Nai Baat:
2025-06-09@21:15:30 GMT

عصرِ حاضر کے محقق…علامہ طاہرالقادری

اشاعت کی تاریخ: 18th, February 2025 GMT

عصرِ حاضر کے محقق…علامہ طاہرالقادری

عصرِ حاضر میں تحقیق کا معیار پہلے سا نہیں رہا اس لیے کہ اکیسویں صدی میں جہاں انسان نے بہت سی منازل طے کی ہیں اور اپنے لیے کئی راستے تلاش کیے ہیں۔ دوسری طرف اسے اب تحقیق جیسے مراحل سے گزرنا دشوار محسوس ہوتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ اب ہر کام میں ہم ایسے راستے کی تلاش میں رہتے ہیں کہ ہمیں محنت بھی نہ کرنا پڑے اور سب کام بھی ہو جائیں یا پھر دوسروں کی، کی ہوئی کوششوں سے اس طرح استفادہ کریںکہ ہم صرف مستفید نہ ہوں بلکہ دوسروںکی کوشش و محنت ہمارے کھاتے میں آ جائے۔ اس لیے ہمارامزاجِ تحقیق بدل گیا ہے اسی وجہ سے معیارِ تحقیق بھی وہ نہیں رہا جو ہونا چاہیے تھا۔ تحقیق کمال کا لفظ ہے ’جانچنا، پرکھنا‘ کسی بھی چیز کی جانچ پرکھ بغیر علم کے ممکن نہیں ہے۔ ہم جس دور سے گزر رہے ہیں اس دور میں تنقید کرنے کے لیے بھی علم لازم نہیں رہا بس آپ کو اگر کچھ ناپسند ہے تو آپ تنقید کر سکتے ہیں خواہ کسی کی ذات ہی پر کیوں نہ ہو۔ یہ سمجھنے اورجاننے کی کوشش بھی ہم نہیںکرنا چاہتے کہ جس بات پر ہم کسی کی ذات کو نشانہ بنا رہے ہیں کیا اس بات یا اس کام کے متعلق ہم کچھ جانتے بھی ہیں لیکن شاید اب اس کی ضرورت لوگ نہیںسمجھتے اس لیے کہ اکیسویںصدی کی جدت نے کچھ لوگوںکوشاید یہی سمجھایا ہے۔
علم ایک ایسی اعلیٰ چیزہے جو انسان کو اس کے انسان ہونے کی خبر دیتا ہے اور یہ علم ہی ہے جو انسان کے مزاج میں تحقیق کرنے کی خواہش کو اجاگر کرتا ہے۔ یہ درست ہے کہ آج کل تحقیقی مزاج میں کمی آئی ہے مگر اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ تحقیق کے دروازے بند ہو گئے ہیں اور لوگوں نے اس سمت جانا چھوڑ دیا ہے۔ آج بھی ایسے لوگ اسی روئے زمین پر موجود ہیں جنہوں نے اپنے علم کو تحقیق کی جانب موڑا اور پھر ریاضتوں کی شمعیں روشن کیں۔ جب ہم ایسے باکمال لوگوں کے متعلق سوچتے ہیں تو شیخ الاسلام ڈاکٹر طاہر القادری کا نام اذہان کے شفاف پنوں پر واضح ابھرتا ہے۔ ڈاکٹر طاہر القادری عصرِ حاضر کے ان عالموں میں نمایاں مقام و مرتبہ رکھتے ہیں جنہوں نے علم کو مقصد، تحقیق کو عادت اور تخلیق کو فرض سمجھا ہے۔ بے شمار کتب سپردِ قلم کیں۔ ہر کتاب ایک نئے موضوع پر مشتمل ہوتی ہے۔ سیرت لکھی تو نئے دور کے تقاضوں کو مدنظر رکھا ثقیل و گنجلک الفاظ لکھ کر قاری کو الجھایا نہیں بلکہ آج کے قارئین کو سامنے رکھ کر الفاظ سپردِ قلم کیے۔ ایسے الفاظ لکھے جنہیں پڑھنے والا آسانی سے سمجھ سکے ایک محقق کا اہم فریضہ یہ بھی ہے کہ جب وہ اپنی تحقیق کو دوسروں تک پہنچائے تو اس کا خاص خیال رکھے کہ قاری کو اس کا لکھا آسانی سے سمجھ آ جائے اس کی وجہ یہ ہے کہ محقق نے معلم کی طرح اگر اپنی بات پڑھنے والوں تک نہ پہنچائی تو پھر اس کے پڑھنے اور سمجھنے والے محدود اور مخصوص طبقہ کے لوگ ہوں گے۔ ڈاکٹر طاہر القادری نے اس بات کو پیشِ نظر رکھا ہے۔ دوسرا بڑا کمال جو ڈاکٹر صاحب نے کیا وہ ہے اپنی کہی ہوئی بات کو مدلل بنانے کے لیے صرف لفاظی ہی کا سہارا نہیں لیا۔ جس موضوع پر قلم فرسائی کی اس کے متعلق حوالہ جات مہیا کیے تاکہ قاری جب چاہے ان کے لکھے ہوئے الفاظ پر خود بھی تحقیق کر سکے۔ انہوں نے دین کے ہر موضوع پر اپنی تحقیق کو تحریری صورت دی۔ اس طرح آج ایک بڑا نوجوانوں کا حلقہ ان کی علمی پیروی میں نظر آتا ہے۔ علم کا رشتہ اگر کسی سے جڑ جائے تو اس سے مضبوط و معتبر رشتہ اور کیا ہو سکتا ہے؟

ڈاکٹر طاہرالقادری نے علمی وفلاحی کاموں میں اپنی زندگی صرف کی ہے۔ انسان کی کامیابی یا اس کی محنت اس وقت زیادہ پائیدار محسوس ہوتی ہے جب وہ اپنی اولاد کی تربیت اسی دستور و اصول کے تحت کرتا ہے جس کا وہ دعویدار ہوتا ہے۔ علامہ صاحب اس معاملے میں بہت کامیاب ہیں اس لیے کہ ان کی اولاد آج علمی لحاظ سے کامیابیاں سمیٹنے میں مصروف ہے۔ ان کے دونوں صاحب زادے پی ایچ ڈی اور اپنے اپنے مضمون میں مہارتِ تامہ رکھتے ہیں۔ تعلیمی ادارے بنائے، چارٹرڈ یونیورسٹی بنائی جہاں ہزاروں طلبا و طالبات زیرِتعلیم ہیں۔ بہت سے لوگ ڈاکٹر صاحب کی سیاسی فکر سے اختلاف کرتے ہوں گے مگر یہ کوئی ایسی بات نہیں ہے بلکہ یہ اختلاف معاشرتی حسن کے لیے ضروری ہے مگر وہ سیاسی اختلاف رکھنے والے بھی ڈاکٹر طاہر القادری کی علمی بصیرت کے قائل ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کی علمی ریاضتوں میں ان کی شب و روز کی محنت واضح نظر آتی ہے۔ عشقِ رسولﷺ ان کی تحریر کے ہر لفظ سے ظاہر ہے، ان کی تقریر کا ایک ایک لفظ اسی بات کا مظہر ہے۔ ان کی زبان سے لفظ ’’مصطفیٰﷺ‘‘ جب برآمد ہوتا ہے تو ان کے لہجے میں عقیدت کا ایک خاص سوز ہے جو دوسروں کی سماعتوں سے ٹکراتا ہے تو اثر انگیز ہوتا ہے۔ انہوں نے روایتی طریقہ مقرری کو ختم کیا اور مدلل طریقہ تقریر اپنایا۔ ان کے خطبات میں کسی کی تضحیک نہیں ہے مگر سننے والوں کے لیے اصلاح کے پہلو موجود ہیں۔ وہ ہر مسلک میں سنے جاتے ہیں اس لیے کہ جب آپ تحقیق کی بنیاد پر گفتگو کرتے ہیں تو اختلاف کرنے والے اسی معیار پر اختلاف کریں گے۔ جب اختلاف علمی بنیاد پر ہوں تو معاشرے میں علمیت کا ظہور ہوتا ہے۔ ذات سے اختلاف تو ہونا بھی نہیں چاہیے۔ علامہ صاحب کا وژن یہ ہے کہ نوجوان اسوہ حسنہﷺ کی طرف راغب ہوں اپنی زندگی کو مقصد دیں اور اسی مقصد کے تحت جئیں تو زندگی سہل ہو جائے گی۔ وہ اپنے لیکچرز میں عصرِ حاضر کے مسائل کا ذکر کرتے ہیں تو اس کا حل بھی بتاتے ہیں، وہ شعوری ریاضتوں کو پختہ کرنے کے خواہش مند ہیں۔ ان کے ادارے تربیت گاہ ہیں تربیت علم کی صورت نکھار دیتی ہے۔ تربیت کی کمی معاشروں کو گہنا دیتی اس لیے لازم یہ ہے کہ علم کے ساتھ ساتھ تربیت پر زور دیا جائے۔ اگر آپﷺ کی حیاتِ مقدسہ کا مطالعہ کریں تو آپﷺ نے بھی تربیت کی صحابہ کرامؓ کی اور پھر وہی تربیت یافتہ لوگ زمانے کے لیے نظیریں بن گئے۔ آج بھی علم کے ساتھ تحقیق اور مثبت تنقید کی ضرورت ہے اور یہ اسی وقت ممکن ہو سکتا ہے جب علم تربیت کے سائے میں پروان چڑھے یہی ڈاکٹر طاہرالقادری کا وژن ہے۔

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: ڈاکٹر طاہر القادری اس لیے کہ یہ ہے کہ ہوتا ہے کے لیے

پڑھیں:

کوئٹہ، علامہ مقصود ڈومکی کی شہدائے مچھ کے گھروں پر حاضری

شہداء کے اہلخانہ سے ملاقات کے موقع پر علامہ مقصود ڈومکی نے کہا کہ مجلس وحدت مسلمین شہداء کے پاکیزہ مشن اور مظلوموں کے حقوق کی جنگ کو کبھی فراموش نہیں کریگی۔ اسلام ٹائمز۔ مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی رہنماء علامہ مقصود علی ڈومکی نے عید قربان کے بابرکت موقع پر سانحۂ مچھ کے شہداء کے لواحقین کے گھروں پر حاضری دی، انہیں عید کی پرخلوص مبارکباد پیش کی اور بچوں میں تحائف تقسیم کئے۔ علامہ مقصود علی ڈومکی نے شہید محمد صادق، شہید احمد شاہ، شہید چمن علی، شہید نسیم اور شہید کریم بخش کے گھروں پر حاضری دی، اور شہدائے راہ حق اور ان خانوادے کی قربانیوں کو سلام عقیدت پیش کیا۔ علامہ مقصود علی ڈومکی نے اس موقع پر کہا شہداء ہمارے محسن ہیں۔ زندہ قومیں اپنے محسنوں کو کبھی فراموش نہیں کرتیں۔ ہم شہداء کے مشن اور مقصد کو ہر قیمت پر آگے بڑھائیں گے۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ آج بھی بلوچستان اور سندھ سمیت ملک بھر میں امن و امان کی صورتحال مخدوش ہے۔ وہ ادارے جن پر عوام کے جان و مال کے تحفظ کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے، وہ اپنے فرائض منصبی ادا کرنے میں ناکام دکھائی دیتے ہیں۔ ہزاروں شہداء کے خون سے انصاف ہونا چاہئے اور ان کے قاتلوں کو انصاف کے کٹہرے میں لانا چاہئے۔

انہوں نے مزید کہا مجلس وحدت مسلمین پاکستان نہ صرف شہداء کی قربانیوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے، بلکہ ان کے مشن کو زندہ رکھنے کے لئے میدان عمل میں موجود ہے۔ ہم ان مظلوم خانوادگان کے ساتھ کھڑے ہیں جنہوں نے اپنے پیارے، دین خدا اور اس ملک و ملت کے لیے قربان کئے۔ انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ سانحۂ مچھ سمیت دہشت گردی کے تمام واقعات کے ذمہ داروں کو جلد از جلد کیفرِ کردار تک پہنچایا جائے حکومت جس طرح فوج کے شہداء کی دیکھ بھال کرتی ہے، اسی طرح وطن عزیز پاکستان کے تمام شہداء کے بچوں کی بہتر تعلیم کا اہتمام کیا جائے۔ تعلیمی اور صحت کی سہولیات ان بچوں کے لیے مفت فراہم کی جائیں جن کے والدین دہشت گردوں کے ہاتھوں وطن پر قربان ہو چکے ہیں۔ آخر میں انہوں نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ مجلس وحدت مسلمین شہداء کے پاکیزہ مشن اور مظلوموں کے حقوق کی جنگ کو کبھی فراموش نہیں کرے گی اور ملت کے حقوق کی جدوجہد ہر میدان میں جاری رہے گی۔

متعلقہ مضامین

  • گرمی کی چھٹیوں میں کون سکول حاضر رہے گا؟ حکم نامہ جاری
  • لاس اینجلس، پینٹاگون کا حاضر سروس دستوں کی تعیناتی کا عندیہ
  • عاقب جاوید کا ویمنز کرکٹ اور نوجوان کھلاڑیوں کی تربیت کے لیے اہم اعلان
  • وقت ایک نہیں بلکہ تین سمتوں کا حامل ہے، نئی تحقیق
  • سبزی خور بنیں، بیماریوں سے بچیں: ماہرین صحت کی تحقیق نے سبزیوں کی اہمیت اجاگر کر دی
  • شکر ہے نون لیگی یہ نہیں کہتے علامہ اقبال والا خواب بھی نواز شریف نے دیکھا تھا، پرویز الہیٰ
  • کوئٹہ، علامہ مقصود ڈومکی کی شہدائے مچھ کے گھروں پر حاضری
  • علامہ حسنین وجدانی کی بلاجواز گرفتاری
  • آغا سید جعفر نقوی، روحانی تربیت کا روشن چراغ
  • ڈاکٹر، مگر کونسا؟