آئی سی سی چیمپیئنز ٹرافی ایونٹ میزبانی کے بھرپور تاثر اور اعزاز کے دفاع کے چیلنج کے ساتھ بدھ 19 فروری سے پاکستان میں شروع ہورہا ہے۔

پاکستان 1996 کے ورلڈ کپ کے بعد پہلی بار آئی سی سی کے کسی بین الاقوامی ایونٹ کی میزبانی کررہا ہے اور وہ اس ایونٹ کا دفاعی چیمپیئن بھی ہے۔

یہ بھی پڑھیں آئی سی سی نے چیمپیئنز ٹرافی کے لیے کمنٹری پینل کا اعلان کردیا، کتنے پاکستانی شامل؟

پاکستان نے 2017 میں سرفراز احمد کی قیادت میں آئی سی سی چیمپیئنز ٹرافی جیتی تھی۔ فائنل میں اس نے انڈیا کو 180 رنز سے شکست دی تھی۔ فخرزمان شاندار سینچری کی بدولت پلیئر آف دی فائنل رہے تھے جبکہ حسن علی مجموعی طور پر 13 وکٹوں کی عمدہ کارکردگی پر پلیئر آف دی ٹورنامنٹ قرار پائے تھے۔

پاکستان کرکٹ بورڈ نے آئی سی سی چیمپیئنز ٹرافی 2025 کو دنیا کے سامنے بھرپور انداز میں پیش کرنے کے لیے زبردست تیاری کی ہے جس میں سب سے اہم بات قذافی اسٹیڈیم لاہور، نیشنل بینک اسٹیڈیم کراچی اور راولپنڈی کرکٹ اسٹیڈیم راولپنڈی کی اپ گریڈیشن ہے۔

قذافی اسٹیڈیم لاہور کی تعمیر اور تزئین و آرائش صرف 117 دن کی ریکارڈ مدت میں مکمل کی گئی ہے اور یہ اسٹیڈیم انتہائی خوبصورت شکل میں اب دنیا کے سامنے ہے۔ نیشنل بینک اسٹیڈیم کراچی میں بھی نئی عمارت تعمیر کی گئی ہے جس میں ڈریسنگ رومز اور ہاسپٹلیٹی باکسز شامل ہیں۔

آئی سی سی چیمپیئنز ٹرافی 2025 میں 8 ٹیمیں شریک ہیں جن میں میزبان باکستان، نیوزی لینڈ، انڈیا اور بنگلہ دیش گروپ اے میں شامل ہیں جبکہ گروپ بی آسٹریلیا، انگلینڈ، افغانستان اور جنوبی افریقہ پر مشتمل ہے۔

ٹورنامنٹ کا افتتاحی ڈے نائٹ میچ بدھ 19 فروری کو پاکستان اور نیوزی لینڈ کے درمیان نیشنل بینک اسٹیڈیم کراچی میں کھیلا جائےگا۔

پاکستان اپنے اگلے دو گروپ میچز 23 فروری کو انڈیا کے خلاف دبئی میں اور 27 فروری کو بنگلہ دیش کے خلاف راولپنڈی میں کھیلے گا۔

گروپ مرحلے کے تین میچز کراچی میں، تین میچز لاہور میں اور تین میچز راولپنڈی میں کھیلے جائیں گے۔ انڈیا کی ٹیم اپنے تینوں گروپ میچز دبئی میں کھیلے گی۔

پہلا سیمی فائنل 4 مارچ کو دبئی میں کھیلا جائےگا، جبکہ لاہور 5 مارچ کو دوسرے سیمی فائنل کی میزبانی کرےگا۔ اگر انڈیا کی ٹیم فائنل میں پہنچنے میں کامیاب نہ ہو پائی تو پھر9 مارچ کو فائنل لاہور میں کھیلا جائےگا بصورت دیگر یہ فائنل دبئی میں ہوگا۔

آئی سی سی چیمپیئنز ٹرافی کا آغاز 1998 میں ہوا تھا اس وقت یہ ٹورنامنٹ آئی سی سی ناک آؤٹ کہلاتا تھا۔ 2002 میں اسے آئی سی سی چیمپیئنز ٹرافی کا نام دیا گیا۔

پاکستان نے 2017 میں یہ ٹورنامنٹ جیتنے کے علاوہ 2000، 2004 اور 2009 میں اس ٹورنامنٹ کا سیمی فائنل بھی کھیلا ہے۔

آئی سی سی چیمپیئنز ٹرافی میں پاکستان نے 23 میں سے 11 میچز جیتے ہیں جن میں انڈیا کے خلاف تین فتوحات بھی شامل ہیں۔

آئی سی سی چیمپیئنز ٹرافی میں پاکستان کی جانب سے 4 سینچریاں بنی ہیں۔ 2000 میں نیروبی میں سعید انور نے سری لنکا کے خلاف 105 اور پھر نیوزی لینڈ کے خلاف 104 رنز اسکور کیے تھے۔

2009 میں شعیب ملک نے انڈیا کے خلاف سینچورین میں 128 رنز اسکور کیے تھے جبکہ 2017 میں فخرزمان نے انڈیا کے خلاف اوول میں کھیلے گئے فائنل میں 114 رنز کی اننگز کھیلی تھی۔

آئی سی سی چیمپیئنز ٹرافی میں پاکستان کی طرف سے بہترین انفرادی بولنگ شاہد آفریدی کی ہے جنہوں نے 2004 میں کینیا کے خلاف برمنگھم میں 11 رنز دے کر 5 وکٹیں حاصل کی تھیں۔

چیمپیئنز ٹرافی کے لیے پاکستانی اسکواڈ محمد رضون، سلمان علی آغا، فخرزمان، بابراعظم، سعود شکیل، کامران غلام، طیب طاہر، عثمان خان، خوشدل شاہ، فہیم اشرف، شاہین شاہ آفریدی، محمد حسنین، حارث رؤف، نسیم شاہ اور ابرار احمد پر مشتمل ہے۔

بابراعظم، فخرزمان اور فہیم اشرف تین ایسے کھلاڑی ہیں جو 2017 میں آئی سی سی چیمپیئنز ٹرافی جیتنے والی فاتح ٹیم میں بھی شامل تھے۔

یہ بھی پڑھیں چیمپیئنز ٹرافی کا افتتاحی میچ: پاکستان اور نیوزی لینڈ نے کمر کس لی

پاکستان اپنا پہلا میچ کل 19 فروری کو کراچی میں نیوزی لینڈ کے خلاف کھیلے گا، اس کے بعد دوسرے گروپ میچ میں 23 فروری کو انڈیا سے دبئی میں مقابلہ ہوگا، جبکہ 27 فروری کو راولپنڈی کے کرکٹ اسٹیڈیم میں پاکستان اور بنگلہ دیش کی ٹیمیں مدمقابل آئیں گی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

wenews آئی سی سی بابر اعظم پاکستان نیوزی لینڈ میچ چیمپیئنز ٹرافی رضوان الیون معلومات وی نیوز.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: پاکستان نیوزی لینڈ میچ چیمپیئنز ٹرافی رضوان الیون معلومات وی نیوز آئی سی سی چیمپیئنز ٹرافی میں پاکستان نیوزی لینڈ کراچی میں میں کھیلے فروری کو کے لیے

پڑھیں:

جرمنی شامی مہاجرین کو اپنے گھر جانے کی اجازت دینا چاہتا ہے

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 24 اپریل 2025ء) جرمن وزارت داخلہ کے ترجمان نے بدھ کے روز کہا کہ حکومت شامی پناہ گزینوں کو محدود وقت کے لیے، جرمنی میں تحفظ کی حیثیت سے محرومی کے بغیر ہی، اپنے آبائی ملک واپس جانے کی اجازت دینا چاہتی ہے۔

جرمنی میں قانونی طور پر اگر مہاجرین اپنے آبائی ملک کا دورہ کرتے ہیں، تو ایسے پناہ گزین اپنی پناہ کے تحفظ کی حیثیت سے، محروم ہو سکتے ہیں۔

تاہم اب حکومت نے پناہ گزینی کی حیثیت ختم کیے بغیر انہیں اپنے وطن کا دورہ کرنے کی اجازت دے سکتی ہے۔

گزشتہ دسمبر میں شام کے حکمران بشار الاسد کے اقتدار کے خاتمے کے بعد سے برلن نے شام کے ساتھ سفارتی تعلقات دوبارہ شروع کیے ہیں اور دمشق میں اپنا سفارت خانہ دوبارہ کھول دیا ہے۔

(جاری ہے)

جرمنی سے مہاجرین کی عجلت میں واپسی غیر ضروری، شامی وزیر خارجہ

جرمنی نے یہ تجویز کیوں پیش کی؟

اس نئی تجویز کے تحت جرمنی میں پناہ گزینوں کی حیثیت رکھنے والے شامی باشندوں کو چار ہفتوں یا دو مختلف ہفتوں کے لیے اپنے ملک جانے کی اجازت ہو گی۔

وفاقی وزارت داخلہ کے ترجمان نے کہا کہ اس تجویز کا مقصد شامیوں کو رضاکارانہ طور پر واپسی کا فیصلہ کرنے کے قابل بنانا ہے۔

اس حوالے سے ایک بیان میں کہا گیا، "ایسا کرنے کے لیے شام کے لوگوں کو خود یہ دیکھنے کے قابل بنانا ہے، مثال کے طور پر، آیا (ان کے) گھر ابھی تک برقرار ہیں یا نہیں، آیا ان کے رشتہ دار ابھی تک زندہ ہیں یا نہیں، وغیرہ وغیرہ۔

"

کچھ شامی باشندوں کو جرمنی سے جانا پڑ سکتا ہے، وزیر داخلہ

ترجمان نے مزید کہا کہ اگر شام میں صورتحال مزید مستحکم ہوتی ہے تو اس طرح کے دورے پناہ گزینوں کی بڑی تعداد کو اپنے ملک واپس جانے کے قابل بنانے میں بھی مددگار ثابت ہو گی۔

البتہ اس میں کہا گیا ہے کہ ایسے دوروں کی صرف "کچھ سخت شرائط کے تحت" ہی اجازت دی جانی چاہیے، اگر یہ شام میں "مستقل واپسی کی تیاری" کے لیے مددگار ثابت ہوتے ہیں۔

ترجمان نے کہا کہ جو لوگ اس استثنیٰ کو استعمال کرنا چاہتے ہیں انہیں اپنے دوروں کو متعلقہ امیگریشن حکام کے پاس رجسٹر کرانا ہو گا۔

ترکی سے وطن لوٹنے والے شامی پناہ گزینوں کی نئی جدوجہد

حکمران پارٹی نے تجویز مسترد کر دی

جرمنی کی کرسچن سوشلسٹ یونین (سی ایسی یو) اور ریاست باویریا کی اس کی ہم خیال جماعت کے وزیر داخلہ نے اس تجویز کو مسترد کر دیا ہے۔

باویرین ریاست کے وزیر داخلہ یوآخم ہیرمن نے مجوزہ دوروں کو "حقائق تلاش کرنے والے دوروں کی آڑ میں چھٹیوں کے دورے" قرار دیا۔ ہرمن نے جرمنی اور شام کے درمیان "بے قابو سفر" کے خلاف دلیل دی۔ اس کے علاوہ انہوں نے "تنہا قومی کوششوں" کے بجائے یورپ کے اندر ایک مربوط حل کی تلاش کی حمایت کی ہے۔

جرمنی میں پناہ گزینوں کے لیے اب نقد رقم کے بجائے پیمنٹ کارڈ

دسمبر میں اسد کی معزولی کے اگلے ہی دن جرمن حکام نے کئی دیگر یورپی ممالک کے ساتھ شامی شہریوں کے لیے سیاسی پناہ کی کارروائی کو منجمد کر دیا تھا۔

دس لاکھ سے زیادہ شامی، جن میں سے بہت سے خانہ جنگی کے دوران اپنے وطن چھوڑ کر جرمنی پہنچے تھے، اب بھی وہیں مقیم ہیں۔

ادارت: جاوید اختر

متعلقہ مضامین

  • پاکستان کے جواب سے بہت زیادہ مطمئن ہوں، مشاہد حسین
  • دشمن کسی غلط فہمی میں نہ رہے، امجد حسین ایڈووکیٹ
  • ’جیسا کرو گے ویسا بھرو گے‘، پاکستان کے انڈیا کے خلاف اقدامات پر صارفین کے تبصرے
  • بھارت میں ایشیاکپ، ٹی20 ورلڈکپ اور چیمپئینز ٹرافی کا مستقبل کیا ہوگا؟
  • جرمنی شامی مہاجرین کو اپنے گھر جانے کی اجازت دینا چاہتا ہے
  • پاکستان پر بے بنیاد الزامات لگا کر بھارت اپنے جرائم چھپانا چاہتا ہے، صدر آزاد کشمیر سلطان چوہدری
  • بھارت کے بے بنیاد الزامات کی مذمت کرتے ہیں، رانا احسان افضل
  • بھارت نے پہلگام واقعے کو بہانہ بنایا، سکیم کے تحت پاکستان پر دباؤ ڈالنا چاہتا ہے: مشاہد حسین سید
  • پہلگام واقعے سے پاکستان کا کوئی تعلق نہیں، دہشتگردی کو کہیں بھی سپورٹ نہیں کرتے، وزیر دفاع خواجہ آصف
  • پی ایس ایل؛ میچ کے دوران اسکول ٹیچر کے پیپرز چیک کرنے کی ویڈیو وائرل