسب زبان استعمال کرتے ہیں، جس پر انھیں شرم آنی چاہیے۔
عدم برداشت، تنگدلی، بیہودگی ، غیراخلاقی اور غیرشائستہ زبان نے پاکستانی سیاست کا چہرہ مکروہ اور بدصورت بنادیا ہے۔ سیاست کا حُسن، وقار اور اعتبار بحال کرنے کے لیے سیاسی قائدین اور ورکروں کو اس کا چہرہ ، برداشت، تحمّل، رواداری، فراخدلی، باہمی احترام اور انسانی ہمدردی کے پھولوں سے کشید کیے گئے پانی سے دھونا ہوگا۔ سیاسی قائدین کا فرض ہے کہ وہ اپنے ورکروں کی صحیح تربیّت کریں۔
آج کے حکمران ٹھنڈے دل سے سوچیں اور یہ ذہن میں رکھّیں کہ ہم اس عظیم ترین راہبر و راہنماؐ کے پیروکار ہیں جس نے اپنے ساتھ ظلم اور زیادتی کرنے والوں سے بدلے نہیں لیے۔انھیں معاف کردیا تھا۔ اﷲ اور رسولؐ اﷲ نے معاف کردینے کو زیادہ پسند فرمایا ہے، کیا ہم بیمار اور معمّر خواتین کے معاملے میں بھی اﷲ اور رسولؐ کے احکامات ماننے اور انسانی ہمدردی کا مظاہرہ کرنے کے لیے تیار نہیں؟